سوشل میڈیا (Social Media)

فہرست مضامین

احمدی بچیوں کو نصائح

احمدیت کے نتیجہ میں ملنے والے فیوض سے استفادہ کرنے کے لئے دین اسلام کی طرف سے عائد کی جانے والی پابندیوں کو اختیار کرنا اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنا ناگزیر ہے۔ اس حوالہ سے حضورانور ایدہ اللہ فرماتے ہیں :

’’…بعض دفعہ ایک عمر کو پہنچ کر بعض نوجوان بچیاں جو ہیں اُن کو یہ خیال آتا ہے کہ شاید دین ہم پر بعض پابندیاں عائد کر رہا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ بعض ٹی وی چینلز ہیں، ویب سائٹس ہیں جو فضول اور لغو ہیں، ان کو نہ دیکھیں۔ لیکن غیروں کے زیر اثر یہ سوال اُٹھتے ہیں کہ اُنہیں دیکھنے میں کیا حرج ہے۔ ہم کون سا وہ حرکتیں کر رہی ہیں جو ٹی وی چینلز پر دکھائی جاتی ہیں۔ لیکن یاد رکھیں کہ دو چار چھ دفعہ دیکھنے کے بعد یہی حرکتیں پھر شروع بھی ہوجاتی ہیں۔ بعض گھر اس لئے تباہ ہوئے کہ وہ یہی کہتے رہے کہ کیا فرق پڑتا ہے۔ وہ دین سے بھی گئے، دنیا سے بھی گئے، اپنے بچوں سے بھی گئے۔ تو یہ جو ہے کہ کیا فرق پڑتا ہے، کچھ آزادی ہونی چاہئے۔ یہ بڑی نقصان دِہ چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ لغوسے بچو تو اس لئے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی فطرت کو جانتا ہے۔ اُسے پتہ ہے کہ آزادی کے نام پر کیا کچھ ہونا ہے اور ہوتا ہے۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ شیطان نے اللہ تعالیٰ کو یہی کہا تھا کہ میں ہر راستے سے ان بندوں کے پاس، جو آدم کی یہ اولاد ہے، انہیں ورغلانے آؤں گا اور سوائے عبادالرحمٰن کے سب کو مَیں قابو کرلوں گا۔ اُس نے بڑا کھُل کے چیلنج دیا تھا۔

پس آج کل کی بعض ایجادوں کا جو غلط استعمال ہے یہ بھی شیطان کے حملوں میں سے ہی ہے۔ اس لئے ہراحمدی بچی کو اِن سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہمیشہ سوچیں کہ ہم احمدی ہیں اور اگر ہم نے احمدی رہنا ہے تو پھر اِن لغویات سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہمیشہ یہ سوچیں کہ اگر ہم نے احمدیت کو سچا سمجھ کر مانا ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو سچا سمجھتے ہیں اور آپؑ کو سچا سمجھتے ہوئے آپؑ کی بیعت میں شامل ہوئے ہیں تو ہمیں تمام ان باتوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے جن سے بچنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، تبھی ہم اُن انعاموں سے فیض اٹھا سکیں گے جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فرمایا ہے۔ ‘‘(خطاب برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ یوکے4؍ نومبر2007 ءبمقام بیت الفتوح، لندن)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 9 ؍دسمبر 2016ء)

سوشل میڈیاپر چَیٹنگ اور عورتوں کی تصاویر کے ذریعہ بے پردگی کا رحجان

سوشل میڈیا کے ذریعہ بڑھتے ہوئے باہمی روابط اور پھر خواتین کی تصاویر کا تبادلہ ہماری اخلاقی اقدار کے صریحاً خلاف ہے جن سے احمدی نوجوان بچوں اور بچیوں کو کلیۃً احتراز کرنا چاہئے۔ حضور انور ایدہ اللہ نے اس اہم نکتہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے احباب جماعت کو متنبہ فرمایا:

’’آج انٹرنیٹ یا کمپیوٹر پر آپس کے تعارف کا ایک نیا ذریعہ نکلا ہے جسے facebookکہتے ہیں۔ گو اتنا نیا بھی نہیں لیکن بہرحال یہ بعد کی چند سالوں کی پیداوار ہے۔ اس طریقے سے مَیں نے ایک دفعہ منع بھی کیا، خطبہ میں بھی کہا کہ یہ بے حیائیوں کی ترغیب دیتا ہےجو آپس کے حجاب ہیں، ایک دوسرے کا حجاب ہے، اپنے راز ہیں اُن حجابوں کو توڑتا ہے۔ رازوں کو فاش کرتا ہے اور بےحیائیوں کی دعوت دیتا ہے۔ اس سائٹ کو بنانے والا جو ہے اُس نے خود یہ کہا ہے کہ میں نے اسے اس لئے بنایا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ انسان جو کچھ ہے وہ ظاہر و باہر ہوکر دوسرے کے سامنے آجائے اور اُس کے نزدیک ظاہر و باہر ہوجانا یہ ہے کہ اگر ننگی تصویر بھی کوئی اپنی ڈالتا ہے تو بیشک ڈال دے اور اس پر دوسروں کو تبصرہ کرنے کی دعوت دیتا ہے تو یہ جائز ہے۔ اناللہ۔ اسی طرح دوسرے بھی جو کچھ دیکھیں کسی بارے میں اس میں ڈال دیں۔ یہ اخلاقی پستی اور گراوٹ کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے؟ اس اخلاقی پستی اور گراوٹ کی حالت میں ایک احمدی ہی ہے جس نے دنیا کو اخلاق اور نیکیوں کے اعلیٰ معیار بتانے ہیں۔ ‘‘(اختتامی خطاب جلسہ سالانہ جرمنی 26 ؍جون 2011ء)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 3 ؍جولائی 2015ء)

اسی طرح سوشل میڈیا کے بداثرات سے بچانے کے لئے نوجوان بچیوں کو متبادل مصروفیات مہیا کرنے کے بارے میں احمدی ماؤں کو نصیحت کرتے ہوئے حضورانور نے ارشاد فرمایا:

’’پھر آجکل سوشل میڈیا پر بہت سی بُرائیاں جنم لے رہی ہیں۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں ماں باپ کے سامنے خاموشی سے چَیٹنگ کررہے ہوتے ہیں۔ پیغامات کا اور تصاویر کا تبادلہ ہورہا ہوتا ہے۔ نئے نئے پروگراموں میں اکاؤنٹ بنالئے جاتے ہیں اور سارا سارا دن فون، آئی پیڈ اور کمپیوٹر وغیرہ پر بیٹھ کر وقت ضائع کیا جاتا ہے۔ اس سے اخلاق بگڑتے ہیں، مزاج میں چڑچڑا پن پیدا ہونے لگتا ہے اور بچے دیکھتے ہی دیکھتے ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں۔ ان ساری باتوں پر نظر رکھنے اور انہیں محدود کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے آپ کو ان کے لئے متبادل مصروفیات بھی سوچنا ہوں گی۔ انہیں گھریلو کاموں میں مصروف کریں۔ جماعتی خدمات میں شامل کریں اور ایسی مصروفیات بنائیں جو ان کے لئے اور معاشرہ کے لئے مثبت اور مفید ہوں۔ یہ بڑی اہم ذمہ داری ہے جسے احمدی مستورات نے بجا لانا ہے۔ ‘‘(پیغام برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ جرمنی 10؍جولائی 2016ء)

پردہ – ظاہری یاچھپی ہوئی فحشاء سے روکتا ہے

فحاشی کے پھیلاؤ کے لئے استعمال ہونے والے مختلف ذرائع کے حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں احباب جماعت کو اس برائی کے خوفناک انجام سے متنبہ فرمایا۔ اور اس ضمن میں سورۃ الانعام کی آیات 152، 153 کے حوالے سے اسلامی احکامات کا تفصیل سے ذکر فرمایا۔ حضورانور نے فرمایا:

’’…اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان فواحش کے قریب بھی نہ جاؤ۔ یعنی ایسی تمام باتیں جو فحشاء کی طرف مائل کرتی ہیں اُن سے رُکو۔ اس زمانے میں تو اس کے مختلف قسم کے ذریعے نکل آئے ہیں۔ اس زمانے میں انٹرنیٹ ہے، اس پر بیہودہ فلمیں آ جاتی ہیں، ویب سائٹس پر، ٹی وی پر بیہودہ فلمیں ہیں، بیہودہ اور لغو قسم کے رسالے ہیں، ان بیہودہ رسالوں کے بارے میں جو پورنوگرافی pornography وغیرہ کہلاتے ہیں اب یہاں بھی آواز اُٹھنے لگ گئی ہے کہ ایسے رسالوں کو سٹالوں اور دکانوں پر کھلے عام نہ رکھا جائے کیونکہ بچوں کے اخلاق پر بھی بُرا اثر پڑ رہا ہے۔ ان کو تو آج یہ خیال آیا ہے لیکن قرآنِ کریم نے چودہ سو سال پہلے یہ حکم دیا کہ یہ سب بے حیائیاں ہیں، ان کے قریب بھی نہ پھٹکو۔ یہ تمہیں بے حیا بنا دیں گی۔ تمہیں خدا سے دُور کر دیں گی، دین سے دُور کر دیں گی بلکہ قانون توڑنے والا بھی بنا دیں گی۔ اسلام صرف ظاہری بے حیائیوں سے نہیں روکتا بلکہ چھپی ہوئی بے حیائیوں سے بھی روکتا ہے۔ اور پردے کا جو حکم ہے وہ بھی اسی لئے ہے کہ پردے اور حیادار لباس کی وجہ سے ایک کھلے عام تعلق اور بے تکلفی میں جو لڑکے اور لڑکی میں پیدا ہو جاتی ہے، ایک روک پیدا ہو گی۔ اسلام بائبل کی طرح یہ نہیں کہتا کہ تم عورت کو بری نظر سے نہ دیکھو بلکہ کہتا ہے کہ نظریں پڑیں گی تو قربت بھی ہو گی اور پھر بے حیائی بھی پیدا ہو گی۔ اچھے برے کی تمیز ختم ہو گی اور پھر ایسے کھلے عام میل جول سے جب اس طرح لڑکا اور لڑکی، مرد اور عورت بیٹھے ہوں گے تو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق تیسرا تم میں شیطان ہو گا۔ (سنن الترمذی کتاب الرضاع باب ما جاء فی کراھیۃ الدخول علی المغیبات حدیث نمبر 117)

یہ جو انٹرنیٹ وغیرہ کی میں نے مثال دی ہے، اس میں فیس بک(facebook) اور سکائپ(skype) وغیرہ سے جو چَیٹ(chat) وغیرہ کرتے ہیں، یہ شامل ہے۔ کئی گھر اس سے میں نے ٹوٹتے دیکھے ہیں۔ بڑے افسوس سے مَیں کہوں گا کہ ہمارے احمدیوں میں بھی اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں۔ پس خدا تعالیٰ کے اس حکم کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے کہ فحشاء کے قریب بھی نہیں پھٹکنا کیونکہ شیطان پھر تمہیں اپنے قبضے میں کر لے گا۔

پس یہ قرآنِ کریم کے حکم کی خوبصورتی ہے کہ یہ نہیں کہ نظر اُٹھا کے نہیں دیکھنا، اور نہ نظریں ملانی ہیں بلکہ نظروں کو ہمیشہ نیچے رکھنا ہے اور یہ حکم مرد اور عورت دونوں کو ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھو۔ اور پھر جب نظریں نیچی ہوں گی تو پھر ظاہر ہے یہ نتیجہ بھی نکلے گا کہ جو آزادانہ میل جول ہے اُس میں بھی روک پیدا ہو گی۔ پھر یہ بھی ہے کہ فحشاء کو نہیں دیکھنا، تو جو بیہودہ اور لغو اور فحش فلمیں ہیں، جو وہ دیکھتے ہیں اُن سے بھی روک پیدا ہو گی۔ پھر یہ بھی ہے کہ ایسے لوگوں میں نہیں اُٹھنا بیٹھنا جو آزادی کے نام پر اس قسم کی باتوں میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اپنے قصے اور کہانیاں سناتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس طرف راغب کر رہے ہوتے ہیں۔ نہ ہی سکائپ(skype) اور فیس بُک(facebook) وغیرہ پر مرد اور عورت نے ایک دوسرے سے بات چیت کرنی ہے، ایک دوسرے کی شکلیں دیکھنی ہیں، نہ ہی ان چیزوں کو ایک دوسرے سے تعلقات کا ذریعہ بنانا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سب ظاہر یا چھپی ہوئی فحشاء ہیں جن کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم اپنے جذبات کی رَو میں زیادہ بہہ جاؤ گے، تمہاری عقل اور سوچ ختم ہو جائے گی اور انجام کار اللہ تعالیٰ کے حکم کو توڑ کر اُس کی ناراضگی کا موجب بن جاؤ گے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 2 ؍اگست 2013ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 23 ؍اگست 2013ء)

فیس بُک کے استعمال میں احتیاط کا پہلو

واقفاتِ نَو کی ایک کلاس میں سوال و جواب کی نشست کے دوران ایک بچی کی طرف سے فیس بُک(facebook) کے بارہ میں کئے جانے والے سوال کے جواب میں حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ :

’’مَیں نے یہ نہیں کہا تھا کہ اس کو نہ چھوڑوگے تو گنہگار بن جاؤ گے۔ بلکہ مَیں نے بتایا کہ اس کے نقصان زیادہ ہیں اور فائدہ بہت کم ہے۔ آجکل جن کے پاس facebook ہے وہاں لڑکے اور لڑکیاں ایسی جگہ پر چلے جاتے ہیں جہاں برائیاں پھیلنی شروع ہوجاتی ہیں۔ لڑکے تعلق بناتے ہیں۔ بعض جگہ لڑکیاں trap ہوجاتی ہیں اور facebook پر اپنی بے پردہ تصاویر ڈال دیتی ہیں۔ گھرمیں، عام ماحول میں، آپ نے اپنی سہیلی کو تصویر بھیجی، اُس نے آگے اپنی فیس بُک پر ڈال دی اور پھر پھیلتے پھیلتے ہمبرگ سے نکل کر نیویارک(امریکہ) اور آسٹریلیا پہنچی ہوتی ہے اور پھر وہاں سے رابطے شروع ہوجاتے ہیں۔ اور پھرگروپس بنتے ہیں مردوں کے، عورتوں کے اور تصویروں کو بگاڑ کر آگے بلیک میل کرتے ہیں۔ اس طرح برائیاں زیادہ پھیلتی ہیں۔ اس لئے یہی بہتر ہے کہ برائیوں میں جایا ہی نہ جائے۔ ‘‘

حضور انور نے مزید فرمایا:

’’میرا کام نصیحت کرنا ہے۔ قرآن کریم نے کہا ہے کہ نصیحت کرتے چلے جاؤ۔ جو نہیں مانتے ان کا گناہ اُن کے سر ہے۔ اگر facebook پر تبلیغ کرنی ہے تو پھر اس پر جائیں اور تبلیغ کریں۔ الاسلام ویب سائٹ پر یہ موجود ہے وہاں تبلیغ کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ ‘‘

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’لڑکیاں جلد بے وقوف بن جاتی ہیں۔ جو کوئی تمہاری تعریف کردے تو تم کہوگی کہ تم سے اچھا کوئی نہیں۔ اگر ماں باپ نصیحت کریں تو تم کہوگی کہ ہم تو جرمنی میں پڑھی ہوئی ہیں اور آپ لوگ کسی گاؤں سے اٹھ کر آگئے ہو۔ ‘‘

حضور انور نے ایک حدیث مبارکہ کے حوالہ سے فرمایا کہ:

’’اَلْحِکْمَۃُ ضَالَّۃ الْمُؤمن یعنی ہر اچھی بات جہاں سے بھی اور جس جگہ سے بھی ملے لے لیں۔ ان لوگوں کی سب ایجادیں اچھی نہیں ہیں۔ جو بات نہیں مانتیں وہ پھر روتے روتے مجھے خط لکھتی ہیں کہ غلطی ہوگئی ہے کہ ہمیں فلاں جگہ trap کرلیا گیا ہے۔ … جس شخص نے یہ facebook بنائی ہے اُس نے خود کہا کہ مَیں نے اس لئے بنائی ہے کہ ہر شخص کو ننگا کرکے دنیا کے سامنے پیش کروں۔ کیا احمدی لڑکی ننگا ہونا چاہے گی!؟۔ جو نہیں مانتے نہ مانیں۔ ‘‘(کلاس واقفات نَو جرمنی 8 اکتوبر 2011ء بمقام مسجد بیت الرشید)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 6؍جنوری 2012ء)

لڑکیوں کے تبلیغی رابطے صرف لڑکیوں سے ہونے چاہئیں

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بارہا یہ نصیحت فرمائی ہے کہ احمدی لڑکیوں کے تبلیغی رابطے صرف لڑکیوں سے ہونے چاہئیں۔ اسی حوالہ سے لجنہ اماءاللہ کی عہدیداران کونصائح کرتے ہوئے حضورانور فرمایا:

’’لجنہ کے تبلیغ کے شعبہ کو چاہئے کہ ایسی عورتوں اور بچیوں کی ٹیمیں بنائیں اور ان کو تبلیغ کے لئے استعمال کریں۔ لیکن ایک بات واضح طور پر ذہن میں رکھنی چاہئے کہ لڑکیوں کے تبلیغی رابطے صرف لڑکیوں سے ہونے چاہئیں یا عورتوں سے ہونے چاہئیں۔ بعض لوگوں کے انٹرنیٹ کے ذریعے سے تبلیغ کے رابطے ہوتے ہیں اور انٹر نیٹ کے تبلیغی رابطے بھی صرف لڑکیوں اور عورتوں سے رکھیں۔ مردوں کا جو تبلیغ کا حصہ ہے وہ مردوں کے حصے رہنے دیں کیونکہ اس میں بعض دفعہ بعض قباحتیں پیدا ہوتی ہیں۔ کہا تویہی جا رہا ہوتا ہے کہ ہم تبلیغ کر رہے ہیں لیکن پھر عموماً دیکھنے میں آیا ہے، تجربہ میں آیا ہے کہ انٹرنیٹ کے بعض ایسے نتائج ظاہر ہوتے ہیں جو کسی طرح بھی ایک احمدی بچی اور عورت کے مناسب حال نہیں ہوتے۔

پھر جو بچیاں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھ رہی ہیں وہ بغیر کسی جھجک کے، شرم کے یا احساس کمتری کا شکار ہوئے، اپنے بارے میں، اسلام کے بارے میں اپنی طالبات سے بات چیت کریں۔ اپنے بار ے میں بتادیں کہ ہم کون ہیں پھر اس طرح اسلام کا تعارف ہوگا۔ ‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ آسٹریلیا15 ؍اپریل 2006ء)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 12 ؍جون 2015ء)

تبلیغ کرنے کے لئے بہت سی احمدی لڑکیاں انٹرنیٹ وغیرہ کا سہارا لیتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ براہ راست تبلیغ کرنے کی نسبت یہ طریق زیادہ محفوظ اور مؤثر ہے۔ لیکن بعدازاں اس کے بھی منفی نتائج ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ چنانچہ پردہ کے بارہ میں اسلامی تعلیم کا اطلاق نئے دَور کی ٹیکنالوجی کے ذریعے کس طرح ممکن ہے، اس حوالہ سے احمدی خواتین سے ارشاد فرمودہ اپنے ایک خطاب میں توجہ دلاتے ہوئے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے نہایت مؤثر نصائح سے نوازا۔ حضورانور ایدہ اللہ نے فرمایا:

’’اب انٹر نیٹ کے بارے میں بھی مَیں کہنا چاہتا ہوں وہ بھی اسی پردہ نہ کرنے کے زمرہ میں آتا ہے کہ chatting ہو رہی ہے۔ یونہی جب آ کے openکر رہے ہوتے ہیں انٹرنیٹ اور بات چیت(chatting) شروع ہوگئی تو پھر شروع میں تو بعض دفعہ یہ نہیں پتہ ہوتا کہ کون بات کر رہا ہے؟یہاں ہماری لڑکیاں بیٹھی ہیں دوسری طرف پتہ نہیں لڑکا ہے یا لڑکی ہے اور بعض لڑکے خود کو چھپاتے ہیں اور بعض لڑکیوں سے لڑکی بن کر باتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی میرے علم میں آئی ہے کہ لڑکیاں سمجھ کر بات چیت شروع ہوگئی جماعت کا تعارف شروع ہوگیا۔ اور لڑکی خوش ہو رہی ہوتی ہے کہ چلو دعوت الی اللہ کر رہی ہوں۔ یہ پتہ نہیں کہ اس لڑکی کی کیا نیت ہے۔ آپ کی نیت اگر صاف بھی ہے تو دوسری طرف جو لڑکاinternet پر بیٹھا ہوا ہے اس کی نیت کیا ہے؟ آپ کو کیا پتہ؟ اور آہستہ آہستہ بات اتنی آگے بڑھ جاتی ہے کہ تصویروں کے تبادلے شروع ہو جاتے ہیں۔ اب تصویر یں دکھانا تو انتہائی بےپردگی کی بات ہے۔ اور پھر بعض جگہوں پہ رشتے بھی ہوئے ہیں۔ جیسے مَیں نے کہا کہ بڑے بھیانک نتیجے سامنے آئے ہیں۔ اور ان میں سے اکثر رشتے پھرتھوڑے ہی عرصہ کے بعد ناکام بھی ہو جاتے ہیں۔ یا د رکھیں کہ آپ نےاگر تبلیغ ہی کرنی ہے، دعوت الی اللہ کرنی ہے تو لڑکیاں لڑکیوں کو ہی دعوت الی اللہ کریں۔ اور لڑکوں کو تبلیغ کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ کام لڑکوں کے لئے چھوڑ دیں۔ کیونکہ جیسے مَیں نے پہلے بھی کہا کہ یہ ایک ایسی معاشرتی برائی ہے جس کے بہت بھیانک نتائج سامنے آرہے ہیں۔ ‘‘(خطاب برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ یوکے 19 ؍اکتوبر 2003ءبیت الفتوح، لندن)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 17 ؍اپریل 2015ء)

انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے منفی استعمال کے نتیجہ میں غیروں میں شادیاں اور نسلوں کا افسوسناک انجام

چند احمدی لڑکیوں اور عورتوں کے غیراحمدی مردوں سے انٹرنیٹ کے ذریعہ شروع ہونے والے باہمی روابط بالآخر شادی پر منتج ہوئے۔ لیکن کچھ ہی عرصہ بعد ایسی شادیوں کے متوقّع منفی نتائج ظاہر ہونے لگے اور ان کے نتیجہ میں اگلی نسلوں کی احمدیت سے دُوری کے خطرناک پہلو بھی سامنے آنے لگے۔ اس نہایت اہم معاملہ کے بارہ میں احمدی عورتوں کو تنبیہ کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’آج تو internet ہے۔ آج سے پہلے بھی جہاں بھی وہ عورتیں جنہوں نے غیر از جماعت مردوں سے شادیاں کی ہیں، اب پریشانی اور پشیمانی کا اظہار کرتی ہیں اور لکھتی ہیں کہ ہمارے سے یہ غلطی ہوگئی جو غیر از جماعت سے شادی کی۔ اول تو بچے باپ کی طرف زیادہ رحجان رکھتے ہیں، غیر از جماعت باپ کی طرف، اس لئے کہ اس میں آزادی زیادہ ہے۔ اور اگر بعض بچیاں ماں کے زیر اثر کچھ نہ کچھ جماعت سے تعلق رکھ بھی رہی ہیں تو باپ مجبور کر رہا ہے کہ تمہاری شادی غیر از جماعت میں ہی ہو گی۔ تو بعض بچیاں باپوں کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں۔ لکھتی ہیں کہ ہماری مدد کی جائے، ہم غیر از جماعت میں شادی نہیں کرنا چاہتیں لیکن اکثر مجبور بھی ہوتی ہیں۔ تو مائیں بھی اور باپ بھی اس بات پر نظر رکھیں کہ اس طرح کھلے طور پر یہ internetکے رابطے نہیں ہونے چاہئیں۔ پیار سے سمجھائیں، آرام سے سمجھائیں۔ جولڑکیاں شعور کی عمر کو پہنچی ہوئی ہیں خود بھی ہوش کریں ورنہ یاد رکھیں کہ آپ احمدی ماؤں کی کوکھوں سے نکلنے والے بچے غیروں کی گودوں میں دے رہی ہوں گی۔ کیوں آپ لوگ اپنے آپ پر اور اپنی نسلوں پر ظلم کر رہے ہیں !؟۔ ‘‘(خطاب برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ یوکے 19 ؍اکتوبر 2003ءمسجدبیت الفتوح، لندن)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 17؍اپریل 2015ء)