شیخ عجم ۔ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبدالطیف شہید افغانستان کے سوانح حیات
حضرت صاحبزادہ سید محمد عبداللطیف شہید کی نعش کا پتھروں سے نکالا جانا ، نماز جنازہ اور تدفین
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’میاں احمد نور جو حضرت صاحبزادہ مولوی عبداللطیف صاحب کے خاص شاگرد ہیں۔ ۸؍نومبر ۱۹۰۳ء کو مع عیال خوست سے قادیان پہنچے ان کا بیا ن ہے کہ مولوی صاحب کی لاش برابر چالیس دن تک ان پتھروں میں پڑی رہی جن میں سنگسار کئے گئے تھے۔ بعد اس کے میں نے چنددوستوں کے ساتھ مل کر رات کے وقت ان کی نعش مبارک نکالی اور پوشیدہ طورپر شہر میں لائے اور اندیشہ تھاکہ امیر اور اس کے ملازم کچھ مزاحمت کریں گے مگر شہر میں وبائے ہیضہ اس قدر پڑ چکا تھا کہ ہر ایک شخص اپنی بلامیں گرفتار تھا اس لئے ہم اطمینان سے مولوی صاحب مرحوم کا قبرستان میں جنازہ لے گئے اورجنازہ پڑھ کر وہاں دفن کر دیا۔ یہ عجیب بات ہے کہ مولوی صاحب جب پتھروں میں سے نکالے گئے تو کستوری کی طرح ان کے بدن سے خوشبو آتی تھی اس سے لوگ بہت متاثر ہوئے۔ (تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۲۶، مطبوعہ لندن)
سیداحمد نورصاحب بیان کرتے ہیں کہ جب انہیں اپنے گاؤں آئے ہوئے قریباً تین ماہ کا عرصہ ہو گیا توایک روز گاؤں کی مسجدمیں تلاوت قرآن مجید کرتے ہوئے انہیں القاء ہوا: ’’وعقروالناقۃ لو تسوّی بھم الارض لکان خیراًلھُم۔یعنی ان لوگوں نے (خدا کی ) اونٹنی کو مار دیاہے مگر ان کی یہ حرکت اچھی نہ تھی۔ اگر زمین ان پرہموار کر دی جاتی تو ان کے لئے بہتر ہوتا‘‘۔
اس کی انہیں یہ تفہیم ہوئی کہ حضرت صاحبزادہ کو شہید کردیا گیاہے انہوں نے بعض لوگوں سے اس کا ذکر کیا لیکن انہوں نے کہا کہ یہ ممکن نہیں کہ صاحبزادہ صاحب جیسے انسان کو قتل کر دیا جائے ان کا گاؤں جدلان نامی دریا کے کنارے پر واقعہ ہے ا س کے قریب ایک جگہ شمخیل (ہاشم خیل) ہے جہاں پر کابل سے تاجر آتے جاتے ہیں سید احمد نورمعلومات حاصل کرنے کے لئے شمخیل گئے تو معلوم ہواکہ حضرت صاحبزادہ صاحب کو سنگسار کر دیا گیا ہے اوراب تک ان کے جسم کے اوپر ایک درخت جتنا اونچا پتھروں کا ڈھیر پڑاہے۔
سید احمدنور صاحب نے یہ سن کر عزم کیا کہ وہ کابل جائیں گے اور حضرت صاحبزادہ صاحب کے جسم کو ان پتھروں کے نیچے سے نکالیں گے خواہ اس کی پاداش میں ان کو بھی سنگسار کر دیا جائے وہ کابل کے ارادے سے روانہ ہوئے جب شمخیل پہنچے تو مقامی حاکم کو ان کے ارادے کا علم ہو گیا اس نے ان کو بلوا کر کہا کہ تم فوراً اپنے گاؤں چلے جاؤ ورنہ تمہیں سخت سزاد ی جائے گی پھر ان سے دو صد روپیہ کی ضمانت لی اور گاؤں واپس جانیکی ہدایت دے کر ان کو چھوڑ دیا سیداحمد نور ایک دوسرے راستہ سے کابل کی طرف روانہ ہو گئے (شہید مرحوم کے چشمدید واقعات حصہ اول صفحہ ۱۹)
سیداحمد نور صاحب نے کابل پہنچ کر بعض دوستوں سے اپنے ارادہ کا ذکر کیا اور ان سے سنگساری کی جگہ دریافت کی انہوں نے بتایا کہ صاحبزادہ صاحب کو ہندوسوزان کے قریب سنگسارکیا گیا ہے۔ سید احمد نوراس جگہ گئے اور دیکھ کر واپس آ گئے انہیں یہ خیال پیدا ہوا کہ معلوم نہیں کہ صاحبزادہ صاحب ان کی نعش کے نکالے جانے پر راضی بھی ہیں یا نہیں۔ انہوں نے رات دعا کی کہ اے مولا کریم میری رہنمائی فرماکہ صاحبزادہ صاحب اپنی نعش کے نکالے جانے پرراضی ہیں یا نہیں۔انہوں نے رؤیا میں دیکھا کہ حضرت صاحبزادہ صاحب ایک کمرے میں ہیں۔ انہوں نے دروازہ کھولا اور سید احمد نور کو اندر بلا لیا وہ حضرت صاحبزادہ صاحب کے پاؤں دبانے لگے انہوں نے دیکھا کہ آپ کے پاؤں زخمی ہیں آنکھ کھلنے پر سید احمد نور نے اس کی یہ تعبیر سمجھی کہ حضرت صاحبزادہ صاحب چاہتے ہیں کہ ان کی لاش پتھروں سے نکال لی جائے۔
سیدا حمد نور یہ سوچتے رہے کہ یہ کام کیسے کیا جائے آخر وہ ایک فوجی حوالدار سے ملے جو حضرت صاحبزادہ صاحب کا معتقد تھا وہ ان کی بات سن کر رو پڑا اور کہا کہ میں نے بہت دفعہ ارادہ کیا کہ لاش نکالوں لیکن میں اکیلا تھا مجھ میں اس کی طاقت نہ تھی اب آپ آ گئے ہیں میں انشاء اللہ ضرور آپ کی مدد کروں گا۔سیداحمد نور نے حوالدار صاحب سے کہا کہ وہ کچھ آدمی اپنے ساتھ لے کر رات بارہ بجے مقام شہادت پرپہنچیں میں تابوت ،کفن او ر خوشبو وغیرہ لے کر وہاں آ جاؤں گا۔ چنانچہ وہ ایک مزدور سے تابوت اٹھوا کر وقت مقررہ پر ایک قبرستان میں پہنچ گئے جو مقام شہادت کے قریب ہی تھا۔ ان دنوں ہیضہ کی وباء پھیلی ہوئی تھی ، لوگ کثرت سے مر رہے تھے۔ قبرستان میں میت کے بعد میت تدفین کے لئے لائی جا تی تھی افراتفری کا عالم تھااس لئے ان سے کسی نے نہیں پوچھا کہ وہ وہاں کیسے آئے ہیں اور یہ کہ تابوت میں کوئی لاش ہے یا نہیں۔ حوالدار نے آنے میں کچھ دیر کی یہاں تک کہ آدھی رات ہو گئی سیداحمد نور نے سوچا کہ وہ اکیلے ہی پتھروں کوہٹا کر لاش نکالتے ہیں لیکن تھوڑی دیر بعد حوالدار صاحب بھی کچھ لوگوں کو لے کر آ گئے۔ یہ سب لوگ تابوت لے کر مقام شہادت پر پہنچے۔ چاندنی رات تھی ایک آدمی کو پہرہ پر مقرر کیا اور باقی سب پتھرہٹانے لگے یہاں تک کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کی لاش نظر آنے لگی اس وقت اس میں سے نہایت تیز خوشبو آ رہی تھی یہ دیکھ کر حوالدار کے ساتھی کہنے لگے کہ شاید یہ وہی آدمی ہے جس کو امیر حبیب اللہ خان نے سنگسار کروایا تھا سیداحمدنور نے کہا ہاں یہ وہی آدمی ہے یہ شخص اکثر قرآن شریف کی تلاوت کرتا رہتاتھا اور ذکر الٰہی میں مصروف رہتا تھا یہ وہی خوشبو ہے۔
جب نعش کو کفن پہنایاگیا تو سیدا حمد نور نے کشفی طور پردیکھا کہ ایک پہاڑی کے پیچھے سے پچاس پیدل پہرہ دار اور ایک سوار گشت کرتے ہوئے آ رہے ہیں ان دنوں کابل میں رات کے وقت پہرہ ہوتا تھا اور کسی کو باہر پھرنے کی اجازت نہ ہوتی تھی اگر رات کو کوئی شخص باہر پھرتا نظر پڑتا تھا تو اسے قتل کر دیا جاتا تھا۔ سیداحمد نور نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ پہرہ والے آ رہے ہیں یہاں سے ہٹ جاؤ۔ تب سب وہاں سے ہٹ کر چھپ گئے۔ تھوڑی دیر میں پہرہ والے سڑک پر چلتے نظرآنے لگے وہ قلعہ بالا حصار (میگزین) تک گئے اور کچھ دیر کے بعد اسی سڑک سے شہر کی طرف واپس چلے گئے۔تب میاں احمد نور اور ان کے ساتھی حضرت شہید مرحوم کی نعش کے پاس آئے اور اسے اٹھاکر تابوت میں رکھ دیا اس وقت سید احمد نور نے حضرت شہید مرحوم کے کچھ بال اور کپڑا تبرک کے طورپر لے لئے۔
تابوت بہت بھاری ہو گیا تھا جب اسے اٹھانے کی کوشش کی توسب مل کر بھی نہ اٹھا سکے۔ سیداحمد نورنے لاش کو مخاطب ہو کر کہاکہ جناب یہ بھاری ہونے کاوقت نہیں آپ ہلکے ہوجائیں ا س کے بعد انہوں نے محسوس کیا کہ وہ اکیلے ہی تابوت اٹھا سکتے ہیں۔ لیکن حوالدار نے کہا کہ میں اٹھاتا ہوں۔ اس نے سید احمد نور کی پگڑی لی اور اس سے تابوت باندھ کر اسے اپنے کندھے پرڈال لیا۔
وہاں سے وہ تابوت ایک مقبرہ میں لے گئے جو نزدیک ہی تھا اس جگہ چند فقیر رہتے تھے سید احمد نور نے حوالدار صاحب اور ان کے آدمیوں کورخصت کر دیا اور خود ان فقیروں کے پاس چلے گئے ان سے کہا کہ ایک جنازہ آیاہے اسے یہاں رکھناہے انہوں نے تسلی دی اور تابوت ا ن کے پاس رکھ دیا گیا حوالدار نے جاتے وقت کہا تھاکہ وہ صبح کسی سواری یا مزدوروں کا انتظام کرے گا تاکہ تابوت وہاں سے شہر لے جایاجا سکے۔ صبح ہو گئی لیکن حوالدار نہ آیا آخر سید احمد نور نے ان فقیروں میں سے ایک آدمی کو اجرت دے کر شہر بھجوایا کہ وہ مزدورتلاش کر کے لائے وہ فقیر چلا گیا اور کچھ دیر کے بعد واپس آ گیا اور کہاکہ مزدور تونہیں ملے شہر میں ہیضہ کی وباء کا زور ہے کثرت سے آدمی مر رہے ہیں میں ہی آپ کی مدد کرتا ہوں۔ فقیر نے سرہانے کی طر ف سے جنازہ اٹھا یا اور سید احمد نور نے پاؤں کی طرف سے اور شہر کی طرف روانہ ہوئے۔دِہ سبز کو جانے والی مشرقی سڑک سے شہر میں آئے جب لکڑ منڈی پہنچے تو کچھ مزدور مل گئے جنہوں نے جنازہ اٹھالیا شور بازار سے ہوتے ہوئے مقبرہ طاؤس آئے اس کے قریب ہی غلام جان کا مکان تھا وہاں سردار عبدالرحمن جان ابن سردار شیریں دل خان موجود تھے سید احمد نور نے سردار احمد جان سے پہلے سے بات کی ہوئی تھی اور تمام پروگرام ان کے علم میں تھا۔ سیداحمد نور نے ان کو اشارہ سے اپنی طرف بلایا اور جنازہ کے مقبرہ طاؤس میں بھجوائے جانے کا ذکر کیا۔ سردار عبدالرحمن جان نے کہا کہ آپ چلیں اور میرا انتظار کریں میں گھوڑے پرسوار ہو کر آتاہوں سیداحمد نور جنازہ اٹھواکر مقبرہ طاؤس کے پاس ایک قبرستان میں لے گئے جو حضرت صاحبزادہ صاحب کا آبائی قبرستان تھا اور مزدوروں کو رخصت کر دیا تھوڑی دیر میں سردار عبدالرحمن جان بھی پہنچ گئے انہوں نے گھوڑا اپنے نوکر کے حوالہ کیا اور خود آگے بڑھے۔ سردار عبدالرحمن جان نے سرہانے کی طرف سے جنازہ اٹھایا اور پاؤں کی طرف سے سید احمد نو ر نے پکڑا اتنے میں حوالدار صاحب بھی آ گئے اب ظہر کا وقت ہو گیا تھا۔تینوں نے نماز جنازہ ادا کی سردار عبدالرحمن جان ابن سردار شیریں دل خان امام بنے اور سیداحمد نوراورحوالدار پیچھے کھڑے ہوئے نماز جنازہ کے بعد تدفین کر دی گئی مقبرہ والوں کو سردار عبدالرحمن جان نے کچھ رقم دی اورکہا کہ یہ ایک بزرگ تھے ہم انہیں امانتاً دفن کرتے ہیں اگر کوئی شخص ان کے بارہ میں دریافت کرتاہوا آئے تو اسے قبر کا پتہ دے دینا ۔
سردار عبدالرحمن جان کی والدہ صاحبہ بھی حضرت صاحبزادہ صاحب سے بہت عقیدت رکھتی تھی سردار عبدالرحمن جان کی ایک بہن امیر حبیب اللہ خان کی بیوی تھیں
سیداحمد نور کابل میں سردارصاحب کے مکان پر ایک ماہ کے قریب مقیم رہے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ اگر حضرت صاحبزادہ صاحب کی لاش نکالے جانے کا امیر کوعلم ہو جائے اور وہ کوئی کاروائی ان کے خلاف کرنا چاہے تو انہیں کابل میں ہی گرفتار کر لیا جائے ان کے اہل وعیال کو اس سلسلہ میں کوئی تکلیف نہ دی جائے
انہی دنوں میں سردار عبدالرحمن جان نے احمد یت قبول کر لی جنازہ کے چند روز کے بعد سردار صاحب نے دربار میں آ کر بتایاکہ امیر حبیب اللہ خان کے پاس رپورٹ پہنچائی گئی ہے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کی لاش پتھروں سے نکال لی گئی ہے لیکن اس نے ا س طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی۔
سردار صاحب اور ان کی والدہ محترمہ نے سیداحمد نور سے بہت اچھا سلوک کیا ان کو جب علم ہوا کہ سید احمد نور قادیان جانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو انہوں نے ایک گھوڑا اور جائے نماز ان کو دیا کہ وہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں سردار صاحب کی طرف سے بطور تحفہ پیش کردیں۔ سید احمد نور نے جائے نماز تو لے لی اور گھوڑا نہ لیا۔انہوں نے کہا کہ میں چھپ کر پہاڑوں میں سے جانے کا ارادہ رکھتاہوں
سردار عبدالرحمن جان نے سید احمد نور کو ایک خط لکھ دیا کہ یہ میرا آدمی ہے اس تکلیف نہ دی جائے جب سیداحمد نور کو تسلی ہو گئی کہ ان کی گرفتاری نہیں ہوگی تو وہ کابل سے روانہ ہوئے۔