پردہ

فہرست مضامین

اسلامی پردہ پر اعتراضات اور اُن کا ردّ

پردے کی اسلامی تعلیم پر اعتراضات کا ذکر کرتے ہوئے سیّدنا حضورانور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے اپنے ایک خطاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چنداقتباسات پیش فرمائے اور ان کی ضروری تشریح بھی فرمائی جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ پردہ کی روح کو نہ پہچاننے اور اسلام کے اس حکم پر عمل نہ کرنے کے نتیجہ میں اگرچہ نام نہاد آزادی نصیب ہوجاتی ہے لیکن اُس کی وجہ سے ذاتی اور معاشرتی طور پر بے شمار مسائل کا اضافہ بھی ہوتا چلا جاتا ہے۔ حضورانور نے فرمایا:

’’حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :

’’آج کل پردہ پر حملے کئے جاتے ہیں۔ لیکن یہ لوگ نہیں جانتے کہ اسلامی پردہ سے مراد زندان نہیں۔ ‘‘ یعنی قید خانہ نہیں۔ ’’بلکہ ایک قسم کی روک ہے کہ غیر مرد اور عورت ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکے۔ جب پردہ ہو گا ٹھوکر سے بچیں گے۔ ایک منصف مزاج کہہ سکتا ہے کہ ایسے لوگوں میں جہاں غیرمرد و عورت اکھٹے بلاتأ مّل اور بے محابہ مل سکیں، سیریں کریں کیونکر جذبات نفس سے اضطراراً ٹھوکر نہ کھائیں گے۔ بسا اوقات سننے اور دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسی قومیں غیرمرداور عورت کے ایک مکان میں تنہار ہنے کوحالانکہ دروازہ بھی بند ہو کوئی عیب نہیں سمجھتیں۔ یہ گویا تہذیب ہے‘‘۔ انہی بدنتائج کو روکنے کے لئے شارع اسلام نے وہ باتیں کرنے کی اجازت ہی نہ دی جو کسی کی ٹھوکر کا باعث ہوں۔ ایسے موقعہ پر یہ کہہ دیا کہ جہاں اس طرح غیرمحرم مردو عورت ہر دو جمع ہوں، تیسرا اُن میں شیطان ہوتا ہے۔ اُن ناپاک نتائج پر غور کرو جو یورپ اس خلیع الرسن تعلیم سے بھگت رہاہے‘‘۔ یعنی کہ اتنی آزادی والی تعلیم سے بھگت رہا ہے۔ جہاں کوئی شرم و حیا ہی نہیں رہی اور ’’ بعض جگہ بالکل قابلِ شرم طوائفانہ زندگی بسر کی جارہی ہے۔ یہ انہی تعلیمات کا نتیجہ ہے۔ اگر کسی چیز کو خیانت سے بچانا چاہتے ہو تو حفاظت کرو۔ لیکن اگر حفاظت نہ کرو اور یہ سمجھ رکھو کہ بھلے مانس لوگ ہیں تو یا در کھو کہ ضرور وہ چیز تباہ ہو گی‘‘۔ اس خوش فہمی میں نہ پڑے رہو کہ معاشرہ ٹھیک ہے ہمیں کوئی دیکھ نہیں رہا، یہاں کے ماحول میں پردے کی ضرورت نہیں کیونکہ لوگوں کو دیکھنے کی عادت نہیں۔ فرمایا کہ اگر یہ سمجھ رکھو کہ بھلے مانس لوگ ہیں یا در کھو کہ ضرور وہ چیز تباہ ہو گی۔ ’’اسلامی تعلیم کیسی پاکیزہ تعلیم ہے کہ جس نے مردوعورت کو الگ رکھ کر ٹھوکر سے بچایا اور انسان کی زندگی حرام اور تلخ نہیں کی جس سے یورپ نے آئے دن کی خانہ جنگیاں اور خودکشیاں دیکھیں ‘‘۔ یہ بھی خودکشیوں کا یہاں جواتناہائی ریٹ(high rate)ہے اس کی بھی ایک یہی وجہ ہے ’’بعض شریف عورتوں کا طوائفانہ زندگی بسر کرنا ایک عملی نتیجہ اس اجازت کا ہے جوغیرعورت کو دیکھنے کے لئے دی گئی۔ ‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ 29، 30جدید ایڈیشن)

توآج بھی دیکھ لیں کہ جس بات کی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نشاندہی فرما رہے ہیں جیساکہ مَیں پہلے بھی کہہ آیا ہوں اسی کی وجہ سے بے اعتمادی پیدا ہوئی اور اس بے اعتمادی کی وجہ سے گھر اجڑتے ہیں اور طلاقیں ہو تی ہیں۔ یہاں جو اِن مغربی ممالک میں ستر، اسّی فیصد طلاقوں کی شرح ہے یہ آزاد معاشرے کی وجہ ہی ہے۔ یہ چیزیں برائیوں کی طرف لے جاتی ہیں اور پھر گھر اُجڑنے شروع ہوجاتے ہیں۔ ‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یوکے31؍جولائی 2004ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍اپریل2015ء)

معززین کا لباس باوقار ہوتاہے

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حیادار اور باوقار لباس زیب تن کرنے کو اعلیٰ تہذیب اور اقدار سے ملاتے ہوئے یورپ کے اعلیٰ خاندانوں کی مثال بھی پیش فرمائی۔ حضورانور نے فرمایا:

’’پھر گھروں کے ماحول کو جب آپ پاک کر لیں گی تو پھر آپ اس کوشش میں بھی رہیں گی کہ زمانے کی لغویات، فضولیات اور بدعات آپ کے گھروں پر اثرانداز نہ ہوں۔ کیونکہ یہی چیزیں ہیں جو ان پاک تبدیلیوں کی کوششوں کو گھُن کی طرح کھا جاتی ہیں جس طرح لکڑی کو گھُن کھا جاتا ہے۔ یہاں اس معاشرے میں (آج کل اس کو تہذیب یافتہ معاشرہ سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہاں کی ہر چیز تہذیب یافتہ نہیں ہے) یہ لوگ جو لہو و لعب میں پڑے ہوئے ہیں بڑے مہذّب اور تہذیب یافتہ کہلاتے ہیں۔ آزادئ ضمیر کے نام پر سڑکوں گلیوں بازاروں میں بیہودہ حرکتیں ہو رہی ہیں۔ لباس کی یہ حالت ہے کہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس ننگے لباس کو جس کو یہ لوگ تہذیب کہتے ہیں چند سال پہلے تک بھی بلکہ بعض ملکوں میں آج بھی جب وہاں کے مقامی لوگ، جنگلوں میں رہنے والے، تیسری دنیا کہ غریب ملکوں کے لوگ یہ کپڑے استعمال نہیں کرتے تو ان کو یہ بدتہذیب اور جنگلی کہتے ہیں اور اقدار سے عاری لوگ کہتے ہیں اور جب یہ لوگ خود ایسی حرکتیں کر رہے ہوں تو یہ حرکتیں تہذیب بن جاتی ہیں۔ پس آپ لوگوں کو اس معاشرے سے اتنا متاثر ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے اپنےملکوں میں بھی آج سے چند دہائیاں پہلے، چند سال پہلے بلکہ آج بھی جو رائل(royal) فیملیاں ہیں، جو اُونچے بڑے خاندان ہیں ان کے لباس شریفانہ ہیں۔ بازو لمبے ہیں تو پوری سلیوز(sleeves)ہیں۔ فراک ہیں تو لمبی ہیں یا میکسیاں ہیں یا گاؤن استعمال کئے جاتے ہیں۔ پہلے کئے جاتے تھےاوراب بھی بعض کرتی ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا رائل فیملیز میں آج بھی استعمال کی جاتی ہیں۔ اچھے خاندان، شریف لوگ، خواہ وہ کسی بھی ملک کے ہوں شراب میں دھت ہونے اور اودھم مچانے اور ننگے لباس کو دنیا میں ہر جگہ بُرا سمجھتے ہیں۔ کسی مذہب کے زیرِ اثر تو وہ نہیں ہوتے۔ یہ یا تو ان کی خاندانی روایات ہیں جس کی وجہ سے انہوں نے اپنے لباس شریفانہ رکھے ہوتے ہیں یا فطرت ان کو کہتی ہےکہ ننگے لباس پہننا غلط ہے، تمہارا اپنا ایک خاص مقام ہےاس کی خاطر تم نے اچھے لباس پہننے ہیں جو سلجھے ہوئے نظر آئیں۔ ‘‘(خطاب برموقع نیشنل اجتماع لجنہ اماءاللہ جرمنی 11؍جون 2006ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 19؍جون 2015ء)

پردہ کی قرآنی تعلیم بمقابلہ انجیل کے احکامات نیز مشرقی اور مغربی معاشروں کا تقابلی جائزہ

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بعض مواقع پر پردہ کے بارے میں قرآن کریم اور انجیل کی تعلیمات کا باہم موازنہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریرات کے حوالہ سے اسلامی پردہ کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔ چنانچہ حضورانور ایدہ اللہ نے سویڈن میں مستورات سے اپنے خطاب میں فرمایا:

’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :اسلام نے یہ کب بتایا ہے کہ زنجیر ڈال کر رکھو۔ اسلام شہوات کی بِنا کو کاٹتا ہے۔ یورپ کو دیکھو کیا ہو رہا ہے۔ یورپ میں اب یہ پردے کا بڑا شور اٹھتا ہے۔ فرمایا کہ یورپ کو دیکھو کہ کیا ہوتا ہے۔ اب آپ دیکھ لیں، یہاں غیرضروری آزادی کی وجہ سے کچھ عرصہ بعد ہی طلاقیں بھی ہوتی ہیں اور گھر بھی برباد ہوتے ہیں اور یہ نسبت مشرق کے مقابلے میں مغرب میں بہت بڑھی ہو ئی ہے۔ یہاں جو طلاقیں ہیں یا ایک عرصہ کے بعد گھر برباد ہوتے ہیں، مشرقی معاشرہ میں اتنے نہیں ہوتے یا ایسے معاشرے میں جہاں اسلام کی صحیح تصویر پیش کی جاتی ہے‘‘۔ (خطاب از مستورات جلسہ سالانہ سویڈن 17 ؍ستمبر 2005ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 15؍مئی2015ء)

اسی طرح ایک دوسرے موقع پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے احمدی خواتین سے مخاطب ہوتےہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں اس مضمون کو تفصیل سے یوں بیان فرمایا:

’’حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’یہ زمانہ ایک ایسا زمانہ ہے اگر کسی زمانے میں پردے کی رسم نہ ہوتی تو اس زمانے میں ضرور ہونی چاہئے‘۔ فرمایا کہ اگر کسی زمانے میں پردے کی ضرورت نہ بھی ہوتی تو اس زمانے میں ضرور ہونی چاہئے۔ ’کیونکہ یہ کل جُگ ہے‘۔ یعنی آخری زمانہ ہے۔ ’اور زمین پر بدی اور فسق و فجور اور شراب خوری کا زور ہے اور دلوں میں دہریہ پن کے خیالات پھیل رہے ہیں۔ اور خداتعالیٰ کے احکام کی عظمت دلوں سے اُٹھ گئی ہے۔ زبانوں پر سب کچھ ہے اور لیکچر بھی منطق اور فلسفہ سے بھرے ہوئے ہیں مگر دل روحانیت سے خالی ہیں۔ ایسے وقت میں کب مناسب ہے کہ اپنی غریب بکریوں کو بھیڑیوں کے بنوں میں چھوڑ دیا جائے۔ ‘‘

مذکورہ بالا ارشاد پڑھنے کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

’’یہاں عورت کو بکریوں سے اور بھیڑیے کو گندہ معاشرے سے تشبیہ دی ہے۔ دیکھ لیں اب ہم حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کی زندگی کے زمانے سے مزید سو سال آگے چلے گئے ہیں تو اب اس کی کس قدر ضرورت ہے۔ نہ مغرب محفوظ ہے اور نہ مشرق محفوظ ہے۔ ذرا گھر سے باہر نکل کر دیکھیں تو جو کچھ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے آپ کو نظر آجائے گا۔ پھر بے احتیاطی کیسی ہے۔ لاپرواہی کیسی ہے۔ سوچیں غور کریں اور اپنے آپ کو سنبھالیں۔ لیکن بعض مرد زیادہ سخت ہوجاتے ہیں ان کو بھی یہ مدنظر رکھنا چاہئے کہ قید کرنا مقصد نہیں ہے، پردہ کرانا مقصد ہے۔ اس بارے میں حضرت اقد س مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ:

’ قرآن مسلمان مَردوں اور عورتوں کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ غَضِّ بصر کریں۔ جب ایک دوسرے کو دیکھیں گے ہی نہیں تو محفوظ رہیں گے۔ یہ نہیں کہ انجیل کی طرح یہ حکم دے دیتا کہ شہوت کی نظر سے نہ دیکھ۔ افسوس کی بات ہے کہ انجیل کے مصنف کو یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ شہوت کی نظر کیا ہے۔ نظر ہی تو ایک ایسی چیز ہے جو شہوت انگیز خیالات کو پیدا کرتی ہے۔ اس تعلیم کا جو نتیجہ ہوا ہے وہ ان لوگوں سے مخفی نہیں ہے جو اخبارات پڑھتے ہیں اُن کو معلوم ہوگا کہ لندن کے پارکوں اور پیرس کے ہوٹلوں کے کیسے شرمناک نظارے بیان کئے جاتے ہیں۔ اسلامی پردہ سے یہ ہرگز مُراد نہیں ہے کہ عورت جیل خانہ کی طرح بند رکھی جاوے۔ قرآن شریف کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں ستر کریں۔ وہ غیر مرد کو نہ دیکھیں۔ جن عورتوں کو باہر جانے کی ضرورت تمدنی امور کے لئے پڑے ان کو گھر سے باہر نکلنا منع نہیں ہے۔ وہ بیشک جائیں لیکن نظر کا پردہ ضروری ہے۔ مساوات کے لئے عورتوں کے نیکی کرنے میں کوئی تفریق نہیں رکھی گئی ہے اور نہ اُن کو منع کیا گیا ہے کہ وہ نیکی میں مشابہت نہ کریں۔ اسلام نے یہ کب بتایا ہے کہ زنجیر ڈال کر رکھو۔ اسلام شہوات کی بِنا کو کاٹتا ہے۔ یورپ کو دیکھو کیا ہو رہا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ کتوں اور کتیوں کی طرح زنا ہوتا ہے اور شراب کی اس قدر کثرت ہے کہ تین میل تک شراب کی دکانیں چلی گئی ہیں۔ یہ کس تعلیم کا نتیجہ ہے؟ کیا پردہ داری یا پردہ دری کا۔ ‘‘(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 298-297)‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ جرمنی 23 ؍اگست 2003ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 18؍نومبر 2005ء)

پردہ کے اسلامی حکم کا دفاع کرتے ہوئے اور اُس کی بنیادی روح کو قائم رکھنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک موقع پر فرمایا:

’’آج کل یورپ میں اسلام کو بدنام کرنے کا ایک ایشو پردہ کا بھی اٹھا ہوا ہے۔ ہماری بچیاں جو ہیں اور عورتیں جو ہیں ان کا کام ہے کہ اس بارے میں ایک مہم کی صورت میں اخباروں میں مضامین اور خطوط لکھیں۔ انگلستان میں یا جرمنی وغیرہ میں بچیوں نے اس بارے میں بڑا اچھا کام کیا ہے کہ پردہ عورت کی عزت کے لئے ہے اور یہ تصور ہے جو مذہب دیتا ہے، ہر مذہب نے دیا ہے کہ عورت کی عزت قائم کی جائے۔ بعضوں نے تو پھر بعد میں اس کی صورت بگاڑ لی۔ عیسائیت میں تو ماضی میں زیادہ دور کا عرصہ بھی نہیں ہوا جب عورت کے حقوق نہیں ملتے تھے اور اس کو پابند کیا جاتا تھا، بعض پابندیوں میں جکڑا ہوا تھا۔ تو بہر حال یہ عورت کی عزت کے لئے ہے۔ عورت کی یہ فطرت ہے کہ وہ اپنی عزت چاہتی ہے اور ہر شخص چاہتا ہے لیکن عورت کا ایک اپنا وقار ہے جس وقار کو وہ قائم رکھنا چاہتی ہے اور رکھنا چاہئے۔ اور اسلام عورت کی عزت اور احترام اور حقوق کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ پس یہ کوئی جبر نہیں ہے کہ عورت کو پردہ پہنایا جاتا ہے یا حجاب کا کہا جاتا ہے۔ بلکہ عورت کو اس کی انفرادیت قائم کرنے اور مقام دلوانے کے لئے یہ سب کوشش ہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 23؍اپریل 2010ء بمقام سوئٹزرلینڈ۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 14؍مئی2010ء)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک موقع پر قرآن کریم کے احکامات کی حفاظت کرنے کی اہم ذمہ داری کے حوالہ سے بھی پردہ کی اہمیت بیان فرمائی۔ چنانچہ لجنہ اماءاللہ ناروے کی نیشنل مجلس عاملہ کے اجلاس میں اس ضمن میں ہدایات دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ :

’’حیااور پردہ کا تصور صرف اسلام کا تصور نہیں ہے بلکہ بہت پرانا تصور ہے۔ عیسائی ننیں (nuns)جو حجاب اپنے سرو ں پر ڈالتی ہیں جس کووہ سکارف کہہ لیں اور بازو لمبے پہنتی ہیں۔ پرانے زمانہ میں بھی اور اب بھی پہنتی ہیں اور یہ اس لئے پہنتی ہیں اور سکارف لیتی ہیں کہ یہ پردہ کی حدہے۔ تو یہ کہنا کہ ماڈرن زمانہ ہوگیاہے۔ باقی مذاہب بگڑ گئے ہیں، بدل گئے ہیں۔ ان کی روحانی کتابوں میں لوگوں کی دخل اندازی شروع ہو چکی ہے اور ہمیشہ سے ہو رہی ہے۔ جب کہ قرآن کریم کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مَیں اس کی حفاظت کروں گاتوہمیں بھی اس کے احکامات کی حفاظت کی ضرورت ہے۔ لڑکیوں میں یہ احساس پیداکردیں کہ ہم نے حفاظت کرنی ہے اور ان احکامات کی بھی حفاظت کرنی ہے جو اللہ تعالیٰ نے دئیے ہیں۔ ‘‘(میٹنگ نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماءاللہ ناروے2؍ اکتوبر 2011ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 23 ؍دسمبر2011ء)

ایک اور موقع پر احمدی مستورات سے خطاب کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک تحریر کے حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے انجیل کے مقابلہ میں قرآن کریم کی تعلیم کو ارفع قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:

’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :’ ’اسلامی پردہ پر اعتر اض کرناان کی جہالت ہے۔ (یعنی یورپین لوگوں کی یا جو لوگ یہ سوچ رکھتے ہیں کہ پردہ نہیں ہونا چاہئے۔ )اللہ تعالیٰ نے پردہ کا ایسا حکم دیا ہی نہیں جس پر اعتراض وارد ہو۔ قرآن مسلمان مَردوں اور عورتوں کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ غَضِّ بصرکریں۔ جب ایک دوسرے کو دیکھیں گے ہی نہیں تو محفوظ رہیں گے۔ یہ نہیں کہ انجیل کی طرح یہ حکم دے دیتا ہے کہ’ شہوت کی نظر سے نہ دیکھو‘‘۔ ‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ 405جدید ایڈیشن)(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یوکے31؍جولائی 2004ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍اپریل2015ء)

اسلامی روایات پر پابندی کی کوششیں

اسلام مخالف قوّتوں کے مختلف حربوں کا ذکر کرتے ہوئے حضورانور ایدہ اللہ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں احمدیوں پر زور دیا کہ وہ اسلام کی حقیقی رُوح کے مطابق اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے چلے جائیں اور خدا تعالیٰ کی خاطر پاکدامنی کی راہ میں آنے والی مشکلات کا مقابلہ کریں۔ حضورانور نے فرمایا:

’’اسلام مخالف قوتیں بڑی شدّت سے زور لگا رہی ہیں کہ مذہبی تعلیمات اور روایات کو مسلمانوں کے اندر سے ختم کیا جائے۔ یہ لوگ اس کوشش میں ہیں کہ مذہب کو آزادیٔ اظہار اور آزادیٔ ضمیر کے نام پر ایسے طریقے سے ختم کیا جائے کہ ان پر کوئی الزام نہ آئے کہ دیکھو ہم زبردستی مذہب کو ختم کر رہے ہیں اور یہ ہمدرد سمجھے جائیں۔ شیطان کی طرح میٹھے انداز میں مذہب پر حملے ہوں۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اس زمانے میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا کام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے سپرد ہے اور اس کے لئے ہمیں بھرپور کوشش کرنی پڑے گی اور تکلیفیں بھی اٹھانی پڑیں گی۔ ہم نے لڑائی نہیں کرنی لیکن حکمت سے ان لوگوں سے معاملہ بھی کرنا ہے۔ اگر آج ہم ان کی ایک بات مانیں گے جس کا تعلق ہماری مذہبی تعلیم سے ہے تو پھر آہستہ آہستہ ہماری بہت سی باتوں پر، بہت ساری تعلیمات پر پابندیاں لگتی چلی جائیں گی۔ ہمیں دعاؤں پر بھی زور دینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان شیطانی چالوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت اور توفیق بھی دے اور ہماری مدد بھی فرمائے۔ اگر ہم سچائی پر قائم ہیں اور یقیناً ہیں تو پھر ایک دن ہماری کامیابی بھی یقینی ہے۔ اسلام کی تعلیمات نے ہی دنیا پر غالب آنا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’سچ میں ایک جرأت اور دلیری ہوتی ہے۔ جھوٹا انسان بزدل ہوتا ہے۔ وہ جس کی زندگی ناپاکی اور گند گناہوں سے ملوّث ہے وہ ہمیشہ خوفزدہ رہتا ہے اور مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ایک صادق انسان کی طرح دلیری اور جرأت سے اپنی صداقت کا اظہار نہیں کرسکتا اور اپنی پاکدامنی کاثبوت نہیں دے سکتا۔ دنیوی معاملات میں ہی غور کرکے دیکھ لو کہ کون ہے جس کو ذرا سی بھی خدانے خوش حیثیتی عطاکی ہو اور اس کے حاسد نہ ہوں۔ ہر خوش حیثیت کے حاسد ضرور ہوجاتے ہیں اور ساتھ ہی لگے رہتے ہیں۔ یہی حال دینی امور کا ہے۔ شیطان بھی اصلاح کا دشمن ہے۔ پس انسان کو چاہئے کہ اپنا حساب صاف رکھے اور خدا سے معاملہ درست رکھے۔ خداکو راضی کرے پھر کسی سے نہ خوف کھائے اور نہ کسی کی پرواہ کرے۔ ایسے معاملات سے پرہیز کرے جن سے خود ہی مورد عذاب ہوجاوے۔ مگر یہ سب کچھ بھی تائید ِغیبی اور توفیقِ الٰہی کے سوانہیں ہوسکتا۔ صرف انسانی کوشش کچھ بنا نہیں سکتی جب تک خداکا فضل بھی شامل حال نہ ہو۔ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا(النساء:29)۔ انسان ناتواں ہے۔ غلطیوں سے پُرہے۔ مشکلات چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں۔ پس دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نیکی کی توفیق عطا کرے اور تائیدات غیبی اور فضل کے فیضان کا وارث بنادے‘‘۔ (ملفوظات جلد 10 صفحہ 252۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس دعاؤں کے ساتھ ہم نے دنیا کو قائل کرنا ہے اور اس کے لئے خدا تعالیٰ سے پختہ تعلق پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ دوسرے مذاہب ہمیشہ کے لئے نہیں ہیں۔ اپنے اپنے وقت پر آئے اور اپنے زمانے کی تربیتی ضروریات پوری کیں اور ختم ہوگئے۔ تبھی تو ان کی مذہبی کتابوں میں بھی بے شمار کانٹ چھانٹ ہو چکی ہے اور تبدیلیاں ہوچکی ہیں۔ لیکن ان میں اسلام ہے جو اَب تک محفوظ ہے اور اسلام ہمیشہ رہنے کے لئے ہے۔ قرآن کریم کی تعلیمات قیامت تک کے لئے ہیں۔ اس لئے ہمیں بغیر کسی احساس کمتری کے اپنی تعلیمات پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس پر قائم رہنا چاہئے اور دوسروں کو بھی بتانا چاہئے کہ تم جو باتیں کرتے ہو یہ اللہ تعالیٰ کی منشاء کے خلاف ہیں اور تباہی کی طرف لے جانے والی ہیں۔ اسلام کوئی ایسا مذہب نہیں جو انسان کو غلط قسم کی پابندیوں میں جکڑ دیتا ہے بلکہ حسب ضرورت اس میں اپنی تعلیمات میں نرمی کے پہلو بھی ہیں۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ بعض مریض ایسے ہیں کہ مرد ڈاکٹر کو دکھانا ہوتا ہے تو ڈاکٹر وغیرہ کے لئے، مریض کے لئے، پردہ کی کوئی سختی نہیں ہے۔ انسانی جان کو بچانا اور انسانی جان کو تکلیف سے نکالنا اصل مقصد ہے، پہلا مقصد ہے تبھی تو اضطرار اور مجبوری کی حالت میں مُردار اور سؤر کے گوشت کھانے کی بھی اجازت ہے لیکن صرف زندگی بچانے کی خاطر۔ اسی طرح دوائیوں میں الکحل(Alcohol) بھی استعمال ہو جاتا ہے۔ لیکن بہرحال جس طریق پر شیطانی قوتیں ہمیں چلانا چاہتی ہیں اس کا مقصد یہ ہے کہ آہستہ آہستہ دین کی حدود ختم کر دی جائیں اور مذہب کا خاتمہ کر دیا جائے اور اس بات کے خلاف ہم احمدیوں نے ہی جہاد کرنا ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب اسلامی تعلیمات کو ہم ہر چیز پر اہمیت دیں گے اور خدا تعالیٰ کے آگے جھکیں گے تا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہماری کامیابیاں ہوں۔ مسیح موعودؑ کے زمانے میں تلوار کا جہاد نہیں ہے بلکہ نفس کی اصلاح کا جہاد ہے۔ ان ترقی یافتہ ملکوں میں رہنے والے مسلمان اور خاص طور پر دنیا میں رہنے والے احمدی مسلمان ہی اس کے لئے میرے مخاطب ہیں۔ ان کو ملک سے وفا اور ملک کی خاطر قربانی اور ملک کی کسی بھی شکل میں ترقی کے لئے اعلیٰ مقام پر پہنچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اور جب یہ ہو گا تو شیطانی قوتوں کے منہ بند ہو جائیں گے کہ یہ مسلمان وہ ہیں جو ملک و قوم کی بہتری کے حقیقی معیاروں کی طرف لے جانے والے ہیں نہ کہ ملک کے خلاف کچھ کرنے والے۔ ہم نے ان لوگوں کو اور حکومتوں کو باور کرانا ہے کہ اگر ہم اپنی مذہبی تعلیم کی وجہ سے اپنے آپ کو کسی چیز کے پابند کرتے ہیں یا کسی چیز سے پابند کرتے ہیں اور اپنے اوپر پابندی لگاتے ہیں تو حکومتوں یا عدالتوں کا کوئی کام نہیں کہ دخل اندازی کریں۔ اس سے بے چینیاں پیدا ہوں گی۔ مقامی لوگوں میں اور مہاجرین میں دُوریاں پیدا ہوں گی۔ گو کہ جن کو یہ مہاجر کہتے ہیں ان کو بھی ان ملکوں میں آئے بعضوں کو تو دوسری تیسری نسل ہے۔ ہاں اگر ملک کو کوئی نقصان پہنچا رہا ہے، ملک سے کوئی بے وفائی کر رہا ہے، ملک میں جھوٹ اور نفرتیں پھیلا رہا ہے تو پھر حکومتوں کو بھی حق ہے کہ پکڑیں اور سزائیں بھی دیں۔ لیکن یہ کوئی حق نہیں کہ کسی مذہبی تعلیم پر عمل کرنے سے روک کر کہیں کہ اگر تم یہ کرو گے تو اس کا مطلب ہے کہ ملک کے ماحول میں تم جذب نہیں ہو رہے۔

ہم احمدیوں کو ہمیشہ یہ یاد رکھناچاہئے کہ یہ زمانہ بہت خطرناک زمانہ ہے۔ شیطان ہر طرف سے پُرزور حملے کر رہا ہے۔ اگر مسلمانوں اور خاص طور پر احمدی مسلمانوں، مَردوں اور عورتوں، نوجوانوں سب نے مذہبی اقدار کو قائم رکھنے کی کوشش نہ کی تو پھر ہمارے بچنے کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ ہم دوسروں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں ہوں گے کہ ہم نے حق کو سمجھا، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں سمجھایا اور ہم نے پھر بھی عمل نہ کیا۔ پس اگر ہم نے اپنے آپ کو ختم ہونے سے بچانا ہے تو پھر ہر اسلامی تعلیم کے ساتھ پُراعتماد ہو کر دنیا میں رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ نہ سمجھیں کہ ترقی یافتہ ملکوں کی یہ ترقی ہماری ترقی اور زندگی کی ضمانت ہے اور اس کے ساتھ چلنے میں ہی ہماری بقا ہے۔ ان ترقی یافتہ قوموں کی ترقی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے اور اب جو ان کی اخلاقی حالت ہے اخلاق باختہ حرکتیں ہیں۔ یہ چیزیں انہیں زوال کی طرف لے جا رہی ہیں اور اس کے آثار ظاہر ہو چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو یہ آوازیں دے رہے ہیں اور اپنی تباہی کو بلا رہے ہیں۔ پس ایسے میں انسانی ہمدردی کے تحت ہم نے ہی ان کو صحیح راستہ دکھا کر بچانے کی کوشش کرنی ہے بجائے اس کے کہ ان کے رنگ میں رنگین ہو جائیں۔ اگر ان لوگوں کی اصلاح نہ ہوئی جو ان کے تکبر اور دین سے دوری کی وجہ سے بظاہر بہت مشکل نظر آتی ہے تو پھر آئندہ دنیا کی ترقی میں وہ قومیں اپنا کردار ادا کریں گی جو اخلاقی اور مذہبی قدروں کو قائم رکھنے والی ہوں گی۔

پس جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا کہ ہمیں خاص طور پر نوجوانوں کو اللہ تعالیٰ کی تعلیم پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا سے متأثر ہو کر اس کے پیچھے چلنے کی بجائے دنیا کو اپنے پیچھے چلانے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ پردہ اور لباس کے حوالے سے مَیں نے بات شروع کی تھی اس حوالے سے یہ بات بھی کہنا چاہتا ہوں اور افسوس سے کہنا چاہتا ہوں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ کیا اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے صرف پردہ ہی ضروری چیز ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ تعلیم اب فرسودہ ہو چکی ہے اور اگر ہم نے دنیا کا مقابلہ کرنا ہے تو ان باتوں کو چھوڑنا ہو گا(نعوذباللہ)۔ لیکن ایسے لوگوں پر واضح ہو کہ اگر دنیا داروں کے پیچھے چلتے رہے اور ان کی طرح زندگی گزارتے رہے تو پھر دنیا کے مقابلے کی بجائے خود دنیا میں ڈوب جائیں گے۔ نمازیں بھی آہستہ آہستہ ظاہری حالت میں ہی رہ جائیں گی یا اور کوئی نیکیاں ہیں یا دین پر عمل ہیں تو وہ بھی ظاہری شکل میں رہ جائے گا اور پھر آہستہ آہستہ وہ بھی ختم ہو جائے گی۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 13 ؍جنوری 2017ءبمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 3؍فروری 2017ء)

عورتوں اور مَردوں کی علیحدہ نشستوں پر اعتراض کا جواب

اسلامی تعلیم نے معاشرہ میں پاکدامنی کو رواج دینے کے لئے عورتوں اور مَردوں کی آزادانہ مخلوط نشستوں کا اہتمام کرنے سے منع فرمایا ہے لیکن مغربی معاشرے میں مسلمان عورتوں کی(مَردوں سے) الگ کی جانے والی نشستوں پر بہت سے اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں۔ اس حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ یوکے کے موقع پر احمدی خواتین سے خطاب کے دوران نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

’’ کل جمعہ کے وقت بہت سا پریس آیا ہوا تھا۔ پہلا دن تھا۔ ہمارے پریس سیکرٹری جمعہ کے بعد مجھے کہنے لگے کہ پریس تو آیا ہوا ہے لیکن چینل فور(Channel 4) کی وجہ سے ہم بڑے پریشان ہیں۔ شاید وہ خاتون تھیں۔ کہتی ہیں کہ باقی تو تمہاری باتیں ٹھیک ہیں لیکن یہ عورتوں مَردوں کی سیگریگیشن(segregation) جو ہے، یہ علیحدہ علیحدہ جو عورتوں اور مَردوں کو بٹھایا ہوا ہے یہ تو تمہیں بھی شدّت پسند دکھاتا ہے۔ یہ تم عورتوں کے حقوق غصب کر رہے ہو۔

مَیں نے اُسے کہا تھا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ انہیں کہو کہ اس بات کا جواب ہم مرد نہیں دیں گے۔ تم عورتوں سے جا کر پوچھو۔ اور مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ لجنہ کی طرف سے ہماری ایک نمائندہ لڑکی جو پریس کو بھی بڑے انٹرویو دیتی ہیں۔ انہوں نے بڑا اچھا جواب اسے دیا۔ یہ اور بات ہے کہ اس کو مانیں نہ مانیں لیکن اس کو ردّ کرنے کی دلیل ان کے پاس کوئی نہیں۔ دوسرے میں نے یہ کہا کہ اگر وہ اس بات سے ہمارے متعلق کوئی منفی خبر دیتی ہیں یا تبصرہ کرتی ہیں تو کریں۔ ہم نے دنیا داروں کو اور پریس کو یا کسی چینل کو خوش نہیں کرنا۔ ہم نے تو خدا تعالیٰ کو خوش کرنا ہے اور اس کے لئے کوشش کرنی ہے۔ اس کے احکامات پر چلنا ہے۔ میں یہی جواب عموماً دیا کرتا ہوں کہ مذہب ہمیں اپنے پیچھے چلانے آتا ہے۔ مذہب ہمیں اپنے پیچھے چلا کر ہمیں ہمارے پیدا کرنے والے خدا سے ملانے کے لئے آتا ہے۔ مذہب بندوں کے پیچھے چلنے کے لئے نہیں آتا۔ مذہب اس لئے نہیں آتا کہ ہم لوگوں کو خوش کریں۔ …

یہ دنیا والے جو مذہب سے دُور ہٹ کر مذہب پر اعتراض کر کے فساد برپا کررہے ہیں یہی بات ان کو ایک دن اس کے نتائج بھی دکھائے گی۔ اسی طرح جو مذہب کے نام پر فساد کر رہے ہیں یہی ان کی پکڑ کی وجہ بھی بنے گی چاہے وہ مسلمانوں میں سے ہوں۔ یہ دنیا دار اپنے زعم میں عورتوں اور مَردوں کے علیحدہ بیٹھنے پر اعتراض کرتے ہیں۔ سب سے بڑا اعتراض ان کو ہمارے پر یہی ہوتا ہے۔ یہی لوگ چند دہائیاں پہلے عورتوں کو ہر قسم کے حقوق سے محروم رکھے ہوئے تھے اور جب وقت کے ساتھ عورت نے اپنے حق کے لئے آواز اٹھائی تو کیونکہ عورت کو حق دلانے کی یہ انسانی کوشش تھی اس لئے اس نے دوسری انتہا اختیار کر لی۔ عورت کو حق دینے کے نام پر اسے ہمدردی کے جذبے کے تحت اتنا زیادہ دنیا کے سامنے پیش کیا گیا کہ اس کا تقدّس ہی ختم کر دیا۔ ہمدردی کے جذبے کی آڑ میں آزادی کے نام پر عورت کے تقدّس کو پامال کیا گیا ہے۔ یورپ کی عورت کو اس بات کا تجربہ نہیں کہ عورت کی اپنی شناخت اس وقت زیادہ اُبھرتی ہے اور اس کو اپنے تحفظ کا احساس اس وقت زیادہ ہوتا ہے جب وہ عورتوں میں ہو اور عورتوں کی تنظیم کے ساتھ کام کر رہی ہو اور آزادی سے اس کی ہر حرکت ہو۔ قریباً دو سال پہلے ایک انگریز مہمان یہاں آئی تھیں۔ اچھی لکھنے والی ہیں۔ سارا دن انہوں نے عورتوں کے ساتھ گزارا اور شام کو کہنے لگیں کہ پہلے مجھے بڑا عجیب لگا تھا کہ صرف عورتوں میں ہوں لیکن سارا دن یہاں گزار کر مجھے احساس ہوا کہ مَیں زیادہ آزاد ہوں اور مجھے زیادہ تحفظ مل رہا ہے۔

پس جب عورت کو اس کا تقدّس قائم رکھتے ہوئے اس کے حقوق کا بتایا جائے تو چاہے مغرب میں پلی بڑھی غیر مسلم عورت ہو وہ اس بات کا اظہار کرے گی کہ اسلام عورت کے حقوق قائم کرتا ہے اور عورت کا علیحدہ بیٹھنا کوئی اس کی آزادی کو ختم نہیں کرتا۔ اس چینل فور(Channel 4) کی جو کل نمائندہ آئی تھی انہی خاتون نے جب اپنے ٹوِیٹر(twitter) پہ نمائش کا یا کسی کا حوالہ دے کر ٹوِیٹ(tweet) کیا کہ وہاں اس طرح ہو رہا ہے، عورتوں کو جانے کی اجازت نہیں۔ تو اسی عورت نے پھر ان کا جواب بھی دیا اور یہ بھی مجھے خوشی ہے کہ بہت ساری احمدی لڑکیوں نے بھی اس کا جواب دیاکہ تم غلط کہتی ہو۔

تو بہرحال یہ تو انسانی قانون کے خلاف ایک ردّعمل ہے جو آجکل کی عورت آزادی کے نام پر مغرب اور ان ترقی یافتہ کہلانے والے ممالک میں جس کا اظہار ہورہا ہے اور عورت کو کیونکہ پتا ہے یا اس کو احساس ہے کہ ہمیں آزادی لینے کے لئے بھی مرد کی ضرورت ہے اور لاشعوری طور پر عورت کی فطری کمزوری ظاہر ہو رہی ہے اس لئے عورت نے اپنی آزادی کے لئے مرد کی مدد حاصل کی اور مرد نے عورت کی اِس فطرت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جب عورت کو آزادی دلانے کے لئے مددگار بننے کی کوشش کی تو ساتھ ہی اپنی خواہشات کی تسکین کے لئے آزادی کے نام پر اسے ننگا کرنے کی بھی کوشش کی۔ اسی لئے یہاں کی ایک انگریز عورت لکھنے والی ہیں انہوں نے ایک آرٹیکل لکھا تھا کہ عورت کی آزادی کے نام پر جو حجاب اتارنے اور عورتوں کے لئے برائے نام لباس پہننے کی مہم میں مرد بہت کوشش کرتے ہیں اور اس معاملے میں بڑے ایکٹوactive)) ہیں۔ یہ عورتوں کی آزادی سے زیادہ اپنی خواہش کی تسکین کے لئے یہ کررہے ہیں تا کہ عورت کو ننگا دیکھیں۔ تو یہ یہاں کی جو عقلمند عورتیں ہیں خود ہی یہ کہتی ہیں۔ ان نام نہاد ترقی یافتہ کہلانے والوں نے مذہب کے نام پر اور روایات کے نام پر عورت پر جو ظلم ہوا، اس کا صرف ایک پہلو دیکھا ہے۔ عورت نے عیسائیت اور مذہب اور روایات کے نام پر اپنی غلامی کا ایک پہلو دیکھا ہے۔ یہ صرف تیسری دنیا کی بات نہیں ہے بلکہ ان ملکوں میں بھی آج سے چند دہائیاں پہلے یہی کچھ ہوتا تھا اور پھر اس کو ختم کرنے کے لئے، اپنی آزادی حاصل کرنے کے لئے ہر حیلہ اور حربہ استعمال کیا گیا۔ اور پھر دوسرا المیہ مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ مسلمانوں نے اپنی روایات جو مختلف قوموں کی تھیں، اسلامی مذہب کی نہیں قوموں کی روایات تھیں، ان پر مذہب کا لبادہ پہنا کر عورت کو بالکل ہی بے وقعت بنا دیا۔ اسی چیز کو بیان کرتے ہوئے ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ لوگ مذہب کے نام پر ظلم کرتے ہوئے عورت کو نہایت حقیر، ذلیل چیز سمجھتے ہیں اور پاؤں کی جوتی سمجھتے ہیں حالانکہ اسلام تو عورت کے حقوق قائم کرتا ہے۔ ‘‘(ماخوذ از ملفوظات جلد5 صفحہ417-418۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یوکے 13 ؍اگست 2016ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 16؍دسمبر2016ء)

مذکورہ بالا خطاب حضورانور نے 2016ء میں ارشاد فرمایا تھا۔ اس سے اگلے سال جلسہ سالانہ یوکے میں خواتین کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے حضورانور نے اسی مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:

’’دنیا والوں کے بنائے ہوئے قواعد اور قانون کبھی غلطیوں اور خامیوں سے پاک نہیں ہو سکتے۔ ابھی گزشتہ دنوں میں ایک خبر آئی تھی کہ سویڈن میں ایک عورت جو میوزک کے بڑے بڑے کنسرٹ کرتی ہے۔ اس نے اعلان کیا ہے کہ ہر سال جو اُن کا بہت بڑا کنسرٹ(concert) ہوتا ہے اس میں اس دفعہ صرف عورتیں آئیں گی اور مرد نہیں بلائے جائیں گے اور وجہ یہ بیان کی کہ کیونکہ گزشتہ سالوں کے تجربہ سے یہ ثابت ہوا ہے کہ مرد آکر عورتوں کے ساتھ بڑی بیہودگی کرتے ہیں بلکہ ریپ(rape) تک نوبت آ جاتی ہے۔ اب یہ نتیجہ ہے جو مرد عورت کو اکٹھا رکھنے کا سامنے آیا ہے۔ اس لئے اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اگر معمولی سا بھی امکان ہو کہ کوئی غلط کام ہوسکتا ہے تو اس غلط کام سے بچو، اس امکان سے بچو۔

اسلام کی تعلیم پر اعتراض کرنے والے اب خود ہی اس بات کا اقرار کرنے لگ گئے ہیں کہ بعض جگہوں پر عورت اور مرد کی علیحدگی ہی بہتر ہے۔ اب بعض جگہ عورتوں اور مَردوں کی علیحدہ تنظیم کی باتیں ہونے لگ گئی ہیں۔ دنیاوی معاشرے میں بھی اس بات کا احساس پیدا ہونا شروع ہو گیا ہے کہ عورت اور مرد کی علیحدہ شناخت اور علیحدہ رہنا ہی ٹھیک ہے۔ جو ہم پر سیگریگیشن(segregation) کا الزام لگاتے تھے، اعتراض کرتے تھے اب خود یہ تسلیم کرنے لگ گئے ہیں کہ بعض جگہوں پر یہ علیحدگی ہونی چاہئے۔ ‘‘(www.bbc.com/news/entertainment-arts-40504452)

’’پس ایک احمدی مسلمان عورت کو اس بات پر کامل یقین ہونا چاہئے کہ آخرکار ہماری تعلیم ہی کامیاب ہونے والی ہے اور عورت کی آزادی کے نام پر ان کی کوششیں ناکام و نامراد ہوں گی۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہماری اس بارے میں رہنمائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ … مَردوں کی حالت کا اندازہ کرو۔ مَردوں کو بھی نصیحت کی اور ان کی حالت کا بھی بیان فرمایا کہ وہ کس طرح بے لگام گھوڑے کی طرح ہو گئے ہیں، نہ خدا کا خوف رہا ہے، نہ آخرت کا یقین ہے۔ دنیاوی لذّات کو اپنا معبود بنا رکھا ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 7 صفحہ 134-135۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

…یہ بات جوآپؑ نے فرمائی یہی بات اس عورت نے بھی کہی جو کنسرٹ آرگنائز کرتی ہے جس کے بارے میں ابھی میں نے بتایا کہ اس نے کہا کہ ہم اس وقت تک مَردوں اور عورتوں کو اکٹھے نہیں رکھ سکتے جب تک مَردوں کو یہ سمجھ نہ آجائے اور ہمیں یہ یقین نہ ہو جائے کہ عورت کی کس طرح عزت کرنی ہے اور اپنے جذبات کو کس طرح قابو کرنا ہے۔ آج ایک جگہ سے یہ آواز اٹھی ہے چاہے وہ ناچ گانے کی مجلس کی آواز ہی ہو، اس کے حوالے سے ہی ہو، کم از کم خیال تو آیا ان کو کہ مرد عورت کے ایک جگہ ہونے میں کس طرح کی برائیاں پیدا ہو سکتی ہیں اور ہورہی ہیں۔ وہ باتیں جو دین نے ہمیں سینکڑوں سال پہلے بتا دیں اور وہ باتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں کھول کر سوا سو سال پہلے بیان فرما دیں وہ اب تجربے کے بعد آزادی کے نام پر بے حیائیوں کے پھیلنے کے بعد ان کو سمجھ آرہی ہیں۔ آخر ایک دن ان کو مکمل طور پر یہ ماننا پڑے گا کہ اسلام کی تعلیم ہی قائم رہنے والی تعلیم ہے۔ یہی تعلیم ہے جو انسان کو انسانوں کے دائرے میں رکھنے کے لئے مکمل ہدایت دیتی ہے۔ ‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یوکے 29؍جولائی 2017ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 20؍اکتوبر 2017ء)

مسلمان عورتوں اور مَردوں کے علیحدہ نماز ادا کرنے پر اعتراض کا پُرحکمت جواب

اسلامی احکامات کے مطابق نماز کی ادائیگی کی بہت سی شرائط ہیں جنہیں ملحوظ رکھتے ہوئے ہی اس اسلام کے اس اہم رُکن کا حق ادا کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ لیکن مغرب کے بعض متعصّب لوگوں اور بعض نادان مسلمانوں نے اس اہم اسلامی عبادت کی شرائط پر بھی اعتراضات اٹھائے ہیں اور اس میں اپنی مرضی کے مطابق تبدیلی کی کوششیں کی ہیں۔ ایسی ہی چند خطرناک بدعملیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’گزشتہ دنوں اس خبر کو بڑا اچھا لا گیا کہ جرمنی میں ایک عورت نے ایک مسجد بنائی ہے جس میں عورت امام ہو گی اور عورت اور مرد اکٹھے نماز پڑھیں گے۔ نیز یہ بھی کہ سر کو ڈھانکنے کی، سکارف لینے کی اور پردے وغیرہ کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اب یہ عورت یہ بھی کہتی ہے کہ مَیں یوکے(UK) میں بھی جا رہی ہوں اور یہاں آ کر بھی اسی طرح کی ایک مسجد بناؤں گی جیسی مَیں نے جرمنی میں بنائی تھی۔ تو یہ سب باتیں دین کو نہ سمجھنے کی وجہ ہے اور احساس کمتری میں مبتلا ہونے کی وجہ ہے۔ جو چیز خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف ہے وہ بدعت ہے جو دین میں شامل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے یا جہالت کی وجہ سے اس کو دین میں شامل کیا جا رہا ہے یا اسلام کے خلاف جو قوتیں ہیں وہ ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت، ایک سازش کے تحت ایسی باتوں کو شامل کر رہی ہیں تا کہ اسلام میں ہی بگاڑ پیدا کیا جائے۔ دوسرے دینوں میں تو بگاڑ پیدا ہو چکا ہے۔ اسلام اگر اپنی اصلی حالت میں ہے تو یہ بڑی تکلیف دہ بات ہے اس لئے یہ کہتے ہیں اس میں بھی بگاڑ پیدا کیا جائے۔ قرآن کریم یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ سے محفوظ ہے اور اس کے احکامات ہمیشہ کے لئے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ اس کی حفاظت کرتا رہے گا۔ یہ بات اسلام مخالف قوتوں کو برداشت نہیں اس لئے وہ اس میں بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کریں گے۔ جب قرآن کریم نے واضح طور پر عورت کو حیادار لباس اور پردے کا حکم دے دیا تو پھر اس قسم کی حرکتیں جو ان حکموں کے خلاف ہیں کہ سکارف کی کوئی ضرورت نہیں ہے، لمبے ڈھیلے لباس کی کوئی ضرورت نہیں ہے، زینت چھپانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، یہ دین میں بگاڑ پیدا کرنے والی باتیں ہیں۔ اور یہ بھی غلط ہے کہ مرد عورتیں اکٹھے کھڑے ہو کر نمازیں پڑھیں۔ جب خدا تعالیٰ نے کہہ دیا کہ علیحدہ علیحدہ رہو تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ ہم اسلام مخالف طاقتوں کے اعتراضوں سے متأثر ہو کر اس کی خلاف ورزی کریں۔ دنیادار جس کی دین کی آنکھ اندھی ہے اس کو یہ احساس ہو ہی نہیں سکتا کہ دین کے احکامات کی اہمیت کیا ہے۔ ایک دفعہ یہاں ایک سیاسی پارٹی کے لیڈر مجھے ملنے آئے۔ کہنے لگے کہ کبھی ایسا وقت آئے گا کہ عورت اور مرد مسجد میں ایک ہی جگہ اکٹھے نماز پڑھیں ؟ میں نے اسے بتایا کہ یہ آئے گا نہیں بلکہ آ چکا ہے اور ایک زمانہ ہوا گزر بھی چکاہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک ہی جگہ نماز ہوا کرتی تھی۔ مرد آگے ہوتے تھے اور عورتیں پیچھے ہوتی تھیں۔ اب بھی ضرورت ہو تو اس طرح ہو سکتا ہے۔ اب تو یہ عورتوں نے اپنی سہولت کے لئے علیحدہ جگہ کر لی ہے تا کہ آزادی سے نمازیں پڑھ سکیں اور آزادی سے اگر کبھی ضرورت ہو تو اپنے سرکے دوپٹے اور چادریں بھی اتار سکیں، گو نماز پڑھتے ہوئے نہیں لیکن باقی فنکشنز میں۔ اس کو میں نے بتایا کہ مختلف سوچوں کے مرد ہوتے ہیں۔ نماز ایک عبادت ہے۔ اگر عورتیں آگے ہوں یا مِکس(mix) ہوں تو عبادت کے بجائے بہت سے مرد ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو عبادت کرنے کے بجائے عورتوں کو ہی دیکھتے رہیں گے، نماز کی طرف ان کی توجہ نہیں ہو گی۔ ہنس کے کہنے لگا کہ تم بالکل ٹھیک کہتے ہو۔ بلکہ بعد میں مجھے دوسرے ذرائع سے پتا لگا کہ بعد میں وہ سیاستدان اپنی مجلسوں میں ذکر کرتا رہا ہے کہ میرے اس سوال کا مجھے یہ جواب ملا ہے جو بڑا منطقی اور حقیقت پر مبنی جواب ہے۔ پس یہ لوگ جو بگڑ کر دین میں بدعات پیدا کر رہے ہیں یہ غلط ہے بلکہ دین سے مذاق کرنے والے ہیں۔ اسلام کے نام پر خود مسلمان ہو کر ایسی باتیں کررہے ہیں تو دین سے مذاق کر رہے ہیں اور یہ دین کے علم کو نہ سمجھنے اور جہالت کی وجہ سے ہے۔ مسلمانوں کا یہ حال ہونا تھا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشگوئی تھی کہ ایسی جہالت مسلمانوں میں پیدا ہو جائے گی جب وہ اس قسم کی حرکتیں کریں گے۔ ‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یوکے 29؍ جولائی 2017ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 20؍اکتوبر 2017ء)

عورتوں کے حقوق کے نام پرپردہ پرتنقید

اسلام مخالف قوّتیں جب پردے جیسی اسلامی روایت اور دینی حکم پر اعتراض کرنا چاہتی ہیں تو اس مذموم مقصد کو عورت کی آزادی کا نام دیتی ہیں اور گویا اسلام میں عورت کے حقوق کے سلب کئے جانے کےالزامات لگاکر اعتراض کرتی ہیں۔ اس حوالے سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک موقع پر فرمایا:

’’پردے کا مسئلہ آجکل یہاں مغربی ممالک میں عورت کے حقوق کے نام پر یا دہشت گردی کو ختم کرنے کے نام پر یا بلا وجہ اسلام پر اعتراض کرنے کی وجہ سے بڑے زور و شور سے اٹھایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کے مختلف پہلوؤں کو بیان کیا ہے کہ کس طرح کاپردہ کرنا چاہئے۔ کن حالات میں کرنا چاہئے۔ اس میں عورت کی زینت کے ظاہر ہونے کے بارے میں بھی یہ فرمایا ہے کہ: اِلَّامَاظَھَرَ مِنْھَا(النور:32) اس کی وضاحت کرتے ہوئے اور اس حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جو ارشاد ہے وہ پیش کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اِلَّا مَا ظَھَرَ مِنْھَا کے یہ معنی ہیں کہ وہ حصہ جو آپ ہی آپ ظاہر ہو اور جسے کسی مجبوری کی وجہ سے چھپایا نہ جا سکے خواہ یہ مجبوری بناوٹ کے لحاظ سے ہو۔ (یعنی بناوٹ یہ نہیں کہ ظاہری بناوٹ بلکہ جسم کی بناوٹ) جیسے قد ہے کہ یہ بھی ایک زینت ہے مگر اس کو چھپانا ناممکن ہے۔ اس لئے اس کو ظاہر کرنے سے شریعت نہیں روکتی۔ یا بیماری کے لحاظ سے ہو کہ کوئی حصہ جسم علاج کے لئے ڈاکٹر کو دکھانا پڑے(تو قرآن کریم کے مطابق وہ بھی ظاہر کیا جا سکتا ہے) بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تو یہاں تک فرمایا کرتے تھے کہ ہوسکتا ہے ڈاکٹر کسی عورت کے متعلق تجویز کرے کہ وہ منہ نہ ڈھانپے۔ اپنے چہرے کو کور(cover) نہ کرے۔ اگر ڈھانپے گی تو اس کی صحت خراب ہو جائے گی اور اِدھر اُدھر چلنے پھرنے کے لئے کہے۔ (یعنی اگر ڈاکٹر عورت کو کہے کہ منہ نہ ڈھانپے اور پھر باہر جا کے پھرے، نہیں تو تمہاری صحت خراب ہو جائے گی) تو ایسی صورت میں اگر وہ عورت منہ ننگا کرکے چلتی ہے تو بھی جائز ہے۔ بلکہ بعض فقہاء کے نزدیک اگر عورت حاملہ ہو اور کوئی اچھی دایہ میسر نہ ہو اور ڈاکٹر یہ کہے کہ اگر یہ کسی قابل ڈاکٹر سے اپنا بچہ نہیں جنوائے گی تو اس کی جان خطرے میں ہے تو ایسی صورت میں اگر وہ کسی مرد سے بچہ جنوائے تو یہ بھی جائز ہو گا۔ بلکہ اگر کوئی عورت مرد ڈاکٹر سے بچہ نہ جنوائے اور مرجائے تو خدا تعالیٰ کے حضور وہ ایسی ہی گناہگار سمجھی جائے گی جیسے اس نے خودکُشی کی ہے۔ پھر یہ مجبوری کام کے لحاظ سے بھی ہو سکتی ہے جیسے زمیندار گھرانوں کی عورتوں کی مَیں نے مثال دی ہے۔ (پہلے مصلح موعودؓ مثال دے چکے ہیں ) کہ ان کے گزارے ہی نہیں ہو سکتے(اگر وہ کام نہ کریں۔ ) جب تک کہ وہ کاروبار میں اپنے مَردوں کی امداد نہ کریں۔ یہ تمام چیزیں اِلَّا مَا ظَھَرَ مِنْھَا میں ہی شامل ہیں۔ (ماخوذ ازتفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 299)

پس اسلام نے آزادی بھی قائم کی ہے اور حدود بھی قائم کی ہیں۔ کھلی چھٹی نہیں دے دی۔ بعض مجبوریوں کی وجہ سے اجازت ہے کہ پردے کو کم کیا جا سکتا ہے۔ کم معیار کا کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی بلا وجہ ناجائز طور پر اسلامی حکموں کو چھوڑنا اس سے بھی منع فرمایا ہے۔ اسلام نے آزادی کے نام پر بے حیائی نہیں رکھی۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 18 ؍مارچ 2016 ءمسجدبیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 8؍اپریل 2016ء)

مغربی معاشرے میں مسلمان عورتوں کو اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کی حفاظت کرنے کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بارہا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کے حوالہ سے پُرحکمت نصائح فرمائی ہیں۔ ایک موقع پر حضورانور نے مغربی معاشرہ میں رہنے والی احمدی خواتین سے مخاطب ہوئے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’پس آپ کو اس مغربی معاشرے میں رہتے ہوئے جہاں اپنی اور اپنی نسلوں کی حفاظت کے لئے اور بھی بہت سے مجاہدے کرنے ہیں وہاں پردے کا مجاہد ہ بھی کریں کیونکہ آج جب آپ پردے سے آزاد ہوں گی تو اگلی نسلیں اُس سے بھی آگے قدم بڑھائیں گی۔

حضرت اقدس مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ :’’یورپ کی طرح بے پردگی پر بھی لوگ زور دے رہے ہیں۔ لیکن یہ ہرگز مناسب نہیں۔ یہی عورتوں کی آزادی فسق و فجور کی جڑہے۔ جن ممالک نے اس قسم کی آزادی کو روا رکھا ہے ذرا اُن کی اخلاقی حالت کا اندازہ کرو‘‘۔ آپ ان ملکوں میں رہتے ہیں، دیکھ لیں اس آزادی کی وجہ سے کیا اُن کے اخلاق کے اعلیٰ معیار قائم ہیں ؟

پھر فرمایا:’’ اگر اس کی آزادی اور بے پردگی سے اُن کی عفّت اور پاکدامنی بڑھ گئی ہے توہم مان لیں گے کہ ہم غلطی پر ہیں ‘‘۔ آپ یہاں رہ رہے ہیں، حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ اگر اس آزادی سے اور بے پردگی سے تمہارے خیال میں یہاں مغربی ملکوں کی عورتیں بہت زیادہ پاک ہوگئی ہیں، اللہ والی ہوگئی ہیں تو ہم مان لیتے ہیں کہ ہم غلطی پر ہیں۔ ‘‘

فرمایا کہ ’’لیکن یہ بات بہت ہی صاف ہے کہ جب مرد اور عورت جوان ہوں اور آزادی اور بے پردگی بھی ہو تو ان کے تعلقات کس قدر خطرناک ہوں گے۔ بد نظر ڈالنی اور نفس کے جذبات سے اکثر مغلوب ہو جانا انسان کا خاصہ ہے۔ پھر جس حالت میں کہ پردہ میں بے اعتدالیاں ہوتی ہیں اور فسق و فجورکے مرتکب ہوجاتے ہیں توآزادی میں کیا کچھ نہ ہوگا۔ ‘‘

فرمایا کہ :’’جب پردہ ہوتا ہے تووہاں بھی بعض دفعہ ایسی باتیں ہوجاتی ہیں لیکن جب آزادی ملے گی تو پھر تو کھلی چھٹی مل جائے گی‘‘۔

پھر فرماتے ہیں کہ:’’ مَردوں کی حالت کا اندازہ کرو کہ وہ کس طرح بے لگام گھوڑے کی طرح ہوگئے ہیں۔ نہ خدا کا خوف رہا ہے نہ آخرت کا یقین ہے۔ دنیاوی لذّات کو اپنا معبودبنا رکھاہے۔ پس سب سے اوّل ضروری ہے کہ اس آزادی اور بے پردگی سے پہلے مَردوں کی اخلاقی حالت درست کرو‘‘۔ اگر تمہارے خیال میں تم پاک دامن ہو بھی تویہ ضمانت تم کہاں سے دے سکتی ہو کہ مَردوں کی اخلاقی حالت بھی درست ہے۔ اپنے پردے اتارنے سے پہلے مَردوں کے اخلاق کو درست کرلو، گارنٹی لے لو کہ ان کے اخلاق درست ہوگئے ہیں پھر ٹھیک ہے پردے اتاردو۔ ’’اگر یہ درست ہوجاوے اور مَردوں میں کم از کم اس قدر قوت ہو کہ وہ اپنے نفسانی جذبات کے مغلوب نہ ہو سکیں تو اُس وقت اس بحث کو چھیڑو کہ آیا پردہ ضروری ہے کہ نہیں۔ ورنہ موجودہ حالت میں اس بات پر زور دینا کہ آزادی اور بے پردگی ہو گویا بکریوں کو شیروں کے آگے رکھ دینا ہے۔ ‘‘

ایک جگہ آپ نے فرمایا ہے کہ بے پردہ ہوکر مَردوں کے سامنے جانا اسی طرح ہے جس طرح کسی بھوکے کُتے کے سامنے نرم نرم روٹیاں رکھ دی جائیں۔ تو یہاں تک آپ نے الفاظ فرمائے ہوئے ہیں۔ فرمایا کہ :’’کم از کم اپنے کانشنس(conscience)سے ہی کام لیں کہ آیا مَردوں کی حالت ایسی اصلاح شدہ ہے کہ عورتوں کو بے پردہ اُن کے سامنے رکھا جاوے۔ ‘‘(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 104-106۔ جدید ایڈیشن)(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ کینیڈا 25 ؍جون 2005ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 2؍ مارچ 2007ء)

اسلامی تعلیم پر اعتراض کے حوالہ سے ہی اپنے ایک خطبہ جمعہ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے احباب جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

’’اسلام کی تعلیم پر اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ عورت کو حجاب اوڑھا کر، پردہ کا کہہ کر اس کے حقوق سلب کئے گئے ہیں اور اس سے کچے ذہن کی لڑکیاں جو ہیں بعض دفعہ متأثر ہو جاتی ہیں۔ اسلام پردہ سے مراد جیل میں ڈالنا نہیں لیتا۔ گھر کی چاردیواری میں عورت کو بند کرنا اس سے مراد نہیں ہے۔ ہاں حیا کو قائم کرنا ہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 13 ؍جنوری 2017بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 3؍فروری 2017ء)

’’پردے کا تشدّد‘‘ جائز نہیں

اسلام میں پردے کا حکم نہایت اہمیت رکھتا ہے لیکن اس اسلامی حکم کی تعمیل کرنے اور کروانے کے سلسلہ میں کسی قسم کا تشدّد جائز نہیں ہے۔ کیونکہ پردے کا مقصد عورت کی غلامی نہیں بلکہ اُس کے وقار کو قائم رکھنا ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے پردے میں عدم تشدّدکی تعلیم کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات بارہا پیش فرمائے ہیں۔ ایک موقع پر فرمایا:

’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : پردے کا اتنا تشدّد جائز نہیں ہے۔ … حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر بچہ رحم میں ہو تو کبھی مرد اس کو نکال سکتاہے۔ دین اسلام میں تنگی و حرج نہیں۔ جوشخص خوامخواہ تنگی و حرج کرتا ہے وہ اپنی نئی شریعت بناتاہے۔ گورنمنٹ نے بھی پردہ میں کوئی تنگی نہیں کی اور اب قواعدبھی بہت آسان بنا دئیے ہیں۔ جو جوتجاویز و اصلاحات لوگ پیش کرتے ہیں گورنمنٹ انہیں توجہ سے سنتی اور ان پر مناسب اور مصلحت وقت کے مطابق عمل کرتی ہے۔ کوئی شخص مجھے یہ تو بتائے کہ پردہ میں نبض دکھانا کہاں منع کیاہے۔ ‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ171 پرانا ایڈیشن صفحہ 239جدید ایڈیشن)

ایک تو یہ فرمایاکہ بعض عورتوں کی پیدائش کے وقت اگر مرد ڈاکٹروں کو بھی دکھانا پڑے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ وہاں جو بعض مرد غیرت کھا جاتے ہیں کہ مَردوں کو نہیں دکھانا وہ بھی منع ہے۔ ضرورت کے وقت مرد ڈاکٹروں کے سامنے پیش ہونا کوئی ایسی بات نہیں۔ ‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یوکے 31؍جولائی2004ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍اپریل 2015ء)

دراصل اسلام کسی بھی معاملہ میں افراط اور تفریط دونوں کو مسترد کرتا ہے۔ چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ ایک موقع پر فرماتے ہیں کہ:

’’ یہ بھی دو طرح کے گروپ بن گئے ہیں ایک تو یہ کہتا ہے کہ پردہ اس سختی سے کرو کہ عورت کو گھر سے باہر نہ نکلنے دواور دوسرایہ ہے کہ اتنی چھوٹ دے دو کہ سب کچھ ہی غلط ملط ہو جائے۔ ‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ کینیڈا 3؍جولائی 2004ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 23؍ستمبر 2005ء)

پھر ایک دوسرے موقع پر اسی حوالہ سے حضورانور نے ارشاد فرمایا:

’’ بہر حال اﷲ تعالیٰ کے جو احکامات ہیں اُن میں نہ ہی افراط کا حکم ہے نہ ہی تفریط کا حکم ہے۔ نہ اِس طرف جھکو نہ اُس طرف جھکو۔ اور یہی اصل چیز ہے۔ ‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یوکے30؍جولائی 2010ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 11؍مارچ 2011ء)

اسی حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے امّ المومنین حضرت سیّدہ نصرت جہاں بیگم رضی اللہ عنہا کا ایک واقعہ بیان کرنے کے بعد پردے کی اصل روح پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ :

’’ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام، حضرت امّ المومنین کو کس حد تک پردہ کرواتے تھے یا کیا طریق تھا۔ اس بارہ میں روایت ہے کہ حضرت امّ المومنین کی طبیعت کسی قدر ناساز رہا کرتی تھی۔ آپؑ نے ڈاکٹر صاحب سے مشورہ فرمایا کہ اگر وہ ذرا باغ میں چلی جایا کریں تو کچھ حرج تو نہیں۔ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ اس پر اعلیٰ حضرت نے فرمایا:

’’دراصل مَیں تو اس لحاظ سے کہ معصیت نہ ہو کبھی کبھی گھر کے آدمیوں کو اس لحاظ سے کہ شرعاًجائز ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں رعایت پردہ کے ساتھ باغ میں لے جایا کرتا تھا اور میں کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہیں کرتا۔ حدیث شریف میں بھی آیا ہے کہ بہار کی ہوا کھاؤ۔ گھر کی چار دیواری کے اندر ہر وقت بند رہنے سے بعض اوقات کئی قسم کے امراض حملہ کرتے ہیں۔ علاوہ اس کے آنحضرتﷺ حضرت عائشہؓ کو لے جایا کرتے تھے۔ جنگوں میں حضرت عائشہؓ ساتھ ہوتی تھیں۔ پردہ کے متعلق بڑی افراط تفریط ہوئی ہے۔ یورپ والوں نے تفریط کی ہے اور اب ان کی تقلیدسے بعض نیچری بھی اسی طرح چاہتے ہیں۔ حالانکہ اس بے پردگی نے یورپ میں فسق و فجور کا دریا بہادیا ہے۔ اور اس کے بالمقابل بعض مسلمان افراط کرتے ہیں کہ کبھی عورت گھر سے باہر نکلتی ہی نہیں حالانکہ ریل پر سفر کرنے کی ضرورت پیش آجاتی ہے۔ غرض ہم دونوں قسم کے لوگوں کو غلطی پر سمجھتے ہیں جو افراط اور تفریط کر رہے ہیں۔ ‘‘(ملفوظات جلد سوم صفحہ 558-557)(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ جرمنی23 ؍اگست 2003 ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 18؍نومبر 2005ء)