شیخ عجم ۔ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبدالطیف شہید افغانستان کے سوانح حیات
امیر حبیب اللہ خان کی طرف سے ملانوں کے فتویٰ کی توثیق اور حضرت صاحبزادہ صاحب کو سنگسار کئے جانے کا فیصلہ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’بعد اس کے کہ فتویٰ کفر لگاکر شہید مرحوم قید خانہ میں بھیجا گیا۔صبح روز دو شنبہ کو شہید موصوف کو سلام خانہ یعنی خاص مکان دربارامیر صاحب میں بلایا گیا۔ اس وقت بھی بڑا مجمع تھا۔ امیر صاحب جب ارک یعنی قلعہ سے نکلے تو راستہ میں شہید مرحوم ایک جگہ بیٹھے تھے۔ ان کے پاس سے ہوکر گزرے اور پوچھا کہ اخوندزادہ صاحب کا کیا فیصلہ ہوا ۔شہید مرحوم کچھ نہ بولے۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان لوگوں نے ظلم پر کمر باندھی ہے مگر سپاہیوں میں سے کسی نے کہا کہ ملامت ہو گیا یعنی کفر کا فتویٰ لگ گیا‘‘۔(تذکرۃ الشہادتین ۔روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۵۶ ۔ مطبوعہ لندن)
اسی طرح آپ فرماتے ہیں:
’’ وہ فتویٰ کفر رات کے وقت امیر صاحب کی خدمت میں بھیجا گیا اور یہ چالاکی کی گئی کہ مباحثہ کے کاغذات ان کی خدمت میں عمداً نہ بھیجے گئے اور نہ عوام پر ان کا مضمون ظاہر کیا گیا۔ یہ صاف اس بات پردلیل تھی کہ مخالف مولوی شہید مرحوم کے ثبوت پیش کردہ کا کوئی رد نہ کر سکے ۔ مگر افسوس امیر پر کہ اس نے کفر کے فتویٰ پرہی حکم لگا دیا اور مباحثہ کے کاغذات طلب نہ کئے۔ حالانکہ اس کو چاہئے تو یہ تھاکہ اس عادلِ حقیقی سے ڈر کر جس کی طرف عنقریب تمام دولت و حکومت کوچھوڑ کر واپس جائے گا خود مباحثہ کے وقت حاضر ہوتا ۔ بالخصوص جبکہ وہ خوب جانتاتھا کہ اس مباحثہ کا نتیجہ ایک معصوم بے گناہ کی جان ضائع کرنا ہے ۔ تو اس صورت میں مقتضا خدا ترسی کایہی تھا کہ افتاں و خیزاں اُس مجلس میں جاتا ۔ اور نیز چاہئے تھا کہ قبل ثبوت کسی جرم کے اس شہیدمظلوم پر یہ سختی روا نہ رکھتا کہ ناحق ایک مدت تک قید کے عذاب میں ان کو رکھتا اور زنجیروں اور ہتھکڑیوں کے شکنجہ میں اس کو دبا یا جاتا اور آٹھ سپاہی برہنہ شمشیروں کے ساتھ اس کے سر پر کھڑے کئے جاتے اور اس طرح ایک عذاب اور رعب میں ڈال کر اسکوثبوت دینے سے روکا جاتا۔پھر اگر اس نے ایسا نہ کیا تو عادلانہ حکم دینے کے لئے یہ تو اس کا فرض تھا کہ کاغذات مباحثہ کے اپنے حضور میں طلب کرتا۔ بلکہ پہلے سے یہ تاکید کردیتا کہ کاغذات مباحثہ کے میرے پاس بھیج دینے چاہئیں ۔اور نہ صرف اس بات پر کفایت کرتا کہ آپ ان کاغذات کو دیکھتابلکہ چاہئے تھا کہ سرکاری طور پران کاغذات کو چھپوا دیتا کہ دیکھو کیسے یہ شخص ہمارے مولویوں کے مقابل پر مغلوب ہو گیا اور کچھ ثبوت قادیانی کے مسیح موعود ہونے کے بارہ میں اور نیز جہاد کی ممانعت میں اور حضرت مسیحؑ کے فوت ہونے کے بارہ میں نہ دے سکا ‘‘۔(تذکرۃ الشہادتین۔روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۵۵۔مطبوعہ لندن)
جناب قاضی محمد یوسف صاحب بیان کرتے ہیں کہ :
’’حضرت صاحبزادہ سیدمحمدعبداللطیف صاحب کو مباحثہ کے اختتام کے بعد جامع مسجد بازار کتب فروشی سے ایک جلوس کی صورت میں روانہ کیا گیا ۔ پا پیادہ چوک پل خشتی میں سے ہوکر بازار ارک شاہی میں سے گزر کر دروازہ نقار خانہ تک پہنچے اور شاہی قلعہ میں داخل ہوئے ۔ جب انہیں امیر حبیب اللہ خان کے دربار میں لایاگیا تو مولویوں اور عوام کا
جم غفیر موجود تھا۔ سردار نصراللہ خان نے دریافت کیا کہ کیافیصلہ ہوا۔ اس پر لوگوں نے شور مچایا کہ صاحبزادہ ملامت شُد۔
امیر حبیب اللہ خان نے حضرت صاحبزادہ صاحب سے کہا کہ مولویوں کا فتویٰ تو کافر قرار دئے جانے کا ہے اور سنگسار کرنے کی سزا تجویز کی گئی ہے اگر آپ کوئی صورت تو بہ کی پیدا کر لیں تو نجا ت مل سکتی ہے۔
اس موقعہ پر سردار نصراللہ خان نے اپنے قلبی بغض و عناد کا مظاہرہ کیا اور خود علماء کا فتویٰ تکفیر ورجم پڑھ کر سنایا اور حاضرین سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ آپ اطمینان رکھیں امیر صاحب آپ کی مرضی اور علماء کے فتویٰ کی ہی تصدیق و تائید کریں گے مگر وہ چاہتے ہیں کہ بطور اتمام حجت صاحبزادہ عبداللطیف کو کسی قدرمہلت دے کر توبہ کا موقعہ دیں۔
اس وقت دربار میں ڈاکٹر عبدالغنی اور اس کے دوبھائی بھی موجود تھے۔ انہوں نے دل کھول کر احمدیت کی مخالفت کی اور جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا ۔
امیر حبیب اللہ خان نے اس وقت حضرت صاحبزادہ صاحب کو توقیف خانہ بھجوا دیا ‘‘۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’امیر صاحب جب اپنے اجلاس میں آئے تو اجلاس میں بیٹھتے ہی پہلے اخوند زادہ صاحب مرحوم کو بلایا اور کہاکہ آپ پر کفرکا فتویٰ لگ گیا ہے۔اب کہو کہ کیاتوبہ کروگے یا سزا پاؤگے تو انہوں نے صاف لفظوں میں انکار کیااور کہا کہ میں حق سے توبہ نہیں کرسکتا ۔ کیا میں جان کے خوف سے باطل کو مان لوں۔ یہ مجھ سے نہیں ہوگا۔تب امیر نے دوبارہ توبہ کے لئے کہا اور توبہ کی حالت میں بہت امید دی اور وعدہ معافی دیا۔ مگرشہید موصوف نے بڑے زور سے انکار کیا اور کہا کہ مجھ سے یہ امید مت رکھو کہ میں سچائی سے توبہ کروں۔
ان باتوں کو بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ یہ سنی سنائی باتیں نہیں بلکہ ہم خود اس مجمع میں موجود تھے اور مجمع کثیر تھا۔شہید مرحوم ہر ایک فہمائش کا زور سے انکار کرتا تھااور وہ اپنے لئے فیصلہ کر چکا تھا کہ ضرور ہے کہ میں اس راہ میں جان دوں۔تب اس نے یہ بھی کہا کہ میں بعد قتل چھ روز تک پھر زندہ ہو جاؤں گا ۔ یہ راقم کہتاہے کہ یہ قول وحی کی بناء پر ہوگاجو اس وقت ہوئی ہوگی۔ کیونکہ اس وقت شہید مرحوم منقطعین میں داخل ہو چکا تھا اور فرشتے اس سے مصافحہ کرتے تھے۔ تب فرشتوں سے یہ خبر پا کر ایسااس نے کہا۔ اور اس قول کے یہ معنی تھے کہ وہ زندگی جو اولیاء اور ابدال کو دی جاتی ہے چھ روز تک مجھے مل جائے گی اور قبل اس کے جوخدا کا دن آوے یعنی ساتواں دن میں زندہ ہو جاؤں گا ۔ اور یاد رہے کہ اولیاء اللہ اور وہ خاص لوگ جو خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہوتے ہیں وہ چند دنوں کے بعد پھر زندہ کئے جاتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے : و لا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا بل احیاء ۔ یعنی تم ان کو مردے مت خیال کرو جو اللہ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں وہ تو زندے ہیں ۔ پس شہید مرحوم کا اسی مقام کی طرف اشارہ تھا ۔
۔۔۔۔۔۔ جب شہیدمرحوم نے ہر ایک توبہ کرنے کی فہمائش پر توبہ کرنے سے انکار کیا تو امیر نے ان سے مایوس ہو کر اپنے ہاتھ سے ایک لمبا چوڑا کاغذ لکھا اور اس میں مولویوں کا فتویٰ درج کیا اور اس میں یہ لکھا کہ ایسے کافرکی سنگسار کرنا سزا ہے تب وہ فتویٰ اخوند زادہ مرحوم کے گلے میں لٹکا دیا گیا ‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۵۶ تا ۵۸ ۔ مطبوعہ لندن)