صبرو استقامت کے شہزادے

فہرست مضامین

دُکھ اُٹھانے اور صبر کرنے والے

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :۔

“ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانہ میں خود سبقت کر کے ہرگز تلوار نہیں اُٹھائی بلکہ ایک زمانہ دراز تک کفار کے ہاتھ سے دُکھ اُٹھایا اور اس قدر صبر کیا جو ہر ایک انسان کا کام نہیں اور ایسا ہی آپ کے اصحاب بھی اسی اعلیٰ اصول کے پابند رہے اور جیسا کہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ دُکھ اُٹھاؤ اور صبر کرو، ایسا ہی انہوں نے صدق اور صبر دکھایا۔ وہ پیروں کے نیچے کچلے گئے۔ انہوں نے دم نہ مارا۔ ان کے بچے ان کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کیے گئے۔ وہ آگ اور پانی کے ذریعہ سے عذاب دیے گئے۔ مگر وہ شر کے مقابلہ سے ایسے باز رہے کہ گویا وہ شیر خوار بچے ہیں۔ کون ثابت کر سکتا ہے کہ دنیا میں تمام نبیوں کی اُمتوں میں سے کسی ایک نے بھی باوجود قدرت انتقام ہونے کے خدا کا حکم سن کر ایسا اپنے تئیں عاجز اور مقابلہ سے دست کش بنا لیا، جیسا کہ انہوں نے بنایا؟ کس کے پاس اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا میں کوئی اور بھی ایسا گروہ ہوا ہے، جو باوجود بہادری اور جماعت اور قوت بازو اور طاقت مقابلہ اور پائے جانے تمام لوازم مردمی اور مردانگی کے پھر خونخوار دشمن کی ایذاء اور زخم رسانی پر تیرہ برس تک برابر صبر کرتا رہا”۔ (گورنمنٹ انگریزی اور جہاد۔ روحانی خزائن جلد نمبر17 صفحہ10)

دشمنوں کی اذیتوں اور دکھوں پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کا ردعمل

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :۔

’’ایک دفعہ حضرت خباب بن ارتؓ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ یا رسول اللہ! مسلمانوں کو قریش مکہ کے ہاتھوں اتنی تکالیف پہنچی ہیں۔ اتنی تکالیف پہنچ رہی ہیں کہ اب تو حد ہوگئی ہے۔ یارسول اللہ! آپ ان پر بددعا کیوں نہیں کرتے۔ آپ نے جب یہ سنا اس وقت آپ لیٹے ہوئے تھے، جوش سے اُٹھ کر بیٹھ گئے اور آپ کا چہرہ غصہ سے تمتمانے لگا۔ آپؐ نے فرمایا:دیکھو! تم سے پہلے وہ لوگ بھی گزرے ہیں جن کا گوشت لوہے کے کانٹوں سے نوچ کر ہڈیوں تک صاف کر دیا گیا اور ایسے بھی تھے جن کے جسم آروں سے چیر دیے گئے لیکن انہوں نے اُف تک نہ کی۔ دیکھو! خدا اس کام کو ضرور پورا کرے گا جو کام اس نے میرے سپرد کیا ہے۔

یہ تھا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ردعمل۔ یہی تربیت تھی جو آپ نے اپنے غلاموں کو دی اور یہی ردعمل تھا جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں سے ظاہر ہوتا رہا۔ چنانچہ حضرت خبیب بن عدیؓ کے متعلق حدیثوں میں آتا ہے کہ وہ جب جان دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور تلوار ان پر گر کر ان کا سر تن سے جدا کرنے کو تھی تو گھبراہٹ نہیں تھی، کوئی واویلا نہیں تھا۔ ہاں دو شعر ان کی زبان پر جاری ہوئے اور ہمیشہ کے لیے ان کی یاد کو بھی زندہ جاوید کر گئے۔ انہوں نے قتل ہونے سے پہلے یہ شعر پڑھے:۔

فَلَسْتُ اُبَالِی حِیْنَ اُقْتَلُ مُسْلِمًا

عَلٰی أَیِّ شِقٍّ کَانَ لِلّٰہِ مَصْرَعی

وَذَلِک فِیْ ذَاتِ الْاِلٰہِ وَ اِنْ یَشَاْ

یُبَارِک عَلٰی اَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعٖ

کہ اے کفار! میں تو اس بات کی بھی پرواہ نہیں کرتا کہ میں جب قتل کیا جاؤں گا تو کس پہلو پر گروں گا۔ یعنی میری موت چونکہ خدا کی خاطر ہے اس لیے مجھے تو اس کی بھی پرواہ نہیں ہے کہ جب میرا سر تن سے جدا ہوگا تو میں کس کروٹ پر گروں گا۔ خدا کی قسم یہ سب کچھ خدا کی خاطر ہو رہا ہے اور اگر وہ چاہے تو میرے جسم کے ذرہ ذرہ کو برکتوں سے بھر دے گا۔

یہ تھا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کا ردّعمل اور یہی ان کو تعلیم دی گئی تھی۔

پس آج آغاز اسلام کی باتیں کرتے ہوئے ہمیں درود بھیجنا چاہیے اُس محسن اعظم پر جس کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔

مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ کس شان کا وہ رسول تھا اور کس شان کے وہ غلام تھے جو آپ کے ساتھ تھے۔ ان کی کیسی اعلیٰ تربیت کی گئی اور انہوں نے تربیت کا کیسا پیارا رنگ پکڑا۔

پس آؤآج کی دعاؤں میں خصوصیت کے ساتھ ہم درود بھیجیں محسن اعظم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور سلام بھیجیں روح بلالی پر اور سلام بھیجیں روح خباب پر اور سلام بھیجیں روح خبیب پر۔ پس میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ دنیا اِدھر سے اُدھر ہو جائے، زمین و آسمان ٹل جائیں مگر یہ تقدیر نہیں بدل سکتی کہ ہمیشہ ہر حال میں نارِبولھبی یقینا شکست کھائے گی اور نور مصطفوی یقینا کامیاب ہوگا۔ کوئی نہیں جو بلالی اَحد کی آواز کو مٹا سکے۔ کوئی پتھر، کوئی پہاڑ نہیں جو سینوں پر پڑ کر لا الٰہ کی آواز کو دبا سکے۔ کوئی دکھ اور کوئی غم نہیں، کوئی صدمہ نہیں جو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی شہادت سے کسی کو باز رکھ سکے۔

یہ امر یقینا ہمیشہ ہمیش کے لیے زندہ اور قائم رہے گا۔ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ غالب آنے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ مغلوب ہونے کے لیے نہیں بنائے گئے‘‘۔ (الفضل 10 فروری 1983ء)