شیخ عجم ۔ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبدالطیف شہید افغانستان کے سوانح حیات
سردار شیریندل خان ، حاکم خوست سے حضرت صاحبزادہ صاحب کے تعلقات
جب سردار شیریندل خان سمت جنوبی کا حاکم ہو کر آیا تو اس کا رابطہ حضرت صاحبزادہ صاحب سے ہوا۔اس نے آ پ کا پراثر کلام سنا ، آپ کے علم اور تقویٰ کا مشاہدہ کیا،آپ کی مہمان نوازی کی شان دیکھی اور آپ کی سیاسی اور فوجی بصیرت سے آگاہ ہوا توان باتوں نے اس کے دل پرگہرا اثر کیا ۔ اس کی خواہش یہ ہوتی تھی کہ حضرت صاحبزادہ صاحب ہمیشہ اس کے ساتھ رہیں اور وہ ان کی نیک صحبت سے متمتع ہوتارہے۔ جب وہ کہیں جاتاتو حضرت صاحبزادہ صاحب کوگھرسے بلوا کر ساتھ لے جایاکرتاتھا ۔ اس کو آپ سے ایسی محبت ہو گئی کہ آپ کے بغیرچین نہ آتا تھا اور ایک بچہ کی طرح آپ کے زیر سایہ رہتا تھا۔
حضرت صاحبزادہ صاحب فرمایاکرتے تھے کہ مجھے حکام کی صحبت پسند نہیں ۔ یہ لوگ ظلمت میں زندگی بسر کرتے ہیں اور لوگوں پرظلم کرتے ہیں ۔ لیکن میں شیریندل خان کے ساتھ اس لئے رہتاہوں کہ جب غریبوں پرظلم ہوتا ہے تو میری کوشش ہوتی ہے کہ لوگ اس کے پنجۂ ظلم سے بچ جائیں۔ جب آپ شیریندل خان کے پاس جاتے اور اس کی صحبت میں وقت گزارتے تھے تو اپنا کھانا ساتھ لے جاتے تھے اور فرمایاکرتے تھے کہ آپ لوگ حرام وحلال مال میں فرق نہیں کرتے اس لئے میں آپ کے ہاں کھانانہیں کھاتا۔
ایک مرتبہ سردار شیریندل خان نے بہت اصرار کیا کہ آپ اس کے ہاں چائے پئیں ۔ ہندوتاجراپنی خوشی سے ہمیں چائے کی پتی دیتے ہیں ، ہم زبردستی ان سے نہیں لیتے اس لئے آپ کبھی کبھی اس کے ساتھ چائے پی لیا کرتے تھے۔
حضرت صاحبزادہ صاحب جن حکام سے ملتے تو ان کو نصیحت کیا کرتے تھے کہ تم کہتے تو یہ ہو کہ ہم شریعت کے مطابق عدل کے ساتھ حکومت کرتے ہیں ۔ اگر یہ صحیح ہے تورعایا تم سے ناراض کیوں رہتی ہے اور کس لئے تنگ آئی ہوئی ہے۔ شریعت تو اس قدر نرم ہے کہ اگراس پرقائم رہ کر حکومت کی جائے تو حکومتِ انگریزی کے ماتحت رہنے والے ہندو بھی پکاراٹھیں کہ کاش ہم پریہ مسلمان حکومت کرتے۔ اس کے برعکس آپ کی اپنی رعایا تو یہ کہتی ہے کہ اگرانگریزی حکومت ہم پر ہوتی تو اچھا ہوتا۔
ایک دفعہ شیریندل خان نے ایک کوٹھی بنوائی اور حضرت صاحبزادہ صاحب سے عرض کیاکہ اگراس میں کوئی نقص نظر آئے تو بتائیں۔ آپ کچھ دیر خامو ش رہے پھر فرمایا کہ میں کیا بتاؤں اگر کوئی نقص نکالوں گاتو آپ جبراً کسی کاریگر کو بلا کر درست کروا لیں گے۔ اس وقت افغانستان میں کاریگروں سے بیگار لینے کا عام رواج تھا ۔ جب آپ نے یہ بات کی تو باہر ایک نجار کھڑا ہوا تھا اس نے آپ کی بات سن لی ۔ وہ حاضر ہوا اورعرض کی صاحبزادہ صاحب آپ نقص بتادیں میں اپنی خوشی سے درست کردوں گا ۔ تب آپ نے عمارت کے بعض نقائص بتائے۔
ایک دفعہ ایک غریب آدمی کا قاضی کے ساتھ تنازع ہوا ۔ حاکم نے حضرت صاحبزادہ صاحب کو فیصلہ کے لئے مقرر کر دیا۔ وہ آدمی تاریخ مقررہ پرحاضر ہوا اور صاحبزادہ صاحب سے لجاجت سے کلام کرنے لگا۔ اسے خوف تھا کہ حضرت صاحبزادہ صاحب قاضی سے رعایت برتیں گے اور اس کے حق میں فیصلہ کر دیں گے۔ اس پر آپ جوش میں آگئے اور اسے کہا کہ اگرکسی غریب ہندو کا گورنرکے ساتھ تنازع ہواوراس کا مقدمہ پیش ہو تب بھی میں کسی کی طرفداری یا رعایت نہیں کروں گا۔
ایک بار گورنر نے ایک بوڑھے آدمی کو سزادینے کے لئے بلایا ۔اس نے حکم دیا کہ اس بوڑھے کو لٹا کر بید ماریں جائیں ۔ حضرت صاحبزادہ صاحب نے خیال کیا کہ یہ بوڑھا اس سخت سزا کی برداشت نہیں کر سکے گا اور گورنر بھی غصہ میں ہے سزادے کر ہی رہے گا۔ آپ نے اپنے ہاتھوں پر کپڑا لپیٹ لیا اور اس بوڑھے کے اوپر رکھ دئے تاکہ بید آپ کے ہاتھوں پر لگیں۔ گورنر نے یہ دیکھا تو اپنے بیٹے سے کہا کہ اس شخص کو باہر لے جا کر سزا دلوائے تا کہ حضرت صاحبزادہ صاحب نہ دیکھ سکیں۔ بیٹے نے اس خیال سے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب اسے سزا نہیں دلوانا چاہتے، اسے باہر لے جا کر چھوڑ دیا ۔
ایک دفعہ خوست کے ایک جرنیل نے رعایاپربہت مظالم کئے ۔ لوگوں سے رشوت لی اور اطراف میں بہت سے لوگوں کے زبردستی ختنے بھی کروا دئے ۔ ان کاموں سے فارغ ہو کر اس نے سید گاہ کے قریب ڈیرہ آ لگایا۔ جمعہ کے روز اس نے پیغام بھجوایا کہ میرا انتظار کیاجائے تاکہ میں شامل ہو سکوں لیکن حضرت صاحبزادہ صاحب نے پرواہ نہیں کی اور وقت پر جمعہ شروع کر دیا۔ جرنیل خطبہ کے دوران پہنچا ۔ بعد میں اس نے صاحبزادہ صاحب سے عرض کی میں نے دین کی بہت خدمت کی ہے ۔ ختنے کروا کے اتنے لوگوں کو مسلمان بنایا ۔ آپ نے فرمایاکہ خدمتِ دین کی ہے تو کیاہوا۔ تم نے ظلم کیا ، رشوت لی ، غریبوں کی چمڑی اتاری، تمہارا لباس بھی حرام مال سے تیار ہوا ہے ۔ اس میں نماز نہیں ہوتی۔ وہ جرنیل شرمندہ ہوکر خاموش سارہ گیا ۔
سردار شیریندل خان کے علاوہ اس کے اہل و عیال بھی حضرت صاحبزادہ صاحب سے عقیدت رکھتے تھے ۔ ایک مرتبہ حضرت صاحبزادہ صاحب سردار شیریندل خان کے پاس بیٹھے تھے کہ اندرون خانہ سے ایک خادم کے ہاتھ شیرینی کی ایک قاب آ پ کے لئے بھجوائی گئی ۔ آپ نے خوان پوش اٹھایا تو دیکھا کہ شیرینی کے اوپر ایک لفافہ پڑاہے ۔ آپ نے لفافہ کھولا تو اس میں ایک خط تھا جو سردار صاحب کی بیگم صاحبہ نے آپ کے نام لکھا تھا جس میں یہ تحریر تھا کہ آپ کی بڑی مہربانی ہوگی اگر آپ مجھے اپنی بیعت سے مشرف فرمائیں ۔ حضرت صاحبزادہ صاحب نے یہ خط سردار شیریندل خان کو دکھایا تو وہ بہت خوش ہوا اور کہا الحمدللہ ہمارے گھر والوں کو بھی خدا سے ملنے کا شوق پیدا ہوا۔
سردا ر شیریندل خان کے دو بیٹوں کے نام معلوم ہو سکے ہیں ۔ ایک کانام سردارعطاء اللہ جان تھا جو امیر امان اللہ خان کے زمانہ میں خوست کا گورنرتھا۔ دوسرے کانام سردار عبدالرحمن جان تھا جو امیر حبیب اللہ خان کا برادرنسبتی تھا ۔ اس نے حضرت صاحبزادہ صاحب کی شہادت کے بعد جب آپ کی نعش پتھروں سے نکالی گئی تو کابل کے ایک قبرستان میں تدفین سے قبل آپ کا جنازہ پڑھایا تھا اورانہی دنوں میں احمدیت قبو ل کر لی تھی ۔ اس کا مفصل ذکر آگے آئے گا۔
(’’شہید مرحوم کے چشم دید واقعات‘‘ حصہ دوم صفحہ ۳،۱۲،۱۳،۲۳ تا ۲۶ ۔و قلمی مسودہ صفحہ ۷۹)