پردہ

فہرست مضامین

واقفاتِ نَو کے لئے ارشادات

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے دورۂ کینیڈا کے دوران مسجد بیت الاسلام میں واقفاتِ نَو کے ساتھ منعقد ہونے والی ایک کلاس میں متعدد امور سے متعلق نصائح سے نوازا۔ اس ضمن میں پردہ سے متعلق بھی نہایت اہم نصائح فرمائیں۔ حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ:

’’ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں دو تین جگہ بڑا واضح طور پر کہا ہے کہ ایک عورت کی جو sanctity اور chastity ہے اس کو قائم رکھو۔ اس کے لئے سر ڈھانکنا، حجاب اور سکارف لینا بتایا ہے۔ تم جوواقفاتِ نوہو اپنی مثالیں قائم کرو۔ بغیر شرمائے، سکولوں میں کالجوں میں bullying وغیرہ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ سڑکوں پر جاتے ہوئے شرمانے کی ضرورت نہیں۔ اپنی مثالیں قائم کرو تاکہ دوسرے بھی انہیں دیکھ کر نمونہ پکڑیں۔ جس طرح آج سر ڈھانپے ہوئے ہیں، کسی کو کوئی complex ہے کہ ہم نے کیوں سر ڈھانکا ہوا ہے؟ اور پیچھے جو کیمرے پر کھڑی ہیں۔ سیکیورٹی پر کھڑی رہتی ہیں انہوں نے بھی بڑے اچھے پردے کئے ہوئے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ان کو بھی کوئی complex نہیں ہوگا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ اللہ کا حکم مانو گی تو محفوظ رہو گی۔ اور آپ نے وقف کیا ہے۔ تو وقف کا مطلب یہ ہے کہ تم کو دوسروں کی نسبت زیادہ اللہ تعالیٰ کا حکم ماننا چاہئے اس لئے تمہارے نقاب اور سکارف اترنے نہیں چاہئیں۔ یہ بڑا ضروری ہے تاکہ دوسرے بھی تمہارے سے نمونہ پکڑیں۔

حضور انور نے فرمایا جب تک تم بارہ تیرہ سال کی ہو ماں باپ کے under ہو۔ یہاں کلاس میں آتی ہیں تو بڑے اچھے سکارف لپیٹے ہوئے بڑی خوبصورت لگ رہی ہوتی ہیں۔ اس کے بعد عمر زیادہ ہوتی ہے تو آہستہ آہستہ پریشان ہو جاتی ہیں۔ توجو بڑی لڑکیاں ہیں ان کی فہرست مجھے صدر لجنہ یا سیکرٹری تربیت بھجوائے کہ کون سی لڑکیاں باقاعدہ سکارف لیتی ہیں اور جو نہیں لیتیں ان کو کہیں کہ لیا کریں۔ ان کو سمجھائیں اور اگر دو مہینہ کے اندر ان میں کوئی تبدیلی نہیں آتی تو مجھے نام بھیجیں تاکہ ان کو وقف نَو سے خارج کیا جائے۔ بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے بچیوں نے سوالات بھی کئے۔

ایک واقفہ نَو نے سوال کیا کہ جماعت میں ایسی لڑکیاں ہیں کئی دفعہ جب باہر جاتی ہیں جیسے شاپنگ سنٹر وغیرہ میں پھرتی ہیں یا کہیں جاتی ہیں تو دوپٹے اتار دیتی ہیں۔ صحیح طرح حجاب نہیں لیا ہوتا اور جب مسجد میں آتی ہیں تو صحیح طرح حجاب لے کے آتی ہیں تو کیا یہ صحیح طریقہ ہے؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا میرا تو خیال ہے یہاں پر بھی نہیں لے کر آتیں۔ میں نے جلسہ پر اپنی تقریر میں کہا کہ سر پر دوپٹہ لو حجاب لو۔ اس کے بعد میں پوڈیم سے اپنی کرسی پر جب بیٹھا ہوں تو کم ازکم چار عورتوں کو تو میں نے دیکھا ہے جو اٹھ کے گئی ہیں ان کے بال پیچھے سے کھلے ہوئے تھے اور سر پر دوپٹہ کوئی نہیں تھا۔ یہ تو لجنہ کے شعبہ تربیت کا کام ہے۔ صدر صاحبہ اور تربیت والے صرف تقریریں نہ کیا کریں بلکہ دیکھا کریں کہ عملاً کیا ہورہا ہے۔ اس لئے مَیں نے کہا ہے کہ تم جوواقفاتِ نوہو، تم لوگوں نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے کہ ہم نے دنیا کی اصلاح کرنی ہے اپنی ایسی مثال بناؤ کہ تمہیں دیکھ کر دوسروں کو شرم آجائے۔ اب دیکھتے ہیں کہ تم میں سے کتنی ایسی ہیں جو دوسروں کو شرم دلاتی ہیں ‘‘۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ :

’’منافقت نہیں ہونی چاہئے اس لئے مَیں نے صدر لجنہ کو بھی کہا ہوا ہے کہ بیشک جو بہت پڑھی لکھی ہیں، بہت محنت کرنے والی ہیں بہت کام کئے ہیں لیکن اگر ان کا proper حجاب وغیرہ نہیں ہوتا تو پھر ان کو کسی بھی جگہ لجنہ کی خدمت نہیں دینی اور مجھے لگتا ہے کہ اپنی ایک ٹیم علیحدہ بنانی پڑے گی جو چیک کرے گی۔ میرا خیال ہے کہ واقفاتِ نومیں سے کچھ لڑکیوں کومنتخب کروں اور اپنی ٹیم بناؤں۔ تم آکر مجھے بتاؤ کہ کون کیا کرتا ہے۔ تم لوگوں کا اصل کام یہ ہے کہ خلیفۂ وقت کی بازو بن جاؤ، ہاتھ بن جاؤ، اس لئے تم لوگوں کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ اگر تم ایسی بن جاؤ تو میں سمجھوں گاکہ کم ازکم کینیڈا ہم نے فتح کرلیا ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ :

’’میں یہ نہیں کہتا کہ گھُٹ کر بیٹھ جاؤ اور کہیں ایسی frustration پیدا نہ ہوجائے کہ کہیں اپنے جذبات کو نکال نہ سکو۔ لیکن ان کی ایک limit ہونی چاہئے۔ اس limit کے اندر رہو اور جو مرضی کرو۔ حیا کی حفاظت کرو۔ حیا ہمیشہ عورت کی عزت بڑھاتی ہے۔ عیسائی عورتیں بھی پہلے حیادار ہوتی تھیں لباس بھی ان کے لمبے ہوتے تھے جو ان میں خاندانی ہوتی تھیں ان کے لباس اور بھی اچھے ہوتے تھے، بازو لگے ہوئے، سکارف پہنے ہوئے۔ یہ تو آہستہ آہستہ عورت کی آزادی ہوئی ہے، بلکہ انگلینڈ میں ایک عیسائی عورت نے ایک آرٹیکل لکھا ہے کہ یہ مرد جو کہتے ہیں کہ عورت کو آزادی دو اور ان کے جو چاہیں پردے اتار دو، ان کے لباس ننگے کردو، اصل میں یہ مرد عورت کی آزادی نہیں چاہتے بلکہ ان کی اپنی جو خواہشات ہیں ان کو پور اکرنا چاہتے ہیں اور اسی عورت نے لکھا ہے کہ عورت ان مَردوں کے ہاتھوں بیوقوف بن جاتی ہے۔ اس لئے عورت کی اپنی ایک sanctity ہے بہرحال ایک احمدی عورت کو بڑا chaste ہونا چاہئے۔ اس کا خیال رکھو۔ ‘‘(کلاس واقفاتِ نوکینیڈا 11 ؍جولائی 2012 ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 28؍ستمبر 2012ء)

دورۂ جرمنی کے دوران واقفاتِ نوبچیوں کی کلاس میں حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے بچیوں کے سوالات کے جواب ارشاد فرمائے۔ ایک بچی نے سوال کیا کہ facebook کے بارہ میں حضور نے فرمایا تھا کہ یہ اچھی نہیں ہے۔ اس سے منع کیا تھا۔ اس پر حضور انورایدہ اللہ نے فرمایا:

’’ مَیں نے یہ نہیں کہا تھا کہ اس کو نہ چھوڑوگے تو گنہگار بن جاؤ گے۔ بلکہ مَیں نے بتایا کہ اس کے نقصان زیادہ ہیں اور فائدہ بہت کم ہے۔ آجکل جن کے پاس facebook ہے وہاں لڑکے اور لڑکیاں ایسی جگہ پر چلے جاتے ہیں جہاں برائیاں پھیلنی شروع ہوجاتی ہیں۔ لڑکے تعلق بناتے ہیں۔ بعض جگہ لڑکیاں trap ہوجاتی ہیں اور facebook پر اپنی بے پردہ تصاویر ڈال دیتی ہیں۔ گھر میں، عام ماحول میں، آپ نے اپنی سہیلی کو تصویر بھیجی، اُس نے آگے اپنی فیس بُک پر ڈال دی اور پھر پھیلتے پھیلتے ہمبرگ سے نکل کر نیویارک(امریکہ) اور آسٹریلیا پہنچی ہوتی ہے اور پھر وہاں سے رابطے شروع ہوجاتے ہیں۔ اور پھر گروپس بنتے ہیں مَردوں کے، عورتوں کے اور تصویروں کو بگاڑ کر آگے بلیک میل کرتے ہیں۔ اس طرح برائیاں زیادہ پھیلتی ہیں۔ اس لئے یہی بہتر ہے کہ برائیوں میں جایا ہی نہ جائے۔ میرا کام نصیحت کرنا ہے۔ قرآن کریم نے کہا ہے کہ نصیحت کرتے چلے جاؤ۔ جو نہیں مانتے ان کا گناہ اُن کے سر ہے۔ اگر facebook پر تبلیغ کرنی ہے تو پھر اس پر جائیں اور تبلیغ کریں۔ alislam ویب سائٹ پر یہ موجود ہے وہاں تبلیغ کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ لڑکیاں جلد بے وقوف بن جاتی ہیں۔ جو کوئی تمہاری تعریف کردے تو تم کہوگی کہ تم سے اچھا کوئی نہیں۔ اگر ماں باپ نصیحت کریں تو تم کہوگی کہ ہم تو جرمنی میں پڑھی ہوئی ہیں اور آپ لوگ کسی گاؤں سے اٹھ کر آگئے ہو۔ اَلْحِکْمَۃُ ضَالَّۃُ الْمؤمِنِ‘‘ یعنی ہر اچھی بات جہاں سے بھی اور جس جگہ سے بھی ملے، لے لیں۔ ان لوگوں کی سب ایجادیں اچھی نہیں ہیں ‘‘۔ جو بات نہیں مانتیں وہ پھر روتے روتے مجھے خط لکھتی ہیں کہ غلطی ہوگئی ہے کہ ہمیں فلاں جگہ trap کرلیا گیا ہے۔ جس شخص نے یہ facebook بنائی ہے اُس نے خود کہا کہ مَیں نے اس لئے بنائی ہے کہ ہر شخص کو ننگا کرکے دنیا کے سامنے پیش کروں۔ کیا احمدی لڑکی ننگا ہونا چاہے گی۔ جو نہیں مانتے نہ مانیں۔ ‘‘(کلاس واقفاتِ نو8؍ اکتوبر 2011 ء بمقام مسجد بیت الرشید، جرمنی۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل6؍جنوری2012ء)

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دورۂ ناروے کے دوران مسجد بیت النور، نن سپیٹ میں واقفاتِ نوکے ساتھ ایک کلاس ہوئی۔ اس کلاس میں ایک بچی نے مضمون پڑھ کر سنایا جس کا موضوع تھا: ’’حیا اور پاکدامنی احمدی لڑکی کی شان اور پہچان ہے‘‘۔ اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ :

’’پردے کے اوپر آپ نے بڑا اچھا مضمون پیش کیا ہے۔ لیکن صرف اچھا مضمون پیش کرنے سے پردہ نہیں ہوجاتا۔ پردے کا معاملہ تو ساری دنیا میں ہے لیکن یورپ میں خاص طور پر ہے۔ ایک وقت میں ناروے کے بارہ میں پردہ کے حوالہ سے زیادہ شکایتیں آتی تھیں اس لئے حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ناروے میں ایک بڑا سخت خطبہ دیا تھا۔ مَیں نے بھی اپنے خطبہ میں اس کی مثال دی تھی اور اس کا ذکر کیا تھا۔ کیونکہ مجھے ذاتی تجربہ تو نہیں ہے لیکن ان دنوں کی باتوں سے اندازہ لگایا تھا کہ پردہ کے بارہ میں احتیاط نہیں کی جاتی۔ لندن میں مجھے ایک دفعہ وقفِ نَو بچی ملنے آئی۔ اُس نے جو پردہ کیا ہوا تھا اُس کے کوٹ کے بازو یہاں کہنیوں تک تھے۔ ایسے پردہ کا تو کوئی فائدہ نہیں۔ واقفاتِ نَو کا جو پردہ ہے اور جب وہ بڑی ہوجاتی ہیں تو اُن کا جو لباس ہے وہ ایسا ہی ہونا چاہئے جیسا کہ مضمون میں بتایا گیا ہے۔ حیا ہونی چاہئے اور جب حیا ہوگی تو آئندہ پردے کا احساس بھی ہوگا۔ ‘‘

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’پھر اُس بچی سے جو ملاقات کے لئے آئی تھی، مَیں نے یہ بھی پوچھا تھا کہ تم سر پر دوپٹہ یا چادر لیتی ہو یا نہیں۔ سکارف باندھتی ہو یا نہیں۔ وہ ایک باریک سی چُنّی یا سکارف جسے کہتے ہیں، وہی اُس کے سر پر ہوتا تھا، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ لیکن بہرحال اُس نے وعدہ کیا کہ آئندہ مَیں پردہ کروں گی اور اس کے بعد سنا ہے کہ وہ پردہ کرتی ہے۔ تو یہ پردہ کرنے کا احساس جب تک واقفاتِ نَو میں پیدا نہیں ہوگا، بڑے بڑے دعوے اور نظمیں پڑھنا کہ ہم یہ کردیں گے اور وہ کردیں گے، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ‘‘

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

’’ابھی یہاں ناروے میں ملاقاتیں ہورہی ہیں۔ ان میں مَیں دیکھ رہا ہوں کہ بعض عورتیں ملنے آتی ہیں مجھے لگتا ہے کہ بڑے عرصے کے بعد نقاب ان کا باہر نکلا ہے۔ چھ سال قبل 2005ء میں یہاں ملاقاتیں ہوئی تھیں تو ملاقات کے لئے چھ سال کے بعد یہ نقاب باہر نہیں نکلنا چاہئے بلکہ روز نکلنا چاہئے اور اس کے نمونے واقفاتِ نَو نے ہی قائم کرنے ہیں ‘‘۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ:

’’ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ نمونے واقفاتِ نَو نے ہی قائم کرنے ہیں تو آپ یہ نہ سمجھیں کہ آپ لوگ چھوٹی ہیں۔ مَیں نے ابھی جرمنی میں مجلس خدام الاحمدیہ کے اجتماع پر ان کو یہی کہا تھا کہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ بڑے اپنا حق، اپنے فرائض ادا نہیں کررہے اور جو اسلامی تعلیم ہے اس پر عمل نہیں کررہے اور جس طرح جماعت کی خدمت کرنی چاہئے ویسے نہیں کررہے تو پھر نوجوان آگے آجائیں ‘‘۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ :

’’لجنہ کی اور ناصرات کی تنظیم بھی اسی لئے بنائی گئی تھی اور اسی لئے واقفاتِ نَو کو بھی قبول کیا جارہا ہے۔ واقفاتِ نَو اُس طرح تو active role ادا نہیں کرسکتیں جس طرح ہمارے وہ مبلغ ادا کرسکتے ہیں جن کو باقاعدہ ٹریننگ دے کر اور ملازمت میں لے کر بطور مبلغ بھجوایا جاتا ہے۔ اور جہاں اکیلی عورت تو جانہیں سکتی، صرف مرد ہی جاسکتے ہیں ‘‘۔

حضور انور نے فرمایا:

’’ پس جو واقفاتِ نَو بچیاں ہیں انہوں نے عورتوں میں، لڑکیوں اور بچیوں میں اپنے نمونے قائم کرنے ہیں۔ حضور انور نے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ یہاں ایک دو کے سوا باقی بچیاں دس سال سے اوپر کی ہیں۔ ‘‘

حضور انور ایدہ اللہ نے مزید فرمایا:

’’ اب دس سال کی عمر ایک ایسی عمر ہے۔ جو اسلام کی تعلیم کے مطابق mature(ایک سمجھ بوجھ رکھنے کی) عمر ہے جس میں نماز ادا کرنا فرض کیا گیا ہے۔ اب نماز ایک ایسی عبادت ہے جو خدا تعالیٰ کے حضور پانچ وقت ادا کرنی ہے اور اس عبادت کو اللہ اور اس کے رسول نے دس سال کی عمر میں فرض کردیا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس عمر میں تمہارے ہر عمل میں ایک تبدیلی ہوجانی ہے۔ ‘‘

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

’’بچیاں کہتی ہیں کہ ہم تو ابھی چھوٹی ہیں۔ گیارہ بارہ سال کی ہیں۔ بڑی ہوں گی تو ہم سکارف پہن لیں گی یا کوٹ پہن لیں گی۔ تو اگر دس سال تک یہ احساس پیدا نہیں ہوا تو پھر بڑے ہوکر بھی یہ احساس کبھی بھی پیدا نہیں ہوگا۔ اس لئے یہ یاد رکھو کہ ہمیشہ واقفاتِ نَو نے دوسروں کے لئے نمونہ بننا ہے۔ اپنے لوگوں کے لئے بھی اور اپنی قوم کے لئے بھی نمونہ بننا ہے۔ ‘‘

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اس عزم کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ اپنے لوگوں کے لئے بھی اور اس قوم کے لوگوں کے لئے بھی تبلیغ کریں گے اور ناروے کے نارتھ میں وہاں تک جائیں گے جہاں 2008ء میں جھنڈا لہرادیاتھا۔ اِس ایک جھنڈا لہرانے سے، ایک نمائش لگانے سے یا ایک آدمی کو قرآن کریم دینے سے انقلاب نہیں آ جایا کرتے۔ اس کا پھر follow up بھی ہونا چاہئے۔ باقاعدہ پیچھے پڑکے دیکھنا ہوگا کہ ہم نے جو کام کئے ہیں، اُن کو آگے کہاں تک پہنچایا ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’پس ایک لیکچر سے، ایک تقریر سے نہ تو پردے قائم ہوسکتے ہیں اور نہ ہوں گے جب تک کہ ہر ایک کے دل میں یہ احساس نہیں ہوگا کہ ہم نے جو باتیں سنی ہیں ان پر عمل کرنا ہے۔ ‘‘

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

’’رات کو سونے سے قبل بجائے TV ڈرامہ دیکھنے کے یا TV ڈرامہ کوئی اچھا ہے تو بے شک دیکھ لو لیکن اس میں کسی قسم کا ننگ نہیں ہونا چاہئے۔ یا انٹرنیٹ پر لمبا وقت گزارنے کی بجائے وقت پر سونے کی عادت ڈالیں تاکہ نماز پر اٹھ سکیں اور پھر سونے سے قبل یہ جائزہ بھی لیں کہ ہم نے آج کیا کیا کام کئے ہیں جو ایک واقفہ نَو کے لئے ضروری ہیں۔ جب نمازیں فرض ہیں تو کیا ہم نے ادا کی ہیں۔ قرآن شریف پڑھنے کا حکم ہے تو کیا ہم نے پڑھا ہے۔ اور یہ بھی کہ قرآن شریف کے کسی حکم پر ہم نے غور کیا ہے اور اس میں بیان شدہ تعلیم اور معانی نکالے ہیں۔ ‘‘

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’ آپ لوگوں نے آگے جاکر پڑھانا ہے۔ دوسروں کی تربیت کرنی ہے۔ صرف یہ نہیں کہ ایک واقفہ نَو ڈاکٹر بن جائے گی، ایک ٹیچر بن جائے گی یا اَور کچھ نہیں تو تھوڑی سی پڑھائی کرکے اتنا ہی کافی ہے کہ شادی ہوجائے اور اپنے گھر چلی جائے۔ بلکہ آپ لوگوں نے ہر جگہ اپنے نمونے قائم کرنے ہیں۔ پس ان نمونوں کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے اور یہ اُس وقت تک نہیں ہوسکتے جب تک رات سونے سے پہلے آپ خود اپنا جائزہ نہ لیں۔ ‘‘

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

’’کوئی دوسرا آپ کا جائزہ لے گا تو جھوٹ بولا جاسکتا ہے۔ لیکن جب آپ خود اپنا جائزہ لیں گی تو جھوٹ نہیں بول سکتیں۔ جب اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے جائزہ لیں گی کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ مَیں تم کو دیکھ رہا ہوں تو پھر آپ تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے سچائی کے ساتھ اپنا جائزہ لیں گی۔ کیونکہ نہ اپنے آپ کو دھوکہ دیا جاسکتا ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دیا جاسکتا ہے۔ ‘‘(کلاس واقفاتِ نَو ناروے 28 ؍ستمبر 2011ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 2؍ دسمبر2011ء)

دورۂ جرمنی کے دوران حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ 15 سال سے زائد عمر کی واقفاتِ نَو بچیوں کی کلاس منعقد ہوئی جس میں حضور انور ایدہ اللہ تعا لیٰ نے واقفاتِ نَو بچیوں کو قیمتی نصائح سے نوازتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خاص طور پر پردے کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ یہ صرف عورتوں کو، لڑکیوں کو، بچوں کوبعض دفعہ غلط فہمی ہو جاتی ہے کہ صرف پردہ کا حکم ہمیں کیوں دیا گیا ہے۔ مَردوں کو بھی کوئی حکم ہونا چاہئے پردے کا۔ حالانکہ جہاں اللہ تعالیٰ نے پردے کا حکم دیا ہے وہاں نظریں نیچی رکھنے کا پہلے حکم ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھوتاکہ تمہاری حیا ٹپکے۔ اس سے پہلی آیت میں مَردوں کے لئے حکم دیاہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھو۔ بلاوجہ یونہی دائیں بائیں دیکھتے نہ جاؤ۔ ہرایک عورت کی طرف نظر اٹھا کرنہ دیکھو۔ پہلے مرد کو حکم ہے پھر عورت کو حکم ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھے اور اپنی زینت ظاہر نہ کرے۔ پھر آگے اس کی تفصیل ہے کہ اپنے سروں کو ڈھانکو۔ اپنے جو جسم کے اعضاء ہیں ایسے جنہیں پردے کی ضرورت ہے، جن کو مَردوں سے چھپانے کی ضرورت ہے ان کو چھپاؤ۔ باہر ایسی زینت ظاہر نہ کرو جو تم اپنے ماں باپ، بھائی اور سگے رشتہ داروں کو دکھاتی ہو۔ تو باپ اور بھائی اور سگے رشتہ داروں میں چہرہ ہی ننگا ہوتا ہے ناں باقی ننگ تو ظاہر نہیں ہو رہا ہوتا۔ ہاتھ نظرآرہے ہوتے ہیں۔ یا سر پہ دوپٹہ نہ ہو تب بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ چہرہ بھی نظر آرہا ہوتا ہےلیکن انسان باقی جسم مکمل طورپر باپ بھائی وغیرہ کے سامنے نہیں کرتا۔ ہر عقلمند انسان ایساکرتا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ جب باہر نکلو تو اس سے بڑھ کر تمہارا پرد ہ ہونا چاہئے۔ یہ حکم ہے‘‘۔

واقفاتِ نَو کونصیحت کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا:

’’واقفاتِ نَو جو ہیں ان کو یہ مدنظر رکھنا چاہئے کہ اپنے ہر معاملے میں رول ماڈل بنیں۔ ایک نمونہ بننا ہے۔ اس لئے اس معاشرے میں جہاں پردے کا بڑا شور ہوتا ہےپردے کو بھی جاری رکھنا ہے۔ اس کے ساتھ حیا کا پہلو بھی ہو۔ صرف حجاب لینے سے پردہ نہیں ہوجاتا۔ جب تک حیا نہیں ہوگی عورت، مرد لڑکے لڑکی کے آپس کے میل جول میں علیحدگی نہیں ہوگی۔ ایک بیرئیر(barrier)ہونا چاہئے۔ کسی کو جرأت نہ ہو کہ غلط نظر ڈالے کسی لڑکی پر اور واقفاتِ نوکے نمونے جو ہوں گے تو آئندہ دوسروں کی اصلاح کاباعث بننے والے ہوں گے۔ پس ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ آپ کا پردہ قرآنی حکم کے مطابق ہونا چاہئے کہ جب وہ باہر نکلے تو کسی قسم کی زینت اور حسن عورت کا لڑکی کا دوسروں کو نظر نہ آتا ہو۔ سر ڈھکا ہو، بالوں کا پردہ ہے، چہرے کا پردہ ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ ناک بند کرکے ہی چلنا ہے۔ اگر میک اپ نہیں کیا ہوا، ٹھوڑی، ماتھا، اور بالوں کا جو پردہ ہے وہ ٹھیک ہے لیکن اگر میک اَپ کیا ہو اہے توبہرحال چہرہ چھپانا ہوگا۔ پھر اگلے معیار بڑھتے ہیں جوبعض لڑکیاں پاکستان سے آتی ہیں وہاں نقاب اور برقع پہن کر آتی ہیں یہاں آکر سکارف لینے لگ جاتی ہیں۔ تو وہ غلط ہے۔ ایک اچھا معیار جو پردے کا اختیار کیا ہے تو اس کو قائم رکھنا چاہئے۔ اچھائی سے برائی کی طرف، نیچے نہیں آنا چاہئے، معیار اوپر جانا چاہئے۔ افریقہ کا ابھی پروگرام ہورہا تھا لڑکوں میں۔ وہاں اگر مسلمان ہوتی ہیں Pagans میں سے، لامذہبوں میں سے، عیسائیوں میں سے، تو ان کے پردے کا معیار بالکل نہیں ہے لیکن جب پردہ کرتی ہیں تو ان کے لئے لباس پہن لینا اور اپنے آپ کو ڈھانک لینا ہی بہت بڑا پردہ ہے۔ ان میں سے بعض جب ترقی کرتی ہیں روحانی لحاظ سے تو برقع بھی پہنتی ہیں۔ تو ایک اچھی مومنہ کا جو لیول ہے اوپر جانا چاہئے۔ واقفاتِ نوکو ہمیشہ یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ وہ نمونہ ہیں دوسروں کے لئے۔ آپ لوگوں کو دوسری بچیاں دوسری عورتیں دیکھتی ہیں۔ اگر آپ کے نمونے قائم نہیں ہوں گے تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اب یہ جو کہتے ہیں جینز پہن لیتی ہیں عہدیدار یا عہدیداروں کی بچیاں اور یہ اور وہ۔ اگر آپ میں سے کوئی جینز skiny جینز پہن لیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا لباس یعنی جینز پہننے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن کوئی بھی ایسا لباس جس سے جسم کے حصّے یا اعضاء ظاہر ہوتے ہوں، تنگ لباس ہو وہ منع ہے۔ ہندوستان میں رواج ہے تنگ پاجامہ پہننے کا، لیکن جب باہر نکلتے ہیں تو برقع ہوتا ہے، لمبا کوٹ ہوتا ہے یا چادر ایسی ہونی چاہئے جس نے کم ازکم گھٹنوں تک لپیٹا ہو۔ جینز اگر پہن لی، اگرلمبی قمیص ہے تو کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر جینز پہن کے چھوٹا بلاؤز ہے صرف سر پر حجاب لے کر باہر نکل آئی ہیں تو وہ بے فائدہ چیز ہے۔ کیونکہ سر کا پردہ تو آپ نے کرلیاجسم کا نہیں کیا اور حیا جو ہے وہ قائم رکھنااصل مقصد ہے۔ حیا کے معیار بڑھنے چاہئیں۔ اصل چیز یہ ہے۔ عورت کا تقدّس اسی میں ہے۔

بلکہ اب تو پچھلے دنوں ٹی وی پر ایک پروگرام غیروں کاآرہا تھا مسلمانوں کا۔ کوئی عورتیں جو اب مسلمان ہوئیں ہیں انہوں نے کہا ہے کہ ہم اپنے آپ کو ڈھانک کے زیادہ محفوظ محسوس کرتی ہیں۔ بلکہ ایک عیسائی انگریز عورت کابھی اس میں بیان تھا کہ مرد جو پردے پردے کا شور مچاتے ہیں کہ ہم نے عورت کو آزادی دلوادی۔ حالانکہ مسلمان نہیں تھی وہ عیسائی جرنلسٹ ہے اس نے کہا کہ پردہ دیکھ کے اور یہ ساری باتیں سن کے مَیں سمجھتی ہوں کہ مغرب میں پردہ چھڑایا جارہا ہے۔ مَردوں نے اپنی عیاشی کے لئے، اپنی نظروں کی تسکین کے لئے چھڑایا ہے عورتوں کی آزادی کے لئے نہیں چھڑایا۔ اس لئے ہمیشہ یاد رکھیں کہ عورت کا ایک تقدّس ہے، اس تقدّس کو قائم رکھنا ہے۔ اس تقدّس کو قائم رکھنے کی مثال واقفات نَو نے بننا ہے ہر بارہ میں ہر معاملے میں۔

کیونکہ پردہ آج کل ایشو ہے اس لئے مَیں نے اس کوچھیڑدیاہے۔ ہر چیز میں، عبادتوں میں آپ کا معیار اچھا ہونا چاہئے۔ دوسرے احکامات میں معیار اچھا ہونا چاہئے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ جو سات سو حکم کی پابندی نہیں کرتا، یہاں تک لکھا ہے کہ وہ میری جماعت میں سے نہیں۔ تو یہ تلاش کرنا آپ لوگوں کا کام ہے۔ تاکہ جس جس ماحول میں رہ رہی ہیں مختلف جگہوں پر، اس جگہ پر باقی احمدی لڑکیوں کے لئے بھی، باقی احمدی عورتوں کے لئے بھی آپ کے نمونے قائم ہوں۔ یہ سوچیں اور اگر یہ ہو جائے گا تو انشاء اللہ تعالیٰ آپ لوگ پھر انقلاب لانے والی بنیں گی۔ ‘‘(کلاس واقفاتِ نَو جرمنی19؍جون 2011ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 12؍اگست 2011ء)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ واقفاتِ نَو کی ایک کلاس مسجد بیت الرشید ہمبرگ، جرمنی میں منعقد ہوئی۔ اس کلاس میں حضور انور ایدہ اللہ نے واقفاتِ نَو بچیوں کو قیمتی نصائح سے نوازتے ہوئے فرمایا:

’’ہراحمدی واقفہ کاایک خاص وقار ہے۔ اس کو اپنے وقار کو مدّنظر رکھتے ہوئے ایسا فیشن کرنا چاہئے جو پردے کی شرائط کوپور اکرتا ہو۔ آج کل جس طرح ٹخنوں سے اوپر شلوار پہننے کا فیشن ہے وہ بھی نامناسب ہے‘‘۔

حضورانور نے کلاس فیلو لڑکوں کے بارہ میں ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ:

’’ اگر کبھی پڑھائی کے سلسلہ میں کچھ پوچھنا ہو تو پوچھ سکتی ہیں۔ کلاس میں ڈسکشن وغیرہ میں حصہ لے سکتی ہیں۔ مگر اس کے علاوہ کسی قسم کا تعلق نہیں رکھنا۔ یہ نہ ہو کہ پہلے پڑھائی کے سلسلہ میں بات کریں پھر ان کے ساتھ مختلف مواقعوں مثلاً پکنک وغیرہ پر جانا شروع کردیں۔ یہ بالکل منع ہے۔ ‘‘(کلاس واقفاتِ نوجرمنی 14؍اگست 2008ء بمقام مسجد بیت الرشید ہمبرگ۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 12؍ستمبر 2008ء)

جرمنی کی واقفاتِ نَو بچیوں کی کلاس بیت السبوح فرینکفرٹ میں منعقد ہوئی۔ اس کلاس میں حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے بچیوں کو بہت سی اہم نصائح سے نوازا۔ حضورانور ایدہ اللہ نے فرمایا:

’’ایک وقفِ نَو بچی جو ہے اس کا ایک علیحدہ بڑا مقام ہے دوسری بچیوں سے۔ اس کو ہمیشہ یہ خیال رکھنا چاہئے کہ اس نے اپنے آپ کو ان ساری برائیوں سے، لغویات سے بچا کے رکھنا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے حکم ہیں ان پر عمل کرنا ہے۔ آج جس طرح تم لوگ سر ڈھانک کے بیٹھی ہوئی ہو یہ دوغلی نہیں ہونی چاہئے، منافقت نہیں ہونی چاہئے۔ باہر جاؤ، بازار میں جاؤ، شاپنگ کرنے جاؤ، سیر کرنے جاؤ جو بڑی لڑکیاں ہو گئی ہیں تب بھی ان کے سر پہ سکارف، حجاب یا دوپٹہ ہونا چاہئے۔ کیونکہ تمہارا نمونہ جو ہے وہ باقیوں کے کام آئے گا۔ تم لوگ ایک کریم(cream) ہو جماعت کی بچیوں کی اس لئے اپنا وہ مقام بھی یاد رکھو، تمہارا ایک اپنا سٹیٹس(status)ہے اس کو یاد رکھو اور ہمیشہ اس کی حفاظت کرو۔ ہر احمدی بچی کا اپنا ایک تقدّس ہے۔ ایک sanctity ہے اس کا خیال رکھنا چاہئے۔ لیکن وقف نَو بچی جو ہے اس کو سب سے زیادہ اپنا خیال رکھنا چاہئے۔ … نمازوں کی پابندی، قرآن کریم پڑھنے کی پابندی، اس پر عمل کرنے کی پابندی اور ہر قسم کے جو لغویات ہیں اس سے بچنے کی ضرورت اور لغویات میں غلط قسم کے فیشن بھی آجاتے ہیں۔ ہمبرگ میں بھی کہا تھا یہاں بھی مثلاً بچیاں کوٹ پہنتی ہیں (جو جوانی کی عمر کو پہنچ گئیں ) پردے کے لئے، کوٹ ایسا ہو جو ساتھ چپکا ہوا نہ ہو جسم کے۔ بلکہ تھوڑا سا ڈھیلا ہونا چاہئے۔ بازو اسکے یہاں تک(کلائی تک) ہوں۔ پھرپتہ لگے گا کہ تم لوگ مختلف ہو دوسروں سے۔ ان سب باتوں کا ہمیشہ خیال رکھو اور پڑھائی کی طرف توجہ دو۔ ‘‘(کلاس واقفاتِ نوجرمنی 20؍اگست 2008ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 10؍اکتوبر 2008ء)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دورۂ فرانس کے دوران واقفاتِ نَو بچیوں کی ایک کلاس میں تعلیمی اداروں میں پردہ کا خیال رکھنے سے متعلق قیمتی نصائح سے نوازتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’جو بچیاں کالج اور یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہیں وہ ہمیشہ یا درکھیں کہ ایک تو ہراحمدی لڑکی کو ویسے ہی اپنا تقدّس قائم رکھنا چاہئے اور یہ احساس ہونا چاہئے کہ ہم احمدی ہیں اور دوسروں سے فرق ہے لیکن جو وقف نَو بچیاں ہیں وہ ان سے بھی زیادہ اپنا تقدّس قائم رکھنے والی اور اپنا خیال رکھنے والی ہونی چاہئیں کیونکہ انہوں نے آئندہ جماعت کی خدمت بھی کرنی ہے اور تربیت بھی کرنی ہے۔ اس لئے ہمیشہ اس ماحول میں دیکھ کے بازار میں جاؤ تو سر پر سکارف، حجاب لے کر جاؤ۔ چاہے یہاں برا سمجھیں یا نہ سمجھیں۔ فرمایا: پرائیویٹ اسکول بھی ہیں جہاں ایسی پابندی نہیں ہے جو پرائیویٹ اسکول کے خرچ برداشت کرسکتے ہیں وہ وہاں جاسکتے ہیں۔ اگر اسکول میں مشکل ہے تو پھر سکول کی حد تک تو سکارف اتر سکتا ہے اس کے بعد نہیں۔ اسکول سے نکلیں تو حجاب، سکارف لیں۔ ‘‘(کلاس واقفاتِ نوفرانس 10؍اکتوبر 2008ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 14؍نومبر 2008ء)

اسی طرح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک اور موقع پر واقفاتِ نَو سے فرمایا:

’’نمونہ بننے کے لئے ضروری ہے کہ آپ کو دین کا علم ہو، نمازوں کی طرف توجہ ہو اور روزانہ قرآن کریم کی تلاوت کرنے والی ہوں، حجاب اور سکارف اور باقاعدہ باپردہ ہوں۔ اگر حجاب لیا ہے اور منہ ننگا ہے تو پھر میک اَپ نہیں ہونا چاہئے۔ اگر میک اَپ کیا ہوا ہے تو پھر منہ ڈھانکنا پڑے گا۔ تو یہ ساری باتیں ہمیشہ یاد رکھیں۔ ‘‘(کلاس واقفاتِ نَو 8؍اکتوبر 2011ء مسجدبیت الرشید، جرمنی۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 6؍جنوری 2012ء)

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یورپین ممالک کے اپنے کامیاب دورہ کے حوالہ سے خطبہ جمعہ ارشاد کرتے ہوئے افراد جماعت کو تربیتی معاملات میں بہت سی اہم نصائح فرمائیں۔ حضورانور نے فرمایا:

’’ ناروے بھی یورپ کے اُن ممالک میں سے ہے جہاں عموماً تربیت کی طرف بہت توجہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ دنیا داری کی طرف رجحان بھی ہے لیکن اس مرتبہ مجھے وہاں مَردوں اور عورتوں کو، بچوں کو، بچیوں کو سمجھانے پر اُن کی نظروں میں شرم و حیا اور افسوس بھی نظر آیا۔ یہ عزم اور ارادہ نظر آیا کہ ہم اپنی کمزوریاں بھی دُور کریں گے۔ خاص طور پر واقفینِ نَو اور واقفاتِ نونے اس بات کا اظہار کیا جب مَیں نے انہیں اُن کی کلاس کے دوران سمجھایا کہ اُن کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔ واقفاتِ نَو نے تو بہت زیادہ عزم کا اظہار کیا ہے اور وعدہ کیا ہے کہ اپنی حالتوں کو بدلیں گی بلکہ اپنے ماحول کی حالتوں کو بدلیں گی اور اس بات پر شرمندگی کا اظہار کیا کہ اُن سے پردے اور لباس اور احمدی لڑکی کے وقارکے اظہار میں جو کمیاں اور کوتاہیاں ہوتی رہی ہیں وہ نہ صرف اُن کو دُور کریں گی بلکہ اپنے ماحول میں، جماعتی ماحول میں بھی اور باہر کے ماحول میں بھی ایک نمونہ بن کے دکھائیں گی۔ اللہ تعالیٰ اُن کو بھی توفیق عطا فرمائے اور دنیا کے ہر احمدی بچے کو اور بچی کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ احمدیت کا صحیح نمونہ ہو۔ کیونکہ اگر ہماری لڑکیوں اور عورتوں کی اصلاح ہو جائے تو آئندہ نسلوں کی اصلاح کی بھی ضمانت مل جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی برکت ڈالتا ہے۔ بہرحال ناروے کی جماعت میں مجھے پانچ سال میں بعض لحاظ سے بہت زیادہ بہتری نظر آئی ہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 21؍اکتوبر 2011ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 11؍نومبر2011ء)

واقفاتِ نَو کی مائیں نمونہ بنیں

حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے واقفاتِ نَو کے اجتماعات کے مواقع پر اپنے متعدّدخطابات میں بچیوں کے علاوہ اُن کی ماؤں کو بھی اُن کی تربیتی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ فرمایا ہے۔ چنانچہ ایک موقع پر اَنمول نصائح سے نوازتے ہوئے حضورانور ایدہ اللہ نے فرمایا:

’’یہاں پر بعض بہت چھوٹی بچیاں بھی میرے سامنے بیٹھی ہوئی ہیں جو غالباً بارہ سال سے چھوٹی ہیں۔ انہیں بھی یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہر احمدی بچی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی حیا کی حفاظت کرے۔ چاہے کوئی بچی آٹھ سال کی یا نو سال کی یا دس سال کی ہے، اُسے اپنے لباس میں حیا کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔ ان کی ماؤں نے عہد کیا ہوا ہے کہ یہ وقف ِ نَو تحریک کا حصہ ہیں۔ اُنہیں چاہئے کہ وہ ان بچیوں کے دل میں یہ اہم چیز راسخ کر دیں کہ انہوں نے ہمیشہ شرم و حیا کے تقاضوں کے مطابق کپڑے پہننے ہیں۔ ویسے تو تمام احمدی لڑکیوں کے لباس میں شرم و حیا کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے مگر واقفات ِ نَو کے لئے تو یہ اور بھی زیادہ اہم ہے کہ انہیں اس کا مکمل احساس ہو۔ اگر بالکل چھوٹی عمر سے ان کو یہ احساس دلا دیا جائے تو پھر بڑے ہو کر انہیں باپردہ رہنے میں کوئی ہچکچاہٹ یا احساس ِ کمتری نہیں ہوتا۔

جو بچیاں آٹھ، نو یا دس سال کی بھی ہیں انہیں مناسب قسم کے فیشن اپنانے چاہئیں۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے چھوٹی احمدی بچیاں بھی بہت ذہین ہیں۔ اس لئے انہیں دین کا علم حاصل کرنا چاہئے اور اپنی ذہانت کو اچھے اور مثبت طور پر استعمال میں لانا چاہئے۔ ایک چھوٹی بچی کے لئے یہ اہم ہو گا کہ اُس کو جو اچھی باتیں اُس کے والدین بتائیں وہ انہیں غور سے سنے اور عمل کرنے کی کوشش کرے۔ ‘‘

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خصوصیت سے ماؤں سے مخاطب ہوکر فرمایا:

’’یہاں کچھ مائیں بھی موجود ہیں۔ مَیں انہیں بھی ان کی ذمہ داریاں یاد کروانا چاہتاہوں۔ آپ کے بچے صرف تب ہی اچھی چیزیں سیکھیں گے اگر آپ خود ان کے سامنے اچھا نمونہ قائم کر کے دکھائیں گی۔ اس وجہ سے آپ کے لئے ضروری ہے کہ آپ نیکیوں کو اپنائیں اور اپنے گھروں کو اعلیٰ اخلاق اور نیکیوں کے ساتھ سجائیں۔ آخر میں میری دعا ہے کہ تحریک وقف ِ نوکی تمام ممبرات اُن امیدوں کو پورا کرنے والی ہوں جو اُن کے والدین نے اُن سے وابستہ کی تھیں جب انہوں نے اِن کی زندگیوں کو اسلام اور جماعت کی خدمت کے لئے وقف کیا تھا۔ مَیں دعا کرتا ہوں کہ آپ سب اُن اعلیٰ اقدار کو حاصل کرنے والی ہوں جن کی امید آپ سے جماعت رکھتی ہے اور خلیفہ وقت آپ سے وہ امید رکھتا ہے۔ خدا کرے کہ اس بابرکت تحریک سے تعلق رکھنے والی تمام ممبرات اُن اعلیٰ مقاصد کو حاصل کرنے والی ہوں جن کیلئے اُن کے والدین نے انہیں وقف کیا تھا۔ خدا کرے کہ ایسا ہو کہ وہ ہمیشہ اپنی زندگیاں رسول کریم حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی خوبصورت تعلیمات کی روشنی میں گزاریں۔ اللہ تعالیٰ ممبرات ِ تحریک ِ وقف ِ نَو کو ہر برکت اور بھلائی سے نوازے۔ آمین۔ ‘‘(خطاب برموقع نیشنل اجتماع واقفاتِ نَو یُوکے 27 ؍فروری 2016 ء۔ مطبوعہ رسالہ مریم واقفاتِ نَو، اپریل تا جون 2016ء)

مربیان اور اُن کی بیویوں کے لئے پردہ کی ہدایت

حضورانور ایدہ اللہ نے مربیانِ کرام اور اُن کی بیویوں کو افرادِ جماعت کے لئے نیک نمونے اور اعلیٰ مثالیں پیش کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

’’اسی طرح ایک اور بات مَیں مربیان اور ان کی بیویوں سے بھی کہوں گا کہ وہ بھی اپنے لباس اور اپنی نظروں میں بہت زیادہ احتیاط کریں۔ ان کے نمونے جماعت دیکھتی ہے۔ مربی اور مبلغ کی بیوی بھی مربی ہوتی ہے اور اس کو اپنی ہرمعاملے میں اعلیٰ مثال قائم کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہمارے مرد بھی اور ہماری عورتیں بھی حیا کے اعلیٰ معیاروں کو قائم کرنے والے ہوں اور اسلامی احکامات کی ہرطرح ہم سب پابندی کرنے والے ہوں۔ ‘‘(خطبہ جمعہ 13 جنوری 2017 بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 3؍فروری2017ء)

لجنہ عہدیداران کو نصیحت

لجنہ عہدیداران کو بھی پردہ کے حوالہ سے نیک نمونہ بننا چاہئے۔ چنانچہ حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :

’’لجنہ کی عہدیدار ہیں تو اُنہیں مثلاً قرآنی حکم میں ایک پردہ ہے اُس کا خیال رکھنا ہو گا ورنہ وہ اپنی امانت کا حق ادا نہیں کر رہی ہوں گی۔ باقی احکام تو ہیں ہی، لیکن مَردوں سے زیادہ عورتوں کو ایک زائد حکم پردے کا بھی ہے۔ ناروے کے بارہ میں پردے کی شکایات وقتاً فوقتاً آتی رہتی ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی ایک وقت میں بڑی سخت تنبیہ کی تھی۔ اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ بھی سمجھاتے رہے۔ لیکن آپ جو عہدیداران ہیں اگراب بھی آپ کے پردے کے معیار نہیں ہیں، عورتوں مَردوں میں میل جول آزادانہ ہے، ایک دوسرے کے گھروں میں بغیر پردے کے آزادانہ آنا جانا ہے اور مجلسیں جمانا ہے جبکہ کوئی رشتے داری وغیرہ بھی نہیں ہے، صرف یہ کہہ دیا کہ فلاں میرا بھائی ہے اور فلاں میرا منہ بولا چچا یا ماموں ہے اور اس لئے حجاب کی ضرورت نہیں یا اور اسی طرح کے رشتے جوڑ لئے تو قرآن اس کی نفی کرتا ہے اور ایک مومنہ کو تاکیدی حکم دیتا ہے کہ تمہارے پر پردہ اور حجاب فرض ہے۔ حیا کا اظہار تمہاری شان ہے۔ اگر لجنہ کی ہر سطح کی عہدیدار خواہ وہ حلقہ کی ہوں، شہر کی ہوں یا ملک کی ہوں، اگر عہدیدار اپنے پردے ٹھیک کر لیں اور اپنے رویے اسلامی تعلیم کے مطابق کر لیں تو ایک اچھا خاصہ طبقہ باقیوں کے لئے بھی، اپنے بچوں کے لئے بھی اور اپنے ماحول کے لئے بھی نمونہ بن جائے گا۔ ایک لجنہ کی عہدیدار کا امانت کا حق تبھی ادا ہو گا جب وہ اَور باتوں کے ساتھ ساتھ اپنے پردہ کا حق بھی ادا کر رہی ہو گی۔ مجھے بعض کے پردہ کا حال تو ملاقات کے دوران پتہ چل جاتا ہے جب اُن کی نقابیں دیکھ کر یہ ظاہر ہو رہا ہوتا ہے کہ بڑے عرصے کے بعد یہ نقاب باہر آئی ہے جس کو پہننے میں دقّت پیدا ہو رہی ہے۔ پس عہدے داربھی اور ایک عام احمدی عورت کا بھی یہ فرض ہے کہ اپنی امانتوں کا حق ادا کریں۔

آج کل اپنے زعم میں بعض ماڈرن سوچ رکھنے والے کہہ دیتے ہیں کہ پردے کی اب ضرورت نہیں ہے یا حجاب کی اب ضرورت نہیں ہے اور یہ پرانا حکم ہے۔ لیکن میں واضح کر دوں کہ قرآن کریم کا کوئی حکم بھی پرانا نہیں ہے اور نہ کسی مخصوص زمانے اور مخصوص لوگوں کے لئے تھا۔ احمدی مرد اور عورتیں خلافت سے وابستگی کا اظہار بڑے شوق سے کرتے ہیں، جہاں اللہ تعالیٰ نے خلافت جاری رہنے کا قرآ ن کریم میں ارشاد فرمایا ہے وہاں عبادتوں اور اعمالِ صالحہ سے اس کو مشروط بھی کیا ہے۔ سورۃ نور میں جہاں یہ آیت ہے اس سے دو آیات پہلے یہ بیان فرمایا ہے کہ یہ دعویٰ نہ کرو کہ ہم یہ کر دیں گے اور وہ کر دیں گے بلکہ فرمایا طَاعَۃٌ مَعْرُوْفَۃٌ کا اظہار کرو۔ ایسی اطاعت کروجو عام اطاعت ہے۔ ہر اُس معاملے میں اطاعت کرو جو قرآن اور رسول کے حکم کے مطابق تمہیں کہا جائے۔ اُس پر عمل کرو اور اس کے مطابق اطاعت کرو۔ قرآن اور رسول کا حکم جب پیش کیا جائے تو فوراً مانو۔ اس بارے میں مَیں بہت مرتبہ کھل کر بتا بھی چکا ہوں۔ پس جہاں مَردوں کے ساتھ عورتیں اپنے عبادتوں کے معیار بلند کریں، اپنے ایمان میں ترقی کی کوشش کریں وہاں وہ خاص حکم جو عورتوں کو ہیں اُن پر بھی عمل کرنے کی کوشش کریں۔ یہاں یہ بھی واضح کر دوں کہ پردے کے بارہ میں اپنے آپ کو ڈھانکنے کا حکم گو عورت کو ہے لیکن اپنی نظریں نیچی رکھنے کا اور زیادہ بے تکلفی سے بچنے کا حکم مرد اور عورت دونوں کو ہے۔ بلکہ اپنی نظریں نیچی رکھنے کا حکم پہلےمَردوں کو ہے پھر عورتوں کو ہے تاکہ مَرد بے حجابی سے نظریں نہ ڈالتے پھریں۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ؍ستمبر2011 بمقام مسجد اوسلو ناروے۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 21؍اکتوبر2011ء)

اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حیا ہی دراصل ایک عورت کا سنگھار ہوتا ہے۔ اس حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے احمدی خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے ایک خطاب میں فرمایا:

’’ پردہ ایک ایسا اسلامی حکم ہے جس کی وضاحت قرآنِ کریم میں موجود ہے۔ اس لئے یہاں کے ماحول کےزیراثر اپنے حجاب اور کوٹ نہ اتار دیں۔ میں نے دیکھا ہے بعض خواتین صرف پتلا دوپٹہ لے کر سڑکوں پر آ جاتی ہیں۔ یہ پردے کی تعلیم کے مطابق نہیں ہے۔ بعضوں کے بازو ننگے ہوتے ہیں۔ اکثر کے کوٹ جو ہیں گھٹنوں سے اوپر ہوتے ہیں۔ فیشن کی طرف رجحان زیادہ ہے اور پردہ کی طرف کم۔ پردہ کریں تو اس سوچ کے ساتھ کریں کہ حیا ایمان کا حصہ ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ حیا اسلام کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الایمان باب الحیاء من الایمان حدیث 24)

عورت کی حیا، اُس کا وقار، اُس کا تقدس، اُس کا رکھ رکھاؤ ہے۔ اس چیز کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے۔ اور یہ پردہ کی طرف بے اعتنائی یا توجہ نہ دینا ہی ہے کہ اس وقت بھی مَیں نے دیکھا ہے کہ ہال میں بہت ساری خواتین داخل ہوئی ہیں جن کے سر ننگے تھے۔ جلسے کے لئے آ رہی ہیں۔ جلسے کے ماحول کے لئے آ رہی ہیں۔ جلسہ سننے کے لئے آ رہی ہیں۔ ذہنوں میں یہ رکھ کر آ رہی ہیں کہ ایک پاکیزہ ماحول میں ہم جا رہی ہیں اور وہاں بھی بال کھلے ہیں اور بالوں کو محفوظ رکھنے کے لئے ایک طریقہ ہے کہ سر پر دوپٹہ نہ لیا جائے، چادر نہ لی جائے اور ننگے سر رہیں۔ اگر یہ ننگے سر رکھنے ہیں تو پھر جلسے پر آنے کا مقصد کیا ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ گھر بیٹھی رہیں اور اپنے گردجو دوسری اکثریت ان عورتوں کی ہے جن کے سر ڈھکے ہوئے ہیں اُن کو بھی بے حجاب نہ کریں۔

پس اس طرف ضرور توجہ دیں کہ اپنی حیا کی آپ نے حفاظت کرنی ہے۔ حیا ہی ایک عورت کا زیور اور سنگھار ہے۔ آپ کے میک اَپ سے زیادہ آپ کی حیا آپ کا زیور ہے، آپ کا سنگھار ہے۔ یہ نہ سمجھیں کہ اگر ہم پردہ میں رہیں گی تو اس معاشرہ میں ہم گھل مل نہیں سکتیں۔ یہ بالکل غلط چیز ہے۔ بہت ساری ایسی ہیں بلکہ اچھے پروفیشن میں ہیں جن کو مَیں جانتا ہوں کہ وہ اپنے کاموں کے دوران بھی لمبے کوٹ پہن کے اور حجاب پہن کے جاتی ہیں۔ کم از کم کوٹ کے ساتھ حجاب کے ذریعہ اپنا سر، اپنے سر کے بال اور ٹھوڑی ڈھانکنا ضروری ہے بشرطیکہ میک اَپ نہ ہو۔ اور اگر میک اَپ کے ساتھ باہر نکلنا چاہتی ہیں تو پھر منہ ڈھانکا ہونا چاہئے۔ اسی طرح بلا وجہ مَردوں کے ساتھ میل جول، غیر ضروری باتیں کرنا یہ بھی اسلام نے منع کیا ہے۔ اگر ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف ابھی توجہ نہ رہی تو پھر یہ بڑھتی چلی جائیں گی اور پھر وہی معاشرہ قائم ہو جائے گا جومغرب میں اس وقت بے حیائی کا معاشرہ قائم ہے۔

پس قرآنِ کریم کے کسی بھی حکم کو کم نظر سے نہ دیکھیں۔ یہ نہ سمجھیں کہ یہ پرانے وقتوں کا حکم ہے یا صرف پاکستان اور ایشیاء کے ممالک کے لئے حکم ہے۔ یہ اسلام کا حکم ہے اور ہر زمانے کے لئے ہے، ہر ملک کے لئے ہے، ہر ملک کی احمدی مسلمان عورت کے لئے ہے۔ میں بار بار مختلف جگہوں پر اس کی طرف توجہ اس لئے دلاتا ہوں کہ یہ کمزوری بڑھتی جا رہی ہے اور اگر یہی حال رہا تو پھر آئندہ جو ہماری نسلیں ہیں ان کی حیا کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ وہ پھر اسی طرح کھلے بال اور جین بلاؤز پہن کے، منی سکرٹیں پہن کر باہر جائیں گی اور پھر وہ احمدی نہیں کہلاسکتیں۔ پھر وہ احمدیت سے بھی باہر جائیں گی۔

پس اس بات کا احساس کریں اور بے حجابیوں میں اور ہواوہوس میں ڈوبنے سے بچیں ورنہ آئندہ نسلوں کی، حیا کے تقدّس کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ پس اگر اللہ تعالیٰ کی رضا اور خیر چاہتی ہیں تو حیا کی بہت حفاظت کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایاکہ:حیا سب کی سب خیر ہے۔ ‘‘(صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان عدد شعب الایمان… حدیث157)(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ کینیڈا 7؍ جولائی2012ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 23؍نومبر 2012ء)

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بارہا احمدی خواتین سے مخاطب ہوتے ہوئے نہایت فکر سے تربیتی نصائح ارشاد فرمائی ہیں۔ ایک ایسے ہی خطاب میں سے ایک حصّہ ہدیۂ قارئین ہے جس میں بیان فرمودہ نصائح کو ہمیشہ ہمیں پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ حضورانور ایدہ اللہ نے ارشاد فرمایا:

’’ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اﷲ تعالیٰ پر ایمان تبھی مضبو ط ہوتا ہے جب یہ یقین ہو کہ خدا تعالیٰ مجھے ہر وقت دیکھ رہا ہے۔ بعض بُرائیاں اِس لئے پیدا ہو جاتی ہیں کہ بُرا ئی کرنے والا سمجھ رہا ہوتا ہے کہ مجھے کوئی دیکھ نہیں رہا اور اُ س وقت انسان یہ بھول جاتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(آل عمران:157) کہ اﷲ تعالیٰ جو کچھ تم عمل کرتے ہو اُ سے دیکھ رہا ہے۔

پس اﷲ تعالیٰ پر ایمان یہی ہے کہ انسان کا ہر عمل اﷲ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے ہو۔ مثال کے طور پر اﷲ تعالیٰ نے اگر پردے کا حکم دیا ہے تو پردے کا یہ حکم صرف جلسہ پر آنے کے لئے نہیں دیا۔ یا جماعتی فنکشنز پر مسجد آنے کے لئے نہیں دیا۔ یا میرے سے ملاقات کے وقت کے لئے صرف یہ حکم نہیں دیا گیا بلکہ اﷲ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے کہ مومنوں کی بیویوں کو یہ حکم دیا ہے۔ جیسا کہ فرماتا ہے: وَ نِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ یُدۡنِیۡنَ عَلَیۡہِنَّ مِنۡ جَلَابِیۡبِہِنَّ(الاحزاب:60)  اور مومنوں کی بیویاں جب گھر سے باہر نکلیں تو اپنی بڑی چادروں کو اپنے اوپر ڈال لیا کریں۔ یہ مومنوں کی بیویوں کی پہچان ہے۔ اور مومنوں کی بیویاں بھی مومن ہی ہوتی ہیں۔ شادی کے احکام میں بھی یہی حکم ہے کہ تم مومن عورتوں سے شادی کرو یا مومن عورتوں کو یہ حکم ہے کہ تم مومن مَردوں سے شادی کرو۔ پس یہ پردہ کسی خاص موقع کے لئے نہیں ہے بلکہ گھروں سے باہر نکلتے ہوئے ہر اُس عورت کے لئے فرض ہے جو اپنے آپ کو مومن کہتی ہے اور بلوغت کی عمر کو پہنچ چکی ہے اور اﷲ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی جماعت میں اپنے آپ کو شامل سمجھتی ہے۔ اور اِس میں اُن مَردوں کے لئے بھی حکم ہے جو اپنی بیویوں کے پردے اِس لئے اُتروا دیتے ہیں کہ ہمیں باہر سوسائٹی میں جاتے ہوئے شرم آتی ہے کہ لوگ کہیں گے کہ بڑا backward ہے، اپنی بیویوں کو پکاّ پردہ کرواتا ہے۔ یہاں یورپ میں پردے کے خلاف وقتاً فوقتاً اُبال اُٹھتا رہتا ہے اور فرانس اِ س میں پیش پیش ہوتا ہے۔ وہیں سے عام طور پر یہ تحریکیں شروع ہوتی ہیں۔ اور پھر ردّ عمل کے طور پر مسلمانوں کی طرف سے پردہ برداروں کا ایک جلوس نکلنا شروع ہو جاتا ہے۔ اور پردہ کے اِن جلوسوں میں اکثر مُنہ لپیٹے ہوئے وہ لوگ ہوتے ہیں اور پردہ کرنے والوں کی اُ ن میں ایسی تعداد ہوتی ہے جو آپ کو بازار میں اکثر ننگے مُنہ پھرتی نظر آئیں گی بلکہ لباس بھی قابلِ شرم ہوں گے۔ یہ اِ س لئے ہے کہ اُن کی کوئی رہنمائی نہیں ہے۔ ایک وقتی جوش اور اُ بال ہے جو ردّعمل کے طور پر ظاہر ہوتا ہے اور جو پردے پر پابندی کا ردّ عمل ہے۔

لیکن ایک احمدی عورت اور ایک احمدی نوجوان لڑکی جو پردے کی عمر کو پہنچ چکی ہے، اُ سے ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ پردہ اُس کے ایمان کا حصّہ ہے۔ اُن احکامات میں سے ہے جن کا قرآن کریم نے حکم دیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے فضل سے بہت سی احمدی بچیاں اِس حقیقت کو سمجھتی ہیں۔ گزشتہ دنوں پردے کے خلاف فرانس میں جو رَو چلی تھی اُس پر ایک احمدی نوجوان بچی جو وقفِ نَو بھی ہے اور جرنلزم میں ماسٹرز کر رہی ہے، اُس نے اخبار کو خط لکھا کہ ایک طرف تو یورپ فرد کی آزادی اور مذہبی آزادی کا نعرہ لگاتا ہے اور دوسری طرف پردہ جو ہمارے مذہب کے احکامات میں سے ایک حکم ہے اُس پر تم پابندی لگاتے ہو جبکہ ہم جو پردہ کرنے والی خواتین ہیں اُ سے خوشی سے قبول کرتے ہوئے اپنے خدا کے حکم کے مطابق اُ س پر عمل کرنا ضروری سمجھتی ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ تمہارا جو مذہبی آزادی دینے کا دعویٰ ہے صرف ایک اعلان ہے اور اِ س سے زیادہ اِ س کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ آج کل مسلمانوں میں سے اکثریت ایسی ہے جو پردہ نہیں کرتی اور اب تو ان کے لباس بھی اتنے ننگے ہو گئے ہیں کہ ٹی وی وغیرہ پر بعض دفعہ جو پروگرام آرہے ہوتے ہیں، انہیں دیکھ کر شرم آتی ہے اور پھر یہ مسلمان کہلانے والی ہیں۔ اور خشکی اور تری میں فساد سے یہی مُراد ہے کہ نہ دین باقی رہا نہ اسلام باقی رہا لیکن پھر بھی مسلمان کہلا نے والی ہیں۔

لیکن ایک احمدی عورت جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا ہے اُ سے ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اُس نے احمدیت صرف اپنے ماں باپ کی عزّت کی و جہ سے قبول نہیں کرنی یا صرف اِس لئے اپنے آپ پر احمدیت کا لیبل چسپاں نہیں کرناکہ ایک احمدی گھرانے میں پیدا ہونے کی مجھے سعادت ملی ہے اور اِس کے علاوہ میرا کوئی اور راستہ نہیں کہ میں اپنے احمدی ہونے کا اعلان کروں کیونکہ میرے گھر والے احمدی ہیں۔ میرا خاندان احمدی ہے۔ اِ س لئے ہمیشہ یہ خیال رکھیں کہ ایک احمدی عورت کو احمدیت کی تعلیم کا پتہ ہونا چاہئے۔ ایمان کی مضبوطی کا پتہ ہونا چاہئے۔ ایک احمدی کی عزّت اِ س بات میں ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کرنے کے بعد اپنے ایمان میں اتنی مضبوطی پیدا کریں کہ دنیا کی کوئی خواہش اُسے اُس کے ایمان سے ہٹا نہ سکے۔ اُس کے ایمان کو متزلزل نہ کرسکے۔ ‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یوکے 25؍ جولائی2009ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 21؍جون 2013ء)

دورۂ جرمنی کے دوران حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے لجنہ اماء اللہ جرمنی کی نیشنل مجلس عاملہ کے ساتھ ایک میٹنگ میں تربیت، پردہ اور facebook کے استعمال کے حوالے سے بعض اہم ہدایات بیان فرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا :

’’ہر وہ عورت یا لڑکی جو عام زندگی میں بازار میں پھرتی ہو، کوٹ گھٹنے تک نہیں ہے اور جس کے سر پہ سکارف نہیں اور بال ڈھکے بھی نہیں اور کندھوں پہ اور سینے پر دوپٹہ نہیں، وہ پردہ نہیں کررہیں اور وہ عہدیدار نہیں بن سکتیں ‘‘۔

صدر صاحبہ نے کہا کہ ایک صدر بتا رہی تھیں کہ ان کے حلقہ میں پردہ کی پابندی کرنے والیوں کی پرسنٹیج بہت کم ہے۔ اس پر حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا:

’’اگر پرسنٹیج کم ہے تو ایک صدر کو بنادیں اور وہ سارے عہدے سنبھالے۔ جو پانچ چھ پردہ کی پابند ہیں تو انہی کو عہدیدار بنائیں۔ باقیوں کو چھوڑ دیں۔ ایک صدر ہی رہ جائے تو وہ سب کچھ ہو۔ اگر کوئی اپنے آپ کو improve کرتی ہے۔ اگر کوئی یہ عہد کرتی ہے کہ ایک مہنیے کے اندر اپنے اندر ساری تبدیلیاں پیدا کریں گی، اوّل تبدیلی تو overnightپیدا ہونی چاہئے۔ لیکن ایک مہنیے میں جائزہ لیں اگر کوئی تبدیلی پیدا نہیں کرتی تو اس کو عہدہ سے ہٹادیں …۔ ‘‘(میٹنگ نیشنل مجلسِ عاملہ لجنہ اماء اللہ جرمنی17؍جون 2011ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 22؍جولائی2011ء)

ناروے میں لجنہ اماءاللہ کی نیشنل مجلس عاملہ کے اجلاس میں حضورانور ایدہ اللہ نے مختلف تربیتی امور کا جائزہ لیا اور احمدی خواتین اور بچیوں کی تربیت کے لئے گرانقدر راہنمائی فرمائی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:

’’امریکہ میں مجھ سے کسی نے پوچھا کہ لڑکیاں پردہ نہیں کرتیں۔ توجہ نہیں دیتیں۔ جینزپہنتی ہیں اور چھوٹی قمیص ساتھ پہنتی ہیں توکیا کیا جائے؟مَیں نے ان کو یہی کہاتھاکہ آپ لوگ بچپن سے، پانچ چھ سال کی عمر سے عادت ڈالنی شروع کریں گی۔ سات سال کی عمر میں اس کوپتہ ہو کہ مَیں نے چھوٹی قمیص نہیں پہننی۔ فراک بھی لمبی پہننی ہے۔ جینزکے ساتھ بلاؤز نہیں پہننا۔ سکارف لینے کی عادت کبھی کبھی ڈالنی ہے۔ توجب دس سال کی ہوگی تو اس میں جھجک نہیں رہے گی۔ اگر آپ اس طرح عادت نہیں ڈالیں گی تووہ کہے کہ مَیں توابھی دس سال کی ہوں، گیارہ سا ل کی ہوں، بارہ سال کی ہوں۔ اسی طرح sleeveless فراکیں جو ہیں وہ پہن لیتی ہیں۔ اور وہ بھی جب حیا نہیں آئے گی تو سب ختم ہوجائے گا۔ پھر پردہ کی عادت کبھی نہیں پڑے گی۔ اس لئے شر وع سے ہی عادت ڈالنے کی ضرورت ہے۔ ناصرات کی تربیت کی بہت ضرورت ہے۔ تبھی آپ اس ماحول سے اپنی اولاد کو بچاکر رکھ سکتی ہیں۔ ناصرات کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ ‘‘

سیکرٹری تبلیغ کی رپورٹ پیش ہونے پرحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’پھرایک عام تبلیغ ہے۔ لیف لیٹنگ)(leafletingکی جو سکیم ہے اس میں عورتوں کو حصہ لینا چاہئے۔ لیکن مَردوں کے ساتھ نہیں۔ یوکے والوں نے اس طرح تقسیم کیا ہے کہ چھوٹے پرائمری اسکولوں میں اور گھروں میں عورتوں کی ذمہ داری ڈالی ہے وہ جا کے کرتی ہیں اور اگر بڑی جگہوں پر جانا ہو تو فیملی کی ذمہ داری ہوگی۔ ایک پوری فیملی مرد، عورت اکٹھے ہوکر جائیں۔ غیر رشتہ دار مرد اکٹھے نہ ہوں بلکہ رشتہ دار اکٹھے ہوں۔ یا صرف عورتوں کی ذمہ داری ہو کہ ان کے سپرد صرف پرائمری اسکول ہوں، چرچ ہوں یا ایسا حصہ چرچ کا جس میں عورتیں جاتی ہیں یا جب ان کے فنکشن ہو رہے ہوتے ہیں، یا گھروں میں واقفیت پیدا کرکے، یا میل بکس میں ڈالنے کے لئے، تو بہر حال یہ خیال رکھیں کہ عورتوں نے تبلیغ کے لئے اپنا علیحدہ انتظام کرناہے مَردوں کے ساتھ مل کر نہیں کرنا۔ گو کام وہی کرناہے لیکن علیحدہ ہونا چاہئے۔ ‘‘

سیکرٹری تبلیغ نے مختلف اخبارات و رسائل میں articles لکھوانے کے متعلق بتایا تو حضور انور نے فرمایا:

’’جو طالبات کی اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن ہے اس کو active کریں ‘‘۔

صدرصاحبہ لجنہ نے عرض کیا کہ یہاں مخلوط تعلیم اتنی ہے کہ یونیورسٹی میں اگر ہماری بچیاں کوئی پروگرام منعقد کرتی ہیں تو وہاں ہر حالت میں لڑکے بھی آتے ہیں۔ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ:

’’ ٹھیک ہے لڑکے آتے ہیں تو اگر حجاب کے اندر رہ کر اسلام کے اوپر لیکچر دینا پڑے تو دیں۔ کوئی حرج نہیں۔ لڑکیاں اپنےاسٹوڈنٹس کے ساتھ ہی آئیں گی اور وہ ان کے ساتھ ویسے بھی پڑھ رہی ہیں۔ اگر پردہ میں رہ کر اسلام پر لیکچر دیں تواپنی حالتوں کی طرف بھی توجہ پیدا ہوجائے گی۔ لیکن یہ نہ ہو کہ کھلی چھٹی مل جائے۔ مرکزکی طرف سے کنٹرول ہونا چاہئے۔ یہ نہ ہو کہ اونٹ کی طرح سر رکھنے کا موقع دیں توپورے کاپورا اونٹ داخل ہو جائے ‘‘۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا :

’’خاص طور پر جو پڑھنے والی لڑکیاں ہیں، یونیورسٹی میں جانے والی لڑکیاں ہیں 18,17,16سال کی ہیں کچھ آزادی چاہتی ہیں ان کے ساتھ بھی ان موضوعات پر ڈسکشن ہونی چاہئے کہ ’’لباس ہمارا کیوں اچھاہوناچاہئے؟‘‘۔ ’’کیوں ڈھکاہوا ہونا چاہئے؟‘‘۔ ’’حجاب کیوں ضروری ہے؟‘‘۔ حجاب کے خلاف یورپ میں جو مہم ہے اس میں ایک احمدی لڑکی کیا کردار اد اکرسکتی ہے۔ پھر قرآن کریم پڑھنے کی عادت ہے۔ قرآن کریم کے احکامات جو عورتوں کے بار ہ میں ہیں ان کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ سوال بھی ہوتاہے کہ کیوں عورتوں کے لئے پردہ کاحکم ہے۔ مَردوں کے لئے کیوں نہیں ؟ حالانکہ مَردوں کو توپہلے ہی’’ غَضِّ بصر‘‘کا حکم ہے۔ اسی طرح بعض وراثت پرسوال اٹھتے ہیں کہ مردکا حصہ زیادہ ہے اور عورت کاکم ہے۔ تو ایسے سوالات آپ کو سوچ سمجھ کر اکٹھے کرنے پڑیں گے۔ پھر ان سوالات پر لڑکیوں کی ڈسکشن کروایا کریں۔ ‘‘

سیکرٹری تربیت نے عرض کیا کہ آپا جان جب لجنہ میں آئی تھیں توآپا جان چند مثالیں دے رہی تھیں کہ جو نئی بچیاں احمدی ہوتی ہیں ان پر کلچرکو تھوپنے کی کوشش کی جاتی ہے توآپ حیادار لباس کو اپنائیں اور بعض دفعہ ہمارے چوڑی دار پاجامہ اس قسم کے ہوتے ہیں کہ وہ دَور ایسا ہوتا تھاکہ پورا برقع اس کے اوپر ہوتا تھا تو آپ کا ڈھکا ہوا لباس ہونا چاہئے اور گھٹنے تک ہونا چاہئے۔

سیکرٹری تربیت نے بتایاکہ آج کل جو ٹائٹس ہیں اور لڑکیاں پہنتی ہیں اس پرہم بہت زیادہ کام کر رہے ہیں۔ اس پرحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

’’اگر ٹائٹس پر وہ لمبی قمیص پہن لیتی ہیں جو گھٹنوں سے نیچے لٹکی ہوئی ہے تو پھر ٹائٹس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اصل مسئلہ تویہ ہے کہ قمیص لمبی ہونی چاہئے۔ مَیں نے تو کہاتھا کہ لڑکیاں جینزبھی استعما ل کرتی ہیں۔ سکنی جینز بھی استعمال کرتی ہیں توبے شک کریں لیکن پھر اس کے اوپر لمبی قمیص پہننی ضروری ہے۔ لمبی قمیص پہنیں یا پھر باہر آتے ہوئے لمبا کوٹ پہنیں۔ اصل میں یہ دیکھیں کہ پردہ کی روح کیاہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے کہ تمہاراپردہ یہ ہے کہ تم غیروں کے سامنے اس زینت کو چھپاؤ جو تم اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں کے سامنے ظاہر کرسکتے ہو۔ ‘‘

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

’’اگر بیہودہ لباس گھروں میں پہناجا رہاہے تو اس میں گھروں کے لباسوں کو بھی تو چیک کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ایک جوان لڑکی گھر میں اپنے باپ اور جوان بھائی کے سامنے جینز یا ٹائٹ کے اوپر بلاؤز پہن کر بغیر کسی حجاب کے پھر رہی ہے تواس کو حیا نہیں رہے گی۔ اصل چیز حیا ہے اور حیا کی روح پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ باقی اگر تنگ پاجامہ پہنا جاتاہے توپہلے بھی پہناجاتا تھا۔ اور اس میں کوئی حرج نہیں۔ تنگ چوڑی دار پاجامہ اور آج کل کی ٹائٹس میں فرق ہے۔ چوڑی دار پاجامہ میں تو ٹانگ کی shapeنظر نہیں آتی۔ ٹخنے سے لے کر پنڈلی تک اور ا وپر گھٹنے تک اس کی ایک ہی گولائی اور shapeہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے پنڈلی کی shapeنظر نہیں آتی۔ جب کہ ٹائٹس میں ایسا نہیں ہے۔ اس میں پنڈلی سے ٹخنے تک پوری ٹانگ کی پوریshapeنظر آرہی ہوتی ہے۔ اس لئے بتانا پڑے گا کہ ان دونوں میں فرق ہے۔ پس آپ بچیوں کو اس طرف لانے کی کوشش کریں کہ اصل چیز حیاہے:’’اَلْحَیَآءُ مِنَ الْاِیْمَان‘‘حیاایمان کا حصہ ہے۔ پس اگر آپ حیا کو رواج دے دیں تو آپ کے لباس اور پردے خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے۔

اس سوال کے جواب میں کہ بعض مائیں بچیوں کا ساتھ دے رہی ہوتی ہیں۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا جن کی مائیں ساتھ دے رہی ہیں ان کو سمجھائیں۔ قرآن کریم میں یہ تو نہیں لکھاکہ ڈنڈا مارو۔ قرآن کریم میں لکھاہے کہ ’’فَذَکِّرْ ‘‘ پس نصیحت کرتے چلے جانا تمہارا کام ہے۔ تمہیں نصیحت کرنے والا بنایا گیا ہے۔ داروغہ نہیں بنایا گیا۔ پس عہدیداران کاکام ہے کہ جو چیز بھی غلط دیکھیں تو اس بارہ میں نصیحت کرتی چلی جائیں۔ اور یہ دیکھاکریں کہ اس بارہ میں قرآن کریم کیا کہتاہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارہ میں کیا فرمایا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بارہ میں کیاتعلیم دی ہے۔

پردہ کے بھی کئی معیار ہیں۔ جیساکہ مَیں پہلے بھی مثال دے چکاہوں۔ لندن میں ایک مصر کا باشندہ احمدی ہوا۔ اس نے کہاکہ میری ماں کے لئے دعا کریں کہ وہ احمد ی ہوجائے۔ مَیں نے اسے کہا کہ اپنی والدہ کو مسجد لایا کرو۔ کچھ عرصہ بعد وہ شخص آیا اور بتانے لگا کہ اس کی والدہ مسجد گئی تھی اور وہاں خواتین کا پردہ دیکھ کر کہنے لگی کہ تعلیم کی حَد تک تو ٹھیک ہے مَیں سب کچھ مانتی ہوں لیکن تمہاری عورتیں پردہ نہیں کر رہیں۔ اور پردہ کا معیار اس کا وہ حجاب تھا جو عرب خواتین لیتی ہیں اور ماتھا ڈھانپ لیتی ہیں۔ بال نظر نہیں آتے۔ نہ آگے نہ پیچھے سے۔ اب بالوں کا پردہ بھی تو ایک حَد تک ہے۔ اس لئے اگر فیشن کے لئے آپ چھوٹا سا حجاب لے لیں اور پچھلے بالوں کو دکھانے کے لئے لہراتی پھریں تو وہ غلط چیز ہے۔ ‘‘(میٹنگ نیشنل مجلسِ عاملہ لجنہ ناروے2؍ اکتوبر2011ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 23 ؍دسمبر 2011ء)