احمدیہ مسئلہ قومی اسمبلی میں

( ۹) غیرتِ ناموسِ محمد ﷺ

حضرت بانی ٔجماعت احمدیہ زندگی بھر آریوں اور عیسائیوں سے چو مکھی لڑائی لڑتے رہے ۔ عیسائی پادریوں نے ایک اودھم مچا رکھا تھا اور آنحضرت ﷺ کی شان میں بے لگام گستاخیوں کے مرتکب ہو رہے تھے، اور بے جا اور دل آزار اعتراضات کر رہے تھے اور باوجود بار بار کی فہمائش کے باز نہ آئے تو حضور ﷺ سے محبت اور غیرت کا تقاضہ یہ تھا کہ پادریوں کو منہ توڑ جواب دیاجاتا۔ اور حضرت مرزا صاحب نے نامِ محمد ﷺ کی غیرت میں پادریوں کو ان کے اپنے اعتقادات کا آئینہ دکھایا۔

حیرت در حیرت اس امر پر ہے کہ ریفرنس تو یہ تھا کہ ’’جو لوگ حضور ﷺ کو آخری نبی تسلیم نہیں کرتے اسلام میں اُن کی حیثیت کیا ہے‘‘۔ جو ریفرنس خصوصی کمیٹی کے سامنے تھایا جو قرارداد حزب اختلاف نے پیش کی اس میں سے کسی میں بھی یہ سوال شامل نہیں تھا کہ مرزا صاحب نے اپنی کتب میں حضرت عیسٰی ؑ کی توہین کی ہے۔ لیکن محض معاملے کو طول دینے، الجھانے اور عوام کے ذہنوں میں اشتعال پیدا کرنے کے لئے یہ سوال بھی اُٹھایا گیا اور طویل جرح کی گئی۔

اﷲوسایا نے اپنی مرتب کردہ کتاب کے صفحہ ۸۵،۸۶پراس مضمون پر کئے گئے سوالات اور جوابات نقل کئے ہیں اور جوابات بالبداہت مکمل نقل نہیں کئے ،ان میں قطع و برید کی گئی ہے۔ اصل جواب جو دیا گیاوہ تو اسمبلی کی کارروائی شائع ہونے پر ہی سامنے آئے گا مگریہ اعتراض جماعت احمدیہ کی تاریخ میں کوئی پہلی مرتبہ نہیں کیا گیا تھا، نہ ہی علماء حضرات سے اصل صورتِ حال پوشیدہ تھی۔اس قسم کی باتیں دہرا کر، گویا اراکینِ اسمبلی کو متأثر کیا جا رہا تھااور جناب مفتی محمود صاحب کی اُس پریشانی کا، جس کا اوپرذکر آ چکا ہے ،یہ حل نکا لا گیا تھا کہ ممبران کو مشتعل کرکے مرزا ناصر احمد صاحب کے بیان کا اثر زائل کیا جائے۔چونکہ اﷲ وسایا نے اپنی کتاب میں گمراہ کُن سوال شائع کیا ہے اس لئے مناسب ہے کہ اصل صورتِ حال جماعت کے لٹریچر اور اس دور کے پس منظر میں پیش کر دی جائے۔

حضرت مرزا صاحب پر حضرت عیسیٰ ؑ کی توہین کا الزام نہ صرف غلط بلکہ خلافِ عقل ہے کیونکہ مرزا صاحب خود مثیل مسیح ہونے کے مدعی تھے۔حضرت مرزا صاحب لکھتے ہیں:۔

’’جس حالت میں مجھے دعویٰ ہے کہ میں مسیح موعود ہوں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے مجھے مشابہت ہے تو ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ میں اگر نعوذ باللہ حضرت عیسیٰ ؑ کو برا کہتا تو اپنی مشابہت ان سے کیوں بتاتا‘‘۔(اشتہار ۲۷؍ دسمبر ۱۸۹۷ء حاشیہ مندرجہ تبلیغ رسالت جلد ۷ صفحہ ۷۰)

چنانچہ حضرت مرزا صاحب نے بار بار اس الزام کی تردید کی اور فرمایا:۔

’’ہم اس بات کے لئے بھی خداتعالیٰ کی طرف سے مامور ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا سچا اور پاک اور راستباز نبی مانیں اور ان کی نبوت پر ایمان لاویں۔سو ہماری کسی کتاب میں کوئی ایسا لفظ بھی نہیں ہے جو ان کی شانِ بزرگ کے برخلاف ہو۔ اور اگر کوئی ایساخیال کرے تو وہ دھوکا کھانے والا اور جھوٹا ہے‘‘۔ (ایام الصّلح۔ ٹائٹل پیج صفحہ ۲، روحانی خزائن جلد نمبر۱۴صفحہ ۲۲۸)

حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے تصورات جدا جدا ہیں ۔ عیسٰی ابن مریم اور یسوع تاریخی طور پر ایک ہی وجودہیں ۔ ناصرہ کے مقام پر حضرت مریمؑ کے بطن سے پیدا ہونے والا بچہ جس کوقرآن کریم عیسٰی ابن مریم کہتاہے وہ اﷲکے ایک برگزیدہ رسول تھے۔ انکی عظمت قرآن شریف میں بیان ہوئی ہے۔ انہوں نے کبھی خدائی یا خدا کا بیٹا ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ وہ مؤحّد تھے، کبھی تثلیث کی تعلیم نہیں دی ۔ یہ عیسٰی ابن مریم کے بارے میں مسلمانوں کا تصور ہے۔ قرآن حکیم نے ابن مریم ہونے کے علاو ہ حضرت عیسیٰؑ کا شجرۂ نسب بیان نہیں کیا۔ مگر عیسائیوں کے ہاںیسوع کا شجرۂ نسب ملتاہے اور جوکچھ رطب و یابس عیسائیوں کی بائبل میں درج ہے اسکے مطابق یسوع کی دو نانیاں نعوذباﷲ کسبیاں تھیں۔ یہ آیا ت آج تک کسی نے بائبل سے حذف نہیں کیں۔ یسوع کی جو شخصیت بائبل سے ظاہر ہوتی ہے اسکے مطابق یسوع شراب بھی پیا کرتے تھے اور بھی بہت سی لغویات یسوع کے بارے میں بائبل میں ملتی ہیں۔اس فرضی مسیح کے بارے میں خود مولانا مودودی لکھتے ہیں۔

’’ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ ( یعنی عیسائی) اس تاریخی مسیح کے قائل ہی نہیں ہیں جو عالمِ واقع میں ظاہر ہوا تھا، بلکہ انہوں نے خود اپنے وہم و گمان سے ایک خیالی مسیح تصنیف کرکے اس کو خدا بنا لیا ہے۔‘‘ (’’تفہیم القرآن‘‘ جلد ۱ صفحہ ۴۹۱ سورۃ النساء)

حضرت مرزا صاحب نے پادریوں کو انہی کے اعتقادات دکھائے۔ مگر ساتھ ساتھ ہمیشہ اس امر کی وضاحت فرماتے رہے کہ ان کا روئے سخن اس فرضی یسوع کی طرف ہے جو عیسائیوں کے مُسلّمہ صحیفوں سے نظر آتا ہے۔اور اس فرضی مسیح کا نقشہ جو بائبل سے ابھرتا ہے وہ عیسائیوں کو بطور آئینہ کے دکھایا۔ چنانچہ فرماتے ہیں:۔

’’ بالٓا خر ہم لکھتے ہیں کہ ہمیں پادریوں کے یسوع اور اس کے چال چلن سے کچھ غرض نہ تھی۔ انہوں نے نا حق ہمارے نبی ﷺ کوگالیاں دے کر ہمیں آمادہ کیا کہ اُن کے یسوع کا تھوڑا سا حال ان پر ظاہر کریں۔۔۔۔۔۔اور مسلمانوں کو واضح رہے کہ خدا تعالیٰ نے یسوع کی قرآن شریف میں کچھ خبر نہیں دی کہ وہ کون تھا ۔۔۔۔۔۔‘‘ ۔ (ضمیمہ’’انجَام آتھم‘‘ صفحہ ۱۸۔۱۹، روحانی خزائن جلد نمبر ۱۱ صفحہ ۲۹۲۔۲۹۳)

اور اس طرزِ خطاب کا پس منظر بیان کرتے ہوئے مرزا صاحب لکھتے ہیں:۔

’’ چونکہ پادری فتح مسیح متعین فتح گڑھ ضلع گورداسپور نے ہماری طرف ایک خط نہایت گندہ بھیجا اور اس میں ہمارے سیدو مولیٰ محمد مصطفےٰ ﷺ پر ۔۔۔۔۔۔تہمت لگائی اور سوا اس کے اور بہت سے الفاظ بطریق سبّ و شتم استعمال کئے۔ اس لئے قرینِ مصلحت معلوم ہوا کہ اس کے خط کا جواب شائع کردیا جاوے۔ لہٰذا یہ رسالہ لکھا گیا۔ امید ہے کہ پادری صاحبان اس کو غور سے پڑھیں اور اس کے الفاظ سے رنجیدہ خاطر نہ ہوں کیونکہ یہ تمام پیرایہ میاں فتح مسیح کے سخت الفاظ اور نہایت ناپاک گالیوں کا نتیجہ ہے۔ تا ہم ہمیں حضرت مسیح علیہ السلام کی شانِ مقدس کا بہر حال لحاظ ہے اور صرف فتح مسیح کے سخت الفاظ کے عوض ایک فرضی مسیح کا بالمقابل ذکر کیا گیا ہے اوروہ بھی سخت مجبوری سے۔ کیونکہ اس نادان (فتح مسیح ۔ناقل) نے بہت ہی شّدت سے گالیاں آنحضرت ﷺ کو نکالی ہیں اور ہمارا دل دکھایا ہے‘‘۔ (نور القرآن‘‘ نمبر ۲ صفحہ ۱،روحانی خزائن جلد نمبر۹ صفحہ ۳۷۶)

یہ وضاحت مرزا صاحب کی تحریرات میں جگہ جگہ موجود ہے کہ:۔

’’ پڑھنے والوں کو چاہئے کہ ہمارے بعض سخت الفاظ کا مصداق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نہ سمجھ لیں بلکہ وہ کلمات اُس یسوع کی نسبت لکھے گئے ہیں جس کا قرآن و حدیث میں نا م ونشان نہیں‘‘۔(’’ تبلیغِ رسالت ‘‘ جلد ۵ صفحہ۸۰)

پھر فرماتے ہیں:۔

’ سو ہم نے اپنی کلام میں ہر جگہ عیسائیوں کا فرضی یسوع مراد لیا ہے اور خدا تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ عیسیٰ ابن مریم جو نبی تھا جس کا ذکر قرآن میں ہے وہ ہمارے درشت مخاطبات میں ہرگز مراد نہیں۔ اور یہ طریق ہم نے برابر چالیس برس تک پادری صاحبوں کی گالیاں سن کر اختیار کیا ہے۔ ……ہمارے پاس ایسے پادریوں کی کتابوں کا ایک ذخیرہ ہے جنہوں نے اپنی عبارت کو صدہا گالیوں سے بھر دیا ہے جس مولوی کی خواہش ہو وہ آ کر دیکھ لیوے‘‘۔ (اشتہار ’’ناظرین کے لئے ضروری اطلاع ‘‘،۲۰ ؍دسمبر۱۸۹۵ء نورالقرآن نمبر۲ ، روحانی خزائن جلد نمبر۹ صفحہ ۳۷۵)

پھر فرماتے ہیں:۔

’’ ہم اس بات کو افسوس سے ظاہر کرتے ہیں کہ ایک ایسے شخص کے مقابل پر یہ نمبر نور القرآن کا جاری ہوا ہے جس نے بجائے مہذّبانہ کلام کے ہمارے سید و مولیٰ نبی ﷺ کی نسبت گالیوں سے کام لیاہے اور اپنی ذاتی خباثت سے اس امام الطیبین و سیّد المطہرین پر سراسر افتراء سے ایسی تہمتیں لگائی ہیں کہ ایک پاک دل انسان کا ان کے سننے سے بدن کانپ جاتا ہے لہٰذا محض ایسے یا وہ گو لوگو ں کے علاج کے لئے جواب ترکی بہ ترکی دینا پڑا۔ہم ناظرین پر ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارا عقیدہ حضرت مسیح علیہ السلام پر نہایت نیک عقیدہ ہے اور ہم دل سے یقین رکھتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے سچے نبی اور اس کے پیارے تھے اور ہمارا اس بات پر ایمان ہے کہ وہ جیسا کہ قرآن شریف ہمیں خبر دیتا ہے اپنی نجات کے لئے ہمارے سید و مولیٰ محمد مصطفےٰ ﷺ پر دل جان سے ایمان لائے تھے، اور حضرت موسیٰ کی شریعت کے صد ہا خادموں میں سے ایک مخلص خادم وہ بھی تھے۔ پس ہم ان کی حیثیت کے موافق ہر طرح ان کا ادب ملحوظ رکھتے ہیں۔ لیکن عیسائیوں نے جو ایک ایسا یسوع پیش کیا ہے جو خدائی کا دعویٰ کرتا تھا اور بجزُ اپنے نفس کے تمام اوّلین آخرین کو لعنتی سمجھتا تھا یعنی ان بدکاریوں کا مرتکب خیال کرتا تھا جن کی سزا لعنت ہے ایسے شخص کو ہم بھی رحمت الٰہی سے بے نصیب سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔۔ ہم نے اپنے کلام میں ہر جگہ عیسائیوں کا فرضی یسوع مراد لیا ہے اور خدا تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ عیسیٰ بن مریم جو نبی تھا اور جس کا ذکر قرآن میں ہے۔ وہ ہمارے درشت مخاطبات میں ہرگز مراد نہیں اور یہ طریق ہم نے برابر چالیس برس تک پادری صاحبوں کی گالیاں سن کر اختیار کیا ہے ‘‘۔ ( نور القرآن نمبر۲ بعنوان ناظرین کیلئے ضروری اطلاع، روحانی خزائن جلد نمبر ۹ صفحہ ۳۷۴ ۔۳۷۵)

ان تحریرات کو سیاق و سباق سے کاٹ کر عیسٰی ؑ کی توہین قرار دینا کسی مسلمان کیلئے اپنی غیرت کا جنازہ نکالنے والی بات ہے۔ جب آنحضرتﷺ پر گندے الزام لگائے گئے تو غیرت کا تقاضہ یہ تھاکہ عیسائیوں کو یسوع کے بارے میں آئینہ دکھایاجاتا۔ طرز تحریر اور زور بیان سمجھنے کی چیزیں ہیں ۔ دراصل اہلِ علم اور اہلِ کلام میں یہ ایک معرو ف طریق ہے کہ بعض اوقات فریقِ مخالف کو اس کے اپنے معتقدات یا بیانات کا آئینہ دکھا کر اسے لا جواب کیا جاتاہے۔اس طریق کو الزامی جواب بھی کہتے ہیں۔ الزامی جواب کے بھی کئی طریق ہوتے ہیں ۔ خود مرزاصاحب کے اپنے زمانے میں بعض دیگر علما ء نے یہ طریق اختیار کیا۔ یہ طرز استدلال اُس زمانے کے اہل علم کے دستور کے مطابق تھا۔

بریلوی فرقہ کے لوگ مولوی احمد رضا خاں صاحب بریلوی کو چودہویں صدی کا مجدّد مانتے ہیں اور پاکستانی عوام کی اکثریت بریلوی ہے ۔وہ لکھتے ہیں:۔

’’نصاریٰ ایسے کو خدا مانتے ہیں جو مسیح کا باپ ہے۔۔۔۔۔۔ایسے کو جو یقیناًدغا باز ہے ، پچھتاتا بھی ہے تھک بھی جاتا ہے۔۔۔۔۔۔‘‘۔(’’العطایا النبویہ فی الرضویہ‘‘صفحہ ۷۴۰،۷۴۱ )

اور یہ اندازدیگر علماء نے بھی اختیارکیا ہے۔ اہل حدیث کے عالم نواب صدیق حسن خان صاحب ایک واقعہ یو ں لکھتے ہیں:۔

’’ایک بار ایک ایلچی روم پاس بادشاہ انگلستان کے گیا تھا۔ اس مجلس میں ایک عیسائی نے اس کو مسلمان دیکھ کر یہ طعن کیا کہ تم کو کچھ خبر ہے کہ تمہارے پیغمبر کی بی بی کو لوگوں نے کیا کہا تھا۔ اس نے جواب دیا ہاں مجھ کو یہ خبر ہے کہ اس طرح کی دو بیبیاں تھیں جن پر تہمت زنا کی لگائی گئی تھی مگر اتنا فرق ہوا کہ ایک بی بی پر فقط اتہّام ہوا، دوسری بی بی ایک بچہ جن لائیں۔ وہ نصرانی مبہوت ہوکر رہ گیا‘‘۔ (’’ترجمان القرآن ‘‘جلد اول صفحہ۴۳۰،نواب صدیق حسن خان صاحب سورۃ آل عمران زیر آیت (اذ قالت الملئکۃ یٰمریم ان اﷲیبشرک بکلمۃ منہ)، مطبوعہ مطبع احمدی لاہور)

مولوی آل حسن صاحب اپنی کتاب ’’استفسار‘‘میں جو ’’ازالۃ الاوہام‘‘ مؤلفہ مولوی رحمت اللہ صاحب کرانوی مہاجر مکّی کے حاشیہ پر چھپی ہے، تحریر فرماتے ہیں:۔

’’ارے ذرے گریبان میں سر ڈال کر دیکھو کہ معاذ اللہ حضرت عیسیٰؑ کے نسب نامہ مادری میں دو جگہ تم آپ ہی زنا ثابت کرتے ہو‘‘۔ (صفحہ ۳۷)’’ان ( پادری صاحبان) کا اصل دین و ایمان آکر یہ ٹھہر ا ہے کہ خدا مریم کے رحم میں جنین بن کر خون حیض کا کئی مہینے تک کھاتا رہا اور علقہ سے مضغہ بنا اور مضغہ سے گوشت اور اس میں ہڈیاں بنیں اور اس کے مخرج معلوم سے نکلا اور ہگتا مُوتتا رہا۔ یہاں تک کہ جوان ہو کر اپنے بندے یحيٰ کا مرید ہوا اور آخرکو ملعون ہو کر تین دن دوزخ میں رہا‘‘۔ (صفحہ۳۵۰،۳۵۱ )

’’پس معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰؑ کا سب بیان معاذاللہ جھوٹ ہے اور کرامتیں اگر بالفرض ہوئی بھی ہیں تو ویسی ہی ہو نگی جیسی مسیح دجّال کی ہو نے والی ہیں ‘‘۔ (صفحہ ۳۷۱)

جس دور کا ذکر ہے اُس دور میں پادریوں نے ہندوستان میں طوفان اٹھا رکھا تھا۔ مسلمان مسجدوں کے علماء عیسائیت قبول کر کے پادری بن رہے تھے۔ آگرہ کی جامع مسجد کے خطیب مولانا عماد الدین، پادری عمادالدین بن گئے۔اس ماحول میں جو اسلام کا درد رکھتے تھے اور جنہیں آنحضرتﷺ کی غیرت تھی انہوں نے پادریوں کی طرف سے آنحضرت ﷺ پر بے جا حملوں کے جواب کے لئے وہی انداز اختیار کیا ۔یہ اسلام اور آنحضرت ﷺ کی غیرت کا سوال تھا۔

’’انجیل کے مطالعہ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مسیح نے اجنبی عورتوں سے اپنے سر پر عطر ڈلوایا‘‘۔(متی ۶:۲۶، مرقس۳:۱۴، یوحنا ۶:۱۲، اہل حدیث امرتسر ۳۱؍مارچ۱۹۳۹ء)

الزامی جواب کی یہ چند مثالیں دیگر بزرگوں کی کتب سے پیش کی گئی ہیں جن میں وہی انداز اختیار کیا گیا ہے۔ جو مبیّنہ سخت الفاظ حضرت مسیح کے بارے میں بیان کئے جاتے ہیں وہ دراصل اُس فرضی یسوع کے بارے میں ہیں جس کو عیسائی بطور خدا پیش کرتے تھے۔ظلم و تعدّی کرنے والے بدزبان معترضین کے لئے الزامی جواب کا یہ اندازجو مرزا صاحب نے اختیارکیاوہ قرآن حکیم کی اس تعلیم کے عین مطابق تھا۔(وَلَاتُجَادِلُوْا اَھْلَ الْکِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِی ھِیَ اَحْسَن اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْامِنْھُم

اسمبلی میں موجود علماء حضرات یہ سب باتیں جانتے تھے، حضرت مرزا صاحب کی کتب ان کے پاس موجود تھیں،حوالوں اور اقتباسات کے پس منظر سے بھی واقف تھے، علمِ کلام اور مناظرہ کے معروف طریقوں سے بھی وہ واقف تھے اور مولانا احمد رضا خان بریلوی اور دیگر بزرگان کی طرف سے اسی انداز میں بائبل کے انہیں حوالوں سے اسی انداز میں دیئے گئے الزامی جوابات بھی علماء حضرات سے پوشیدہ نہیں تھے۔ اس کے باوجود یہ اعتراض کہ حضرت مرزا صاحب نے نعوذباﷲ حضرت عیسیٰ ؑ کی توہین کی، ناقابلِ فہم ہے اور تضیع اوقات اور اشتعال انگیزی کے سوا کچھ نہیں۔ بالخصوص جب کہ یہ امر نہ وزیرِ قانون کی تحریک میں مذکور تھا، نہ حزبِ اختلاف کی قرارداد میں ۔ اصل مقصد یہی تھا کہ بنیادی سوال سے گریز کیا جائے اورعوام کو الجھا دیا جائے۔