صبرو استقامت کے شہزادے

فہرست مضامین

اَحد اَحد

حضرت بلالؓ کا بھی ان سرفروشوں میں نمایاں نام ہے۔ انہیں اللہ کی راہ میں اپنے نفس کی کسی تکلیف کی کوئی پرواہ نہ تھی اور اپنی قوم کی نظر میں وہ بالکل بے حقیقت تھے۔ کفار انہیں لڑکوں کے حوالے کر دیتے جو انہیں مکہ کی گلیوں میں گھسیٹتے پھرتے مگر بلال کے منہ سے اَحد اَحد کی صدا بلند ہوتی رہتی تھی یعنی خدا ایک ہے، خدا واحد ہے۔ (مستدرک حاکم کتاب معرفۃ الصحابہ جلد3 صفحہ 284 مکتبہ النصر الحدیثہ۔ ریاض)

حضرت بلالؓ کا آقا اُمیہ بن خلف ظلم کی انتہا کر دیتا تھا۔ عین تپتی دوپہر کے وقت ان کو باہر نکالتا ایک بھاری پتھر ان کے سینہ پر رکھتا اور پھر کہتا: یہ پتھر نہیں ہٹاؤں گا جب تک تو مر نہ جائے یا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا انکار کر کے لات اور عزّٰی کی عبادت نہ کرنے لگے۔ حضرت بلالؓ اس کے جواب میں اَحد اَحد پکارتے رہتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے انہیں اس حال میں دیکھا تو خرید کر آزاد کر دیا۔ (البدایہ و النہایہ جلد3 صفحہ57 ازحافظ ابن کثیر طبع اولیٰ۔ 1966۔ مکتبہ معارف بیروت)

انگاروں کوٹھنڈاکرنے والا

حضرت خباب بن ارتؓ کاذکرپہلے گزراہے وہ ایک لوہارتھے۔ مشرکین انہی کی بھٹی سے انگارے دہکاتے اورانہیں انگاروں پر لٹادیتے۔ یہاں تک کہ جسم سے رطوبت نکل نکل کر ان انگاروں کر سردکردیتی۔ مگر یہ مردمجاہد کسی طور پرصداقت سے سرموانحراف کرنے کے لئے تیارنہ ہوتا۔ (کنزالعمال علاؤ الدین علی المتقی۔ جلد7صفحہ32کتاب الفضائل۔ مطبع دائرۃ المعارف النظامیہ حیدرآباد1314ھ)

حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ حضرت خبابؓکی پیٹھ دیکھی تو فرمایامیں نے کبھی کسی شخص کی ایسی پیٹھ نہیں دیکھی۔

سر پر گرم لوہا

حضرت خبابؓ کی مالکن اُمّ انمار لوہا سخت گرم کرتی اور حضرت خبابؓ کے سر پر رکھ دیتی۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت کی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے اُمّ انمار کو سر میں ایک بیماری ہوگئی اور حضرت خبابؓ نے اس کے مظالم سے نجات پائی۔ (اسدالغابہ جلد2 صفحہ98۔ از عبدالکریم جزری مکتبہ اسلامیہ طہران)

حواس کھو بیٹھے

حضرت ابو فکیہہؓ ابتدائی مسلمانوں میں سے تھے۔ حضرت بلالؓ کے ساتھ اسلام لائے تھے۔ آپ صفوان بن اُمیہ کے غلام

تھے۔ اسلام لائے تو صفوان آپ کو رسی سے باندھتا اور گرم پتھروں پر گھسیٹتا۔ پھر گلے میں کپڑا ڈال کر گھونٹتا۔ صفوان کے ساتھ اس کا بھائی اُمیہ بھی شریک تھا جو کہتا تھا اسے مزید عذاب دو۔ چنانچہ وہ دونوں یہ سلسلہ جاری رکھتے۔ یہاں تک کہ حضرت ابوفکیہہؓ کے مرنے کا شبہ ہونے لگتا۔

تاریخ بتاتی ہے کہ صرف ان کا آقا ہی نہیں سارا قبیلہ ان کے درپئے آزار تھا۔ ان کو قبیلے والے سخت گرمی میں نکالتے، پاؤں میں بیڑیاں ڈالتے، پھر گرم پتھروں پر لٹاتے اور اوپر وزنی پتھر رکھ دیتے یہاں تک کہ اذیت کی شدت اور سخت گرمی کی وجہ سے وہ اپنے حواس کھو بیٹھتے۔

یہ عذاب جاری تھاکہ حضرت ابوبکرؓ نے انہیں صفوان سے خرید کر آزاد کر دیا اور وہ حبشہ ہجرت کر کے چلے گئے۔ (اسد الغابہ جلد5 صفحہ273 از عبدالکریم جزری مکتبہ اسلامیہ طہران)

قید و بند اور بھوک پیاس

عام مارپیٹ کے ساتھ قید و بند اور بھوک پیاس کی اذیت کا سلسلہ بھی بدستور جاری تھا مگر وہ سرفروش زنجیروں کی جھنکاروں کے ساتھ ساتھ عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے گیت گاتے رہے اور اپنے رب کی رضا اور محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ ان کی ہر بھوک اور پیاس کامداوا تھا۔

تاریک گھاٹی کے قیدی

مسلسل تکلیف دینے کے باوجود بھی جب کفار مکہ نے دیکھا کہ مسلمان صبرواستقامت سے ان تمام مراحل کو برداشت کرتے چلے جا رہے ہیں اور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے تو انہوں نے محرم 7 نبوی میں ایک باقاعدہ معاہدہ لکھا کہ:۔

کوئی شخص خاندان بنو ہاشم اور بنو مطلب کے پاس کوئی چیز فروخت نہ کرے گا۔ نہ ان سے کچھ خریدے گا۔ نہ ان کے پاس کوئی کھانے پینے کی چیز جانے دے گا۔ نہ ان کے ساتھ رشتہ کرے گا۔ نہ ان سے کسی قسم کا تعلق رکھے گا جب تک وہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے الگ نہیں ہو جاتے۔ اس معاہدہ پر تمام بڑے بڑے رؤساء کے دستخط ہوئے اور پھر قومی عہد نامہ کے طور پر کعبہ میں لٹکا دیا گیا۔ چنانچہ مسلمان اور ان کے حامی شعب ابی طالب میں قیدیوں کی طرح نظر بند کر دیے گئے۔ (سیرت ابن ہشام حالات شعب ابی طالب۔ طبقات ابن سعدذکرحصرقریش)

ان ایام میں محصورین کو جو سختیاں برداشت کرنی پڑیں ان کا حال پڑھ کر بدن پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ مگر آفرین ہے ان پر کہ کسی ایک نے بھی ایک لمحہ کے لیے بھی استقامت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ صحابہ بیان کرتے ہیں کہ بعض اوقات انہوں نے جانوروں کی طرح جنگلی درختوں کے پتے کھاکھا کر گزارہ کیا۔ (السیرۃ المحمدیہ باب اجتماع المشرکین علی منابذہ بنی ہاشم)

معلوم نہیں کیا تھا

حضرت سعدؓ بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رات کے وقت ان کا پاؤں کسی ایسی چیز پر جا پڑا جو تَر اور نرم معلوم ہوتی تھی ان کی بھوک کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے فوراً اُسے اُٹھا کر نگل لیا اور وہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے آج تک پتہ نہیں وہ کیا چیز تھی۔

ایک دوسرے موقع پر بھوک کی وجہ سے ان کا یہ حال تھا کہ انہیں ایک سوکھا ہوا چمڑا مل گیا تو اس کوانہوں نے پانی میں نرم کیا اور پھر بھون کر کھالیا۔ (الروض الانف جلد2صفحہ160۔ حالات نقض الصحیفۃ)

بچوں کی یہ حالت تھی کہ بھوک سے ان کے رونے اور چلانے کی آواز باہر جاتی تھی تو قریش اُسے سن سن کر خوش ہوتے۔ حضرت حکیم بن حزامؓ ایک دفعہ اپنی پھوپھی حضرت خدیجہؓ کے لیے خفیہ طور پر کوئی کھانے کی چیز لے کر جا رہے تھے کہ ابوجہل کو پتہ لگ گیا تو اس نے سختی کے ساتھ روکا۔ (سیرۃ النبیؐ ابن کثیر جلد2 صفحہ 47تا 50 دارالاحیاء التراث العربی بیروت)

تین سال کے بعد اس مصیبت سے مسلمانوں نے رہائی پائی۔