سوشل میڈیا (Social Media)

فہرست مضامین

نوجوان نسل کے لئے رہنمائی

نوجوان نسل کو اسلامی تعلیم پر عمل کی تلقین

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بارہا احمدی نوجوانوں اور بچوں کو جماعتی روایات اور اپنے عہد کو پیش نظر رکھتے ہوئے زندگیاں گزارنے کی تلقین فرمائی ہے۔ چنانچہ مجلس خدام الاحمدیہ بھارت کے سالانہ اجتماع کے موقع پر اپنے ایک خصوصی پیغام میں انہیں نصائح کرتےہوئے یہ بھی فرمایا کہ:

’’آپ اپنے اجتماعات اور اجلاسات کے موقعہ پر یہ عہد دہراتے ہیں کہ دین کو دنیا پر مقدّم رکھیں گے۔ اس کے لئے ہر ایک کو قرآن کریم کی باقاعدگی سے تلاوت کو یقینی بنانا چاہئےکیونکہ یہ وہ روحانی نور ہے جو ہمیں حقیقی طور پر دین کو دنیا پر مقدّم کرنا سکھاتا ہے۔ قرآن کریم نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ کامیاب مومن خشوع وخضوع کے ساتھ نمازیں ادا کرتے ہیں۔ اس لئے آپ میں ہر ایک کو پنجوقتہ نماز کو زندگی کا نصب العین بنانا چاہئےاور جس حد تک ممکن ہو نماز با جماعت ادا کرنی چاہئے کیونکہ باجماعت نماز کاثواب انفرادی نماز سے زیادہ ہے۔ باجماعت نماز وحدت و یگانگت کا ذریعہ بن جاتی ہے اور جماعت مومنین کی اجتماعیت اور قوّت ظاہر کرتی ہے۔ پھر آپ کے اجتماعات ایک دوسرے سے نیکی اور تقویٰ میں مسابقت والے ہونے چاہئیں۔ نوجوان خدام اور بڑی عمر کے اطفال کو ہر وقت اچھے دوستوں اور اچھی صحبت میں رہنا چاہئے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا غلط استعمال بھی عام ہوتا جارہا ہے۔ اگر کسی چیز یا کام کے نقصان دہ اثرات ذہن پر پڑتے ہوں تو قرآن مجید کے مطابق وہ لغو شمار ہوگا اور مومنوں کا یہ وصف ہے کہ وہ لغو باتوں سے پرہیز کرتے ہیں۔

اسی طرح اپنی عفت و حیا کو قائم رکھنا مردوں پر بھی فرض ہے۔ انہیں یہ حکم ہے کہ وہ غضِّ بصر سے کام لیتے ہوئے نظریں نیچی رکھیں اور دل و دماغ کو ناپاک خیالات اور بُرے ارادوں سے پاک رکھیں۔ اسلام کا ہر اصول انتہائی پرحکمت اور مضبوط بنیادوں پر مشتمل ہے۔ غضِّ بصر سے اسلام نفس پر قابو رکھنا سکھاتا ہے۔ پس یاد رکھیں پاکبازی ایک خادم کا لازمی اخلاقی وصف ہے اس سے آپ روحانی ترقیات حاصل کرسکتے ہیں۔ ‘‘(پیغام بر موقع سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ و اطفال الاحمدیہ بھارت10 اکتوبر 2017ء)(مطبوعہ ہفت روزہ بدر قادیان2 ؍نومبر 2017ء)

نوجوانوں کو اپنے اندر اعلیٰ اوصاف پیدا کرنے اور اپنےنفس کو قابورکھنے کے بارہ میں نصیحت کرتے ہوئے حضورانور ایدہ اللہ نے خدام سے خطاب میں نہایت مدلّل انداز میں پُرحکمت نصائح کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ:

’’اس کے علاوہ کئی اَور برائیاں اور گناہ ہیں جو آج کے معاشرے میں بداخلاقیاں پھیلانے کا باعث ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ روز بروز بڑھ رہی ہیں۔ مثلاً انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا غلط استعمال عام ہوتا جا رہا ہے جس میں لڑکے اور لڑکیوں کی آن لائن آپس میں نامناسب chatting شامل ہے۔ اسی طرح انٹرنیٹ کے ذریعہ سے بیہودہ اور بد اخلاقیوں سے پُر فلمیں دیکھی جاتی ہیں جس میں pornography بھی شامل ہے۔ سگریٹ پینا اور شیشہ کا استعمال بھی پھیلنے والی برائیوں میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ اس بات کو یاد رکھیں کہ بعض اوقات جائز چیزوں کا غلط استعمال بھی نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک شخص آدھی رات تک ٹی وی دیکھتا رہے یا انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے جاگتا رہے اور اس کی فجر کی نماز ضائع ہو جائے۔ اگر چہ وہ اچھے پروگرام ہی کیوں نہ دیکھ رہا ہو۔ اس کے باوجود اس کا نتیجہ نکلا کہ وہ نیکی اور تقویٰ سے دُور ہو رہا ہے۔ پس اس پہلو سے ایک جائز چیز بھی برائی میں شمار ہوگئی جو ایک حقیقی مسلمان کے معیار سے مطابقت نہیں رکھتی۔

پس بنیادی طور پر اگر کسی بھی کام یا چیز کے زہریلے یا نقصان دہ اثرات کسی کے ذہن پر پڑتے ہوں تو قرآن مجید کے مطابق وہ چیز یا کام لغو شمار ہوگا۔ ‘‘

حضور انورایدہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےسورۃالمومنون کی آیت6 کے حوالہ سے مزید فرمایا کہ:

’’اللہ تعالیٰ نے مومن کی ایک اور خوبی کی نشاندہی فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِینَ ہُمْ لِفُرُوجِہِمْ حَافِظُونَ۔ (سورۃالمومنون آیت6) اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ اپنی عفّت وحیا کو قائم رکھنا صرف ایک عورت ہی کا کام نہیں ہےبلکہ مردوں پر بھی فرض ہے۔ اپنی عفّت کی حفاظت کرنے کا صرف یہ مطلب نہیں کہ ایک شخص شادی شدہ زندگی سے باہر ناجائز جنسی تعلقات سے بچتا رہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام نے ہمیں اس کا یہ مطلب سکھایا ہے کہ ایک مومن ہمیشہ اپنی آنکھیں اور اپنے کان ہر اُس چیز سےپاک رکھے جو نامناسب ہے اور اخلاقی طور پر بُری ہے۔ جیسا کہ مَیں نے بیان کیا ہے ایک چیز جو انتہائی بیہودہ ہےوہپورنوگرافی pornography ہے۔ اسے دیکھنا اپنی آنکھوں اور کانوں کی عفّت اور پاکیزگی کو کھو دینے کے مترادف ہے۔ یہ بات بھی پاکبازی اور حیا سے متعلق اسلامی تعلیمات کے منافی ہےکہ لڑکوں اور لڑکیوں کا آزادانہ طور پر آپس میں میل جول ہو اور ان میں باہم تعلقات اور نامناسب دوستیاں ہوں ‘‘۔ (خطاب از خدام برموقع سالانہ اجتماع یُوکے 26؍ستمبر2016ء کنگزلے، سرّے)(مطبوعہ ہفت روزہ بدر قادیان 7 ؍ستمبر 2017ء)

غضِّ بصر: نفس کا جہاد

موجودہ زمانہ، تلوار کے جہادکے بجائے، نفس کی اصلاح کےجہاد کا زمانہ ہے۔ نیکی کی راہ پر اُسی صورت میں قائم رہا جاسکتاہےجب قرآن کریم کے احکامات پر عمل کیا جائے۔ اس مضمون کے حوالہ سے جذباتِ نفسانی پر قابو رکھنے اور غضّ بصر کی اہمیت بیان کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا:

’’ہم احمدیوں کو ہمیشہ یہ یاد رکھناچاہئے کہ یہ زمانہ بہت خطرناک زمانہ ہے۔ شیطان ہر طرف سے پُرزور حملے کر رہا ہے۔ اگر مسلمانوں اور خاص طور پر احمدی مسلمانوں، مَردوں اور عورتوں، نوجوانوں سب نے مذہبی اقدار کو قائم رکھنے کی کوشش نہ کی تو پھر ہمارے بچنے کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ ہم دوسروں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں ہوں گے کہ ہم نے حق کو سمجھا، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں سمجھایا اور ہم نے پھر بھی عمل نہ کیا۔ پس اگر ہم نے اپنے آپ کو ختم ہونے سے بچانا ہے تو پھر ہر اسلامی تعلیم کے ساتھ پُراعتماد ہو کر دنیا میں رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ نہ سمجھیں کہ ترقی یافتہ ملکوں کی یہ ترقی ہماری ترقی اور زندگی کی ضمانت ہے اور اس کے ساتھ چلنے میں ہی ہماری بقا ہے۔ ان ترقی یافتہ قوموں کی ترقی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے اور اب جو ان کی اخلاقی حالت ہے اخلاق باختہ حرکتیں ہیں۔ یہ چیزیں انہیں زوال کی طرف لے جا رہی ہیں اور اس کے آثار ظاہر ہو چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو یہ آوازیں دے رہے ہیں اور اپنی تباہی کو بلا رہے ہیں۔ پس ایسے میں انسانی ہمدردی کے تحت ہم نے ہی ان کو صحیح راستہ دکھا کر بچانے کی کوشش کرنی ہے بجائے اس کے کہ ان کے رنگ میں رنگین ہو جائیں۔ اگر ان لوگوں کی اصلاح نہ ہوئی جو ان کے تکبر اور دین سے دُوری کی وجہ سے بظاہر بہت مشکل نظر آتی ہے تو پھر آئندہ دنیا کی ترقی میں وہ قومیں اپنا کردار ادا کریں گی جو اخلاقی اور مذہبی قدروں کو قائم رکھنے والی ہوں گی۔

پس جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا کہ ہمیں خاص طور پر نوجوانوں کو اللہ تعالیٰ کی تعلیم پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا سے متأثر ہو کر اس کے پیچھے چلنے کی بجائے دنیا کو اپنے پیچھے چلانے کی ضرورت ہے۔ ‘‘

حضورانور نے مزید فرمایا:

’’اسلام کی ترقی کے لئے ہر وہ چیز ضروری ہے جس کا خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے۔ پردہ کی سختیاں صرف عورتوں کے لئے نہیں ہیں۔ اسلام کی پابندیاں صرف عورتوں کے لئے نہیں ہیں بلکہ مَردوں اور عورتوں دونوں کو حکم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے مَردوں کو حیا اور پردے کا طریق بتایا تھا۔ چنانچہ فرمایا کہ قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ۔ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَھُمْ۔ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَ۔ (النور:31) مومنوں کو کہہ دے کہ اپنی آنکھیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں۔ یہ بات ان کے لئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے۔ یقینا اللہ جو وہ کرتے ہیں اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو پہلے کہا کہ غضِّ بصر سے کام لو۔ کیوں ؟ اس لئے کہ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَھُمْ کیونکہ یہ بات پاکیزگی کے لئے ضروری ہے۔ اگر پاکیزگی نہیں تو خدا نہیں ملتا۔ پس عورتوں کے پردہ سے پہلے مَردوں کو کہہ دیا کہ ہر ایسی چیز سے بچو جس سے تمہارے جذبات بھڑک سکتے ہوں۔ عورتوں کو کھلی آنکھوں سے دیکھنا، ان میں مِکس اَپ(mix up) ہونا، گندی فلمیں دیکھنا، نامحرموں سے فیس بُک(facebook) پر یا کسی اور ذریعہ سے چَیٹ(chat) وغیرہ کرنا، یہ چیزیں پاکیزہ نہیں رہتیں۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس بارے میں کئی جگہ بڑی کھل کر نصیحت فرمائی ہے۔ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ:

’’یہ خدا ہی کا کلام ہے جس نے اپنے کھلے ہوئے اور نہایت واضح بیان سے ہم کو ہمارے ہر ایک قول اور فعل اور حرکت اور سکون میں حدود معیّنہ مشخّصہ پر قائم کیا اور ادبِ انسانیت اور پاک رَوِشی کا طریقہ سکھلایا۔ وہی ہے جس نے آنکھ اور کان اور زبان وغیرہ اعضاء کی محافظت کے لئے بکمال تاکید فرمایا قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ۔ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَھُمْ یعنی مومنوں کو چاہئے کہ وہ اپنی آنکھوں اور کانوں اور سترگاہوں کو نامحرموں سے بچاویں اور ہر یک نادیدنی اور ناشنیدنی اور ناکردنی سے پرہیزکریں کہ یہ طریقہ ان کی اندرونی پاکی کا موجب ہو گا۔ یعنی ان کے دل طرح طرح کے جذباتِ نفسانیہ سے محفوظ رہیں گے کیونکہ اکثر نفسانی جذبات کو حرکت دینے والے اور قوائے بہیمیہ کو فتنہ میں ڈالنے والے یہی اعضاء ہیں۔ اب دیکھئے کہ قرآن شریف نے نامحرموں سے بچنے کے لئے کیسی تاکید فرمائی اور کیسے کھول کر بیان کیا کہ ایماندار لوگ اپنی آنکھوں اور کانوں اور سترگاہوں کو ضبط میں رکھیں اور ناپاکی کے مواضع سے روکتے رہیں۔ ‘‘(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول صفحہ209 حاشیہ)(خطبہ جمعہ فرمودہ 13 ؍جنوری 2017 ءبمقام مسجد بیت الفتوح، لندن)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 3؍فروری 2017ء)

اصلاح کی کوشش میں عادت رکاوٹ بنتی ہے

عملی اصلاح کی جانب قدم بڑھانے میں ایک بڑی مشکل عادات میں پختگی بھی ہوتی ہے۔ اس اہم پہلو سے متعلق حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

’’ایک واقعہ ہے کہ ایک صاحب کو گالی دینے کی، ہر وقت گالی دینے کی، ہر بات پر گالی دینے کی عادت تھی۔ اور اُن کو بعض دفعہ پتہ بھی نہیں لگتا تھا کہ میں گالی دے رہا ہوں۔ اُن کی شکایت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس کسی نے کی۔ آپ نے جب اُن کو بلا کر پوچھا کہ سنا ہے آپ گالیاں بڑی دیتے ہیں تو گالی دے کر کہنے لگے کون کہتا ہے مَیں گالی دیتا ہوں۔ تو عادت میں احساس ہی نہیں ہوتا کہ انسان کیا کہہ رہا ہے۔ بعض بالکل ایسی حالت میں ہوتے ہیں کہ عادت کی وجہ سے اُن کو احساس ختم ہو جاتے ہیں، احساس مٹ جاتے ہیں۔ لیکن اگر انسان کوشش کرے تو اُن مٹے ہوئے احساسات کو، ختم ہوئے ہوئے احساسات کو دوبارہ پیدا بھی کیا جا سکتا ہے، اصلاح بھی کی جا سکتی ہے۔

بہرحال عملی حالت کی روک میں عادت کا بہت بڑا دخل ہے۔ آجکل ہم دیکھتے ہیں، بیہودہ فلمیں دیکھنے کا بڑا شوق ہے۔ انٹرنیٹ پر لوگوں کے شوق ہیں اور بعض لوگوں کی ایسی حالت ہے کہ اُن کی نشے والی حالت ہے۔ وہ کھانا نہیں کھائیں گے اور بیٹھے فلمیں دیکھ رہے ہیں تو دیکھتے چلے جائیں گے۔ انٹرنیٹ پر بیٹھے ہیں تو بیٹھے چلے جائیں گے۔ نیند آ رہی ہے تب بھی وہ بیٹھے دیکھتے رہیں گے۔ نہ بچوں کی پرواہ، نہ بیوی کی پرواہ تو ایسے لوگ بھی ہیں۔ پس یہ جوعادتیں ہیں، یہ عملی اصلاح میں روک کا بہت بڑا کردار ادا کرتی ہیں۔ ‘‘

حضورانور نے مزید فرمایا:

’’عورتوں کے لئے بھی مَیں ایک مثال دوں گا۔ پردہ اور حیا کی حالت ہے۔ اگر ایک دفعہ یہ ختم ہو جائے تو پھر بات بہت آگے بڑھ جاتی ہے۔ آسٹریلیا میں مجھے پتہ چلا ہے کہ بعض بڑی عمر کی عورتوں نے جو پاکستان سے وہاں آسٹریلیا میں اپنے بچوں کے پاس نئی نئی گئی تھیں، اپنی بچیوں کو یہ دیکھ کر کہ پردہ نہیں کرتیں اُنہیں پردے کا کہا کہ کم از کم حیا دار لباس پہنو، اسکارف لو تواُن کی لڑکیوں میں سے بعض جوایسی ہیں کہ پردہ نہ کرنے والی ہیں، انہوں نے یہ کہا کہ یہاں پردہ کرنا بہت بڑا جرم ہے اور آپ بھی چھوڑ دیں تو مجبوراً ان عورتوں نے بھی جو پردہ کا کہنے والی تھیں، جن کو ساری عمر پردے کی عادت تھی اس خوف کی وجہ سے کہ جرم ہے، خود بھی پردہ چھوڑ دیا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہاں کوئی ایسا قانون نہیں ہے، نہ جرم ہے۔ کوئی پابندی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اس طرف توجہ دیتا ہے۔ صرف فیشن کی خاطر چند نوجوان عورتوں اور بچیوں نے پردے چھوڑ دئیے ہیں۔ پاکستان سے شادی ہو کروہاں آنے والی ایک بچی نے مجھے لکھا کہ مجھے بھی زبردستی پردہ چھڑوا دیا گیا تھا۔ یا ماحول کی وجہ سے میں بھی کچھ اس دام میں آ گئی اور پردہ چھوڑ دیا۔ اب میں جب وہاں دورے پر گیا ہوں تو اُس نے لکھا کہ آپ نے جلسہ میں جو تقریر عورتوں میں کی اور پردے کے بارے میں کہا تو اُس وقت میں نے برقع پہنا ہوا تھا تو اُس وقت سے میں نے برقع پہنے رکھا ہے اور اب میں اُس پر قائم ہوں اور کوشش بھی کر رہی ہوں اور دعا بھی کر رہی ہوں کہ اس پر قائم رہوں۔ اُس نے دعا کے لئے بھی لکھا۔ تو پردے اس لئے چُھٹ رہے ہیں کہ اس حکم کی جو قرآنی حکم ہے، بار بار ذہن میں جگالی نہیں کی جاتی۔ نہ ہی گھروں میں اس کے ذکر ہوتے ہیں۔ پس عملی اصلاح کے لئے بار بار برائی کا ذکر ہونا اور نیکی کا ذکر ہونا ضروری ہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 20 ؍دسمبر 2013ءبمقام مسجد بیت الفتوح، لندن)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 10؍جنوری 2014ء)

بُرائیوں سے بچنے کی جامع دعائیں

عصرحاضر میں جدید ٹیکنالوجی اور میڈیا کا غلط استعمال بلاشبہ ایک شیطانی فعل ہے۔ ایسے شیطانی حملوں سے بچنےکے لئے دعاؤں کی اہمیت پہلے سے زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اس ضمن میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے احباب جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مومنین کو شیطان کے حملوں سے بچانے کی کس قدر فکر ہوتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح اپنے صحابہ کو شیطان سے بچنے کی دعائیں سکھاتے تھے اور کیسی جامع دعائیں سکھاتے تھے، اس کا ایک صحابی نے یوں بیان فرمایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ دعا سکھلائی کہ:

’اے اللہ! ہمارے دلوں میں محبت پیدا کر دے۔ ہماری اصلاح کر دے اور ہمیں سلامتی کی راہوں پر چلا۔ اور ہمیں اندھیروں سے نجات دے کر نور کی طرف لے جا۔ اور ہمیں ظاہر اور باطن فواحش سے بچا۔ اور ہمارے لئے ہمارے کانوں میں، ہماری آنکھوں میں، ہماری بیویوں میں اور ہماری اولادوں میں برکت رکھ دے اور ہم پر رجوع برحمت ہو۔ یقیناًتُو ہی توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ اور ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر کرنے والا اور ان کا ذکر خیر کرنے والا اور ان کو قبول کرنے والا بنا اور اے اللہ ہم پر نعمتیں مکمل فرما۔ ‘(سنن ابو داؤد کتاب الصلاۃ باب التشہد حدیث 969)

پس یہ دعا ہے جو دنیاوی غلط تفریح سے بھی روکنے کے لئے ہے۔ دوسری ہرقسم کی فضولیات سے روکنے کے لئے ہے۔ شیطان کے حملوں سے روکنے کے لئے ہے۔

آج بھی دنیا میں تفریح کے نام پر مختلف بیہودگیاں ہو رہی ہیں۔ جب انسان کانوں، آنکھوں میں برکت کی دعا کرے گا، جب سلامتی حاصل کرنے اور اندھیروں سے روشنی کی طرف جانے کے لئے دعا کرے گا، جب بیویوں کے حق ادا کرنے کی دعا کرے گا، جب اولاد کے قرّۃ العین ہونے کی دعا کرے گا تو پھر بیہودگیوں اور فواحش کی طرف سے توجہ خود بخود ہٹ جائے گی اور یوں ایک مومن پورے گھر کو شیطان سے بچانے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ20 ؍مئی2016 ءمسجد ناصر، گوٹن برگ، سویڈن)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 10؍جون 2016ء)

ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ شیطان کے اندھیرے راستوں کو ترک کرکے روشنی کی اُن راہوں کی طرف ہمہ وقت آتا چلا جائے جو سلامتی کے راستے ہیں۔ اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا:

’’ جب اس نہج پر اپنی اصلاح کی کوشش کرتا ہے تو یہی سلامتی کا راستہ ہے۔ انسان کی بچت اسی میں ہے کہ سلامتی کے راستے تلاش کرے۔ ورنہ پھر جیسا کہ فرمایا کہ تم روشنی سے اندھیروں کی طرف جاؤ گے۔ اور یہ شیطان کا رستہ ہے، روشنی سے اندھیروں کی طرف جانا ہے۔ اس لئے شیطان سے پناہ مانگتے رہو۔ اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگو اور یہ دعا کرو کہ اے اللہ ! ہمیں اندھیروں سے نجات دے کر نور کی طرف لےجا اور ہر قسم کی فواحش سے ہمیں بچا۔ چاہےوہ باطنی ہوں۔ اور ظاہری سے تو پھر بعض خوف ایسے خوف ہوتے ہیں جو روکنے میں کردار ادا کررہے ہوتے ہیں۔ لیکن چھپی ہوئی فواحش جو ہیں یہ ایسی ہیں جو بعض دفعہ انسان کو متأثر کرتے ہوئے بہت دُور لے جاتی ہیں۔ مثلاً بعض دفعہ غلط نظارے، غلط فلمیں ہیں، بالکل عریاں فلمیں ہیں۔ اس قسم کی دوسری چیزوں کو دیکھ کر آنکھوں کے زنا میں مبتلا ہورہا ہوتا ہے انسان۔ پھر خیالات کا زنا ہے، غلط قسم کی کتابیں پڑھنا یا سوچیں لے کر آنا۔ بعض ماحول ایسے ہیں کہ ان میں بیٹھ کر انسان اس قسم کی فحشاء میں دھنس رہا ہوتا ہے۔ پھر کانوں سے بے حیائی کی باتیں سننا۔ تو یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ اے اللہ! ہمارا عضو جو ہے اسے اپنے فضل سے پاک کردے۔ اور ہمیشہ اسے پاک رکھ اور شیطان کے راستے پر چلنے والےنہ ہوں اور ہم سب کو شیطان کے راستے پر چلنے سے بچا۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 12 ؍دسمبر 2003 ءبمقام مسجد بیت الفتوح، لندن)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 6 ؍فروری 2004ء)