پردہ

فہرست مضامین

پردے کی حدود

دین کا ہر حکم نہایت پُرحکمت ہوتا ہے۔ پردے کے حکم کے پس پردہ حکمت کا ذکر کرتے ہوئے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے ایک خطبہ جمعہ میں احباب جماعت سے مخاطب ہوتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ دین اور مذہب ان کی آزادی کو سلب کرتا ہے اور ان پر پابندیاں لگاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ(الحج:79) یعنی دین کی تعلیم میں تم پر کوئی بھی تنگی کا پہلو نہیں ڈالا گیا بلکہ شریعت کی غرض تو انسان کے بوجھوں کو کم کرنا اور صرف یہی نہیں بلکہ اسے ہر قسم کے مصائب اور خطرات سے بچانا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ دین یعنی دین اسلام جو تمہارے لئے نازل کیا گیا ہے اس میں کوئی بھی ایسا حکم نہیں جو تمہیں مشکل میں ڈالے بلکہ چھوٹے سے چھوٹے حکم سے لے کر بڑے سے بڑے حکم تک ہر حکم رحمت اور برکت کا باعث ہے۔ پس انسان کی سوچ غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کلام غلط نہیں ہو سکتا۔ اگر اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہو کر ہم اس کے حکموں پر نہیں چلیں گے تو اپنا نقصان کریں گے۔ اگر انسان عقل نہیں کرے گا تو شیطان جس نے روزِ اول سے یہ عہد کیا ہوا ہے کہ میں انسانوں کو گمراہ کرکے نقصان پہنچاؤں گا وہ انسان کو تباہی کے گڑھے میں گرائے گا۔ پس اگر اس کے حملے سے بچنا ہے تو اللہ تعالیٰ کے حکموں کو ماننا ضروری ہے۔ بعض باتیں بظاہر چھوٹی لگتی ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کو معمولی سمجھنے کی وجہ سے ان کے نتائج انتہائی بھیانک صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ پس ایک مومن کو کبھی بھی کسی بھی حکم کو چھوٹا نہیں سمجھنا چاہئے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 13 ؍جنوری2017ءبمقام بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 3 ؍فروری 2017ء)

پردے کے اسلامی حکم کے پس پردہ ایک دلکش حکمت عورت کے وقار کو قائم رکھنا بھی ہے۔ اس حوالہ سے حضورانور ایدہ اللہ احمدی عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’ اب مَیں آپ کو اللہ تعالیٰ کا حکم، جو اصل میں عورت کو عورت کا وقار اور مقام بلند کرنے کے لئے دیا گیا ہے اس کی طرف توجہ دلانا چاہتاہوں اور پہلے بھی اس بارے میں توجہ دلا چکاہوں۔ لیکن بعض باتوں اور خطو ط سے اظہارہوتا ہے کہ شاید مَیں زیادہ سختی سے اس طرف توجہ دلاتاہوں یا میر ارجحان سختی کی طرف ہے۔ حالانکہ مَیں اتنی ہی بات کررہاہوں جتنا اللہ اور اس کے رسول اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حکم فرمایا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ پردے کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ عورت کو قید میں ڈال دیا جائے۔ لیکن ان باتوں کا خیال ضرور رکھنا چاہئے جو پردے کی شرائط ہیں۔ تو جس طرح معاشرہ آہستہ آہستہ بہک رہا ہے اور بعض معاملات میں برے بھلے کی تمیز ہی ختم ہو گئی ہے اس کا تقاضا ہے کہ احمدی عورتیں اپنے نمونے قائم کریں۔ اور معاشرے کو بتائیں کہ پردے کا حکم بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہمارا مقام بلند کرنے کے لئے دیا ہے نہ کہ کسی تنگی میں ڈالنے کے لئے۔ اور پردے کا حکم جہاں عورتوں کو دیا گیا ہے وہاں مَردوں کو بھی ہے۔ ان کوبھی نصیحت کی کہ تم بھی اس بات کا خیال رکھو۔ بے وجہ عورتوں کو دیکھتے نہ رہو۔ ‘‘

حضورانور ایدہ اللہ نے اپنے اسی خطاب میں مَردوں اور عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے مزید فرمایا:

’’ تو مومن کو تو یہ حکم ہے کہ نظریں نیچی کرو اور اس طرح عورتوں کو گھور گھور کر نہ دیکھو۔ اور ویسے بھی بلا وجہ دیکھنے کا جس سے کوئی واسطہ تعلق نہ ہو کوئی جواز نہیں ہے۔ لیکن عموماً معاشرے میں عورت کو بھی کوشش کرنی چاہئے کہ ایسے حالات پیدا نہ ہوں کہ اس کی طرف توجہ اس طرح پیدا ہو جو بعد میں دوستیوں تک پہنچ جائے۔ اگر پردہ ہوگا تو وہ اس سلسلے میں کافی مددگار ہو گا۔ ‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یوکے31؍جولائی2004ء بمقام ٹلفورڈ۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍اپریل 2015ء)

پردہ کس طرح اور کس کس سے کرنا چاہئے، اس بارہ میں قرآن کریم میں بڑی وضاحت سے تعلیم بیان فرمادی گئی ہے۔ اسی حوالہ سے حضورانور ایدہ اللہ نے اپنے ایک خطاب میں فرمایا:

’’ پردہ ایک بنیادی اسلامی حکم ہے اور قرآن کریم میں بڑا کھول کر اس کے بارے میں بیان ہوا ہے۔ لوگ جو قرآن کریم غور سے نہیں پڑھتے سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں اتنی سختی نہیں کی۔ یہ تو ایسا واضح حکم ہے جو بڑا کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ اور پہلے بھی میں دو تین دفعہ کہہ چکا ہوں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شاید میں ہی اس کو سختی سے زیادہ بیان کر رہا ہوں۔ حالانکہ میں وہ بیان کر رہا ہوں جو قرآن کریم کے مطابق ہے۔ میں وہ بات آپ کو کہہ رہا ہوں جو قرآن کریم کہتا ہے۔ قرآن کریم پردے کے بارہ میں کیا کہتا ہے۔ یہ لمبی آیت ہے اس میں حکم ہے وَلَایُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْھَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلٰی جُیُوْبِھِن(النور:32)کہ اپنی زینت ظاہر نہ کیا کریں سوائے اس کہ جو اس میں سے از خود ظاہر ہو۔ اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈال لیا کریں۔ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّالِبُعُوْلَتِھِنَّ اَوْاٰبَآئِھِنَّ اَوْ اٰبَآئِ بُعُوْلَتِھِنَّ اَوْ اَبْنَائِھِنَّ اَوْ اَبْنَآئِ بُعُوْلَتِھِنَّ(النور:32) اور پھر لمبی فہرست ہے کہ باپوں کے سامنے، خاوندوں کے سامنے، بیٹوں کے سامنے جو زینت ظاہر ہوتی ہے وہ ان کے علاوہ باقی جگہ آپ نے ظاہر نہیں کرنی۔

اب اس میں لکھا ہے کہ اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈال لو۔ تو بعض کہتے ہیں کہ گریبانوں پر اوڑھنیاں ڈالنے کا حکم ہے اس لئے گلے میں دوپٹہ ڈال لیا یا سکارف ڈال لیا تو یہ کافی ہو گیا۔ تو ایک تو یہ حکم ہے کہ زینت ظاہر نہ کریں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب باہر نکلوتو اتنا چوڑا کپڑا ہو جو جسم کی زینت کو بھی چھپاتا ہو۔ دوسری جگہ سر پر چادر ڈالنے کا بھی حکم ہے۔ اسی لئے دیکھیں تمام اسلامی دنیا میں جہاں بھی تھوڑا بہت پردہ کا تصور ہے وہاں سر ڈھانکنے کا تصور ضرور ہے۔ ہر جگہ حجاب یا نقاب اس طرح کی چیز لی جاتی ہے یا سکارف باندھا جاتا ہے یا چوڑی چادر لی جاتی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلٰی جُیُوْبِھِنَّ(النور:32) بڑی چادروں کو اپنے سروں سے گھسیٹ کر سینوں تک لے آیا کرو۔ بڑی چادر ہو سر بھی ڈھانکا ہو اور جسم بھی ڈھانکا ہو۔ باپوں اور بھائیوں اور بیٹوں وغیرہ کے سامنے تو بغیر چادر کے آسکتی ہو۔ اب جب باپوں اور بھائیوں اور بیٹوں کے سامنے ایک عورت آتی ہے تو شریفانہ لباس میں ہی آتی ہے۔ چہرہ وغیرہ ننگا ہوتا ہے۔ تو فرمایا کہ یہ چہرہ وغیرہ ننگا جوہوتا ہے یہ باپوں اور بھائیوں اور بیٹوں اور ایسے رشتے جو محرم ہوں، ان کے سامنے تو ہو جاتا ہے لیکن جب باہر جاؤ تو اس طرح ننگا نہیں ہونا چاہئے۔ اب آج کل اس طرح چادریں نہیں اوڑھی جاتیں۔ لیکن نقاب یابرقع یا کوٹ وغیرہ لئے جاتے ہیں۔ تو اس کی بھی اتنی سختی نہیں ہے کہ ایسا ناک بند کرلیں کہ سانس بھی نہ آئے۔ سانس لینے کے لئے ناک کو ننگا رکھا جاسکتا ہے لیکن ہونٹ وغیرہ اور اتنا حصہ، دہانہ اور اتنا ڈھانکنا چاہئے۔ یا تو پھر بڑی چادر لیں جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے سر پر اوڑھیں، خود بخود پردہ ہو جاتا ہے، بڑی چادر سے گھونگھٹ نکل آتا ہے۔ یا اگر اپنی سہولت کے لئے برقع وغیرہ پہنتے ہیں تو ایسا ہو جس سے اس حکم کی پابندی ہوتی ہو۔ تنگ کوٹ پہن کر جو جسم کے ساتھ چمٹا ہو یا ساراچہرہ ننگا کر کے تو پردہ، پردہ نہیں رہتا وہ توفیشن بن جاتا ہے۔ پس میں ہر ایک سے کہتا ہوں کہ اپنے جائزے خود لیں اور دیکھیں کہ کیا قرآن کریم کے اس حکم کے مطابق ہر ایک پردہ کررہا ہے۔ ‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ سویڈن 17 ؍ستمبر 2005ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 15؍مئی2015ء)

محرم رشتہ داروں سے پردہ کی چھوٹ

اللہ تعالیٰ ہمیں کن کن لوگوں سے پردہ نہ کرنے کی اجازت عطا فرماتا ہے۔ اس کا بیان مذکورہ بالا اقتباس میں بھی ہوچکا ہے۔ اسی بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ :

’’اس میں جن عزیزوں یا رشتوں کا ذکر ہے کہ ان سے پردہ کی چھوٹ ہے ان میں وہ سب لوگ ہیں جو انتہائی قریبی رشتہ دار ہیں۔ یعنی خاوند ہے، باپ ہے یا سسرہے، بھائی ہے یا بھتیجے، بھانجے وغیرہ۔ ان کے علاوہ باقی جن سے رشتہ داری قریبی نہیں ان سب سے پردہ ہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ؍جنوری 2004ءبمقا م مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 9؍اپریل2004ء)

پھر ایک دوسرے موقع پر احمدی خواتین سے خطاب فرماتے ہوئے اسی حوالہ سے حضورانور نے ارشاد فرمایا:

’’خاوند، باپ، سسر یا خاوندوں کے بیٹے اگر دوسری شادی ہے، پہلے خاوندکی اگر کوئی اولاد تھی تو، بھائی، بھتیجے، بھانجے یا اپنی ماحول کی عورتیں جو پاک دامن عورتیں ہوں جن کے بارے میں تمہیں پتہ ہو۔ کیونکہ ایسی عورتیں جو برائیوں میں مشہور ہیں ان کو بھی گھروں میں گھسنے یا ان سے تعلقات بڑھانے کی اجازت نہیں ہے۔ ان کے علاوہ یہ جو چند رشتے بتائے گئے، اس کے علاوہ ہر ایک سے پردے کی ضرورت ہے۔ پھر یہ بھی فرما دیا کہ تمہاری چال بھی باوقار ہونی چاہئے۔ ایسی نہ ہو جو خواہ مخواہ بد کردار شخص کو اپنی طرف متوجہ کرنے والی ہو اور اس کو یوں موقع دو۔ اگر اس طرح عمل کرو گے، توبہ کی طرف توجہ کروگے تاکہ خیالات بھی پاکیزہ رہیں تو اسی میں تمہاری کامیابی ہو گی اور اسی میں تمہاری عزت ہو گی، اور اسی میں تمہار امقام بلند ہو گا۔ ‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یوکے31 ؍جولائی 2004ء بمقام ٹلفورڈد۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24 اپریل2015ء)

گھروں میں داخل ہونے والوں کیلئے مشروط اجازت

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے احباب جماعت کو اپنے گھروں کے تقدّس کو قائم رکھنے اور اپنی اولاد کی تربیت و اصلاح کی خاطر گھروں میں داخل ہونے والے متفرّق افراد سے متعلق قرآن کریم کے بیان فرمودہ احکامات کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ کی نصائح کی روشنی میں اپنے ایک خطبہ جمعہ میں اِن الفاظ میں بیان فرمایا:

حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ’’اپنی عورتوں کے سامنے زینت ظاہر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسی عورتیں جن سے بے تکلفانہ یا بے حجابانہ تمہیں سامنے نہیں آنا چاہئے۔ اب بازاری عورتیں ہیں ان سے بچنے کی توہر شریف عورت کوشش کرتی ہے۔ ان کی حرکات، ان کا کردار ظاہر وباہر ہوتاہے، سامنے ہوتاہے لیکن بعض عورتیں ایسی بھی ہیں جو غلط قسم کے لوگوں کے لئے کام کررہی ہوتی ہیں اور گھروں میں جا کر پہلے بڑوں سے دوستی کرتی ہیں۔ جب ماں سے اچھی طرح دوستی ہو جائے تو پھربچیوں سے تعلق قائم کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور آہستہ آہستہ بعض دفعہ برائیوں کی طرف ان کو لے جاتی ہیں۔ تو ایسی عورتوں کے بارہ میں بھی یہ حکم ہے کہ ہر ایرے غیرے کو، ہر عورت کو اپنے گھر وں میں نہ گھسنے دو۔ ان کے بارہ میں تحقیق کرلیاکرو، اس کے بعد قدم آگے بڑھاؤ۔ حضرت مصلح موعود ؓ نے لکھاہے کہ پہلے یہ طریق ہواکرتا تھالیکن اب کم ہے(کسی زمانے میں کم تھا لیکن آج کل پھر بعض جگہوں سے ایسی اطلاعیں آتی ہیں کہ پھر بعض جگہوں پر ایسے گروہ بن رہے ہیں جو اس قسم کی حرکات کرتے ہیں )۔ خاص طورپراحمدی بچوں کو پاکستان میں بہت زیادہ احتیاط کرنی چاہئے بلکہ ماں باپ کو بھی احتیاط کرنی چاہئے کہ بعض دفعہ گھریلو کام کے لئے ایک عورت گھرمیں داخل ہوتی ہے اور اصل میں وہ ایجنٹ ہوتی ہے کسی کی اور اس طرح پھر آہستہ آہستہ ورغلاکر پہلے دوستی کے ذریعہ اور پھر دوسرے ذریعوں سے بچیوں کوغلط قسم کی عادتیں ڈال دیتی ہیں۔ تو ایسے ملازمین یا ملازمائیں جو رکھی جاتی ہیں، ان سے احتیاط کرنی چاہئے اور بغیر تحقیق کے نہیں رکھنی چاہئیں۔ اسی طرح اب اس طرح کاکام، بری عورتوں والا انٹرنیٹ نے بھی شروع کردیاہے۔ جرمنی وغیرہ میں اور بعض دیگرممالک میں ایسی شکایات پیداہوئی ہیں کہ بعض لوگوں کے گروہ بنے ہوئے ہیں جو آہستہ آہستہ پہلے علمی باتیں کر کے یا دوسری باتیں کرکے چارہ ڈالتے ہیں اور پھر دوستیاں پیدا ہوتی ہیں اور پھرغلط راستوں پرڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍جنوری 2004 ءبمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 9؍ اپریل 2004ء)

اسی طرح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ناروے کی نیشنل مجلس عاملہ کے ساتھ ایک میٹنگ میں پردے کے بارے میں یہ ہدایت فرمائی کہ :

’’گھروں میں مختلف فیملیوں کا آنا جانا ہوتا ہے۔ کہتے ہیں ہمارے تعلقات ہیں۔ ہم پرانے واقف ہیں، یہ درست نہیں۔ جب ایک دوسرے کے گھروں میں آئیں تو مرد علیحدہ بیٹھیں اور عورتیں علیحدہ پردہ میں بیٹھیں۔ ‘‘(میٹنگ نیشنل مجلس عاملہ جماعت احمدیہ ناروے 3 ؍اکتوبر 2011ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 30؍دسمبر 2011ء)

اسی مضمون کو ایک دوسرے پہلو سے بیان کرتے ہوئے حضورانور ایدہ اللہ نے ایک موقع پر فرمایا:

’’بعض دفعہ نیکی کے نام پر، انسانی ہمدردی کے نام پر، دوسرے کی مدد کے نام پر، مرد اور عورت کی آپس میں واقفیت پیدا ہوتی ہے جو بعض دفعہ پھر برے نتائج کی حامل بن جاتی ہے۔ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسی عورتوں کے گھروں میں جانے سے بھی منع فرمایا کرتے تھے جن کے خاوند گھر پر نہ ہوں اور اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہا ہے۔ (سنن الترمذی کتاب الرضاع باب ما جاء فی کراھیۃ الدخول علی المغیبات حدیث 1172)

اسی حکم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اصولی حکم ارشاد فرما دیا کہ نامحرم کبھی آپس میں آزادانہ جمع نہ ہوں کیونکہ اس سے شیطان کو اپنا کام کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔

پس اس معاشرے میں احمدیوں کو خاص طور پر محتاط رہنے کی ضرورت ہے جہاں آزادی کے نام پر لڑکی لڑکے کا آزادانہ ملنا اور علیحدگی میں ملنا کوئی عار نہیں سمجھا جاتا۔

پھر صرف نادان لڑکے لڑکیوں کی وجہ سے برائیاں نہیں پیدا ہو رہی ہوتیں بلکہ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ شادی شدہ لوگوں میں بھی آزادی اور دوستی کے نام پر گھروں میں آناجانا، بلا روک ٹوک آنا جانا مسائل پیدا کرتا ہے اور گھر اجڑتے ہیں۔ اس لئے ہمیں جن پر اللہ تعالیٰ نے یہ احسان فرمایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کی توفیق دی ہے، اسلام کے ہر حکم کی حکمت ہمیں سمجھائی ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کے ہر حکم پر بغیر کسی قسم کے سوال اور تردّد کے عمل کرنا چاہئے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 20؍مئی 2016 ءبمقام مسجد گوٹن برگ، سویڈن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 10؍ جون 2016ء)

عورتوں اور مَردوں کی مجالس علیحدہ ہوں

اسلامی تعلیم تو یہی ہے کہ مَردوں اور عورتوں کی آزادانہ اور بے حجابانہ ملاقاتیں نہ ہوں یا مخلوط مجالس نہ لگائی جائیں۔ اس سلسلہ میں احمدی عورتوں کی رہنمائی کرتے ہوئے حضورانور ایدہ اللہ نے نہایت پُرحکمت نصیحت یوں فرمائی:

’’اگر آپ برقع پہن کر مرودوں کی مجلسوں میں بیٹھنا شروع کردیں، مَردوں سے مصافحے کرنا شروع کردیں تو پردہ کا تو مقصد فوت ہوجاتا ہے۔ اس کا تو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ پردہ کا مقصد تو یہ ہے کہ نا محرم مرد اور عورت آپس میں کھلے طور پر میل جول نہ کریں، آپس میں نہ ملیں، دونوں کی جگہیں علیحدہ علیحدہ ہوں۔ اگر آپ اپنی سہیلی کے گھر جا کر اس کے خاوند یا بھائیوں یا رشتہ داروں سے آزادانہ ماحول میں بیٹھی ہیں۔ چاہے منہ کو ڈھانک کے بیٹھی ہوتی ہیں یا منہ ڈھانک کر کسی سے ہاتھ ملارہی ہیں تو یہ تو پردہ نہیں ہے۔ جو پردے کی غرض ہے وہ تو یہی ہے کہ نامحرم مَرد عورتوں میں نہ آئے اور عورتیں نامحرم مَردوں کے سامنے نہ جائیں۔ ہر ایک کی مجلسیں علیحدہ ہوں۔ بلکہ قرآن کریم میں تو یہ بھی حکم ہے کہ بعض ایسی عورتوں سے جو بازاری قسم کی ہوں یا خیالات کو گندہ کرنے والی ہوں ان سے بھی پردہ کرو۔ ان سے بھی بچنے کا حکم ہے۔ اس لئے احتیاط کریں اور ایسی مجلسوں سے بچیں۔ ‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ کینیڈا 3 ؍جولائی 2004ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 23؍ستمبر2005ء)

عورتوں اور مَردوں کا ہاتھ ملانا

عورتوں اور مَردوں کا آپس میں ہاتھ ملانا بھی پردہ کی تعلیم کی نفی کرنے کے زمرہ میں آتا ہے۔ اس بارے میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایاکہ:

’’ مَردوں سے غیر ضروری باتیں کرنے اور بے جا بے تکلفی سے بھی مَردوں کو موقع ملتاہے کہ وہ ہاتھ ملائیں۔ احمد ی عورتوں کو اپنا مقام پہچاننا چاہئے اور اگلے کو ایسا موقع نہیں دینا چاہئے اور ان کو بتا دینا چاہئے کہ ہمارے مذہب میں عورت مرد سے سلام نہیں کرتی‘‘ یعنی ہاتھ نہیں ملاتی۔ (میٹنگ نیشنل مجلسِ عاملہ لجنہ اماءاللہ آئرلینڈ18 ؍ستمبر2010 ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 22؍اکتوبر 2010ء)

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دورۂ امریکہ کے دوران مسجد بیت الرحمٰن، واشنگٹن میں احمدی طالبات کے ساتھ ایک نشست ہوئی۔ جس میں طالبات نے حضور انور کی اجازت سے بعض سوالات بھی کئے۔

ایک سوال کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے طالبات کو بلکہ تمام لجنہ کو گھر سے اپنے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹی میں پردے کو ملحوظ رکھنے کے بارے میں توجہ دلائی۔ ان کو احمدی خواتین ہونے کی ذمہ داری کا احساس دلایا۔ کام پر، job پر مَردوں سے ہاتھ ملانے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

’’جو logic حجاب کے متعلق ہے وہی logicمَردوں سے ہاتھ نہ ملانے میں بھی ہے۔ یعنی اگر آپ کسی غیرمحرم کی آنکھوں سے بچتی ہیں تو اس کے ہاتھوں سے کیوں نہیں !‘‘۔ (طالبات کے ساتھ نشست 26 ؍جون 2012 ءبمقام واشنگٹن، امریکہ۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 17؍ اگست 2012ء)

واقفاتِ نَو جرمنی کے ساتھ ہونے والی ایک سوال و جواب کی مجلس میں مَردوں سے ہاتھ ملانے کے بارہ میں ایک واقفۂ نونے سوال کیا کہ مَیں یہاں ایک ادارے میں گئی تھی جہاں ایک مرد بیٹھا ہوا تھا اور جس نے سلام کے لئے آگے ہاتھ کردیا۔ ایسی صورت میں کیا کرنا چاہئے؟

اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

’’ میرے ساتھ بھی ایک آدھ مرتبہ ایسا ہوا ہے اور میں تو یہی کرتا ہوں کہ آگے تھوڑا جھک جاتا ہوں جس سے اگلے بندے کو سمجھ آجاتی ہے۔ یہ تو آپ نے اپنے آپ کو خود بچانا ہے۔ اگر معاشرہ سے ڈرتی ہیں تو پھر کچھ نہیں ہوگا۔ دو چار مرتبہ ایسا کریں گی اور اگلے کو بتا دیں گی کہ میرا مذہب مجھے یہ کہتا ہےکہ مَردوں کے ساتھ ہاتھ نہیں ملاناتو وہ خود ہی ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مزید وضاحت کرتے ہوئےفرمایا:

’’آپ نے اگر اپنی مذہبی تعلیم کو پھیلانا ہے، لوگوں کو اس بارے میں بتانا ہےاور اس پر قائم رہنا ہے تو پھر بعض دفعہ لوگوں کے دلوں میں چھوٹی موٹی بےچینیاں پیدا ہوں گی اور وہ تو برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ یہ کوئی آج کی بات نہیں بلکہ ہمیشہ سے ہی ایسے ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لکھا ہے۔ اس دَور کی بات ہے جب Indo-Pak ایک continentتھا اور انگریزوں کے زیرِاثر تھا اور ان کے وائسرائے اور لارڈز اور گورنر وغیرہ ہوتے تھے۔ ان میں سے بعضوں کے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ذاتی تعلقات بھی تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں کہ میں دہلی گیا ہوا تھا تو وہاں ایک لارڈ نے میری دعوت کی تو میں نے اُسے کہا کہ مجھے نہ بلاؤ کیونکہ وہاں اور بھی بہت سارے لوگ ہوں گے اور عورتیں بھی ہوں گی اور میں نے عورتوں سے سلام نہیں کرنا تو اس سے لوگوں میں بے چینی پیدا ہو گی۔ اس پر اس نے کہا کہ کوئی بات نہیں، آپ آجائیں۔ تو میں نے کہا ٹھیک ہے، میں پھر ایک کونے میں بیٹھوں گا۔ تو وہاں ایک کونے میں بیٹھ گئے لیکن وہاں بھی ایک پراناواقف انگریز ملنے کے لئے آگیا اور اس کی بیوی نے ہاتھ بڑھا دیا۔ اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میری طرف سے معذرت ہے میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا۔ اس پر وہ عورت بڑی ناراض ہوئی اور وہ انگریز خود بھی بڑا شرمندہ ہوااور بعد میں لکھا کہ میں ساری رات بے چین رہا کہ آپ بھی کہتے ہوں گے کہ میرے آپ کے ساتھ اتنے پرانے تعلقات ہیں اور مجھے اسلام کی تعلیم کا بھی پتہ ہے اس کے باوجود مَیں نے اپنی بیوی کو نہیں بتایا کہ سلام کے لئے آگے ہاتھ مت بڑھانا اور بیوی کے لئے بھی مَیں علیحدہ پریشان رہا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مَیں نے بعد میں اس کو خط بھی لکھا اور اس کی دعوت بھی کی اور اس کی بیوی کو بھی بلایا۔ انہیں کھانا وغیرہ کھلایااور ان کی اچھی دعوت ہو گئی اور ان کی تسلی ہو گئی۔ ‘‘

ایک واقفۂ نونے عرض کیا کہ ہمارے حلقہ کی ایک لجنہ نے بتایا کہ وہ کسی ڈاکٹرکے پاس گئی تھیں اور ڈاکٹر نے آگے ہاتھ بڑھا دیا تھا جس پر انہوں نے ڈاکٹر سے ہاتھ ملا دیاتھا۔ اس پر مَیں نے اُن سے کہا کہ ہاتھ ملانا تو منع ہے۔ اس پر اُس آنٹی نے جواب دیاکہ نہ تو اُس کے دل میں کوئی برائی تھی اور نہ میرے دل میں۔ اس لئے ہاتھ ملانے سے کچھ نہیں ہوتا۔

اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےجواباً فرمایا:

’’وہ غلط کہتی ہیں۔ یہ کہاں لکھا ہوا ہے کہ دل میں برائی نہ ہو تو ایسا کر سکتے ہیں ؟ مَیں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ اسلام کے جو احکامات ہیں وہ ہر ممکنہ چیز کو cover کرتے ہیں۔ سَو میں سے اسّی نوّے فیصد جو مرد عورتیں ہاتھ ملاتے ہیں تو ان کے دل میں برائی نہیں ہوتی لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ نعوذُباللہ کیا آنحضرتﷺ کے دل میں عورتوں کے لئےکوئی برائی تھی؟یاعورتوں کے دل میں آنحضرتﷺ کے لئے کوئی برائی تھی؟ کئی واقعات ایسے ملتے ہیں کہ عورتوں نے بیعت کے لئےہاتھ بڑھایا کہ ہماری بیعت لے لیں لیکن آپﷺ نے فرمایا کہ ہم عورتوں سے ہاتھ ملا کر بیعت نہیں لیتے۔ آنحضرتﷺ کے کئی واقعات حدیثوں سے ثابت ہیں۔ بیعت جو کہ ایک پاکیزہ طریق کار ہے اور پھر آنحضرتﷺ کا مقام دیکھیں۔ اس کے باوجود آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا۔ پھر اس کے بعد باقی بُرائی کیا رہ گئی؟ یہ سب بہانے ہیں۔ لوگ اس معاشرے میں آکر ڈر جاتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ اپنی تعلیم بتائیں اور اپنا ایمان مضبوط ہو اُن کے ماحول میں ڈھل جانا ویسے ہی بزدلی ہے۔ تو جس عورت نے بھی ایسا کیا ہے وہ نہایت بزدل عورت تھی۔ ‘‘

اسی واقفۂ نَو نے عرض کیا کہ میرا دوسرا سوال پردہ کے حوالہ سے ہے کہ بعض عورتوں سے جب کہا جائے کہ پردہ کریں تو کہتی ہیں کہ یہاں کوئی احمدی نہیں ہے اس لئے پردہ کی ضرورت نہیں ہے۔

اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جواب میں فرمایا:

’’کیا پردہ صرف احمدیوں سے ہی کرنا ہے؟ اُن سے کہیں کہ یہ کہیں نہیں لکھا ہوا کہ صرف احمدیوں سے ہی پردہ کرو۔ بلکہ جب پردہ کا حکم آیا ہے اس سے پہلے ایک یہودی نے ایک مسلمان عورت کے ساتھ بڑی غلط حرکت کی تھی کہ اُس کی چادر وغیرہ کھینچنے کی کوشش کی۔ ویسے تو اللہ تعالیٰ نے پردہ کا حکم دینا ہی تھا لیکن یہ بھی ایک وجہ بن گئی۔ تو یہ کہیں نہیں لکھا ہوا کہ تم نے صرف احمدیوں سے ہی پردہ کرنا ہے۔ کیا خطرہ صرف احمدیوں سے ہی ہے؟ غیر احمدیوں سے کوئی خطرہ نہیں ہے؟ قرآن کریم میں کہیں نہیں لکھاکہ تم نے صرف مسلمانوں سے ہی پردہ کرنا ہے۔ قرآن کریم میں لکھا ہے کہ اپنی چادر کو اپنے سر پر ڈالو اور اپنی اوڑھنیوں سے اپنے سینے ڈھانپو۔ اس لئے اگر وہ ایسا کہتی ہیں تو غلط کہتی ہیں۔ وہ اپنی نئی شریعتیں پھیلا رہی ہیں۔ آپ لوگ واقفاتِ نَو اسی لئے ہیں کہ ایسی عورتوں سے کہیں کہ اپنی بدعات نہ پیدا کرو اور اپنی اپنی شریعتیں نہ پھیلاؤ۔ آپ نے ان لوگوں کی اصلاح کرنی ہے۔ اس وقت میرے سامنے 230واقفاتِ نَوجو بیٹھی ہیں اگر یہ ساری اصلاح کے لئے کھڑی ہوجائیں تو خود ہی لوگوں کے دماغ ٹھیک ہو جائیں گے۔ ‘‘(کلاس واقفاتِ نو23 ؍اپریل 2017 ءجرمنی۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل9 ؍جون 2017ء)

یورپ میں رہنے والی بعض احمدی بچیوں کے مَردوں سے مصافحہ کرنے کی عادت کو بیان کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ناروے میں لجنہ اماءاللہ کی نیشنل مجلس عاملہ کے اجلاس میں نصیحتاً ارشاد فرمایا:

’’… پھراسی طرح مَردوں سے میل جول ہے، سلام ہے، مصافحہ کرنے کی یہاں بہت عادت ہے۔ یورپ میں تو ہرجگہ ہی ہے۔ ویسے مَیں نے دیکھاہے کہ بعض لڑکیاں لاشعوری طورپر جب میری طرف ہاتھ بڑھاتی ہیں تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کوسلام کرنے کی عادت ہے۔ ایک بچی، لڑکی کو جو حیا ہے اس کا شروع میں ہی اس کا احساس ہوجانا چاہئے۔ دس سال کی عمر جو ہے مَیں نےواقفاتِ نوکو بھی کہا ہے کہ اس عمرمیں نماز فرض ہوتی ہے۔ اس وقت ساری پابندیاں فرض ہونی چاہئیں۔ جو سارے فرائض ہیں ان پر عمل ہو جانا چاہئے۔ تو اس سے پہلے پہلے عادت ڈال دینی چاہئے۔ ‘‘(میٹنگ نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماءاللہ ناروے 2 ؍اکتوبر 2011ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل23 ؍دسمبر 2011ء)

ملازمین سے پردہ

بہت سے گھروں میں گھریلو مرد ملازمین سے پردہ کرنے کا رواج نہیں ہے حالانکہ اس بارہ میں بھی قرآن کریم کی پردے کی تعلیم کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں گھروں میں رکھے جانے والے مرد ملازمین کے حوالے سے توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:

’’پھر بعض جگہوں پر یہ بھی رواج ہے کہ ہر قسم کے ملازمین کے سامنے بے حجابانہ آجاتے ہیں۔ تو سوائے گھروں کے وہ ملازمین یاوہ بچے جو بچوں میں پلے بڑھے ہیں یا پھر بہت ہی ادھیڑ عمر کے ہیں جو اس عمر سے گزر چکے ہیں کہ کسی قسم کی بدنظری کا خیال پیدا ہو یا گھرکی باتیں باہر نکالنے کا ان کو کوئی خیال ہو۔ اس کے علاوہ ہرقسم کے لوگوں سے، ملازمین سے، پردہ کرناچاہئے۔ بعض جگہ دیکھا گیاہے کہ ایسے ملازمین جن کو ملازمت میں آئے چند ماہ ہی ہوئے ہوتے ہیں، بے دھڑک بیڈروم میں بھی آ جا رہے ہوتے ہیں اور عورتیں اور بچیاں بعض دفعہ وہاں بغیردوپٹوں کے بھی بیٹھی ہوئی ہوتی ہیں اور اس کو روشن دماغی کانام دیا جاتاہے۔ یہ روشن دماغی نہیں ہے۔ جب اس کے نتائج سامنے آتے ہیں تو پچھتاتے ہیں۔ پھر جو چھوٹ ہے اس آیت میں، وہ چھوٹے بچوں سے پردہ کی ہے۔

فرمایا کہ چال بھی تمہاری اچھی ہونی چاہئے، باوقارہونی چاہئے، یونہی پاؤں زمین پر مار کے نہ چلو۔ اور ایسی باوقارچال ہوکہ کسی کو جرأت نہ ہوکہ تمہاری طرف غلط نظرسے دیکھ بھی سکے۔ جب تم پردوں میں ہوگی اور مکمل طورپر صاحب وقارہوگی تو کسی کو جرأت نہیں ہوسکتی کہ ایک نظرکے بعد دوسری نظرڈالے‘‘۔ (خطبہ جمعہ 30؍جنوری 2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 9؍ اپریل 2004ء)

تقریبات میں لڑکوں کاکھانا Serve کرنا

آجکل شادی بیاہ اور دیگر تقریبات پر خواتین کی طرف بھی مرد کھانا serve کرتے ہیں جو واضح طور پر بے پردگی میں داخل ہے۔ چنانچہ اس قبیح حرکت سے اجتناب کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

’’ بعض جگہوں پر ہمارے ہاں شادیوں وغیرہ پر لڑکوں کوکھانا serve کرنے کے لئے بلا لیا جاتاہے۔ دیکھیں کہ سختی کس حد تک ہے اور کجا یہ ہے کہ لڑکے بلا لئے جاتے ہیں اور کہا جاتاہے کہ چھوٹی عمروالے ہیں حالانکہ چھوٹی عمر والے بھی جن کو کہاجاتاہے وہ بھی کم ازکم سترہ اٹھارہ سال کی عمر کے ہوتے ہیں، بہرحال بلوغت کی عمر کو ضرو ر پہنچ گئے ہوتے ہیں۔ وہاں شادیوں پر جوان بچیاں بھی پھررہی ہوتی ہیں اور پھر پتہ نہیں جو بیرے بلائے جاتے ہیں کس قماش کے ہیں۔ تو جیساکہ مَیں نے کہا ہے بلوغت کی عمر کو پہنچ چکے ہوتے ہیں اور ان سے پردے کا حکم ہے۔ اگر چھوٹی عمر کے بھی ہیں تو جس ماحول میں وہ بیٹھتے ہیں، کام کررہے ہوتے ہیں ایسے ماحول میں بیٹھ کر ان کے ذہن بہرحال گندے ہو چکے ہوتے ہیں اور سوائے کسی استثناء کےا لاّ ماشاء اللہ، اچھی زبان ان کی نہیں ہوتی اور نہ خیالات اچھے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں تومَیں نے دیکھاہے کہ عموماً یہ لڑکے تسلی بخش نہیں ہوتے۔ توماؤں کو بھی کچھ ہوش کرنی چاہئے کہ اگر اُن کی عمر پردے کی عمرسے گزر چکی ہے تو کم از کم اپنی بچیوں کا توخیال رکھیں۔ کیونکہ ان کام کرنے والے لڑکوں کی نظریں تو آپ نیچی نہیں کرسکتے۔ یہ لوگ باہر جا کر تبصرے بھی کرسکتے ہیں اور پھربچیوں کی، خاندان کی بدنامی کا باعث بھی ہوسکتے ہیں۔ ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمایا تھاکہ احمدی لڑکے، خدام، اطفال کی ٹیم بنائی جائے جو اس طرح شادیوں وغیرہ پر کام کریں۔ خدمت خلق کا کام بھی ہوجائے گا اور اخراجات میں بھی کمی ہو جائے گی۔ بہت سے گھرہیں جو ایسے بیروں وغیرہ کو رکھناafford ہی نہیں کرسکتے لیکن دکھاوے کے طورپر بعض لوگ بلا بھی لیتے ہیں تو اس طرح احمدی معاشرے میں باہر سے لڑکے بلانے کا رواج بھی ختم ہوجائے گا۔ خدام الاحمدیہ، انصاراللہ۔ یا اگر لڑکیوں کے فنکشن ہیں تولجنہ اماءاللہ کی لڑکیاں کام کریں۔ اور اگر زیادہ ہی شوق ہے کہ ضرو ر ہی خرچ کرنا ہے، serve کرنے والے لڑکے بلانے ہیں یا لوگ بلانے ہیں تو پھرمَردوں کے حصے میں مرد آئیں۔ یہاں مَیں نے دیکھاہے کہ عورتیں بھی serve کرتی ہیں عورتوں کے حصے میں۔ تووہاں پھر عورتوں کا انتظام ہوناچاہئے اور اس بارہ میں کسی بھی قسم کے احساس کمتری کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا تھا کہ بعض لوگ دیکھا دیکھی خرچ کررہے ہوتے ہیں تویہ ایک طرح کا احساس کمتری ہے۔ کسی قسم کا احساس کمتری نہیں ہونا چاہئے۔ اگر یہ ارادہ کرلیں کہ ہم نے قرآن کے حکم کی تعمیل کرنی ہے اور پاکیزگی کو بھی قائم رکھناہے تو کام تو ہو ہی جائے گا لیکن اس کے ساتھ ہی آپ کو ثواب بھی مل رہا ہوگا‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍جنوری 2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 9؍ اپریل 2004ء)

ڈانس(Dance): بے حیائی و بیہودگی

پردہ کے قرآنی حکم کے متعلق آیاتِ کریمہ کی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بیان فرمودہ پُرلطف تشریح کی روشنی میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عورتوں کو ڈانس کرنے سے منع کرتے ہوئے نصیحتاً فرمایا:

’’پھر حضرت مصلح موعود ؓ نے پاؤں زمین پر مارنے سے ایک یہ بھی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ شریعت نے ناچ یا ڈانس کو بھی مکمل طورپر منع کردیاہے کیونکہ اس سے بے حیائی پھیلتی ہے اور بعض عورتیں کہتی ہیں کہ عورتیں عورتوں میں ناچ لیں تو کیاحرج ہے ؟ عورتوں کے عورتوں میں ناچنے میں بھی حرج ہے۔ قرآن کریم نے کہہ دیاہے کہ اس سے بے حیائی پھیلتی ہے توبہرحال ہراحمدی عورت نے اس حکم کی پابندی کرنی ہے۔

اگرکہیں شادی بیاہ وغیرہ میں اس قسم کی اطلاع ملتی ہے کہ کہیں ڈانس وغیرہ یا ناچ ہواہے تو وہاں بہر حال نظام کوحرکت میں آنا چاہئے اور ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔

بعض عورتیں ایسی ہیں جن کی تربیت میں کمی ہے کہہ دیتی ہیں کہ ربوہ جاؤ تو وہاں تو لگتاہے کہ شادی اور مرگ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ کوئی ناچ نہیں، کوئی گانا نہیں، کچھ نہیں۔ تو اس میں پہلی بات تو یہ ہے کہ شرفاء کا ناچ اور ڈانس سے کوئی تعلق نہیں۔ اور اگر کسی کو اعتراض ہے تو ایسی شادیوں میں نہ شامل ہو۔ جہاں تک گانے کا تعلق ہے توشریفانہ قسم کے، شادی کے گانے لڑکیاں گاتی ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں۔ پھردعائیہ نظمیں ہیں جو پڑھی جاتی ہیں۔ تو یہ کس طرح کہہ سکتی ہیں کہ شادی میں اور موت میں کوئی فرق نہیں، یہ سوچوں کی کمی ہے۔ ایسے لوگوں کو اپنی حالت درست کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم تو دعاؤں سے ہی نئے شادی شدہ جوڑوں کو رخصت کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی نئی زندگی کا ہر لحاظ سے بابرکت آغازکریں اور ان کو اس خوشی کے ساتھ ساتھ دعاؤں کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کا گھرآباد رکھے، نیک اور صالح اولاد بھی عطا فرمائے۔ پھریہ کہ وہ دونوں دین کے خادم ہوں اور ان کی نسلیں بھی دین کی خادم ہوں۔ پھر یہ ہے کہ دونوں فریق جو شادی کے رشتے میں منسلک ہوئے ہیں، ان کے لئے یہ دعائیں بھی کرنی چاہئیں کہ وہ اپنے والدین کے اور اپنے رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے والے بھی ہوں۔ تو احمدی تو اسی طرح شادی کرتے ہیں اگر کسی کواس پر اعتراض ہے توہوتا رہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ہمیں یہی حکم ہے کہ خوشیاں بھی مناؤ تو سادگی سے مناؤ اور اللہ کی رضا کو ہمیشہ پیش نظررکھو۔ کیونکہ ہماری کامیابی کا انحصار اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے اور اس کی طرف جھکنے میں ہی ہے۔ اس لئے ہم تواسی طرح شادیاں مناتے ہیں اور جوغیر بھی ہماری شادیوں میں شامل ہوتے ہیں وہ اچھا اثر لے کرجاتے ہیں۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍جنوری 2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 9؍ اپریل 2004ء)

شادیوں پر ڈانس کرنے کو انتہائی بیہودگی سے تشبیہ دیتے ہوئے حضورانور نے براہ راست احمدی خواتین سے مخاطب ہوتے ہوئے اس قبیح حرکت کے کرنے سے سختی سے منع فرمایا۔ حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا:

’’اس ضمن میں ایک اَور بات بھی میں کہہ دوں کہ بعض شکایات ملتی ہیں کہ شادیوں پہ ڈانس ہوتا ہے اور ڈانس میں انتہائی بےحیائی سے جسم کی نمائش ہوتی ہے۔ یہ انتہائی بیہودگی ہے۔ یاد رکھیں کہ لڑکیوں کو لڑکیوں کے سامنے بھی ڈانس کی اجازت نہیں ہے۔ بہانے یہ بنائے جاتے ہیں کہ ورزش میں بھی تو جسم کے مختلف حصوں کو حرکت دی جاتی ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ ورزش ہر عورت یا بچی علیحدگی میں کرتی ہےیا ایک آدھ کسی کے سامنے کرلی۔ اگر ننگے لباس میں لڑکیوں کے سامنے بھی اس طرح کی ورزش کی جارہی ہے یا کلب میں جا کر کی جارہی ہے تویہ بھی بیہودگی ہے۔ ایسی ورزش کی بھی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

دوسرے ڈانس کرتے وقت آپ کے جذبات بالکل اَور ہوتے ہیں۔ ورزش کرتے وقت تو تمام توجہ ورزش پر ہوتی ہےاور کوئی لغو اور بیہودہ خیال ذہن میں نہیں آرہاہوتا لیکن ڈانس کے وقت یہ کیفیت نہیں ہو رہی ہوتی۔ جو ڈانس کرنے والیاں ہیں وہ خود اگر انصاف سے دیکھیں تو ان کو پتہ لگ جائے گاکہ اُن پر اُس وقت کیا کیفیت طاری ہورہی ہو تی ہے۔ پھر ورزش جو ہے کسی میوزک پر یا تال کی تھاپ پر نہیں کر رہے ہوتے جبکہ ڈانس کے لئے میوزک بھی لگایا جاتا ہےاور بڑے بیہودہ گانے بھی شادیوں پر بجتے ہیں حالانکہ شادیوں کے لئے بڑے پاکیزہ گانے بھی ہیں اور جو رخصتی ہورہی ہو تو لڑکی کو رخصت کرتے وقت ہماری بڑی اچھی دعائیہ نظمیں بھی ہیں، وہ استعمال ہونی چاہئیں۔ ‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ جرمنی یکم؍ ستمبر 2007ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل2؍دسمبر2016ء)

دُلہن اور شادی میں شریک خواتین بھی پردہ کریں

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے شادی بیاہ کے موقع پر دُلہن کے علاوہ تقریب میں شامل دیگر خواتین کو بھی پردہ کرنے کی طرف خصوصی توجہ دلاتے ہوئے واقفاتِ نَو کی ایک کلاس کے دوران ارشاد فرمایا:

’’بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کہیں نہیں کہا کہ جو دلہن نہیں ہے وہ پردہ کرلے اور جو دلہن ہے وہ پردہ نہ کرے، دلہن جو ہے وہ بڑی سج کر دلہن بنے۔ آج سے چودہ سو سال پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دلہنیں بنتی تھیں۔ اچھے کپڑے پہنتی تھیں۔ دلہن بن کر عورتوں میں جب بیٹھی ہوں تو جس طرح بیٹھنا ہے بیٹھے، یہاں کی عیسائی دلہنیں بھی دیکھ لو وہ بھی جب اپنی شادیاں کرتی ہیں، چرچ میں جاتی ہیں تو انہوں نے بھی ایک سفید ویل(veil) سا لیا ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو ڈھانکتی ہیں۔ تو جب وہ لوگ جن کا پردہ نہیں ہے وہ بھی شادی پر اپنے آپ کو cover کرلیتی ہیں تو ہماری دلہنوں کو تو اور زیادہ کرنا چاہئے۔ لیکن اگر دوپٹہ لے کر بیٹھی ہوئی ہیں، منہ ننگا ہے تو عورتوں میں تو ٹھیک ہے۔ لیکن اس لئے کہ میک اَپ کروا کر بیوٹی پارلر سے آئی ہے اور پھر جہاں میرج ہال(marriage hall) کے اندر جانا ہے تو جاتے ہوئے ہمارا میک اپ خراب نہ ہو جائے، ہمارا زیور یا جھومر لٹکے ہوئے ہیں وہ خراب نہ ہو جائیں تو یہ غلط چیز ہے۔

اس لئے پوری طرح دوپٹہ ڈھانکو اور پردہ کے ساتھ مَردوں میں سے گزرتے ہوئے ہال میں آجاؤ۔ جب پارلر سے دلہن بن کر آتی ہے تو میک اَپ کرنے کے بعد جو بھی غرارے یا جس لباس کے ساتھ بھی تیار ہوئی ہے اس کے بعد ایک چادر اوپر ڈالے، کار سے اترنے سے لے کر اس حصہ تک جہاں سے مَردوں میں سے گزرنا ہے یا جہاں تک لمبا راستہ ہے اور جب ہال کے اندر آجائے جہاں صرف عورتیں ہوں تو وہاں بیشک اتار دے اور پھر جب اپنے دلہا کے ساتھ جاتی ہے اس وقت بھی چادر اوڑھ کے کار میں جا کر بیٹھے۔ یہ نہیں کہ مرد کھڑے ہیں اور سارے دیکھ رہے ہیں اور بیچ میں سے گزر رہی ہے اور بڑی واہ واہ ہورہی ہے، بڑی خوبصورت دلہن بنی ہوئی ہے۔ احمدی دلہن کی خوبصورتی تو یہ ہے کہ اس کا پردہ بھی ہو۔ ‘‘(کلاس واقفاتِ نو11 ؍جولائی 2012ءمسجد بیت الاسلام، کینیڈا۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل28؍ستمبر2012ء)

مختلف تقاریب کے دوران پردے سے اجتناب کرنے کے لئے عورتیں مختلف بہانے تراشتی ہیں۔ عورتوں کے ایسے بہانوں کو ردّ کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں اپنے ایک خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا:

’’یہاں یہ بات بھی واضح کر دوں کہ بعض عورتیں یہ بھی سوال اٹھا دیتی ہیں کہ ہم نے میک اَپ کیا ہوتا ہے اگر چہرے کو نقاب سے ڈھانک لیں تو ہمارا میک اَپ خراب ہو جاتا ہے۔ تو کس طرح پردہ کریں۔ اوّل تو میک اَپ نہ کریں تو پھر یہ پردہ، کم از کم پردہ ہے جس کا معیار حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتایا کہ چہرہ، ہونٹ ننگے ہو سکتے ہیں۔ باقی چہرہ ڈھانکا ہو۔ (ماخوذ از ریویو آف ریلیجنز جلد 4 نمبر 1 صفحہ 17 ماہ جنوری 1905ء)

اور اگر میک اَپ کرنا ہے تو(چہرہ) بہرحال ڈھانکنا ہو گا۔ ان کو یہ سوچنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم پر چلتے ہوئے اپنی زینت کو چھپانا ہے یا دنیا کو اپنی خوبصورتی اور اپنا میک اَپ دکھانا ہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 13 ؍جنوری2017ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 3 ؍فروری 2017ء)

اگر دیکھا جائے تو پردہ نہ کرنے کی وجہ سے عورتوں کے زیورات کی بھی نمائش ہورہی ہوتی ہے اور یہ بھی ایک نامناسب حرکت ہے۔ چنانچہ حضورانور نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں اس حوالہ سے بھی احباب جماعت کو نصیحت فرمائی ہے۔ آپ نے فرمایا:

’’پھر ہمارے معاشرے میں زیور وغیرہ کی نمائش کا بھی بہت شوق ہے۔ گو چوروں ڈاکوؤں کے خوف سے اب اس طرح تو نہیں پہناجاتالیکن پھر بھی شادی بیاہ پر اس طرح بعض دفعہ ہوجاتاہے کہ راستوں سے عورتیں گزر کر جا رہی ہوتی ہیں جہاں مرد بھی کھڑے ہوتے ہیں اور وہاں ڈگر ڈگر زیور کی نمائش بھی ہو رہی ہوتی ہے۔ تو اس سے بھی احتیاط کرنی چاہئے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍جنوری 2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 9؍ اپریل 2004ء)