شیخ عجم ۔ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبدالطیف شہید افغانستان کے سوانح حیات
حضرت صاحبزادہ صاحب کی شہادت کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انذاری و تبشیری پیشگوئیاں
’’صاحبزادہ مولوی عبداللطیف مرحوم کا اس بے رحمی سے مارا جانا اگرچہ ایساامرہے کہ اس کے سننے سے کلیجہ منہ کو آتاہے (وما رأینا ظلمًا اغیظ من ھذا) لیکن اس خون میں بہت برکات ہیں کہ بعد میں ظاہر ہونگے اور کابل کی زمین دیکھ لے گی کہ یہ خون کیسے کیسے پھل لائے گا۔ یہ خون کبھی ضائع نہیں جائے گا ۔ پہلے اس سے غریب عبدالرحمن میری جماعت کا ظلم سے مارا گیا او ر خدا چپ رہا مگر اس خون پر اب وہ چپ نہیں رہے گا اور بڑے بڑے نتائج ظاہر ہونگے ‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین ۔روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۷۴مطبوعہ لندن)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’یہ خون بڑی بے رحمی کے ساتھ کیا گیاہے اور آسمان کے نیچے ایسے خون کی اس زمانہ میں نظیر نہیں ملے گی۔ ہائے اس نادان امیر نے کیا کیا کہ ایسے معصوم شخص کو کما ل بیدردی سے قتل کر کے اپنے تئیں تباہ کر لیا ۔
اے کابل کی زمین تو گواہ رہ کہ تیرے پر سخت جرم کا ارتکاب کیا گیا ۔ اے بدقسمت زمین تو خدا کی نظر سے گر گئی کہ تو اس ظلمِ عظیم کی جگہ ہے‘‘۔ (تذکرۃالشہادتین روحانی خزائن جلد۲۰، صفحہ ۷۴، مطبوعہ لندن)
فرمایا:۔
’’میں خوب جانتاہوں کہ جماعت کے بعض افراد ابھی تک اپنی روحانی کمزوری کی حالت میں ہیں یہاں تک کہ بعض کو اپنے وعدوں پر بھی ثابت رہنا مشکل ہے لیکن جب میں اس استقامت اور جانفشانی کو دیکھتاہوں جو صاحبزادہ مولوی محمد عبداللطیف مرحوم سے ظہور میں آئی تو مجھے اپنی جماعت کی نسبت بہت امید بڑھ جاتی ہے کیونکہ جس خدا نے بعض افراد اس جماعت کو یہ توفیق دی کہ نہ صرف مال بلکہ جان بھی اس راہ میں قربان کرگئے اس خدا کا صریح یہ منشاء معلوم ہوتاہے کہ وہ بہت سے ایسے افراد اس جماعت میں پیدا کرے جو صاحبزادہ مولوی عبداللطیف کی روح رکھتے ہوں اور ان کی روحانیت کا ایک نیا پودہ ہوں جیساکہ میں نے کشفی حالت میں واقعہ شہادت مولوی صاحب موصوف کے قریب دیکھا کہ ہمارے باغ میں سے ایک بلند شاخ سرو کی کاٹی گئی اور میں نے کہا کہ اس شاخ کو زمین میں دوبارہ نصب کر دو تاوہ بڑھے اور پھولے۔ سو میں نے اس کی یہی تعبیر کی کہ خدا تعالیٰ بہت سے ان کے قائم مقام پیدا کر دے گا ۔ سو میں یقین رکھتاہوں کہ کسی وقت میرے اس کشف کی تعبیر ظاہر ہو جائے گی‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین ۔روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۷۵، ۷۶)
’’میں یقیناًجانتاہوں کہ اب وقت آنے والا ہے کہ اس کی شہادت کی حکمت نکلنے والی ہے اور میں نے سنا ہے کہ اس وقت چودہ آدمی قید کئے گئے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ عبداللطیف کو ناحق شہیدکرایا گیا ہے اور یہ ظلم ہواہے ، وہ حق پرتھا ۔اس پر امیر نے ان آدمیوں کوقیدکر دیاہے اور ان کے وارثوں کو کہا ہے کہ وہ ان کو سمجھائیں کہ ایسے بیہودہ خیالات سے وہ باز آ جائیں ۔ مگر وہ موت کو پسند کرتے ہیں اور اس یقینی بات کو وہ چھوڑنا نہیں چاہتے ۔ اگر عبداللطیف شہید نہ ہوا ہوتا تو یہ اثر کس طرح پیداہوتا اور یہ رعب کس طرح پر پڑتا۔
یقیناًسمجھو کہ خدا تعالیٰ نے کیسی بڑی چیز کاارادہ کیا ہے اور اس کی بنیاد عبداللطیف کی شہادت سے پڑی ہے ۔۔۔۔یہ موت موت نہیں ۔ یہ زندگی ہے اور اس سے مفید نتیجے پیدا ہونے والے ہیں۔ ۔۔۔ یہ نشان ہزاروں لاکھوں انسانوں کے لئے ہدایت اور ترقی ایمان کا موجب ہوگا۔۔۔۔۔۔ عبداللطیف کے اس استقلال اور استقامت سے بہت بڑا فائدہ ان لوگوں کو ہو گا جو اس واقعہ پر غور کریں گے۔ چونکہ یہ موت بہت سی زندگیوں کا موجب ہونے والی ہے ۔ اس لئے یہ ایسی موت ہے کہ ہزاروں زندگیاں اس پرقربان ہیں۔۔۔۔۔۔۔ عبداللطیف کی موت پر جو موت نہیں بلکہ زندگی ہے تم کیوں خوش ہوتے ہو۔ آخر تمہیں بھی مرنا ہے۔ عبداللطیف کی موت تو بہتوں کی زندگی کا باعث ہوگی مگر تمہاری جان اکارت جائے گی اور کسی ٹھکانے نہ لگے گی ۔۔۔۔۔۔ یہ ہماری جماعت کے ایمان کو ترقی دینے کا موجب ہوگی ۔ اس کے سوا اب یہ خون اٹھنے لگاہے اور اس کا اثر پیدا ہونا شروع ہو گیا ہے جو ایک جماعت کو پیدا کر دے گا‘‘۔ (الحکم ۲۴؍جنوری ۱۹۰۴ء۔ملفوظات جلد ۶ صفحہ ۲۵۸،۲۵۹۔ مطبوعہ لندن)
’’یہ خون کبھی خالی نہیں جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ اس کے مصالح اور حکمتوں کو خوب جانتاہے۔۔۔ اس خون کے بہت بڑے بڑے نتائج پیدا ہونے والے ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم (طبع جدید) صفحہ ۵۱۴،۵۱۵)
’’عجیب بات یہ ہے کہ ان کے بعض شاگرد بیان کرتے ہیں کہ جب وہ وطن کی طرف روانہ ہوئے تو باربار کہتے تھے کہ کابل کی زمین اپنی اصلاح کے لئے میرے خون کی محتاج ہے۔ اور درحقیقت وہ سچ کہتے تھے کیونکہ سرزمین کابل میں اگر ایک کروڑ اشتہار شائع کیا جاتا اور دلائل قویہ سے میرا مسیح موعود ہونا ان میں ثابت کیا جاتا تو ان اشتہارات کاہرگز ایسااثر نہ ہوتا جیساکہ اس شہید کے خون کااثر ہوا ۔
کابل کی سرزمین پر یہ خون اس تخم کی مانند پڑا ہے جو تھوڑے عرصہ میں بڑا درخت بن جاتاہے اور ہزارہا پرندے اس پر اپنا بسیرا کرتے ہیں‘‘۔(تذکرۃ الشہادتین ۔روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۵۳،۵۴مطبوعہ لندن)
’’شاہزادہ عبداللطیف کے لئے جو شہادت مقدرتھی وہ ہو چکی ۔ اب ظالم کا پاداش باقی ہے ۔ انہ من یات ربہ مجرما فان لہ جہنم لایموت فیھا و لا یحی ۔ افسوس کہ یہ امیر زیر آیت من یقتل مومنا مُتَعَمِّدًا داخل ہو گیا۔ اور مومن بھی ایسامومن کہ اگر کابل کی تمام سرزمین میں اس کی نظیر تلاش کی جائے تو تلاش کرنا لاحاصل ہے‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین ۔روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۶۰ مطبوعہ لندن)