شیخ عجم ۔ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبدالطیف شہید افغانستان کے سوانح حیات

فہرست مضامین

واقعہ شہادت میاں عبدالرحمن صاحب شاگرد حضرت صاحبزادہ محمد عبداللطیف صاحبؓ

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:

’’مولوی صاحبزادہ عبداللطیف صاحب مرحوم کی شہادت سے تخمیناً دو برس پہلے ان کے ایماء اور ہدایت سے میاں عبدالرحمن شاگرد رشیدان کے قادیان میں شاید دو یا تین دفعہ آئے اور ہریک مرتبہ کئی کئی مہینے تک رہے۔ اورمتواتر صحبت اور تعلیم اور دلائل کے سننے سے ان کا ایمان شہداء کا رنگ پکڑ گیا اور آخری دفعہ جب کابل واپس گئے تو وہ میری تعلیم سے پوراحصہ لے چکے تھے اوراتفاقاً ان کی حاضری کے ایام میں بعض کتابیں میر ی طرف سے جہاد کی ممانعت میں چھپی تھیں جن سے ان کو یقین ہو گیا تھا کہ یہ سلسلہ جہاد کا مخالف ہے۔۔۔۔۔۔۔جب وہ مجھ سے رخصت ہوکر پشاورمیں پہنچے تواتفاقاً خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈرسے جوپشاور میں تھے اورمیرے مرید ہیں ملاقات ہوئی اورانہیں دنوں میں خواجہ کمال الدین صاحب نے ایک رسالہ جہادکی ممانعت میں شائع کیاتھا اس سے ان کو بھی اطلاع ہوئی اور وہ مضمون ایساان کے دل میں بیٹھ گیا کہ کابل میں جا کر جا بجا انہوں نے یہ ذکر شروع کیا کہ انگریزوں سے جہاد کرنا درست نہیں کیونکہ وہ ایک کثیر گروہ مسلمانوں کے حامی ہیں اورکئی کروڑ مسلمان امن و عافیت سے اُن کے زیر سایہ زندگی بسر کر تے ہیں۔ تب یہ خبر رفتہ رفتہ امیر عبدالرحمن کو پہنچ گئی اور یہ بھی بعض شریر پنجابیوں نے جو اس کے ساتھ ملازمت کا تعلق رکھتے تھے اس پرظاہر کیا کہ یہ ایک پنجابی شخص کامریدہے جواپنے تئیں مسیح موعود ظاہر کرتاہے اوراس کی یہ بھی تعلیم ہے کہ انگریزوں سے جہاد درست نہیں بلکہ اس زمانہ میں قطعاً جہاد کامخالف ہے۔ تب امیر یہ بات سن کربہت برافروختہ ہوگیا اور اس کوقیدکرنے کاحکم دیا۔ تامزید تحقیقات سے کچھ زیادہ حال معلوم ہو۔ آخر یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ گئی کہ ضرور یہ شخص مسیح قادیانی کا مرید اورمسئلہ جہاد کامخالف ہے۔ تب اس مظلوم کو گردن میں کپڑا ڈال کر اور دم بند کرکے شہید کیا گیا ۔ کہتے ہیں اس کی شہادت کے وقت بعض آسمانی نشان ظاہرہوئے ‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ مطبوعہ لندن صفحہ ۴۷،۴۸)

سید احمد نورصاحب بیان کرتے ہیں کہ مولوی عبدالرحمن خان جب آخری دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت سے واپس افغانستان آئے توپہلے سیدگاہ میں حضرت صاحبزادہ صاحب کے پاس حاضر ہوئے اورانہیں حضور ؑ کی وہ تصنیفات دیں جووہ قادیا ن سے لے کر آئے تھے۔ اسکے بعد وہ اپنے وطن چلے گئے جو قبیلہ منگل کے علاقہ میں ہے۔اس پر کسی شخص نے امیر عبدالرحمن خان کے پاس ان کی شکایت کی اور ان کے قادیان جانے کا بھی ذکر کیا ۔امیر عبدالرحمن خان نے حاکم کے نام حکم بھیجا کہ مولوی عبدالرحمن خان صاحب کوگرفتارکر کے کابل بھجوایاجائے ۔حاکم خوست نے حضرت صاحبزادہ صاحب کو اطلاع دی کہ ایسا حکم آیاہے۔ جب مولوی عبدالرحمن خان صاحب کوعلم ہوا تو وہ روپوش ہو گئے ۔ اس پر امیر عبدالرحمن خان نے حکم دیا کہ ان کاتمام مال و اسباب ضبط کرلیاجائے اور ان کے اہل وعیال کو گرفتارکر کے کابل بھجوادیا جائے ۔جب مولوی عبدالرحمن خان صاحب کو اپنے اہل و عیال کی گرفتاری کے متعلق حکم کا علم ہوا تو خود ہی کابل چلے گئے اور امیر عبدالرحمن خان کے پیش ہو گئے ۔ امیرنے ان سے پوچھاکہ تم افغانستان سے بلا اجازت باہر کیوں گئے تھے توانہوں نے جواب دیا کہ میں سرکارکی خدمت کے لئے قادیان گیاتھا اور وہاں سے آپ کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں لایاہوں۔امیر نے ان سے کتابیں لے کر انہیں قید خانہ بھجوا دیا ۔

امیر عبدالرحمن خان کو شکایت کئے جانے کاسبب یہ تھاکہ مولوی صاحب نے علی الاعلان حاکموں ، افسروں اورعوام تک یہ خبر پہنچانا شروع کردی تھی کہ قادیان میں ایک مصلح کا ظہور ہو گیاہے۔ مجھے صحیح معلوم نہیں کہ ان سے قید میں کیاسلوک کیا گیا ۔سنا یہی ہے کہ ان کے منہ پر تکیہ رکھ کر دم بند کرکے ماردیا گیا ۔

(شہیدمرحوم کے چشم دیدواقعات حصہ اول صفحہ ۴،۵)

جناب قاضی محمد یوسف صاحب بیان کرتے ہیں کہ مولوی عبدالرحمن صاحب آخری دفعہ دسمبر ۱۹۰۰ء میں قادیان گئے تھے اورواپسی پرپشاور کے راستہ اپنے ملک گئے ۔ پشاور میں وہ جناب خواجہ کمال الدین صاحب احمدی وکیل کے بالاخانہ پربیرون کابلی دروازہ میں مقیم رہے ۔ ان دنوں میں سرحد ی علاقوں میں افغان غازی جہاد بالسیف کے غلط تصورکی وجہ سے بے گناہ انگریزوں کے ناحق قتل میں مصروف رہتے تھے ۔ انہیں ایام میں سیدناحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک رسالہ جہاد کے بارہ میں لکھا تھا جس میں قرآن و حدیث کی روشنی میں جہادکی حقیقت واضح کی گئی تھی اور اس قسم کے قتال کو خلاف منشاء اسلام ثابت کیا تھا۔ مولوی عبدالرحمن خان صاحب یہ رسالہ اپنے ساتھ لے گئے تھے ۔اس کے علاوہ اور بھی لٹریچر موجودہ زمانہ میں جہاد بالسیف کے خلاف ان کے پاس تھا اور انہوں نے افغانستان جا کر یہ لٹریچر اور کتابیں تقسیم کی تھیں۔

اس پرامیر عبدالرحمن خان نے ان کے لئے قید کاحکم دیا اور تحقیقات کے بعد مولوی صاحب کے عقائد اوران کتب او ر رسائل کے مضمون کو جووہ اپنے ساتھ لے گئے تھے اپنے عقیدہ جہادکے خلاف پایا تو ان کو شہید کروا دیا ۔

سید محمود احمد صاحب افغانی کا بیان ہے کہ مولوی صاحب کی شہادت ۲۰؍جون ۱۹۰۱ء کو ہوئی تھی ۔

(عاقبۃ المکذبین حصہ اول صفحہ ۳۱،۳۲۔ مصنفہ جناب قاضی محمد یوسف صاحب۔ وقلمی مسودہ تاریخ احمدیت افغانستان مصنفہ سیدمحمود احمد افغانی)