احمدیہ مسئلہ قومی اسمبلی میں

ابتدائیہ

عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت‘ حضوری باغ روڈ ملتان‘ کی طرف سے شائع کردہ جناب اﷲوسایا کی مرتبہ کتاب بعنوان’’پارلیمنٹ میں قادیانی شکست ‘‘ اس وقت ہمارے سامنے ہے۔ قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کی اس مبینہ کارروائی کی اشاعت غیر قانونی اور بدوں اختیار و بلااجازت افسران مجاز ہونے کی وجہ سے کسی طرح بھی ایک مستند حوالہ قرار نہیں دی جاسکتی اس قسم کی جعلسازیوں اور گمراہ کن کارروائیوں کی روک تھام کے لئے ضروری ہے کہ قومی اسمبلی کی مستند کارروائی جوقانون کے مطابق لفظ بہ لفظ ریکارڈ کی گئی تھی سرکاری طور پر شائع کردی جائے۔ قومی اسمبلی نے خود تو کارروائی شائع نہیں کی اور نہ ہی مجلس تحفظ ختم نبوت کی اس دیدہ دلیری اور غیر قانونی اشاعت کو قابلِ اعتناء سمجھا ہے ۔لہٰذا تاریخ کا ریکارڈدرست رکھنے کی خاطر ہم نے اس مبینہ کارروائی پر تبصرہ کی اشاعت کو ضروری سمجھا ہے تاکہ سند رہے۔

آئندہ صفحات میں اللہ وسایاکی کتاب پر ایک تبصرہ پیشِ خدمت ہے جس میں ان کو اپنی ہی کتاب کا آئینہ دکھایا گیا ہے۔ اﷲوسایا کی یہ کتا ب کیوں مستند حوالہ کے طور پر استعمال نہیں کی جاسکتی ، یہ قارئین آئندہ صفحات میں ملاحظہ فرمائیں گے۔ اسمبلی کے ریکارڈ کے مطابق خصوصی کمیٹی ’’احمدیہ مسئلہ ‘‘ پر غور کرنے کے لئے قائم کی گئی تھی۔ لہٰذا ہم نے اس مضمون کے لئے اسی عنوان کا انتخاب کیا ہے۔

(۱)۔۔۔۔حافظہ نہ باشد

جو لوگ قرآن حکیم کو غور اور تدبر سے پڑھتے ہیں ان پر یہ امر خوب روشن ہے کہ تاریخ مذاہب کے ہر دور میں جب دلیل کا جواب دلیل سے نہیں بن پڑا تو ہمیشہ ہی مذہب کے ٹھیکیداروں نے سیاسی اقتدار کو اپنا حلیف و ہمنوا بنانے کی کوشش کی ہے۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ بھی مامورین کی تاریخ سے مختلف نہیں۔ اﷲ وسایا اس بات کو تاریخ اور دنیا کی نظر سے پوشیدہ نہیں رکھ سکتے کہ ۱۹۷۴ ء میں قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کی کارروائی بھی ایک سیاسی طالع آزما اور مذہب کے ٹھیکیداروں کے مابین ایک سازش اور گٹھ جوڑ کا نتیجہ تھی۔ اللہ وسایا جس بت کو خدا بنائے بیٹھے ہیں اور وہ پارلیمنٹ جس کی قرار داد کو وہ فرمانِ الٰہی اور فرمودات رسول سے بڑھ کر کوئی چیز سمجھ بیٹھے ہیں اس کا اپنا یہ عالم ہے کہ اسے کسی پہلو قرار نصیب نہیں ۔ آئے دن بنتی اور ٹوٹتی رہتی ہے ، چشم بینا کیلئے پارلیمنٹ کے اس حشر میں کافی سامان عبرت موجود ہے۔ مگر جناب اللہ وسایا ان لوگوں میں سے ہیں جو دیکھ کر بھی نہیں دیکھتے اور کوئی تازیانہ عبرت ان کی آنکھیں نہیں کھولتا۔اس اسمبلی کے نمائندوں کے بارہ میں اﷲ وسایا کے ممدوح ’’خادمِ اسلام‘‘ جناب ضیاء الحق کی حکومت نے قرطاسِ ابیض شائع کیا۔اس سے خوب ظاہر ہے کہ وہ کس کردارکے حامل، کیسے لوگ تھے اور دینی امورمیں اجتہاد یا رائے دینے کے کتنے اہل تھے جنہوں نے ایک مہتم بالشان معاملہ میں مداخلت فی الدین کی جرأت کی ۔رہ گئے جناب اﷲ وسایا کے اکابرین علماء حضرات تو انہوں نے اٹارنی جنرل کی اس دینی مسئلہ میں جو امداد کی وہ قارئین آئندہ صفحات میں ملاحظہ فرمائیں گے۔ مسئلہ ختمِ نبوّت سے متعلق تحریک کا سامنا کرنے کا تو حوصلہ ہی علماء حضرات کو نہ ہوا۔ان کی علمی بے بسی اور عجز کا اعتراف تو پہلے ہی دن ہو گیا جب انہوں نے وزیرِ قانون کی طرف سے پیش کردہ، ختمِ نبوت سے متعلق قرارداد سے جان چھڑانے کی خاطر اپنی ایک الگ قرارداد پیش کردی۔ قادیانیت کی جس شکست اور اپنی جس فتح کا اعلان اللہ وسایا موصوف کر رہے ہیں اس پر خود ان کے اپنے اعتماد کا یہ عالم ہے کہ خدمت اسلام کی مہم میں وہ دروغگوئی اور تلبیس اور اخفاء حق کے مختلف حیلوں بہانوں کی آڑ لئے بغیر اپنی کارروائی پر اعتماد نہیں کر پا رہے۔ قریب نصف درجن جھوٹ تو اﷲ وسایا کے رقم کردہ دیباچہ ہی سے جھانکتے نظر آتے ہیں۔