احمدیہ مسئلہ قومی اسمبلی میں

(۴) مجلسِ تحفّظِ ختمِ نبوّت

مولوی اﷲ وسایا کی مرتب کردہ اورعالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی طرف سے شائع کردہ کتاب کے پایۂ استناد اور پسِ پردہ محرکات کو صحیح معنوں میں سمجھنے کے لئے مجلس تحفظ ختم نبوت کے حقیقی خدوخال کا علم ضروری ہے۔

عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت دراصل مجلس احرار کادوسرا جنم ہے۔ مجلس احرار ایک سیاسی جماعت تھی اور تحریکِ پاکستان کے دوران اس کا گھناؤنا کردار کسی ذی علم پاکستانی سے مخفی نہیں ۔ تحریکِ پاکستان اور جدو جہدِ آزادی کے دوران مجلس احرار نے کانگرس کی بھرپور حمائت کی اور مسلم لیگ، قائدِاعظم اور پاکستان کے خلاف جی بھر کے زہر اگلا۔ سیاسی میدان میں مسلمانوں کے مفادات کے خلاف بھرپور کردار ادا کرنے کے بعد مجلس احرار کے لئے پاکستان میں کوئی جگہ نہیں تھی اورسیاسی طور پر پذیرائی کا کوئی امکان نہیں تھا۔چنانچہ مجلس احرار نے مذہب کا لبادہ اوڑھ لیا اورخود کو مجلس تحفظ ختم نبوت کا نام دے دیا۔ اس بات کی تاریخی اور دستاویزی شہادت خود ان کی کی شائع کردہ کتاب ’’تحریک ختم نبوت جلد دوم‘‘ کے باب چہارم میں مہیا کردی گئی ہے۔(صفحہ ۳۸۳)

صفحہ ۳۸۷ میں ۴؍ستمبر۱۹۵۴ء کے مرکزی شورٰی کے اجلاس کی کارروائی درج ہے جس میں یہ فقرہ تحریر ہے ۔

’’ہدایات نمبر۱۔مجلس احرار نے جب سیاسیات سے علیحدگی اختیار کی تو مقصد الیکشن سے علیحدگی تھا۔لیکن ملکی اور شہری حقوق سے دستبرداری یا حکومت پر جائز نکتہ چینی سے دستبرداری مراد نہ تھی۔اب مجلس تحفظ ختم نبوت کی بُنیاد یہ ہے کہ یہ جماعت صرف تبلیغی جماعت ہے اس کو دینی باتیں صرف وعظ و پند کے طور پر کہنی ہوں گی۔ تنقید اور نکتہ چینی کا رنگ نہ ہوگا………… ‘‘۔گو یا

جنابِ شیخ کا نقشِ قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی
مندرجہ بالا ہدایت فی الواقعہ ایک ہدایت تھی یا ایک پردہ تھا اور مجلس تحفظِ ختمِ نبوت کہاں تک اپنی اس ہدایت پر قائم رہ سکی یہ تاریخ کا حصہ ہے اور اس پر کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں ۔ تاریخی ریکارڈ کے مطابق ۱۳ دسمبر ۱۹۵۴ء کو امیر شریعت سید عطاء اﷲشاہ بخاری مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کے امیر اوّل قرار پائے اور پھر تادم حیات اس کے امیر رہے۔ ان کے بعد دوسرے امیر قاضی حسین احمد شجاع آبادی ہوئے وہ بھی مجلس احرار کے رُکن تھے۔تیسرے امیرمولانا محمد علی جالندھری، چوتھے امیر لال حسین اختر، پانچویں مولانا یوسف بنوری مقرر ہوئے ۔مجلس کی اس ساخت سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ مجلس تحفظ ختم نبوت، مجلس احرار ہی کاتسلسل ہے۔ اور مجلسِ احرار کے بارہ میں منیر انکوائری رپورٹ میں عدالت نے لکھا:

’’احرار کے رویّہ کے متعلق ہم نرم الفاظ استعمال کرنے سے قاصر ہیں ۔ ان کا طرزِ عمل بطورِ خاص مکروہ اور قابلِ نفرین تھا۔ اس لئے کہ انہوں نے ایک دنیاوی مقصد کے لئے ایک مذہبی مسئلے کو استعمال کر کے اس مسئلہ کی توہین کی‘‘۔ (رپورٹ تحقیقاتی عدالت ، صفحہ۲۷۷)

اسی طرح عدالت نے لکھا:۔

’’ مولوی محمد علی جالندھری نے ۱۵ فروری ۱۹۵۳ء کو لاہور میں تقریر کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ احرار پاکستان کے مخالف تھے۔۔۔۔۔۔ اس مقرر نے تقسیم سے پہلے اور تقسیم کے بعد بھی پاکستان کے لئے پلیدستان کا لفظ استعمال کیا اور سید عطاء اﷲ شاہ بخاری نے اپنی تقریر میں کہا۔ پاکستان ایک بازاری عورت ہے جس کو احرار نے مجبوراًقبول کر لیا ہے۔‘‘ (رپورٹ تحقیقاتی عدالت ، صفحہ۲۷۴)

اسی طرح رپورٹ کے صفحہ۱۴۹‘ ۱۵۰ پر لکھا:۔

’’ ان (احراریوں) کے ماضی سے ظاہر ہے کہ وہ تقسیم سے پیشتر کانگرس اور ان دوسری جماعتوں سے مل کر کام کرتے تھے جو قائدِ اعظم کی جدوجہد کے خلاف صف آراء ہو رہی تھیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس جماعت نے دوبارہ اب تک پاکستان کے قیام کو دل سے گوارہ نہیں کیا۔‘‘

عالمی مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت اور مجلسِ احرار کے تاریخی رشتوں اور پاکستان کے بارہ میں ان کے رویّوں کی مختصر طور پر نشاندہی کے بعد اب ہم اس کتاب کا جائزہ لیتے ہیں جو قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کی کارروائی کے طور پر شائع کی گئی ہے۔