شیخ عجم ۔ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبدالطیف شہید افغانستان کے سوانح حیات
تحصیل علم کے بعد وطن میں قیام اور مصروفیات
تحصیل علم کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب اپنے وطن واپس آ گئے اور سیدگاہ میں قیام کر کے علوم دینیہ کی تعلیم و تدریس ، اصلاح احوال ، قیام سنت نبویﷺ اور تربیت خَلْق میں مصروف ہو گئے۔ اس وقت وہاں کے رواج کے مطابق ان کی سوتیلی مائیں ان کے آبائی گھرمیں بیوگی کی حالت میں اپناوقت گزار رہی تھیں ۔ ان کو کہیں آنے جانے کی اجازت نہ تھی۔ پہلا کام آپ نے یہ کیاکہ ان سے کہاکہ اگر وہ شادی کرناچاہیں توکر سکتی ہیں اوراگر اپنے گھروں کو جانا چاہیں تو جتنا سامان چاہیں ساتھ لے کرجا سکتی ہیں ، ان کی طرف سے اجازت ہے۔ اس پر وہ اپنی خواہش کے مطابق رخصت ہوگئیں۔
جب آپ کی برادری کے لوگوں کو اس کاعلم ہواتو وہ آپ سے ناراض ہوئے اور کہا کہ آ پ نے توہماری ناک کاٹ ڈالی ہے۔ حضرت صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ اگر حضرت محمد رسول اللہﷺ کے دین پرعمل کرنے سے ناک کٹتی ہے تو کٹے مجھے ایسی ناک کی ضرورت نہیں۔
سیدا حمد نور بیان کرتے ہیں کہ آپ کے مہمان خانہ میں عموماً تیس چالیس آدمی رہتے تھے ۔ آپ بہت مہمان نواز تھے ۔ ان سب لوگوں کے کھانے کا انتظام آ پ کی طرف سے ہوتاتھا۔ آ پ کی ایک وسیع بیٹھک تھی جس میں دو صد افراد بیٹھ سکتے تھے ۔ جب لوگ نماز کے لئے آتے تو پہلے بیٹھک میں مجلس ہوتی ، قرآن و حدیث کا درس دیاجاتا تھا اور دینی امور پر گفتگو ہوتی تھی ۔ جب نماز کا وقت ہوتا تو سب مسجد میں آ جاتے اور نماز ادا کرتے تھے۔ مسجد میں نماز سے پہلے یا بعد میں کوئی بات چیت نہیں ہوتی تھی۔ مسجد کے احاطہ میں حجرے بنے ہوئے تھے جن میں آپ کے شاگرد رہاکرتے تھے ۔ جانب شمال ایک نہرتھی جو آپ کے گھر کے صحن میں سے گزرتی تھی۔
آپ نہایت سخی تھے اور غرباء کا خاص خیال رکھتے تھے۔ جب قحط سالی ہوتی تو آپ اپنا تمام غلہ فروخت کر کے اس سے حاصل شدہ آمد غریبوں کی امداد میں صرف کر دیاکرتے تھے۔
اس زمانہ میں خوست میں تین قسم کے لوگ تھے۔ ایک طبقہ حاکموں کا تھا ، دوسرے عام مولوی اور تیسرے شیخان جو تصوف کا رنگ رکھتے تھے اور اپنے آپ کو قادری سلسلہ کی طرف منسوب کرتے تھے۔
حضرت صاحبزادہ صاحب فرمایا کرتے تھے جب میں نے ان تینوں گروہوں کو دیکھا تو رسول اللہ ﷺ کے طریق کے خلاف پایا۔ حاکم نہایت ظالم تھے اور لوگوں سے ناجائز طریق سے روپیہ وصول کر کے دولت سمیٹتے تھے۔مولویوں کو دیکھا تو انہیں ایسا پایا کہ ہر ایک سے جھگڑتے ہیں اور فتویٰ بازی کرتے رہتے ہیں۔شیخان کو دیکھاتو ان کے ہاتھوں میں لمبی لمبی تسبیحیں پائیں ۔ وہ بہت سے امور میں قرآن و حدیث کے خلاف تعلیم دیتے تھے مثلاً یہ کہ پٹے رکھنا حرام ہے۔ نسوار کا استعمال حرام ہے جس زمین میں نسوار کا پودہ کاشت کیاجائے پلید ہو جاتی ہے اور تین سال تک اس میں لگائی گئی فصل کااستعمال حرام ہوتا ہے۔ نسوار استعمال کرنے والے کی بیوی بغیر اس کے کہ اسے طلاق دی جائے مطلقہ ہو جاتی ہے۔ وہ لوگ مانڑ کی(مانکی) کے پیر صاحب کے متبع تھے ۔ ان کا عقیدہ تھاکہ ان کے پیر کوآسمان میں، زمین کے نیچے اور دریاؤں کے اندر جس قدر بھی مخلوق ہے اس کا علم ہے ۔
آپ کے شاگرد مولانا عبدالستار خان بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کی صحبت میں آنے سے پہلے میں بھی شیخان سے تعلق رکھتا تھا لیکن جب میں نے اپنے پہلے استادکو چھوڑ کر حضرت صاحبزادہ صاحب کی شاگردی اختیار کی اور آپ سے بہت سے حقائق و معارف سنے توان کامیرے دل پربہت اثر ہوا ۔ ایک مرتبہ میں نے آپ سے شیخان کے عقائد کے بارہ میں سوال کیا توآپ نے ا ن کی تردید فرمائی اورسمجھایا کہ جو بھی پیرو مرشد دنیا میں ہیں وہ خدا تعالیٰ کے بندے ہیں اوراس کے حکم کے تابع ہیں وہ خدا کے رسول کے قدم پر ہوتے ہیں اور یہی ان کی بزرگی ہے۔ولایت ، قطبیت یا غوثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔
مولانا عبدالستا رخان صاحب نے بیان کیاکہ حضرت صاحبزادہ صاحب اور دوسرے عالموں کے کلام میں یہ امتیازہوتاتھاکہ جب عام مولویوں سے کوئی مسئلہ دریافت کیا جاتا تووہ یوں جواب دیتے تھے کہ ان کے خیال میں یہ مسئلہ اس طرح ہوگا۔ وہ لوگ ظنِّی باتیں کرتے تھے ، انہیں یقین حاصل نہیں تھا۔ لیکن آپ جب جواب دیتے تو پورے یقین اوروثوق کے ساتھ دیاکرتے تھے۔
چونکہ شیخان افغانستان میں بکثرت پھیلے ہوئے تھے اس لئے حضرت صاحبزادہ صاحب نے ان کے حالات کی تحقیق کی ضرورت محسوس کی۔ چنانچہ آپ نے ان سے نرمی اور محبت کاتعلق رکھنا شروع کیا ۔جو لوگ آپ کے پاس آتے آپ انہیں قرآن و حدیث کی طرف دعوت دیاکرتے تھے۔ ایک مرتبہ شیخان کا ایک عالم آپ کے پاس آیا اور عرض کی کہ صاحبزادہ صاحب آپ کو ہمارے استاد پیر صاحب مانڑکی سے ملنا چاہئے جو اس وقت سوات کے آخون صاحب کے مؤذن ہیں ۔ چنانچہ صاحبزادہ صاحب ا ن سے ملنے کے لئے روانہ ہوئے۔ اثناء سفر میں جگہ جگہ شیخان آپ کو ملتے رہے ۔ وہ آپ کی بہت عزت کرتے تھے اور اس بات پرخوش ہوتے تھے کہ اتنابڑا آدمی ہمارے پیر کا شاگرد بننے کے لئے جا رہاہے ۔ حالانکہ آ پ کا مقصد ان کے حالات معلوم کرناتھا۔وہ یہ جانناچاہتے تھے کہ کیا شیخان کے مولوی جن مخصوص عقائد کی افغانستان میں تعلیم دیتے ہیں وہ واقعی پیر صاحب مانٹرکی کے عقائد ہیں یا یہ امور ان کی طرف غلط منسوب کئے جاتے ہیں۔ حضر ت صاحبزادہ صاحب فرماتے تھے کہ جب میں پیر صاحب سے ملا تو معلوم ہواکہ بظاہر وہ اچھے آدمی ہیں اور ان کے منہ سے میں نے کوئی ایسی بات نہیں سنی جو شیخان ان کی طرف منسوب کیا کرتے تھے۔میں چند روز ان کے پاس رہ کر واپس آ گیا۔
جب حضرت صاحبزادہ صاحب واپس آ ئے تو شیخان پہلے سے زیادہ تعداد میں آپ کے پاس آنے لگے۔ ان کا خیال تھاکہ آپ ان کے پیرسے مل کر آئے ہیں اس لئے ان کی باتیں سننی چاہیں۔ جب شیخان کے مخصوص مسائل کے بارہ میں فتویٰ پوچھا جاتاتو حضرت صاحبزادہ صاحب کی رائے سن کر ان کو تعجب ہوتااور وہ کہتے کہ مانکی کے پیر صاحب تویوں کہتے ہیں لیکن آپ اُن کی رائے کے خلاف فتویٰ دیتے ہیں۔
اس پرحضرت صاحبزادہ صاحب نے ایک دفعہ پھر سفر کیا۔ آپ اس امر کی تحقیق کرنا چاہتے تھے کہ آیا ان باتوں کی پیرصاحب خود تعلیم دیتے ہیں یا یہ لوگ ان کی طرف غلط طورپر منسوب کرتے ہیں۔ جب آپ دوسری مرتبہ ان کے پاس پہنچے تو معلوم ہواکہ مانکی صاحب کے پاس ایک اورمولوی صاحب آئے ہوئے ہیں جو سوٹا کے پیر صاحب کے نام سے مشہو رہیں۔ سوٹا صوبہ سرحد میں صوابی کے نزدیک ایک مقا م ہے ۔ ان دونوں پیروں کے درمیان مذکورہ بالا اختلافی مسائل پر جھگڑا ہو رہاتھا۔ بحث کے مقام پر دونوں فریقوں کے ہزارہا حامی موجود تھے ۔ بالآخر باہم یہ طے پایا کہ تصفیہ کے لئے کسی تیسری جگہ جانا چاہئے اور صحیح مسلک معلوم کرنا چاہئے ۔ دریں اثنا حضرت صاحبزادہ صاحب وہاں پہنچ گئے ۔ انہوں نے جھگڑا سن کر کہا کہ یہیں پرکتابیں دیکھ کر معلوم کرلیتے ہیں کہ صحیح راستہ کون ساہے ،جھگڑاکرنے کی کیا ضرورت ہے ۔ آپ نے متنازع فیہ مسائل کے حل کے لئے بہت سی کتابوں کے حوالے پیش کئے لیکن پیر صاحب مانکی نے انہیں ماننے سے انکار کردیا ۔ تب حضرت صاحبزادہ صاحب کا دل ان سے پھر گیا اور ان کو یقین ہو گیا کہ وہ صداقت کو قبو ل کرنے پر تیار نہیں ہونگے ۔ مجلس مباحثہ میں حضرت صاحبزادہ صاحب نے ان مولویوں کو کشفاً بندروں کی شکل میں دیکھا تھا۔
انگریزی گورنمنٹ کو رپورٹ ملی کہ جھگڑا بڑھ گیاہے ، ہزاروں لوگ جمع ہیں اور فساد کااندیشہ ہے تو اس نے حکم دے کرتمام مجمع منتشر کر وا دیا۔ حضرت صاحبزادہ صاحب بھی واپس روانہ ہو گئے ۔ پشاور میں آپ نے آنحضرت ﷺ کورؤیا میں دیکھا، حضور ؐنے فرمایا کہ یہ لوگ تو مبتدع ہیں ان کویونہی کیوں چھوڑ کر آگئے ۔ اس پرحضرت صاحبزادہ صاحب واپس گئے اور ان کو یہ پیغام پہنچایا کہ میں تمہارے غلط عقائد اور تمہاری لمبی لمبی تسبیحوں سے بیزار ہوں ۔ یہ پیغام دے کر واپس وطن کی طرف روانہ ہو گئے ۔راستہ میں جا بجا شیخان کے غلط عقائد کی تردید بیان کرتے رہے۔
بعض لوگوں نے آ پ سے عرض کی کہ آپ کی باتیں تو درست ہیں لیکن شیخان اس علاقے میں بکثرت پھیلے ہوئے ہیں ان کی مخالفت کرناخطرناک دشمنی مول لیناہے لیکن حضرت صاحبزاد ہ صاحب اپنے طریق پر جرأ ت سے قائم رہے۔
جب آپ وطن پہنچے تو شیخان کی تردید میں بہت کام کیا ۔اپنے شاگردوں کومتعلقہ مسائل لکھوا دئے تاکہ وہ ضرورت پڑنے پرشیخان سے گفتگو کر سکیں اور ان کے غلط اور خلاف اسلام عقائدکا رد کر سکیں۔ شیخان آپ کے شاگردوں کو بہت تنگ کرتے تھے۔
پیر صاحب مانکی کاایک شاگرد مولوی الہ دین ملاّ لنگ تھا جو خلاف قرآن وحدیث فتوے دینے میں پیش پیش تھا۔ اس کی رپورٹ امیر عبدالرحمن خان کوکی گئی تواس نے اسے شریعت کے مطابق تصفیہ کرنے کے لئے کابل بلوایا لیکن اس نے جانے سے انکار کر دیا ۔ ایک مرتبہ مقامی حکام نے اسے گرفتار بھی کیا لیکن وہ دھوکہ دے کر فرار ہو گیا اور حکومت کابل سے باغیانہ زندگی گزارنے لگا۔
(قلمی مسودہ صفحہ۷۸۔ شہید مرحوم کے چشم دید واقعات حصہ اول صفحہ ۱ تا ۳۔ شہید مرحوم کے چشم دیدواقعات حصہ دوم صفحہ ۲،۳،۸ تا ۱۲)