شیخ عجم ۔ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبدالطیف شہید افغانستان کے سوانح حیات
انگریزی عملداری میں داخلہ اور قادیان کو روانگی
انگریزی علاقہ میں آ کر سید احمد نور نے قیام کیا ،آگ جلائی اور رات گزارنے کا اہتمام کیا وہ خود تو جاگتے رہے لیکن ان کے بھائی سید صاحب نور صاحب سوگئے۔آنکھ کھلنے پر انہوں نے بتایا کہ خواب میں انہوں نے یہ الفاظ سنے ہیں’’وَلَا تَہِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا‘‘۔ سیداحمد نورصاحب نے کہا کہ یہ توبہت اچھی خواب ہے۔
صبح آگے روانہ ہوئے اس سفر میں ان لوگوں کے ساتھ تھوڑا ساضرورت کا سامان بستروغیرہ ہی تھے باقی تمام اثاثہ اور سامان پیچھے چھوڑ آئے تھے راستہ میں ایک گاؤں آیا جہاں کا نمبردار سیداحمد نور کوجانتاتھا۔ اس نے اپنے پاس عزت و احترام سے ٹھہرا یا۔یہاں سے آگے روانہ ہوئے پاڑہ چنار پہنچے جہاں انگریزوں کی چھاؤنی تھی۔ یہاں پرایک ہندو سید احمد نورکا دوست تھا اس کے پاس قریباً ایک ماہ ٹھہرے۔
سیداحمد نور کے پاس تما م ہمراہیوں کے لئے ریل کے کرایہ کی رقم نہیں تھی اس لئے قادیان تک پیدل سفرکا ارادہ تھا۔ ڈاک کا پتہ بھی معلوم نہ تھا اسلئے قادیان خط نہ لکھ سکے لاہور میں وہ ڈاکٹرمرزا یعقوب بیگ صاحب سے واقف تھے ان کے نام خط لکھا کہ میں اہل وعیال سمیت پاڑہ چنار پہنچ گیاہوں اس وقت سفر خرچ کے لئے رقم نہیں ہے روپیہ کا انتظام ہونے پرقادیان پہنچوں گا جب یہ خط ڈاکٹر صاحب کو ملا توانہوں نے فوراً بذریعہ تار اسّی (۸۰) روپے بھجوادئے رقم ملنے پر سید احمد نور صاحب پاڑہ چنار سے روانہ ہوئے اور ۸؍نومبر ۱۹۰۳ء کو مع اہل وعیال قادیان پہنچ گئے
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلا م سے ملاقات ہوئی تمام حالات حضور کی خدمت میں عرض کئے حضرت شہید مرحوم کے بال اور کچھ لباس کا ٹکڑا جو وہ ساتھ لائے تھے حضور کو دئے ان بالوں میں سے اس وقت بھی خوشبوآتی تھی۔
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ کی روایت ہے کہ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی شہادت کے بعد ان کا کوئی مرید ان کے کچھ بال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس قادیان لایا آپ نے وہ با ل ایک کھلے منہ کی چھوٹی بوتل میں ڈال کر اور اس کے اندر کچھ مشک رکھ کراس بوتل کو سربمہر کر دیا اوراس میں تاگہ باندھ کر اسے اپنے بیت الدعا کی ایک کھونٹی سے لٹکادیا اور یہ سارا عمل حضور نے ایسے طور پر کیا کہ گویا ان بالوں کو آپ ایک تبرک خیال فرماتے ہیں یہ بال بیت الدعا میں اس غرض سے لٹکائے ہونگے کہ دعا کی تحریک ہوتی رہے
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ یہ بوتل کئی سال تک بیت الدعا میں لٹکی رہی لیکن اب ایک عرصہ سے نظر نہیں آئی۔ (سیرت المہدی حصہ سوم روایت ۳۶۸)
حضرت صاحبزادہ سید محمد عبداللطیف شہیدؓ کے تابوت کا کابل سے ان کے گاؤں سیدگاہ لایاجانا اور وہاں پرتدفین
جب حضرت صاحبزادہ سید محمد عبداللطیف صاحب کی شہادت کو ایک سال کا عرصہ گزر گیا تو ان کے ایک ممتاز شاگرد مُلاّ میرو اُن کا تابوت کابل سے سیدگاہ لے آئے اور وہاں دفن کرکے نامعلوم سی قبر بنا دی۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد خان عجب خان صاحب آف زیدہ ضلع پشاور کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے سیدگاہ والوں کو پیغام بھجوایا کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کی قبر اچھی طرح بنائی جائے انہوں نے کچھ مالی مدد بھی کی چنانچہ آپ کے معتقدین نے ایک بڑی پختہ قبر تعمیر کروا دی۔
جب یہ بات مشہور ہوئی تو دور دراز سے لوگ زیارت کے لئے آنے لگے اورچڑھاوے چڑھنے لگے اس کی رپورٹ حکومت کابل کو کی گئی تو سردار نصراللہ خان نے گورنر سمتِ جنوبی سردار محمد اکبر خان غاصی کو حکم بھجوایا کہ صاحبزادہ صاحب کا تابوت وہاں سے نکلوا لیا جائے چنانچہ گورنر نے سرکار ی آدمی بھجوا کر رات کو تابوت نکلوا لیا بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسے خفیہ طور پر کسی اور جگہ دفن کر دیا گیا اور بعض بتاتے ہیں کہ اسے دریا میں پھینک دیا گیا ۔
مُلّا میروصاحب کو جو کابل سے تابوت لے کر آئے یہ سزا دی گئی کہ ان کا چہرہ سیاہ کر کے اور گدھے پربٹھاکر تمام گاؤں میں پھرایا گیا اس طرح اللہ تعالیٰ نے شہید مرحوم کی قبر کو شرک کا ذریعہ بننے سے روک دیا ۔ (شہید مرحوم کے چشمدید واقعات صفحہ ۲۵)