احمدیہ مسئلہ قومی اسمبلی میں

(۱۱) اٹارنی جنرل کی آخر ی بحث(دلچسپ انکشاف)

اﷲوسایا کی مذکورہ کتاب کے مطالعہ سے بعض ایسے انکشافات بھی ہوئے ہیں جو سنجیدہ قارئین کے لئے دلچسپی کا باعث ہونگے۔اﷲوسایاکی مرتبہ کتاب کے صفحہ۲۵۶سے لے کر ۳۱۷ تک اٹارنی جنرل کا وہ مفصل بیان درج ہے جو گویا انہوں نے تمام کارروائی کے اختتام پر بحث کو سمیٹتے ہوئے دیا۔ غالب گمان یہ ہے کہ اٹارنی جنرل کے اِس بیان میں اﷲوسایا موصوف نے کوئی ’’اختصار‘‘ یا’’ اجمال‘‘ کی کارروائی نہیں کی ہوگی اور بالخصوص کوئی ایسی ٹھوس اور مؤثر بات جو جماعت احمدیہ کے موقف کا توڑ اور نفی کرتی ہو اٹارنی جنرل کے بیان میں سے یقیناً حذف نہیں کی ہوگی۔ حکومتی پارٹی کی طرف سے جو ریفرنس یعنی مسئلہ خصوصی کمیٹی کے سپردہوا تھا اس کا ذکر ہم گزشتہ صفحات میں کر چکے ہیں۔ یہ بات حیرت اور دلچسپی کا موجب ہے کہ اٹارنی جنرل صاحب نے اپنی آخری بحث میں یوں تو وزیرِ قانون کی تحریک اور حزبِ اختلاف کی قرار د اد دونوں ہی پرتنقید کی، مگر وزیرِ قانون کی تحریک کو تو ایک ہی فقرے میں نمٹا دیا ۔ اٹارنی جنرل نے کہا:۔

’’آغاز میں پہلے وہ تحریک جو کہ عزت ماب وزیرِ قانون نے پیش کی تھی، جناب والا! تحریک کے الفاظ یہ ہیں :۔

’’دینِ اسلام کے اندر ایسے شخص کی حیثیت یا حقیقت پر بحث کرنا جو حضرت محمد ﷺ کے آخری نبی ہونے پر ایمان نہ رکھتا ہو‘‘۔

آئیے پہلے اس جملہ کی ترکیب کو لیں۔

’’ اسلام کے اندر حیثیت یا حقیقت پر بحث کرنا‘‘۔
’’ اگر ایوان کی یہ رائے ہو کہ جو لوگ حضرت محمد ﷺکی ختمِ نبوت پر ایمان نہیں رکھتے، وہ مسلمان نہیں ہیں ، تو پھر ایسے لوگوں کا اسلام سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔ تحریک بذاتِ خود اپنے اندر تضاد رکھتی ہے ۔ اگریہ کہا جاتا کہ ’’اسلام میں یا اسلام کے حوالہ سے بحث کرنا‘‘ تو پھر بات سمجھ میں آسکتی تھی۔ لیکن یہ کہنا کہ ’’اسلام میں حیثیت یا مقام‘‘ اس سے قیاس کیا جاتا ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک تضاد ہے جو زیادہ اہم نہ بھی ہو لیکن یہ تضاد ایوان کے نوٹس میں لانا میرا فرض تھا۔ یہ آپ نہیں کہہ سکتے کہ اسلام میں ان کی حیثیت کیا ہے۔ ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کے حوالے سے ان کی حیثیت کیا ہے‘‘۔

گویا اٹارنی جنرل خود ہی مفتی بھی بن گئے،عالمِ دین بھی بن گئے اور یہ فیصلہ صادر کر دیا کہ تحریک اپنے اندر تضاد رکھتی ہے۔ جب کوئی ختمِ نبوت کے ایک مخصوص مفہوم کا انکاری ہو گیا تو اس کی حیثیت اسلام میں متعین کرنے کا کیا سوال ہے؟ وہ اس بحث میں نہیں پڑے کہ آخرکوئی تصفیہ طلب اختلاف تھا تو معاملہ قومی اسمبلی میں اٹھایا گیا۔ اور وہ اختلاف ایسا تھا کہ اس وقت کے سیاسی اقتدار کی سوچ کے مطابق اس مسئلہ پر قومی اسمبلی کا غور کرنا ضروری تھا ورنہ وہ مسئلہ قومی اسمبلی میں نہ اٹھایا جاتا۔ جماعت احمدیہ کے امام اور وفد کو قومی اسمبلی میں طلب کرنے کا مبینہ مقصد ہی یہ تھا کہ اس مسئلہ پر ان کو اپنا مؤقف بیان کرنے کا موقعہ دیا جائے اور پھر یہ غور ہو کہ ختمِ نبوت کے بارہ میں ایسا مؤقف رکھنے والوں کی اسلام میں کیا حیثیت ہے۔بات اسلام کے حوالہ سے ہی ہونی تھی اور اسی حوالہ سے غور بھی ہونا تھا۔

یہ بات کہ’’ اسلام میں‘‘ ان کی حیثیت کیا ہے اور ’’اسلام کے حوالہ سے ‘‘ ان کی حیثیت کیا ہے نفسِ مضمون کے لحاظ سے ایک ہی بات تھی مگر اٹارنی جنرل نے اسلام کے حوالہ سے بھی اس سوال پر بحث کرنا ضروری نہ سمجھا اور سمجھ لیا کہ اس بات پر امتِ مسلمہ مبینہ طور پر متفق ہے۔ اور اس بات پر کوئی بحث نہیں کی کہ امت کا اتفاق موجود تھا بھی یا نہیں۔امام جماعت احمدیہ اپنے تفصیلی بیان میں کہہ چکے تھے کہ امت کے آئمہ سلف کا اتفاق اس مفہوم پر تھا جو جماعت احمدیہ کے عقیدہ سے مطابقت رکھتا ہے۔

جناب اٹارنی جنرل گیارہ دن تک حضرت امام جماعت احمدیہ پر جرح کرتے رہے۔ اﷲ وسایا کی کتاب سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس معاملہ پر علمائِ دین نے، جو اسمبلی میں موجود تھے، کوئی مواد اٹارنی جنرل کو مہیا نہیں کیا جو اٹارنی جنرل بیان کریں کہ ایسے شخص کی اسلام میں کیا حیثیت ہے ۔ اس مسئلہ پر مکمل خاموشی رہی ۔کوئی قرآن و سنت کا حوالہ، کوئی آئمۂ سلف کے اقوال پیش نہیں کئے گئے اور کوئی ایک سوال بھی اس بارے میں نہیں کیا گیا کہ ’’ دین اسلام کے اندر ایسے شخص کی حیثیت یا حقیقت کیا ہے جو حضرت محمد ﷺکے آخری نبی ہونے پر ایمان نہ رکھتاہو‘‘ ۔اور نہ ہی اﷲوسایاکی مرتبہ کتاب کے مطابق اٹارنی جنرل نے اپنی آخری بحث میں قرآن و حدیث کے حوالے سے اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی۔ حالانکہ جماعت احمدیہ اپنے محضرنامے میں اس بارے میں مفصل بیان داخل کر چکی تھی جس میں قرآن و حدیث کے علاوہ تیرہ صدیوں کے بزرگانِ سلف کی تحریرات و تفاسیر اس سوال کے جواب میں پیش کی تھیں ۔ علمائِ دین میں سے کوئی بھی اٹارنی جنرل کی مدد کو نہ پہنچے اور یوں ؂

رہروی میں پردۂِ رہبر کھلا
اٹارنی جنرل صاحب خود تو عالمِ دین( روایتی مفہوم میں )تھے نہیں، نہ ان کو اس بارہ میں کوئی دعویٰ تھا۔بلکہ وہ خود اقراری ہیں کہ ان کے لئے زبان کا مسئلہ ہے۔ مراد ان کی غالباً عربی زبان سے تھی، ورنہ اردو اور انگریزی پر تو انہیں عبور حاصل تھا۔ علمائِ دین نے ان کو جماعتِ احمدیہ کے اٹھائے گئے سوالات اور حوالوں کا جواب مہیا نہیں کیااور بیچارے اٹارنی جنرل صاحب کو علامہ اقبال پر انحصار کرنا پڑا۔ انہوں نے علامہ اقبال کے متعدد حوالے دئے ۔

علامہ اقبال نے عصرِ جدید میں پڑھے لکھے ذہنوں پر گہرا اثر چھوڑا ہے ۔ علامہ کے فکر میں جدت پسندی ، کسی حد تک روایت سے بغاوت ، خانقاہوں اور تصوف اور ملائیت کی مخالفت اور فلسفہ اور منطقی مباحث شامل ہیں۔ علامہ اقبال نے اسلام کا مطالعہ بھی فلسفہ کی نظر سے کیا ہے اور کہاجا سکتا ہے کہ اقبال نے اسلامی فکر کو ایک نئی زبان عطا کی ہے ۔ گو اس بارہ میں اختلاف ہو سکتا ہے، اور موجود ہے کہ ایسا کرنے میں اقبال کا فلسفیانہ نقطۂ نظر کہاں تک اسلامی فکرسے ہم آہنگ ہے۔علامہ اقبال خود اپنے بارے میں فرما چکے ہیں:۔

’’میری مذ ہبی معلومات کا دائرہ نہائت محدود ہے ۔ میری عمر زیادہ تر مغربی فلسفہ کے مطالعہ میں گزری ہے اور نقطہ ٔخیال ایک حد تک طبیعتِ ثانیہ بن گیا ہے۔دانستہ یا نا دانستہ میں اسی نقطہ ٔ خیال سے حقائقِ اسلام کا مطالعہ کرتا ہوں‘‘۔ (اقبال نامہ‘ حصہ اول صفحہ ۴۶۔۴۷‘ ناشر شیخ محمد اشرف تاجر کتب کشمیری بازار لاہور)

مگر اٹارنی جنرل نے اپنے استدلال کی بنیاد اقبال کے خیالات پر ر کھی اور کہا:۔

’’علامہ اقبال فرماتے ہیں :۔

فتحیت کے نظریہ سے یہ مطلب نہ اخذکیا جائے کہ زندگی کے نوشتہ تقدیر کا انجام استدلال کے ہاتھوں جذباتیت کا مکمل انخلاء ہے۔ ایسا وقوع پذیر ہونانہ توممکن ہی ہے اور نہ پسندیدہ ہے۔ کسی بھی نظریہ کی دینی قدرو منزلت اس میں ہے کہ کہاں تک وہ نظریہ عارفانہ واردات کے لئے ایک خود مختارانہ اور نافذانہ نوعیت کے تحقیقی نقطۂ نگاہ کو جنم دینے میں معاون ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے اندر اس اعتقاد کی تخلیق بھی کرے کہ اگر کوئی مقتدر شخص ان واردات کی وجوہ پراپنے اندر کوئی مافوق الفطرت بنیاد کا داعیہ پاتا ہے تو وہ سمجھ لے کہ اس نوعیت کا داعیہ تاریخ انسانی کے لئے اب ختم ہو چکا ہے۔ اس طرح پر یہ اعتقاد ایک نفسیاتی طاقت بن جاتا ہے جو مقتدر شخص کے اختیاری دعویٰ کو نشوونما پانے سے روکتا ہے۔ ساتھ ہی اس تصور کا فعل یہ ہے کہ انسان کے لئے اس کے واردات قلبیہ کے میدان میں اس کے لئے علم کے نئے مناظر کھول دے۔‘‘

پھرحضرت مرزا غلام احمد کے حوالے سے علامہ اقبال فرماتے ہیں:۔

’’ اختتامیہ جملے سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ ولی اور اولیاء حضرات نفسیاتی طریقے سے دنیا میں ہمیشہ ظہور پذیر ہوتے رہیں گے۔ اب اس زمرہ میں مرزا صاحب شامل ہیں یا نہیں، یہ علیحدہ سوال ہے۔ مگر بات اصل یہی ہے کہ بنی نوع انسان میں جب تک روحانیت کی صلاحیت قائم ہے ، ایسے حضرات مثالی زندگی پیش کرکے لوگوں کی رہنمائی کے لئے تمام اقوام اور تمام ممالک میں پیدا ہوتے رہیں گے۔اگر کوئی شخص اس کے خلاف رائے رکھتا ہے تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ اس نے بشری وقوعات سے رو گردانی کی۔ فرق صرف یہ ہے کہ آدمی کو فی زمانہ یہ حق ہے کہ ان حضرات کے واردات قلبیہ کا ناقدانہ طورپر تجزیہ کرے ۔ ختمیتانبیاء کا مطلب یہ ہے جہاں اور بھی کئی باتیں ہیں کہ دینی زندگی میں جس کا انکار عذاب اخروی کا ابتلاء ہے ،اس زندگی میں ذاتی نوعیت کا تحکم و اقتدار اب معدوم ہو چکا ہے۔‘‘

اقبال کے مندرجہ بالا اقتباس کا نتیجہ اٹارنی جنرل نے یہ نکالاکہ:۔

’’اس لئے جناب والا! آئندہ کوئی فردیہ نہیں کہے گا کہ مجھے وحی الٰہی ہوتی ہے اور یہ اﷲ کا پیغام ہے جس کا ماننا تم پر لازم ہے۔لازم صرف وہی ہے جو قرآن پاک میں پہلے سے آچکاہے۔‘‘

اقبال کی اس عبارت پر ذرا غور کریں تو اس کا مفہوم وہ نہیں ہے جو اٹارنی جنرل نے اخذ کیا ہے ۔ اٹارنی جنرل نے ختمِ نبوت کا جو یہ اجتماعی مفہوم گویا بیان کر دیا کہ بس اب وحی بند ہے ۔ اس پر علّامہ اقبال کا مؤقف وہی ہے جو حضرت محی الدین ابنِ عربی(۵۶۰ھجری۔۶۳۸ھجری) کا ہے، صرف زبان اور اصطلاحات کا فرق ہے ۔اقبال فلسفہ کی زبان میں وہی کچھ کہہ رہے ہیں جو حضرت محی الدین ابنِ عربی الٰہیات اورتصوف کی زبان میں فرما رہے ہیں۔ ملاحظہ ہو:۔

فَالنّبُوّۃ سَارِیَۃٌ اِلَی یَومِ الْقِیَامَۃِ فِی الْخَلْق واِنْ کَانَ التَّشْرِیعُ قَدْ اِنْقَطَعَ فَالتَّشْرِیْع جُزْئٌ مِن اَجْزَائِ النّبُّوَّۃ فَاِنّہ‘ یَسْتَحِیْلُ أنْ یَنْقَطِعَ خَبَرُاﷲ وأخبَارہ مِنَ الْعَالم،اِذ لَو انْقَطَع وَلَمْ ےَبْقَ لِلْعَالم غذَاء ےَتَغذی بِہ فِی بقَاء وُجودہ۔ (الفتوحات المکیۃ الجزء الثالث ۔ صفحہ ۱۵۹ ، سوال نمبر ۸۲ ۔ دارالفکر للطباعۃ والنشر والتوزیع الطبعۃ ۱۹۹۴ء)

ترجمہ: نبوت مخلوق میں قیامت کے دن تک جاری ہے گو تشریعی نبوت منقطع ہو گئی ہے۔ پس شریعت، نبوت کے اجزاء میں سے ایک جزو ہے۔اور یہ محال ہے کہ اﷲ کی طرف سے خبریں آنی منقطع ہو جائیں اور دنیا کے لئے غذا باقی نہ رہے، جس سے اس کے وجود کو بقا حاصل ہو۔

گویا محی الدین ابنِ عربی’’ نبوت ‘‘ کا لفظ استعمال کر رہے ہیں۔ اقبال اسے ’’عارفانہ واردات‘‘ کہتے ہیں ۔ محی الدین ابنِ عربی، اخبار الٰہی کا منقطع ہونا محال قرار دیتے ہیں تو اقبال یہ کہتے ہیں،’’ مگر بات اصل یہی ہے بنی نوع انسان میں جب تک روحانیت کی صلاحیت قائم ہے ، ایسے حضرات مثالی زندگی پیش کرکے لوگوں کی رہنمائی کے لئے تمام اقوام اور تمام ممالک میں پیدا ہوتے رہیں گے۔اگر کوئی شخص اس کے خلاف رائے رکھتا ہے تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ اس نے بشری وقوعات سے رو گردانی کی۔‘‘

ان بشری وقوعات کو اقبال اولیاء کی نفسیاتی وارداتِ قلب کے طور پر بیان کرتے ہیں اور محی الدین ابنِ عربی اخبارِ الٰہی کے طور پر۔

جناب اٹارنی جنرل نے تو اقبال کی فلسفیانہ توجیہات پرانحصار کر لیا جبکہ اقبال خود کہتے ہیں کہ مغربی فلسفہ کا نقطۂ خیال ایک حد تک ان کی طبیعتِ ثانیہ بن گیا ہے اور وہ دانستہ یا نا دانستہ اسی نقطۂ خیال سے حقائق اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں۔اور علماء حضرات نے اٹارنی جنرل کی کوئی راہنمائی نہ کی کہ جماعت احمدیہ نے محی الدین ابنِ عربی کا جو حوالہ پیش کیا ہے اس کا مفہوم کیا ہے۔ غیر مشروط آخری نبی کا تصور جس پر کوئی جرح اور بحث نہیں ہوئی اور جسے متفق علیہ مان کر برآمد کر لیا گیا ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ اسے نہ دیوبندی حضرات کے مسلمہ بزرگوں کی تائید حاصل ہے، نہ بریلوی حضرات کے بزرگوں کی، نہ آئمہ سلف کی۔

مولانا محمد قاسم نانوتوی کہتے ہیں :

’’عوام کے خیال میں تو رسول اﷲ صلعم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپؐ کا زمانہ انبیائِ سابق کے زمانہ کے بعداور آپ سب میں آخری نبی ہیں ۔ مگر اہلِ فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تاخّر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں ۔ پھر مقام مدح میں (ولٰکِنْ رَّسُوْلَ اﷲِوَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ) فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہو سکتا ہے ۔ہاں اگر اس وصف کو اوصاف مدح میں سے نہ کہئے اور اس مقام کو مدح قرارنہ دیجئے تو البتہ خاتمیت با اعتبارِ تاخر زمانی صحیح ہو سکتی ہے۔ مگر میں جانتا ہوں کہ اہلِ اسلام میں سے کسی کو یہ بات گوارا نہ ہو گی۔(تحذیر الناس صفحہ ۳)

دیوبندی حضرات میں سے کسی نے نہ جرح میں کوئی سوال اٹھایا،نہ ہی اٹارنی جنرل کو توجہ دلائی کہ بانی ٔ دیو بندتو آنحضرت ﷺکو غیرمشروط طورپرآخری نبی نہیں مانتے ۔ان کے نزدیک تو خاتمیت باعتبارِ زمانہ نہیں ۔

بریلوی بزرگوں میں سے مولوی ابوالحسنات محمد عبدالحئی صاحب لکھنوی فرنگی محلی اپنی کتاب ’’دافع الوسواس‘‘ کے صفحہ ۱۶ پر اپنا مذہب ختم نبوت کے بارہ میں یوں پیش کرتے ہیں:۔

’’بعد آنحضرت ﷺکے زمانے کے یا زمانے میں آنحضرت ﷺ کے مجرد کسی نبی کا ہونا محال نہیں بلکہ صاحب شرع جدید ہونا البتہ ممتنع ہے۔‘‘

پھر مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ یہ میرا عقیدہ ہی نہیں بلکہ علمائے اہلِ سنت بھی اس امر کی تصریح کرتے چلے آئے ہیں ۔چنانچہ فرماتے ہیں :

’’ علمائے اہلِ سنت بھی اس امر کی تصریح کرتے ہیں کہ آنحضرتؐ کے عصر میں کوئی نبی صاحبِ شرعِ جدید نہیں ہو سکتا ۔ اور نبوت آپؐ 5 کی عام ہے اور جو نبی آپ کے ہم عصر ہو گا وہ متبع شریعتِ محمدیہ کا ہو گا۔‘‘ (مجموعہ فتاویٰ مولوی عبدالحئی صاحب جلد ۱صفحہ۱۴۴)

گویامولوی ابوالحسنات محمد عبدالحئی صاحب لکھنوی فرنگی محلی بھی آنحضرتﷺکو غیر مشروط آخری نبی نہیں مانتے۔ ان کے نزدیک آخری نبی سے مراد یہ ہے کہ آپ آخری شرعی نبی ہیں اور آپ کے بعد صاحبِ شرعِ جدیدکوئی نہ ہو گا۔مگر اسمبلی میں موجود کسی بریلوی عالم نے جرح میں سوال نہیں اٹھایا ،نہ ہی اٹارنی جنرل کو توجہ دلائی۔

یہ تو گویا ماضی قریب کے بزرگان کا ذکر تھا۔ پرانے بزرگوں میں سے حضرت امام عبدالوہاب شعرانی کا ایک قول سنئے۔ یہ معروف مشہور صوفی بزرگ جن کی کتاب ’’الیواقیت والجواہر ‘‘ کو ایک خاص سند حاصل ہے اس میں آپ فرماتے ہیں:۔

’’ اِعْلَمْ اَنَّ النبوۃ لم ترتفعً مطلقاً بَعد مُحَمَّدٍ ﷺوانّما ارتفع نبوۃُ التشریع فقط‘‘ (الیواقیت و الجواھر فی بیان عقائد الاکابر ۔ الامام عبع الوہاب الشعرانی۔ الجزء الثانی۔ صفحہ ۳۵ ۔ دارالمعرفۃ للطباعۃ و النشر بیروت لبنان ۔ الطبعۃ الثانیہ ۔۱۹۰۰ )

ترجمہ: جان لو مطلق نبوت نہیں اٹھی ۔ صرف تشریعی نبوت منقطع ہوئی ہے۔

انکشاف یہ ہوا کہ جو ترمیم پیش ہو کر منظور ہوئی وہ کبھی زیرِ غور ہی نہیںآئی ا ور جس صورت میں منظور ہوئی اس پر کسی کا اتفاق نہیں۔ ’’ غیر مشروط آخری نبی‘‘ کا تصور امت میں موجود ہی نہیں۔ سب

کے سب حضور کے آخری نبی ہونے کو کسی نہ کسی رنگ میں مشروط مانتے ہیں۔ کچھ بزرگ شرعی اور غیر شرعی کی بنیاد پر مشروط قرار دیتے ہیں، کچھ زمانے اور مرتبہ کی بنیاد پر اور کچھ پرانے اور نئے کی بنیاد پر۔

جو ترمیم کی گئی ہے اس کے مطابق مندرجہ ذیل حضرات اور بزرگان غیر مسلم ٹھہرا دئے

گئے ہیں اور ان کو کان و کان خبر نہیں ہوئی۔ کیونکہ یہ سب بزرگان آخری نبی ہونے کو کسی نہ کسی رنگ میں مشروط مانتے ہیں۔ شرط کی نوعیت میں اختلاف ہے مشروط ہونے میں اختلاف نہیں ۔

۱۔ مولانا سید محمد قاسم نانوتوی۔

یہ آنحضرت ﷺکو شرعی نبی ہونے کے لحاظ سے آخری نبی مانتے ہیں اور آخری نبی ہونا تشریع سے مشروط ہے۔ ان کے نزدیک حضورؐ زمانے کے لحاظ سے آخری نہیں،مقام و مرتبہ کے لحاظ سے آخری ہیں۔ غیر مشروط بہر حال نہیں۔

۲۔ مولانا مفتی محمود۔ کیونکہ وہ بانی دیو بند سید قاسم نانوتوی کے ہم مسلک ہیں۔

۳۔ مولانا سید عبدالحئی فرنگی محلی۔

۴۔ مولانا شاہ احمد نورانی، کیونکہ وہ بھی غیر مشروط آخری نبی نہیں مانتے۔ملاحظہ ہو اﷲ وسایا کی کتاب میں مولانا شاہ احمد نورانی کہتے ہیں ۔

’’جناب خاتم النبیین کا معانی ای لاینبأ احد بعدہ واما عیسیٰ علیہ السلام ممن نبیٌ قبلہ حضور علیہ السلام کے بعد کوئی شخص نبی نہیں بنایا جائے گا اور مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام وہ نبی ہیں جو حضور علیہ السلام سے پہلے نبی بنائے جا چکے ۔‘‘ (صفحہ ۱۲۹)

گویا مولانا شاہ احمد نورانی اس شرط کے ساتھ حضو ر ﷺ کو آخری نبی مانتے ہیں کہ جسے آپ ﷺ سے پہلے نبوت مل چکی وہ آپﷺ کے بعد آ سکتا ہے۔ یعنی آپ کی خاتمیت زمانے سے مشروط نہیں، بعثت سے مشروط ہے۔

جو ترمیم منظور کی گئی اس کی رو سے جو شخص کسی مصلح کا ظہور بھی تسلیم کرے، غیر مسلم ٹھہرا دیا گیا ہے جبکہ علامہ اقبال اس بات کے قائل ہیں کہ :۔

’’بنی نوع انسان میں جب تک روحانیت کی صلاحیت قائم ہے ، ایسے حضرات مثالی زندگی پیش کرکے لوگوں کی رہنمائی کے لیئے تمام اقوام اور تمام ممالک میں پیدا ہوتے رہیں گے۔اگر کوئی شخص اس کے خلاف رائے رکھتا ہے تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ اس نے بشری وقوعات سے رو گردانی کی۔‘‘

تو گویا علامہ اقبال بھی غیر مسلم ٹھہرے۔ اٹارنی جنرل کا سارا استدلال اقبال کے حوالہ سے تھا وہ تو باطل ہو گیا اور قرآن و حدیث اور آئمہئِ سلف کے اقوال علماء نے پیش نہ کئے ۔ جماعت احمدیہ نے پیش کئے تو ان پر جرح نہ کی گئی ۔ یہ خصوصی کمیٹی کی کارروائی کی تصویر ہے جو اﷲ وسایا کی کتاب سے ابھرتی ہے۔ علماء حضرات کی موجودگی میں کھلی آنکھوں اور سنتے کانوں ان کی رہبری میں یہ ترمیم منظورہوئی اور یوں ؂

رہروی میں پردۂِ رہبر کھلا