سوشل میڈیا (Social Media)

فہرست مضامین

مومن لغویات سے پرہیز کرتا ہے

حیاکا معیاربلند کرنے کی ضرورت

جدید ایجادات اور مواصلاتی نظام کے غیر محتاط استعمال کے نتیجہ میں دنیا کے ہر معاشرہ میں اخلاقی برائیوں میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ان بڑھتی ہوئی معاشرتی بداخلاقیوں سے احباب جماعت اور خصوصاً احمدی نوجوانوں کو بچنے کی خصوصی تلقین حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بارہا فرمائی ہے۔ اسی حوالہ سے ایک خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا:

’’… آج کل کی دنیاوی ایجادات جیسا کہ مَیں نے شروع میں بھی ذکر کیا تھا، ٹی وی ہے، انٹرنیٹ وغیرہ ہے اس نے حیا کے معیار کی تاریخ ہی بدل دی ہے۔ کھلی کھلی بے حیائی دکھانے کے بعد بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ بے حیائی نہیں ہے۔ پس ایک احمدی کے حیا کا یہ معیار نہیں ہونا چاہئے جو ٹی وی اور انٹرنیٹ پرکوئی دیکھتا ہے۔ یہ حیا نہیں ہے بلکہ ہوا وہوس میں گرفتاری ہے۔ بے حجابیوں اور بے پردگی نے بعض بظاہر شریف احمدی گھرانوں میں بھی حیاکے جو معیار ہیں، الٹا کر رکھ دئیے ہیں۔ زمانہ کی ترقی کے نام پر بعض ایسی باتیں کی جاتی ہیں، بعض ایسی حرکتیں کی جاتی ہیں جو کوئی شریف آدمی دیکھ نہیں سکتا چاہے میاں بیوی ہوں۔ بعض حرکتیں ایسی ہیں جب دوسروں کے سامنے کی جاتی ہیں تو وہ نہ صرف ناجائز ہوتی ہیں بلکہ گناہ بن جاتی ہیں۔ اگر احمدی گھرانوں نے اپنے گھروں کو ان بیہودگیوں سے پاک نہ رکھا تو پھر اُس عہد کا بھی پاس نہ کیا اور اپنا ایمان بھی ضائع کیا جس عہد کی تجدید انہوں نے اس زمانہ میں زمانے کے امام کے ہاتھ پہ کی ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑا واضح فرمایا ہے کہ:

اَلْحَیَآءُ شُعْبَۃٌ مِّنَ الْاِیْمَانِ
(مسلم کتاب الایمان باب شعب الایمان وافضلھا… حدیث نمبر 59)

ترجمہ:حیا بھی ایمان کا ایک حصہ ہے۔

پس ہر احمدی نوجوان کو خاص طور پر یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ آج کل کی برائیوں کو میڈیا پر دیکھ کر اس کے جال میں نہ پھنس جائیں ورنہ ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ انہی بیہودگیوں کا اثر ہے کہ پھر بعض لوگ جو اس میں ملوث ہوتے ہیں تمام حدود پھلانگ جاتے ہیں اور اس وجہ سے پھر بعضوں کو اخراج از جماعت کی تعزیر بھی کرنی پڑتی ہے۔ ہمیشہ یہ بات ذہن میں ہو کہ میرا ہر کام خداتعالیٰ کی رضا کے لئے ہے۔

ایک حدیث میں آتا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا بےحیائی ہرمرتکب کوبدنمابنادیتی ہےاورشرم وحیا ہر حیادار کو حسن و سیرت بخشتا ہے اور اسے خوبصورت بنا دیتا ہے۔ ‘‘(ترمذی کتاب البر والصلۃ باب ما جاء فی الفحش والتفحش۔ حدیث نمبر 1974)(خطبہ جمعہ فرمودہ 15؍ جنوری 2010ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 5 ؍فروری 2010ء)

زینت کے نام پر بے حیائی

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے متعدد مواقع پر معاشرے میں بے حیائی کی بڑھتی ہوئی روش کو انتہائی خطرناک قرار دیا ہے نیز اِس سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے غضِّ بصر یعنی اپنی نظروں کی حفاظت کرتے ہوئے اُنہیں حیا سے جھکا لینے کی اسلامی تعلیم کو بھی متعدّد مواقع پر تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ اپنے ایک خطاب میں احمدی خواتین کو ارشاد فرمایا:

’’جیسا کہ مَیں نے کہا لباس بے حیائی والا لباس ہوتا چلا جارہا ہے۔ پھر بڑے بڑے اشتہاری بورڈ کے ذریعہ سے، ٹی وی پر اشتہارات کے ذریعہ سے، انٹرنیٹ پر اشتہارات کے ذریعہ سے بلکہ اخباروں کے ذریعہ سے بھی اشتہار دئیے جاتے ہیں کہ شریف آدمی کی نظر اس پر پڑجاتی تو شرم سے نظر جھک جاتی ہے اور جھکنی چاہئے۔ یہ سب کچھ ماڈرن سوسائٹی کے نام پر، روشن خیالی کے نام پر ہوتا ہے۔ بہرحال جیسا کہ مَیں نے کہا یہ زینت اب بے حیائی بن چکی ہے یعنی زینت کے نام پربے حیائی کی اشتہار بازی ہے۔ ‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ جرمنی29 ؍جون 2013 ءبمقام کالسروئے، جرمنی)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 18 ؍اکتوبر 2013ء)

معاشرے کی بُرائیوں کا بین الاقوامی پھیلاؤ

موجودہ دَور میں مواصلاتی نظام میں غیرمعمولی وسعت کی وجہ سے اخلاقی بُرائیوں کا دائرہ بھی تیزی کے ساتھ پھیلتا جا رہا ہے۔ چنانچہ اس اہم موضوع کے بارہ میں احباب جماعت کی توجہ مبذول کراتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا:

’’آجکل جو عملی خطرہ ہے وہ معاشرے کی برائیوں کی بے لگامی اور پھیلاؤہے اور اس پر مستزاد یہ کہ آزادیٔ اظہار اور تقریر کے نام پر بعض برائیوں کو قانونی تحفظ دیا جاتا ہے۔ اس زمانے سے پہلے برائیاں محدود تھیں۔ یعنی محلے کی برائی محلے میں یا شہر کی برائی شہر میں یا ملک کی برائی ملک میں ہی تھی۔ یازیادہ سے زیادہ قریبی ہمسائے اُس سے متاثر ہو جاتے تھے۔ لیکن آج سفروں کی سہولتیں، ٹی وی، انٹرنیٹ اور متفرق میڈیا نے ہر فردی اور مقامی برائی کو بین الاقوامی برائی بنا دیا ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعہ ہزاروں میلوں کے فاصلے پر رابطے کر کے بے حیائیاں اور برائیاں پھیلائی جاتی ہیں۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 6؍ دسمبر 2013 ءبمقام مسجدبیت الفتوح، لندن)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 27 ؍دسمبر 2013ء)