پردہ

فہرست مضامین

چند مثالی نمونے

سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےمتعدّد مواقع پر احمدی خواتین کے پردہ کے حوالہ سے قابل تقلید نمونوں کا ذکر فرمایا ہے۔ بعض مواقع پر نام لئے بغیر مختلف ممالک میں آباد احمدی عورتوں اور بچیوں کی طرف سے پردے کی پابندی کرنے اور اس اسلامی حکم پر جرأت کے ساتھ لبّیک کہنے کا بھی اظہار فرمایا ہے۔ نیز حضورانور ایدہ اللہ نے ایسی غیراز جماعت خواتین کے تأثرات بھی بیان فرمائے ہیں جنہوں نے احمدی عورتوں کے پردے میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے سے متعلق کلماتِ تحسین پیش کئے ہیں۔ اس حوالہ سے حضورانور ایدہ اللہ کے چند منتخب ارشادات اختصار سے پیش ہیں تاکہ ہم بھی خداتعالیٰ کے اس نہایت اہم حکم کی اطاعت کرتے ہوئے خداتعالیٰ کی رضا اور پیار حاصل کریں اور دنیاوی احترام کی بھی حقدار ٹھہریں۔

  • … حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنی والدہ محترمہ حضرت سیّدہ ناصرہ بیگم صاحبہ بنت سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ(اہلیہ محترمہ حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب) کی وفات پر اپنے خطبہ جمعہ میں اُن کا تفصیلی ذکرخیر فرمایا۔ نیز حضرت سیّدہ موصوفہ کی نظر میں پردہ کی اہمیت اور پردہ کو ملحوظ رکھنے کی خصوصیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

’’اُن کے ساتھ ایک کام کرنے والی پرانی صدر نے لکھا کہ لجنہ کی تربیت کا بہت خیال رہتا تھا۔ اس کے لئے نئے سے نئے طریق سوچتی تھیں۔ نئی تدابیر اختیار کرتی تھیں، ہمیں بتاتی تھیں۔ یہ کوشش تھی کہ ربوہ کی ہر بچی اور ہر عورت تربیت کے لحاظ سے اعلیٰ معیارکی ہو۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ اگر پردہ کے معیار کو گرا ہوا دیکھا تو سڑک پر چلنے والی کو، عورت ہو یا لڑکی یا لڑکیوں کو اس طرح چلتے دیکھا جو کہ احمدی لڑکی کے وقار کے خلاف ہے تو وہیں پیار سے اُ س کے پاس جا کر اُسے سمجھانے کی کوشش کرتیں۔ بتاتیں کہ ایک احمدی بچی کے وقار کا معیار کیا ہونا چاہئے۔

پردے کے ضمن میں ہی حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک تقریر کا ایک حصہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا تھا۔ 1982ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی خلافت کا جو پہلا جلسہ تھا اس پر لجنہ کے جلسہ گاہ میں آپ نے جوتقریر فرمائی، اُس میں پردے کا بھی ذکر فرمایا۔ اُس ضمن میں ہماری والدہ کے متعلق ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہماری ایک باجی جان ہیں، اُن کا شروع سے ہی پردہ میں سختی کی طرف رجحان رہا ہے کیونکہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تربیت میں جو پہلی نسل ہے اُن میں سے وہ ہیں۔ جو گھر میں مصلح موعودؓ کو اُنہوں نے کرتے دیکھا جس طرح بچیوں کو باہر نکالتے دیکھا ایسا اُن کی فطرت میں رَچ چکا ہے کہ وہ اس عادت سے ہٹ ہی نہیں سکتیں۔ ان کے متعلق بعض ہماری بچیوں کاخیال ہے کہ اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ، انہیں کچھ نہ کہو۔ پاگل ہو گئے ہیں، پُرانے وقتوں کے لوگ ہیں۔ ایسی باتیں کیا ہی کرتے ہیں۔ لیکن اگلے وقت کونسے؟ مَیں تو اُن اگلے وقتوں کو جانتا ہوں، (فرماتے ہیں کہ) مَیں تو اُن اگلے وقتوں کو جانتا ہوں جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے وقت ہیں۔ اس لئے ان کو اگر اگلے وقتوں کا کہہ کر کسی نے کچھ کہنا ہے تو اُس کی مرضی ہے وہ جانے اور خدا کا معاملہ جانے، لیکن یہ جو میری بہن ہیں واقعتاًتقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اس بات پر سختی کرتی ہیں۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 5؍اگست 2011ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 26؍اگست 2011ء)

  • …حضرت صاحبزادی امتہ القیوم بیگم صاحبہ بنت حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ(اہلیہ محترمہ حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمدصاحب) کی وفات پر حضور انور ایدہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ میں تفصیل سے مرحومہ کا ذکرخیر فرمایا۔ اس ضمن میں حضورانور نے اُن کے پردہ کرنے کی صفت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:

’’ان کوجماعت اور خلافت کی بڑی غیرت تھی۔ پردہ کی بھی بڑی پابند تھیں۔ پردہ میں تو بعض دفعہ اس حد تک چلی جاتی تھیں کہ اگر کسی کو جوچھوٹا عزیز ہے جس سے پردہ نہیں بھی ہے اگر اسے پہچان نہیں رہیں اور وہ گھر میں آگیا تو جب تک پہچان نہ ہو جائے اس سے بھی پردہ کر لیتی تھیں۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 26 ؍جون 2009ءبمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 17؍جولائی 2009ء)

  • …محترمہ ڈاکٹر فہمیدہ منیر صاحبہ نے لمبا عرصہ فضل عمر ہسپتال ربوہ میں بطور واقف زندگی، خدمت کی توفیق پائی۔ اُن کی وفات پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ میں مرحومہ کے مختلف محاسن کا ذکرخیر کرتے ہوئے ان کے پردہ کی پابندی کا بھی ذکر فرمایا۔ حضورانور نے فرمایا:

’’ 1964ء میں وہ ربوہ آ گئیں اور 1984ء تک فضل عمر ہسپتال میں بطور لیڈی ڈاکٹر کے خدمت کی توفیق پائی۔ … حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے ایک دفعہ مجلس شوریٰ میں اُن کے پردہ کی بھی مثال دی تھی کہ کسی نے پردہ میں رہ کر کام کرنا سیکھنا ہے تو ڈاکٹر فہمیدہ سے سیکھیں۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 12؍اکتوبر 2012ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 2؍نومبر 2012ء)

  • …مکرمہ ناصرہ سلیمہ رضا صاحبہ ایک افریقن امریکن احمدی تھیں جو 18؍فروری 2013ء کو زائن(امریکہ) میں وفات پاگئیں۔ حضورانور نے اُن کا ذکرخیر کرتے ہوئے فرمایا:

’’ 1927ء میں سینٹ لوئس، امریکہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد بیپٹسٹ(Baptist) پادری تھے۔ …ان کو 1949ء میں ڈاکٹر خلیل احمد صاحب ناصر مرحوم کے ذریعہ احمدیت کے قبول کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ 1951ء میں ان کی شادی محترم ناصر علی رضا صاحب مرحوم کے ساتھ ہوئی…۔ (سالہاسال بطور مقامی صدر لجنہ اور ریجنل صدر لجنہ) کام کرتی رہیں۔ …۔ آپ کے دل میں اسلام کی محبت کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اچھی استاد مانی جاتی تھیں۔ وہاں بھی احمدی خواتین ان کو ماں کی طرح سمجھتی تھیں۔ بڑے پیار سے لوگوں کو سمجھاتیں اور غلطیاں درست کیا کرتی تھیں۔ بچیوں کو ہمیشہ پردے کی تعلیم دیتی رہیں اور اس طرح اسلامی اخلاق سکھلاتیں۔ نیز بتاتیں کہ مغربی معاشرے کی بدرسوم کا کیسے مقابلہ کرنا ہے۔ وہیں پلی بڑھی تھیں ان کو سب کچھ پتہ تھا۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم مارچ 2013ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 22؍مارچ 2013ء)

  • …مکرمہ تانیہ خان صاحبہ ایک مخلص نَواحمدی تھیں جنہوں نے کینیڈا میں وفات پائی تو ان کا ذکرخیر کرتے ہوئے حضورانور ایدہ اللہ نے اُن کی پردہ کی پابندی کا بھی ذکر فرمایا۔ حضورانور نے فرمایا:

’’یہ لبنانی نژاد کینیڈین خاتون تھیں۔ 1998ء میں انہوں نے احمدیت قبول کی۔ بڑی فعال داعی الی اللہ تھیں۔ تبلیغ کا بڑا شوق تھا۔ نیشنل سیکرٹری تبلیغ لجنہ اماء اللہ کینیڈا کے علاوہ مختلف حیثیتوں سے لوکل اور نیشنل لیول پر جماعتی خدمت کی ان کو توفیق ملی۔ … خلافت کے ساتھ ان کا بڑا محبت اور وفا کا تعلق تھا۔ ہر تحریک پر لبیک کہنے والی تھیں۔ پردہ کی پابند اور خدمتِ خلق کے جذبہ سے سرشار۔ اپنے اعضاء بھی انہوں نے وفات کے بعد donate کرنے کی وصیت کی ہوئی تھی۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 16اگست 2013ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 30؍اگست 2013ء)

  • …احمدیت کی سچائی کا ایک نشان یہ بھی ہے کہ بیعت کرنے کے ساتھ ہی بیعت کرنے والے کی اخلاقی حالت میں بھی تبدیلی واقع ہونے لگتی ہے۔ اس ضمن میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

’’مراکش کی ایک خاتون فاہمی صاحبہ ہیں، وہ کہتی ہیں لقاء مع العرب کے ذریعہ سے تعارف ہوا۔ … چنانچہ میں نے استخارہ شروع کیا اور (ایک) رؤیا کے بعد مَیں نے کہا: اب جو ہونا ہے ہوجائے۔ اب مجھے کسی چیز کی پرواہ نہیں ہے۔ چنانچہ میں نے فوراً بیعت کر لی اور بیعت کے ساتھ ہی پردہ کرنا بھی شروع کردیا۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 28مارچ 2014ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 18؍اپریل 2014ء)

  • …محترمہ الحاجہ سسٹر نعیمہ لطیف صاحبہ(اہلیہ مکرم الحاج جلال الدین لطیف صاحب صدر جماعت زائن۔ امریکہ) کی وفات پر اُن کا ذکرخیر کرتے ہوئے حضورانور نے فرمایا:

’’سسٹر نعیمہ لطیف 21؍مئی 1939ء کو ایک عیسائی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ آپ نے ویسٹ ورجینیا یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر کے امریکن آرمی کے شعبہ میڈیکل میں رضا کارانہ طور پر کام شروع کیا۔ … 1974ء میں احمدیت قبول کی اور خود مطالعہ کر کے بڑی تیزی سے ایمان و اخلاص میں ترقی کی۔ … اپنی زندگی میں کبھی نماز جمعہ نہیں چھوڑی۔ جماعتی پروگراموں میں باقاعدگی سے شامل ہونے والی تھیں۔ رمضان کے روزے کبھی نہیں چھوڑے۔ اس کے علاوہ سنت نبوی پر عمل کرتے ہوئے باقاعدگی سے ہفتہ وار نفلی روزے بھی رکھتی تھیں۔ اعتکاف میں بیٹھنے کا بھی انہیں موقع ملتا رہا۔ خدمت خلق کے کاموں میں پیش پیش تھیں۔ … حج بیت اللہ کی سعادت پائی۔ … مالی قربانی میں پیش پیش رہتیں۔ جب بھی کوئی زیور آپ کے میاں کی طرف سے تحفہ ملتا تو مساجد کے لئے چندہ میں دے دیتیں۔ …خلافت اور خلیفہ وقت سے عشق کی حد تک پیار تھا اور خلیفہ وقت کی اطاعت کو اوّلین ترجیح دیتیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے امریکہ کے دورے کے دوران ایک یونیورسٹی میں پردہ کی اہمیت پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا خطاب سن کر اسی وقت حجاب لے لیا اور اس زمانہ میں اپنے علاقہ میں واحد خاتون تھیں جو اسلامی پردہ میں نظر آتی تھیں۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 3؍اکتوبر 2014ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍اکتوبر 2014ء)

  • …قبولِ احمدیت اور خلافت کی اطاعت کرنے کے نتیجہ میں احمدی خواتین کس طرح اسلامی آداب کی پابند بن رہی ہیں، اس ضمن میں حضورانور ایدہ اللہ فرماتے ہیں :

’’احمدیت میں شامل ہونے سے تبدیلیاں بھی کس طرح پیدا ہوتی ہیں۔ ایک تو نمازوں کی طرف توجہ ہے کہ موسم کی شدت کا بھی احساس نہیں کرنا، مسجدوں کو آباد کرنا ہے۔ دوسرے ایک اَور مثال دیتا ہوں۔ میسیڈونیا سے احمدی دوست کہتے ہیں کہ میری اہلیہ کا نام رضا ہے۔ جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہوئیں اس سے پہلے وہ پردہ نہیں کرتی تھیں تو وہ مجھے لکھتے ہیں کہ میں آپ کا بڑا مشکور ہوں کہ جب لجنہ میں خطاب سنا تو انہوں نے حجاب لینا شروع کر دیا اور اب باقاعدہ پردہ کرتی ہیں اور احمدیت پر ثابت قدم ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایمان میں بھی ترقی کر رہی ہیں۔ تو ایسی نئی آنے والیاں جو اسلام کی تعلیم سے پیچھے ہٹ گئی تھیں وہ عورتیں بھی جب احمدیت قبول کرتی ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے صحیح اسلامی تعلیم کو اپنانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس لئے ہماری بچیوں کو، نوجوان بچیوں کو بھی، عورتوں کو بھی اس طرف دھیان دینا چاہئے کہ جو اسلامی شعار ہیں ان کی پابندی کریں۔ جن باتوں کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ان کو کرنا ضروری ہے اور پردہ بھی ان میں سے ایک اہم حکم ہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 3؍اپریل 2015ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍اپریل 2015ء)

  • …محترمہ ڈاکٹر نصرت جہاں صاحبہ بھی پردہ کے حوالہ سے ایک مثالی نمونہ تھیں۔ آپ نے پاکستان سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد انگلستان سے گائنی سپیشلسٹ کا کورس کیا اور 1985ء میں فضل عمر ہسپتال میں اپنی خدمات کا آغاز کیا۔ اُن کی وفات پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اُن کی خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے اُن کے پردہ کے حوالہ سے فرمایا:

’’(آپ کے داماد) کہتے ہیں کہ ہماری بیٹی جب بارہ سال کی ہوئی تو اس کو سر ڈھانپنے اور پردے کا خیال رکھنے کی تلقین کرتیں اور حضرت امّاں جان اور دیگر بزرگوں کے حوالے سے چھوٹی چھوٹی مگر اہم باتیں بچوں کو مثال یا واقعہ کی صورت میں سناتیں۔ خود بھی پردے کی بہت پابند تھیں۔ پس اگر والدین اور ان کے بڑے بچوں کو یہ نصیحت کرتے رہیں تو پھر لڑکیوں میں جو حجاب نہ لینے کا حجاب ہے وہ ختم ہوجاتا ہے بلکہ جرأت پیدا ہوتی ہے۔ … ڈاکٹر نوری صاحب جو ربوہ میں طاہر ہارٹ کے انچارج ہیں وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ نو سال سے زائد عرصہ سے محترمہ ڈاکٹر نصرت جہاں صاحبہ کے ساتھ فضل عمر ہسپتال کے زبیدہ بانی وِنگ اور طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ ان میں بعض ایسی صفات تھیں جو آجکل بہت کم ڈاکٹروں میں پائی جاتی ہیں۔ بہت ہی نیک، دعا گو، اعلیٰ اخلاق کی حامل، خدا تعالیٰ کا خوف رکھنے والی، اپنے مریضوں کے لئے دعائیں کرنے والی، پردہ کی باریکی سے پابندی کرنے والی، قرآن کریم کا وسیع علم رکھنے والی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اُسوہ پر عمل کرنے والی خاتون تھیں۔ اور انہوں نے یہاں یوکے(UK) میں بھی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد یہاں مختلف ہسپتالوں میں اپنے علم میں اضافے کے لئے بھی آتی تھیں لیکن ہمیشہ انہوں نے نقاب کا پردہ کیا ہے اور پورا برقع پہنا ہے اور کبھی کوئی کمپلیکس نہیں تھا اور پردے کے اندر رہتے ہوئے سارے کام بھی کئے۔ اس لئے وہ لڑکیاں جن کو یہ بہانہ ہوتا ہے کہ ہم پردے میں کام نہیں کرسکتیں ان کے لئے یہ ایک نمونہ تھیں۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 21؍اکتوبر 2016ء بمقام مسجد بیت الاسلام، ٹورانٹو، کینیڈا۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 11؍نومبر 2016ء)

  • …فضل عمر ہسپتال ربوہ کی دونوں سینئر لیڈی ڈاکٹرز کی پردہ کی پابندی کے حوالہ سے نمایاں خوبی کا ذکر کرتے ہوئے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک اَور موقع پر ارشاد فرمایا:

’’ڈاکٹر بھی پردے میں کام کر سکتی ہیں۔ ربوہ میں ہماری ڈاکٹرز تھیں۔ ڈاکٹر فہمیدہ کو ہمیشہ ہم نے پردہ میں دیکھا ہے۔ ڈاکٹر نصرت جہاں تھیں بڑا پکّا پردہ کرتی تھیں۔ یہاں سے بھی انہوں نے تعلیم حاصل کی اور ہر سال اپنی قابلیت کو نئی ریسرچ کے مطابق ڈھالنے کے لئے، اس کے مطابق کرنے کے لئے یہاں لندن بھی آتی تھیں لیکن ہمیشہ پردہ میں رہیں بلکہ وہ پردہ کی ضرورت سے زیادہ پابند تھیں۔ ان پر یہاں کے کسی شخص نے اعتراض کیا، نہ کام پر اعتراض ہوا، نہ ان کی پیشہ ورانہ مہارت میں اس سے کوئی اثر پڑا۔ آپریشن بھی انہوں نے بہت بڑے بڑے کئے۔ تو اگر نیّت ہو تو دین کی تعلیم پر چلنے کے راستے نکل آتے ہیں۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 13جنوری 2017ء بمقام مسجدبیت الفتوح لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 3؍فروری 2017ء)

  • …حضورانور ایدہ اللہ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں الجزائر کے نَواحمدیوں کے لئے دعا کی تحریک کرتے ہوئے اُن کی قربانیوں اور اسلام سے اُن کی محبت کے حوالہ سے فرمایا:

’’الجزائر کے احمدیوں کے لئے آخر میں ایک دعا کے لئے بھی کہنا چاہتا ہوں۔ یہ نئی جماعت ہے۔ اکثریت ان میں سے نومبائعین کی ہے لیکن بڑے مضبوط ایمان والے ہیں۔ آجکل حکومت کی طرف سے بڑی سختی ہو رہی ہے۔ بلا وجہ مقدمے قائم کئے جا رہے ہیں۔ بعض کو جیل میں بھیج دیا گیا ہے۔ … پولیس نے بعض دفعہ بعض گھروں میں گھس کر عورتوں کی بے پردگی کرنے کی کوشش کی۔ مثلاً چند دن ہوئے ایک عورت سے کہا کہ اپنا دوپٹہ اتارو۔ اس نے کہا مجھے جان سے ماردو مَیں دوپٹہ نہیں اتاروں گی اور نہ میں احمدیت چھوڑوں گی۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 27جنوری 2017ء بمقام مسجدبیت الفتوح لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 17؍فروری 2017ء)

  • … لجنہ اماءاللہ کراچی کی سابق صدرمکرمہ سلیمہ میر صاحبہ کی خوبیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے حضورانور ایدہ اللہ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ:

’’ پردے کا انتہائی اہتمام کرنے والی تھیں۔ جہاں بھی پردے میں کمزوری دیکھتیں بڑے اچھے انداز میں سمجھا دیتیں تا کہ دوسروں کو بُرا بھی نہ لگے۔ ان کی ایک بیٹی کہتی ہیں کہ میری چھوٹی بہن کے لئے رشتہ آیا تو لڑکے نے کہا کہ پہلے مَیں لڑکی کو دیکھوں گا پھر بات آگے بڑھے گی۔ کہتی ہیں کہ ہم نے امّی سے کہا کہ بہن کو نقاب کی بجائے سکارف میں سامنے کر دیتے ہیں۔ اپنی بیٹی کا رشتہ تھا۔ کہتی ہیں اس پر امّی نے فوراً جواب دیا کہ رشتہ ہوتا ہے تو ہو لیکن نقاب کے بغیر یہ نہیں جائے گی۔ ایک بچی کا لندن میں ڈرائیونگ ٹیسٹ تھا اور انسٹرکٹر مرد تھا تو بیٹی کے ساتھ چل پڑیں کہ مرد کے ساتھ تمہیں اکیلا نہیں جانے دوں گی۔ لوگوں نے مذاق بھی اڑایا۔ لیکن انہوں نے دنیا کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ سر پر سکارف لینے کے لئے یا نقاب لینے کے لئے ہمیشہ کہا کرتی تھیں۔ لجنہ کی جو کتاب ہے جس میں سارے خلفاء کے ارشادات ہیں اس کا نام ہے ’’اوڑھنی والیوں کے لئے پھول‘‘۔ تو یہ کہا کرتی تھیں کہ اگر پھول لینا چاہتی ہو تو اوڑھنی لینی پڑے گی۔ پھول تو اسی کے لئے ہیں جو پردہ کرنے والی ہیں۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍ مارچ 2018ء بمقام مسجدبیت الفتوح لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 20؍اپریل 2018ء)

  • … خلفائے عظّام کی نصائح کے نتیجہ میں معاشرہ میں جو غیرمعمولی اخلاقی تبدیلی واقع ہوتی ہے اُس کا اظہار کرتے ہوئے حضورانور ایدہ اللہ نے ایک احمدی لڑکی کے حوالہ سے ایک موقع پر فرمایا:

’’عورتوں کے لئے بھی مَیں ایک مثال دوں گا۔ پردہ اور حیا کی حالت ہے۔ اگر ایک دفعہ یہ ختم ہو جائے تو پھر بات بہت آگے بڑھ جاتی ہے۔ آسٹریلیا میں … پاکستان سے شادی ہو کروہاں آنے والی ایک بچی نے مجھے لکھا کہ مجھے بھی زبردستی پردہ چھڑوا دیا گیا تھا۔ یا ماحول کی وجہ سے مَیں بھی کچھ اس دام میں آ گئی اور پردہ چھوڑ دیا۔ اب مَیں جب وہاں دَورے پر گیا ہوں تو اُس نے لکھا کہ آپ نے جلسہ میں جو تقریر عورتوں میں کی اور پردے کے بارے میں کہا تو اُس وقت مَیں نے برقع پہنا ہوا تھا تو اُس وقت سے مَیں نے برقع پہنے رکھا ہے اور اب مَیں اُس پر قائم ہوں اور کوشش بھی کر رہی ہوں اور دعا بھی کر رہی ہوں کہ اس پر قائم رہوں۔ اُس نے دعا کے لئے بھی لکھا۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 20دسمبر 2013ء بمقام مسجدبیت الفتوح لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 10؍جنوری 2014ء)

  • … خلیفۂ وقت کی بابرکت زبان سے نکلنے والی نصائح نے دنیا کے ہر مُلک میں آباد احمدیوں کی اخلاقی اور روحانی حالتوں پر غیرمعمولی اثرات مرتّب کئے ہیں۔ چنانچہ امریکہ میں پیدا ہونے والی پاکیزہ تبدیلی کے حوالہ سے حضورانور ایدہ اللہ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرے دَورے کے مثبت نتائج بھی یہاں نکلے ہیں۔ امریکہ میں بھی اور یہاں بھی اور نکل رہے ہیں۔ بعض بچیوں نے امریکہ میں مجھے لکھا جو وہیں پیدا ہوئیں اور پلی بڑھی ہیں اور یہاں کی بچیوں نے بھی لکھا اور خطوط اب بھی آرہے ہیں کہ آپ کی باتیں سن کر ہمیں عورت کے تقدّس کا، لڑکی کے تقدّس کا، اُس کی حیا کا احساس ہوا ہے۔ اب ہمیں اپنی اہمیت پتہ لگی ہے۔ پردہ کی اہمیت پتہ لگی ہے۔ ایک احمدی لڑکی کے مقام کا پتہ لگا ہے۔ اسی طرح نوجوانوں نے یہ بھی لکھا کہ نماز کی اہمیت کا پتہ چلا ہے۔ بعض لڑکیوں نے لکھا کہ ہم سمجھتی تھیں کہ اس ماحول میں رہتے ہوئے برقع اور حجاب کی ہمت ہم میں کبھی پیدا نہیں ہو سکتی۔ لیکن آپ کی باتیں سننے کے بعد جب ہم آپ کے سامنے حجاب اور برقعہ اور کوٹ پہن کر آئی ہیں تو اب یہ عہد کرتی ہیں کہ کبھی اپنے برقعے نہیں اتاریں گی۔ پس یہ سوچ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سوچ کو عملی رنگ میں ہمیشہ قائم رکھے اور وہ اپنے تقدّس کی حفاظت کرنے والی ہوں جیسا کہ انہوں نے یہ عہد کیا ہے کہ ہم اپنے تقدّس کی حفاظت کریں گی۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 13؍ جولائی 2012ء بمقام مسجد بیت الاسلام۔ ٹورانٹو، کینیڈا۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 3؍اگست 2012ء)

  • …حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جب مغربی افریقہ کا پہلا دَورہ فرمایا تو واپس تشریف لانے کے بعد ایک خطبہ جمعہ میں بینن کی باپردہ احمدی کارکنات کی ڈیوٹیوں پر اظہارِ خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا:

’’مَیں نے بینن میں ایک اور بہت اچھی چیز دیکھی ہے۔ وہاں لجنہ نے اپنی ایک خاص ٹیم تیار کی ہے جو ہر موقعے پہ ڈیوٹیاں دیتی ہے۔ بڑی باپردہ، نقاب لے کے اور مستقل ڈیوٹیاں دیتی رہی ہیں۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 16؍ اپریل2004ء بمقام مسجدبیت الفتوح لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 30؍اپریل 2004ء)

  • …بعدازاں کینیڈا میں جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی خواتین سے خطاب کرتے ہوئے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے افریقہ کے دَورے کے حوالہ سے اپنے مشاہدات بیان کرتے ہوئے فرمایا:

’’افریقہ میں مَیں نے دیکھا ہے جہاں لباس نہیں تھا اُنہوں نے لباس پہنا اور پورا ڈھکا ہوا لباس پہنا اور بعض پردہ کرنے والی بھی ہیں۔ نقاب کا پردہ بھی بعضوں نے شروع کردیا ہے۔ یہاں بھی ہماری ایفرو امریکن بہنیں جو بہت ساری امریکہ سے آئی ہوئی ہیں اُن میں سے بعض کا ایسا اعلیٰ پردہ تھا کہ قابل تقلید تھا، ایک نمونہ تھا بلکہ کل ملاقات میں مَیں نے اُن کو کہا بھی کہ لگتا ہے کہ اب تم لوگ جو ہو تم پاکستانیوں کے لئے پردے کی مثالیں قائم کروگے یا جو انڈیا سے آنے والے ہیں اُن کے لئے پردے کی مثالیں قائم کرو گے۔ … ‘‘(خطاب از مستورات برموقع جلسہ سالانہ کینیڈا۔ 25 ؍جون 2005ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 2؍مارچ 2007ء)

  • … جلسہ سالانہ کے مواقع پر بھی مہمان خواتین کی ایک بڑی تعداد تشریف لاتی ہے جن میں سے بعض اپنے تأثرات کا اظہار بھی کرتی ہیں۔ چنانچہ احمدی خواتین کے مثالی پردہ پر تحسین کا برملا اظہار کئی غیرازجماعت مہمان خواتین نے بھی کیا ہے۔ مثلاً حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں :

’’دامیبا بیاتریس صاحبہ(Damiba Beatrice) ہیں جو بورکینا فاسو سے جلسہ میں شامل ہوئیں اور بورکینا فاسو پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا کے لئے ہائراتھارٹی کمیشن کی صدر ہیں۔ دو دفعہ ملک کی فیڈرل منسٹر رہ چکی ہیں۔ اس کے علاوہ اٹلی اور آسٹریا میں چودہ سال تک بورکینا فاسو کی سفیر بھی رہ چکی ہیں۔ نیز یو این او میں بھی اپنے ملک کی نمائندگی کر چکی ہیں۔ یہ کہتی ہیں کہ اس جلسہ میں شمولیت میرے لئے زندگی میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ … مجھے کوئی شخص کالا، گورا یا انگلش یا فرنچ نظر نہ آیا بلکہ ہر احمدی مسلمان بغیر رنگ و نسل کے امتیاز کے اپنے خلیفہ کا عاشق ہی نظر آیا۔ پھر کہتی ہیں کہ سب سے زیادہ جس بات سے میں متاثر ہوئی وہ یہ تھی کہ ہر شخص خدا کی خاطر ایک commitment کے ساتھ اس جلسہ میں شامل ہوا تھا۔ … عورتوں کو مردوں سے الگ تھلگ ایک جگہ دیکھنا میرے لئے باعث حیرت تھا اور مجھے یوں لگا کہ شاید یہاں بھی عورتوں سے دوسرے مسلمانوں کی طرح سلوک کیا جاتا ہے۔ لیکن جب مَیں ان عورتوں کے ساتھ رہی تو کچھ ہی دیر میں میرا یہ تأثر بدل گیا۔ میں نے دیکھا کہ فوٹو اتارنے والی بھی عورت تھی، کیمرے پر بھی عورت تھی، استقبال پر بھی عورتیں تھیں، کھانا تقسیم کرنے والی بھی عورتیں تھیں، غرضیکہ ہر کام عورتیں ہی کررہی تھیں اور یہ سچ ہے کہ عورت کا پردہ ہرگز اُس کی آزادی کو ختم نہیں کرتا۔ اگر کسی کو اس کا یقین نہ آئے تو احمدیوں کے ہاں آ کر دیکھ لے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 06ستمبر 2013ء بمقام مسجدبیت الفتوح لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 27؍ستمبر 2013ء)

  • …جلسہ سالانہ برطانیہ میں پہلی بار تشریف لانے والی ایک غیرازجماعت مہمان خاتون نے احمدی عورتوں کے پردہ میں رہ کر جلسہ سالانہ میں شمولیت پر جس طرح مُثبت اظہار خیال کیا، اُس کا ذکر کرتے ہوئے حضورانور ایدہ اللہ فرماتے ہیں :

’’جمیکا سے ایک غیرازجماعت خاتون اوئیڈا نیسبیتھ(Ouida Nesbeth) صاحبہ شامل ہوئیں۔ اکاؤنٹنٹ ہیں پڑھی لکھی عورت ہیں۔ کہتی ہیں کہ مَیں گزشتہ پانچ سال سے جماعت احمدیہ سے رابطہ میں ہوں۔ اس عرصہ کے دوران میرا جماعت کے ساتھ تعلق اور تعارف تو کافی تھا لیکن اس جلسہ میں شامل ہونے کے بعد اس میں بہت وسعت پیدا ہوئی ہے اور اسلام کے متعلق ذہن میں جو بھی شکوک تھے ان کا ازالہ ہو گیا ہے۔ مجھے یہ بات بہت اچھی لگی کہ عورتیں اور مرد علیحدہ علیحدہ تھے۔ (ایک طرف سے اعتراض ہوتا ہے، لیکن عورتوں کو یہ بات اچھی لگی)۔ اس وجہ سے لوگوں کی توجہ بٹتی نہیں ہے۔ خود انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ جب ہم اکٹھے ہوتے ہیں تو مردوں کی نظریں ٹھیک نہیں ہوتیں۔ کہتی ہیں کہ عورتیں اور مرد علیحدہ علیحدہ تھے اس وجہ سے لوگوں کی توجہ بٹتی نہیں ہے اور لوگ اسلام اور عبادت پر زیادہ توجہ دے پاتے ہیں۔ پس احمدی عورتیں بھی جو کسی وقت کسی قسم کے کمپلیکس میں مبتلا ہیں ان کو بھی اس کے comment پہ سوچنا چاہئے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍اگست 2018ء بمقام مسجدبیت الفتوح لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 31؍اگست 2018ء)

  • … پردہ کے بارہ میں ایک خوبصورت اظہار ایک غیرازجماعت مسلمان خاتون جرنلسٹ نے بھی کیا جو باغیانہ ردّعمل کے طور پر پردہ کرنا ترک کرچکی تھیں۔ اُن کے تأثرات بیان کرتے ہوئے حضورانور ایدہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں :

’’Belize میں اس دفعہ جماعت قائم ہوئی ہے۔ وہاں کی ایک جرنلسٹ مریم عبدل صاحبہ آئی ہوئی تھیں۔ یہ بلیز کے کرَیم(Krem) ٹی وی کی معروف اینکر بھی ہیں۔ … انہوں نے بتایا کہ وہ کٹر سنّی خاندان میں پیدا ہوئی تھیں۔ کہتی ہیں میرا باپ بڑا سخت مسلمان تھا جس کی وجہ سے مجھے ردّعمل ہوا اور میں نے بڑے ہو کر اسلامی احکامات پر عمل کرنا چھوڑ دیا کیونکہ پردہ، سکارف اور بہت ساری ایسی باتیں جن کا غلط رنگ میں یا صحیح رنگ میں دوسرے مسلمانوں میں رواج ہے۔ ان میں اتنی سختی تھی کہ میں اسلام کی تعلیم سے دُور ہو گئی۔ بڑی ہوئی تو سکارف حجاب سب کچھ اُتار کے پھینک دیا۔ لیکن کہتی ہیں خدا تعالیٰ پر مجھے بہرحال یقین ہے۔ لیکن جلسہ سالانہ میں یہاں آکر مجھے ایک انوکھا تجربہ ہوا ہے۔ یہاں میں نے کسی عورت کو پابند اور جکڑا ہوا نہیں دیکھا۔ ہر لڑکی، ہر عورت آزاد تھی۔ میں نے عورتوں اور بچیوں کو دیکھا۔ وہ آزادانہ طور پر پھر رہی تھیں۔ نظمیں پڑھ رہی تھیں۔ بازار میں جا رہی تھیں۔ ایک دوسرے کو محبت سے مل رہی تھیں۔ اس نے میرے اندر یہ سوچ پیدا کر دی ہے کہ اگر مَیں احمدی مسلمان گھر میں پیدا ہوئی ہوتی تو میری روش باغیانہ نہ ہوتی۔ …

پس احمدی خوش قسمت ہیں۔ ان کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ ان کو احمدی گھروں میں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور کچھ کو احمدی ہونے کی توفیق عطا فرمائی اور ان باتوں سے بچا کے رکھا جو باغیانہ روش پیدا کرتی ہیں۔ بعض احمدی بچیوں میں بھی ردّعمل ہوتا ہے، ان کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ غیر آکر ہمارے سے متأثر ہوتے ہیں اس لئے کسی بھی قسم کے کمپلیکس میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں۔ اسلام کی جو خوبصورت تعلیم ہے یہ ہر ایک کے لئے ایسی تعلیم ہے جس کا فطرت تقاضا کرتی ہے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 5؍ستمبر 2014ء بمقام مسجدبیت الفتوح لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 26؍ستمبر 2014ء)

قرآنی حکم پرعمل سےجنت کی ضمانت

برطانیہ کے ایک جلسہ سالانہ کے موقع پر احمدی خواتین سے خطاب کرتے ہوئے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعددرج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:

اِعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا لَعِبٌ وَّ لَہۡوٌ وَّ زِیۡنَۃٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیۡنَکُمۡ وَ تَکَاثُرٌ فِی الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَوۡلَادِ ؕ کَمَثَلِ غَیۡثٍ اَعۡجَبَ الۡکُفَّارَ نَبَاتُہٗ ثُمَّ یَہِیۡجُ فَتَرٰٮہُ مُصۡفَرًّا ثُمَّ یَکُوۡنُ حُطَامًا ؕ وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیۡدٌ ۙ وَّ مَغۡفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانٌ ؕ وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ ۔سَابِقُوۡۤا اِلٰی مَغۡفِرَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ جَنَّۃٍ عَرۡضُہَا کَعَرۡضِ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ ۙ اُعِدَّتۡ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ ؕ ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ (الحدید: 21-22)

اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی پاک کتاب قرآن کریم میں مختلف طریقوں سے مختلف پیرایوں سے توجہ دلائی ہے کہ اپنی زندگی کے مقصد کو سمجھو اور میری طرف آؤ۔ اور اس زمانے میں اس مقصد کی طرف ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے توجہ دلائی ہے۔ پس ہم پر خداتعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہمیں مسیح محمدیؐ کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی راہوں کو پانے کی طرف توجہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر غور کرنے والے اور ان پر عمل کرنے والے ہوں اور اپنی زندگی کے مقصد کو سمجھنے والے ہوں۔ یہ جو آیات تلاوت کی گئی ہیں …(ان کا ترجمہ پیش کرتا ہوں )۔ فرمایا:

جان لو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل کود اور نفس کی خواہشات کو پورا کرنے کا ایسا ذریعہ ہے جو اعلیٰ مقصد سے غافل کردے اور سج دھج اور باہم ایک دوسرے پر فخر کرنا ہے اور اموال اور اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرنا ہے۔ (یہ زندگی) اس بارش کی مثال کی طرح ہے جس کی روئیدگی کفار(کے دلوں ) کو لبھاتی ہے۔ پس وہ تیزی سے بڑھتی ہے۔ پھر تُو اسے زرد ہوتا ہوا دیکھتا ہے، پھر وہ ریزہ ریزہ ہوجاتی ہے۔ اور آخرت میں سخت عذاب(مقدّر) ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت اور رضوان بھی۔ جبکہ دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا ایک عارضی سامان ہے۔

اور اگلی آیت میں فرمایا کہ:

اپنے ربّ کی مغفرت کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھو اور اس جنت کی طرف بھی جس کی وسعت آسمان اور زمین کی وسعت کی طرح ہے جو ان لوگوں کے لئے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں۔ یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ عظیم فضل والا ہے۔ ‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یوکے 30؍جولائی 2005ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 11؍مئی 2007ء)