سوشل میڈیا (Social Media)

فہرست مضامین

واقفینِ نَو اور واقفاتِ نَواسپیشل کیسے بن سکتے ہیں؟

اعلیٰ معیاروں کو قائم کرکے اسپیشل بنیں

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے متعدّد مواقع پر واقفینِ نَو اور واقفاتِ نو کے والدین کو یہ توجہ دلائی ہے کہ اُنہیں اپنی نسلوں کو خداتعالیٰ کی راہ میں پیش کرنے کی جو سعادت حاصل ہوئی ہے اس کی وجہ سے ان بچوں کی تربیت کی نہایت اہم ذمہ داری بھی اُن پر عائد ہوتی ہے۔ واقفینِ نَو کے والدین کو ہمہ وقت یہ پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ بچے اُن کے پاس جماعت کی امانت ہیں نیز یہ کہ ان بچوں کی چھوٹی عمر سے ہی بہترین تربیت کرکے اُنہیں جماعت اور معاشرے کا مفید وجود بنانا ہمارا مطمحٔ نظر ہونا چاہئے۔ اِس ضمن میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے واقفینِ نَو اور واقفاتِ نَو کو خطبات و خطابات کے علاوہ واقفینِ نَو کی خصوصی کلاسوں میں براہ راست بھی انمول نصائح فرمائی ہیں۔ چنانچہ اپنے ایک خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا:

’’حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حوالے سے وفا کے مضمون کو ایک جگہ مزید کھولا ہے اور اس طرح کھولا ہے۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:’’خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی راہ یہ ہے کہ اس کے لئے صدق دکھایا جائے‘‘۔ سچائی پر قائم ہو۔ وفا تمہاری سچی ہو۔ اللہ تعالیٰ سے ’’حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو قرب حاصل کیا تو اس کی وجہ یہی تھی۔ چنانچہ فرمایا ہے:وَاِبْرٰہِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰی(النجم:38) کہ ابراہیم وہ ابراہیم ہے جس نے وفاداری دکھائی۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ وفا داری اور صدق اور اخلاص دکھانا ایک موت چاہتا ہے۔ جب تک انسان دنیا اور اس کی ساری لذّتوں اور شوکتوں پر پانی پھیر دینے کو تیار نہ ہو جاوے اور ہر ذلّت اور سختی اور تنگی خدا کے لئے گوارا کرنے کو تیار نہ ہو یہ صفت پیدا نہیں ہو سکتی۔ بُت پرستی یہی نہیں کہ انسان کسی درخت یا پتھر کی پرستش کرے بلکہ ہر ایک چیز جو اللہ تعالیٰ کے قرب سے روکتی اور اس پر مقدّم ہوتی ہے وہ بُت ہے اور اس قدر بُت انسان اپنے اندر رکھتا ہے کہ اس کو پتا بھی نہیں لگتا کہ میں بُت پرستی کر رہا ہوں ‘‘۔ کہیں آجکل کے زمانے میں ڈرامے بُت بن گئے ہیں۔ کہیں انٹرنیٹ بُت بن گیا ہے۔ کہیں دنیا کمانا بُت بن گیا ہے۔ کہیں اور خواہشات بُت بن گئی ہیں۔ پر آپ نے فرمایا کہ انسان کو پتا ہی نہیں لگتا کہ میں بُت پرستی کر رہاہوں اور وہ اندر ہی اندر کر رہا ہوتا ہے۔ پس فرمایا کہ ’’ پس جب تک خالص خدا تعالیٰ ہی کے لئے نہیں ہو جاتا اور اس کی راہ میں ہر مصیبت کی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا صدق اور اخلاص کا رنگ پیدا ہونا مشکل ہے‘‘۔ فرمایا کہ ’’ابراہیم علیہ السلام کو جو یہ خطاب ملا یہ یونہی مل گیا تھا؟ نہیں۔ اِبْرَاھِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰی کیآواز اُس وقت آئی جب وہ بیٹے کی قربانی کے لئے تیار ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ عمل کو چاہتا ہے اور عمل ہی سے راضی ہوتا ہے اور عمل دُکھ سے آتا ہے۔ ‘‘ عمل دُکھ سے آتا ہے یعنی انسان کو جو نیک اعمال ہیں ان کے بجا لانے کے لئے اور اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے والے اعمال کے لئے قربانی کرنی پڑتی ہے۔ اپنے آپ کو تکلیف اور دُکھ میں ڈالنا پڑتا ہے۔ لیکن دُکھ میں ہمیشہ نہیں رہتا انسان۔ عمل کرنے میں بیشک دُکھ ہے لیکن دُکھ میں ہمیشہ نہیں رہتا انسان۔ فرمایا ’’لیکن جب انسان خدا کے لئے دُکھ اٹھانے کے لئے تیار ہو جاوے تو خداتعالیٰ اُس کو دُکھ میں بھی نہیں ڈالتا۔ … ابراہیم علیہ السلام نے جب اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کے لئے اپنے بیٹے کو قربان کر دینا چاہا اور پوری تیار کر لی تو اللہ تعالیٰ نے اس کے بیٹے کو بچا لیا‘‘۔ بیٹے کی جان بھی بچ گئی اور باپ کو بیٹے کی قربانی کی وجہ سے جو دُکھ ہونا تھا اس دُکھ سے بھی نجات ہو گئی۔ فرمایا کہ ’’وہ آگ میں ڈالے گئے(حضرت ابراہیم علیہ السلام) لیکن آگ اُن پر کوئی اثر نہ کر سکی‘‘۔ فرماتے ہیں کہ اگر انسان ’’ اللہ تعالیٰ کی راہ میں تکلیف اٹھانے کو تیار ہو جاوے تو خدا تعالیٰ تکالیف سے بچا لیتا ہے۔ ‘‘(ملفوظات جلد 4 صفحہ 429-430۔ ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر فرمایا:

’’مختصراً بعض انتظامی باتوں اور واقفین کے لئے لائحہ عمل کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ بعض لوگ سوال اٹھاتے ہیں۔ بعض واقفین نَو کے ذہنوں میں غلط فہمیاں ہیں کہ وقفِ نَوہو کر ان کی کوئی علیحدہ ایک شناخت بن گئی ہے۔ شناخت تو بیشک بن گئی ہے لیکن اس شناخت کے ساتھ ان سے غیر معمولی طور پرامتیازی سلوک نہیں ہو گا بلکہ اس شناخت کے ساتھ ان کو اپنی قربانیوں کے معیار بڑھانے ہوں گے۔ بعض لوگ اپنے واقفینِ نَو بچوں کے دماغوں میں یہ بات ڈال دیتے ہیں کہ تم بڑے اسپیشل بچے ہو جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بڑے ہو کر بھی ان کے دماغوں میں اسپیشل ہونا رہ جاتا ہے۔ اور یہاں بھی اس قسم کی باتیں مجھے پہنچی ہیں۔ وہ وقف کی حقیقت کو پیچھے کر دیتے ہیں اور وقفِ نو کے ٹائٹل کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھ لیتے ہیں کہ ہم اسپیشل ہو گئے‘‘۔

مزید فرمایا:

’’ جیسا کہ میں نے کہا بڑے اسپیشل ہیں لیکن اسپیشل ہونے کے لئے ان کو ثابت کرنا ہو گا۔ کیا ثابت کرنا ہو گا ؟کہ وہ خدا تعالیٰ سے تعلق میں دوسروں سے بڑھے ہوئے ہیں تب وہ اسپیشل کہلائیں گے۔ ان میں خوفِ خدا دوسروں سے زیادہ ہے تب وہ اسپیشل کہلائیں گے۔ ان کی عبادتوں کے معیار دوسروں سے بہت بلند ہیں تب وہ اسپیشل کہلائیں گے۔ وہ فرض نمازوں کے ساتھ نوافل بھی ادا کرنے والے ہیں تب وہ اسپیشل کہلائیں گے۔ ان کے عمومی اخلاق کا معیار انتہائی اعلیٰ درجہ کا ہے۔ یہ ایک نشانی ہے اسپیشل ہونے کی۔ ان کی بول چال، بات چیت میں دوسروں کے مقابلے میں بہت فرق ہے۔ واضح پتا لگتا ہے کہ خالص تربیت یافتہ اور دین کو دنیا پر ہر حالت میں مقدم کرنے والا شخص ہے تب اسپیشل ہوں گے۔ لڑکیاں ہیں تو ان کا لباس اور پردہ صحیح اسلامی تعلیم کا نمونہ ہے جسے دوسرے لوگ بھی دیکھ کر رشک کرنے والے ہوں اور یہ کہنے والے ہوں کہ واقعی اس ماحول میں رہتے ہوئے بھی ان کے لباس اور پردہ ایک غیر معمولی نمونہ ہے تب اسپیشل ہوں گی۔ لڑکے ہیں تو ان کی نظریں حیا کی وجہ سے نیچے جھکی ہوئی ہوں نہ کہ ادھر ادھر غلط کاموں کی طرف دیکھنے والی تب اسپیشل ہوں گے۔ انٹرنیٹ اور دوسری چیزوں پر لغویات دیکھنے کی بجائے وہ وقت دین کا علم حاصل کرنے کے لئے صرف کرنے والے ہوں تو تب اسپیشل ہوں گے۔ لڑکوں کے حلیے دوسروں سے انہیں ممتاز کرنے والے ہوں تو تب اسپیشل ہوں گے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 28 ؍اکتوبر2016 ءبمقام مسجد بیت الاسلام، ٹورانٹو، کینیڈا)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 18 ؍نومبر 2016ء)

غیر اخلاقی باتوں سے دُور رہیں

غیراخلاقی امور نہ صرف گناہ ہیں اور گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں بلکہ انسان کی فطرت پر بھی اس کے نہایت بداثرات مرتّب ہوتے ہیں۔ اس حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک موقع پر واقفینِ نَو کو زرّیں نصائح کرتے ہوئے فرمایا:

’’مومن کی ایک اَور نشانی یہ ہے کہ وہ نامناسب اور غیراخلاقی چیزوں سے دُور رہتا ہے۔ نوجوانی کی عمر میں اور خاص طور پر مغربی معاشرے میں اس بات کا خطرہ ہے کہ ایک شخص بے حیائی سے متأثرہوجائے اور پھر متأثر ہوجانے کی وجہ سے گمراہ ہوجائے۔ مثلاً غیر اخلاقی اور فحش پروگرام باقاعدگی کے ساتھ ٹی وی پر دکھائے جاتے ہیں اور انٹرنیٹ پر ان کا دستیاب ہونا ایک معمول کی بات ہے۔ یہ انتہائی بیہودہ اور گناہ کا موجب ہیں جن سے ایک مومن کو لازماًبہت دُور رہنا چاہئے۔ یقیناً ایک واقفِ نَو جس کے والدین نے اس کی پیدائش سے پہلے عہد کیا تھا کہ ان کا ہونے والا بچہ اپنی پوری زندگی دین کی خدمت میں گزارے گا اُسےتو خاص طور پر ان غیر اخلاقی باتوں سے دُور رہنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسی چیزیں انسان کو دین سے دُور لے جاتی ہیں۔ اس لئے حقیقی مومنین کو ایسی لغویات اور ہر قسم کی غلط باتوں سے اپنے آپ کو بچانا چاہئے۔ ‘‘(خطاب برموقع نیشنل اجتماع وقفِ نو یُوکے28 ؍فروری 2016 ءمسجدبیت الفتوح، لندن)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 12 ؍اگست 2016ء)

میڈیا کے شعبہ میں بھی تعلیم حاصل کریں

میڈیا کے شعبہ کی عالمی سطح پر وسعت کے پیش نظر احمدیوں کو اس فیلڈ میں مہارت حاصل کرنے کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے۔ میڈیا کی فیلڈ میں اہم کردار ادا کرنے کے حوالہ سے مستقبل میں میڈیا کے ماہرین کی تیاری اور اس شعبہ میں جماعتی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے واقفینِ نَو اور واقفاتِ نَو کو بارہا توجہ دلائی ہے۔ چنانچہ ایک موقع پر فرمایا:

’’ہمیں ایسے واقفین کی بھی ضرورت ہے جو میڈیا اور ذرائع ابلاغ کے شعبوں میں تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ ہیں۔ ایم ٹی اے کا کام دن بدن وسعت اختیار کر رہا ہے اور اَب ہم نے ریڈیو اسٹیشن Voice of Islamکا بھی اجرا کیا ہے۔ ابھی یہ ریڈیو اسٹیشن اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔ لیکن ہماری خواہش ہے کہ ہم مسلسل اس کو ترقی دیں اور اس کے دائرہ کو وسیع تر کریں۔ اس کے لئے ہمیں مناسب افرادی قوت کی ضرورت ہے۔ پھر ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے علاوہ دوسرے مقامی ایم ٹی اے سٹوڈیوز بھی ہیں۔ بعض جگہوں پر یا تو نئے ایم ٹی اے اسٹوڈیوز کا اجرا کیا جارہا ہےیا متعدد ممالک میں موجودہ ایم ٹی اے کے نظام کو مزید ترقی دی جارہی ہے۔ اس لئے آپ میں سے وہ جن کی قابلیت یا دلچسپی اس شعبہ میں ہے انہیں چاہئے کہ وہ broadcast میڈیا یا اس سے ملتے جلتے ٹیکنیکی شعبوں کو اختیار کریں۔ ہمیں صحافیوں اور میڈیا کے ماہرین کی بھی ضرورت ہے۔ کیونکہ mass mediaکا اثرو رسوخ دن بدن بڑھ رہاہے۔ اس لئے ہمیں اپنے لوگوں کی ضرورت ہےجو اسلام کی حقیقی تعلیمات کو میڈیا کے ذریعہ سے دنیا کے سامنے پیش کریں۔ چنانچہ واقفین نَو کی حیثیت سے آپ کو جماعت کی ضروریات کو مد نظررکھنا چاہئے۔ اور انہیں ضروریات پر مبنی اپنی تعلیم حاصل کرنی چاہئے اور پھر اس کے لئے حتی الوسع محنت کرنی چاہئے۔ جب آپ اپنے متعلّقہ شعبہ میں تعلیم اور تربیت حاصل کر چکے ہوں تو پھر اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ نے جماعت کو اطلاع دے دی ہے اور اپنے آپ کو باقاعدہ واقفِ زندگی کے طور پر پیش کر دیا ہے اور پھر خدمت کے لئے تیار ہو جائیں۔ ‘‘(خطاب برموقع نیشنل اجتماع وقفِ نَویُوکے 28 ؍فروری 2016ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 12 ؍اگست 2016ء)

اس اہم موضوع کے حوالہ سے مذکورہ بالا خطاب سے ایک روز قبل بھی حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے واقفاتِ نَو کے سالانہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا:

’’ ہماری جماعت میں اس چیز کی خاص ضرورت ہے کہ احمدی خواتین ڈاکٹر یاٹیچر بنیں۔ اس کے علاوہ میڈیا کے شعبہ جات میں تعلیم حاصل کرنے والی خواتین کی خدمات چاہئیں جو ایم ٹی اے اور جماعت کے دیگر شعبہ جات میں ذمہ داریاں ادا کرسکیں۔ اور ہمیں صحافت کے شعبہ میں بھی خواتین کی ضرورت ہے۔ آپ میں سے جو بھی ان شعبہ جات میں دلچسپی رکھتی ہوں انہیں ان شعبہ جات میں تعلیم حاصل کرنی چاہئے۔ ‘‘(خطاب برموقع نیشنل اجتماع واقفاتِ نَو یوکے 27 ؍فروری 2016ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن)(مطبوعہ رسالہ مریم واقفاتِ نَو شمارہ نمبر 18 اپریل تا جون 2016ء)

ایم ٹی اے پر باقاعدگی سے خطبات سنیں

خلیفۂ وقت کے ارشادات احمدیوں میں روحانی زندگی کے قیام کی ضمانت اور آئندہ نسلوں کی اصلاح و تربیت کا نہایت اہم ذریعہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضور انور نے اپنے خطباتِ جمعہ سننے کی طرف خصوصاً واقفینِ نَو اور واقفاتِ نَو کوتوجہ دلاتے ہوئے فرمایا:

’’ایم ٹی اے پر کم از کم میرے خطبات جو ہیں وہ باقاعدگی سے سننے ہوں گے اور یہ باتیں صرف واقفین نَوکے والدین کے لئے ضروری نہیں بلکہ ہر وہ احمدی جو چاہتا ہے کہ ان کی نسلیں نظام جماعت سے وابستہ رہیں انہیں چاہئے کہ اپنے گھروں کو احمدی گھر بنائیں، دنیا داروں کے گھر نہ بنائیں ورنہ اگلی نسلیں دنیا میں پڑ کر نہ صرف احمدیت سے دور چلی جائیں گی بلکہ خدا تعالیٰ سے بھی دور ہو جائیں گی اور اپنی دنیا و عاقبت دونوں برباد کریں گی۔

خدا کرے کہ نہ صرف تمام واقفین نَوبچے خدا تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرنے والے اور تقویٰ پر چلنے والے ہوں بلکہ ان کے عزیزوں کے عمل بھی ان کو ہر قسم کی بدنامی سے بچانے والے ہوں۔ بلکہ ہر احمدی وہ حقیقی احمدی بن جائے جس کی بار بار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں تلقین فرمائی ہے تا کہ دنیا میں جلد تر ہم احمدیت اور حقیقی اسلام کا جھنڈا اٹھتا ہوا دیکھیں۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 28 ؍اکتوبر 2016 ءبمقام مسجدبیت السلام، ٹورانٹو، کینیڈا)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 18 ؍نومبر2016ء)