صبرو استقامت کے شہزادے

فہرست مضامین

رشتہ داروں سے جدائی

صحابہؓ پر جو ایک گہرا جذباتی وار کیا گیا وہ رحمی رشتوں کاانقطاع تھا۔ ان کے اہل خاندان نے نہ صرف ان سے تمام تعلق توڑ لیے بلکہ ان پر مظالم کی بھی قیادت کرتے رہے۔ مگر صحابہؓ اس امتحان سے بھی سرخرو ہو کر نکلے۔ جیسا کہ متعدد واقعات پہلے درج کیے جا چکے ہیں۔ چند مزید نمونے پیش خدمت ہیں۔

جبری طلاق

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ نبوت سے قبل آپ کی دو بیٹیوں حضرت رقیہؓ اور حضرت ام کلثومؓ کے نکاح ابولہب کے دو بیٹوں عتبہ اور عتیبہ سے ہو چکے تھے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کا اعلان فرمایا تو ابولہب اور اس کی بیوی نے اپنے دونوں بیٹیوں کو حکم دے کررخصتانہ سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں بیٹیوں کو طلاق دلوا دی۔ یہ دونوں مقدس خواتین بعد میں یکے بعد دیگرے حضرت عثمانؓ کے عقد میں آئیں اور حضرت عثمانؓ نے ذوالنّورین کا لقب پایا۔ (اسد الغابہ جلد5 صفحہ612 از محمد بن عبدالکریم الجزری۔ مکتبہ اسلامیہ طہران)

اگر سَو جانیں ہوں

حضرت سعدؓ بن ابی وقاص والدہ سے بہت محبت اور حسن سلوک کرنے والے تھے۔ جب وہ اسلام لائے تو ان کی ماں نے کہا یہ تو نے کیا دین اختیار کر لیا ہے۔ اسے چھوڑ دے ورنہ میں کچھ کھاؤں گی نہ پیؤں گی یہاں تک کہ مر جاؤں۔ مگر حضرت سعدؓ نے انکار کر دیا اور ماں نے بھوک ہڑتال شروع کر دی اور ایک دن رات اسی طرح گزر گیا اور وہ بہت کمزور ہوگئی۔ مگر دین کے معاملہ میں حضرت سعدؓ نے غیر معمولی استقامت کا مظاہرہ کیا اور انہوں نے اپنی والدہ سے کہا: اگر تیرے سینہ میں ہزار جانیں بھی ہوں اور ایک ایک کر کے ساری نکل جائیں تب بھی میں کسی قیمت پر اس دین سے جدا نہیں ہوسکتا۔ یہ سن کر ان کی والدہ نے کھانا پینا شروع کر دیا۔ (اسد الغابہ جلد2 صفحہ292 از عبدالکریم جزری )

خاندان بکھر گیا

حضرت ابوسلمہؓ نے قریش کے مظالم سے تنگ آ کر مدینہ ہجرت کا ارادہ کیا۔ اپنے ساتھ اپنی بیوی اُمّ سلمہ ہند اور بیٹے سلمہ کو اونٹ پر سوار کیا اور مدینہ کی طرف چل پڑے۔ جب اُمّ سلمہ کے قبیلہ بنو مغیرہ کو معلوم ہوا تو وہ لپک کر پہنچے اور ابوسلمہ سے کہا کہ تیری ذات تو ہم سے جدا ہو سکتی ہے مگر تو ہمارے قبیلہ کی عورت کو نہیں لے جا سکتا۔

یہ کہہ کر انہوں نے اونٹ کی نکیل کو ابوسلمہ کے ہاتھ سے چھین لیا اور انہیں اکیلے ہجرت کی اجازت دے کر اُم سلمہ کو روک لیا اور قید کر دیا۔

جب ابوسلمہ کے قبیلہ بنو عبدالاسد تک یہ خبر پہنچی تو وہ دوڑے آئے اور کہا کہ ابوسلمہؓ کا بیٹا تو ہمارے قبیلہ کا فرد ہے اسے ہم ماں کے پاس نہیں رہنے دیں گے اور یہ کہہ کر اُمّ سلمہ سے ان کا بیٹا بھی چھین لیا جو گود کا شیر خوار بچہ تھا۔ اس طرح بیوی کو خاوند سے اور بیٹے کو ماں سے جدا کر دیا گیا۔ حضرت اُمّ سلمہ فرماتی ہیں کہ میں روزانہ صبح باہر نکل جاتی اور ویرانوں میں بیٹھ کر سارا دن آنسو بہاتی رہتی اور اس طرح پورا سال اسی حال میں گزر گیا۔ یہاں تک کہ بنو مغیرہ کے ایک آدمی کو ان پر رحم آ گیا۔ ان کو بچہ واپس کیا گیا اور مدینہ جانے کی اجازت دی گئی اور وہ اکیلی بچے کو لے کر مدینہ پہنچیں۔ (سیرۃ ابن ہشام جلد2 صفحہ112 مطبع مصطفی البابی الحلبی۔ مصر 1936ء)

یہی اُمّ سلمہؓ اپنے خاوند کی شہادت کے بعد رسول کریمؐ کے عقد میں آئیں اور اُمّ المؤمنین کہلائیں۔