احمدیہ مسئلہ قومی اسمبلی میں

(۷) اٹارنی جنرل کی مشکل ’’ کفر کم تر از کفر‘‘

مولوی حضرات ہمیشہ یہ کہہ کر مسلمانوں کو اشتعال دلاتے ہیں کہ احمدی مسلمانوں کو کافر اور دائرہ اسلام اور اُمّتِ مسلمہ سے خارج تصور کرتے ہیں۔ جماعت احمدیہ کا مؤقف بڑا واضح ہے اور اُمّت کے سابقہ بزرگوں کے مؤقف سے مطابقت رکھتا ہے۔اس موضوع پر ساری کارروائی میں سے تفصیلات کو حذف کر دینا ایک بہت بڑی بددیانتی ہے۔ مگر جوکارروائی جناب اللہ وسایا نے شائع کی اس کے مطالعہ سے بھی احمدیوں کا مؤقف بڑی آسانی سے سمجھ آسکتا ہے۔ امام جماعت کا مؤقف کیا تھا ، اٹارنی جنرل کیا کہہ رہے تھے،امام جماعت کے مؤقف کی بنیاد کیا تھی ،یہ سب اس کارروائی سے کافی حد تک واضح ہو جاتاہے اور یہ سمجھنے میں قطعاً کوئی مشکل پیش نہیں آتی کہ اللہ وسایا کو اس ’اجمال‘ اور قطع و برید کی ضرورت کیوں پیش آئی۔

جرح کے بعد اپنی بحث کے دوران اٹارنی جنرل نے کہا:۔

’’جناب والا!اب میں دوسرے موضوع کی طرف آتاہوں جو زیادہ اہم ہے میں نکات ۴،۵ کو اکٹھا لوں گا۔ یہ نکات یہ ہیں ’’مرزا صاحب کے نبوت کے دعویٰ کو نہ ماننے کے اثرات اور اِس دعویٰ کے مسلمانوں پر اثرات اور ان کا ردعمل‘‘۔ اس موضوع پر معروضات پیش کرنے سے قبل میں یہ کہنا چاہوں گا کہ مرزا ناصر احمد کے ساتھ مجھے خاصی دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔‘‘ (صفحہ۳۰۵)

حضرت امام جماعت احمدیہ کے بارے میں اٹارنی جنرل نے کہا:۔

’’ مرزا ناصر احمد نے اپنے والد بشیرالدین محمود احمدکی جگہ بطور خلیفہ سوئم جماعت احمدیہ،۱۹۶۵ء میں عہدہ سنبھالا اور وہ قادیانی(ربوہ)گروپ کے سربراہ ہیں۔ وہ ۱۹۰۹ء میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سلجھے ہوئے انسان ہیں۔ مؤثر شخصیت کے مالک ہیں۔ ایم۔اے۔(آکسفورڈ) عربی، فارسی اور اُردو کے بہت بڑے عالم ہیں۔دینی معاملات پر گہری دسترس رکھتے ہیں۔‘‘ (صفحہ۳۰۶)

آگے چل کر اسی تسلسل میں کہا:۔

’’جناب والا! جب یہ مقدس ہستی کمیٹی کے رُوبرو پیش ہوئی تو سوال پیدا ہوا، بہرحال میں اس تفصیل میں نہیں جاؤں گاکہ جو مرزا صاحب کی نبوت کو نہیں مانتے، ان کے بارے میں انہوں نے کیاکہا ہے۔ مرزا صاحب نے کہا کہ ایسے لوگ کافرہیں۔ اس کامطلب کیا ہے؟اس (مرزاناصر احمد) نے جواب دیا’’کافر‘‘ سے مراد ایسا شخص نہیں جسے منحرف یامرتد قراردیاجائے یاایسا تارک الدین شخص جسے اسلام کے دائرے سے خارج کرناپڑے،بلکہ ایسے کافر سے مراد ایک قسم کاگنہگار ہے یا ثانوی درجے کا کافر ۔وہ پیغمبر اسلامﷺپرتو ایمان رکھتاہے اس لئے مرزا ناصراحمد کے بقول ایسا شخص(جومرزاغلام احمد کی نبوت کا انکارکرتاہے)ملت محمدّیہ کے اندر تو رہے گا مگر وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گا۔ یہ ایک ایسی بات ہے جسے میں بالکل نہیں سمجھ سکا۔ میں نے یہ بات سمجھنے کی انتہائی کوشش کی، جب ایک شخص کافرہوجاتاہے تووہ کیسے ’’دائرہ اسلام سے خارج ہے مگرملت محمدّیہ سے باہرنہیں‘‘ آخر اس کا مطلب کیا ہے؟ کئی روز تک ہم اس مشکل میں مبتلا رہے۔‘‘(صفحہ۳۰۶۔۳۰۷)

فاضل اٹارنی جنرل کوجس دشواری کا سامنا تھا اس کی وجہ بڑی واضح ہے۔ اسمبلی کی کارروائی کی، جو صورت بھی شائع کی گئی ہے، کو پڑھنے سے معلوم ہوتاہے کہ اٹارنی جنرل صاحب دو تین دن تک بار بار گھما پھراکر ہر پہلو سے ،ہر انداز سے

امام جماعت احمدیہ سے یہ کہلوانے کی کوشش کرتے رہے کہ جملہ مسلمان مطلقاً کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے اٹارنی جنرل کی اس کوشش کو ہرلحاظ سے ناکام کیا ۔یہ وہ مشکل ہے جس کا سامنا اٹارنی جنرل کو کرنا پڑا۔ ملاحظہ ہو:۔

’’ اٹارنی جنرل: قرآن وحدیث کی رُو سے کافر دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔

مرزاناصر: قرآن وحدیث میں دائرہ اسلام کا محاورہ نہیں ہے۔

اٹارنی جنرل: مسلمان رہتا ہے یا نہیں۔اگر مسلمان نہیں رہتا تو وہ اسلام کے دائرہ میں نہ رہا۔ایک حدیث میں ہے اور اگر حدیث کونہیں مانتے تو آپ کے والد نے کہا ہے اسے تو مان لیں۔یہ میرے ہاتھ میں ان کی کتاب ہے آپ کے والد کی، وہ کہتے ہیں کہ جو مرزا کونہیں مانتے وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہیں؟

مرزاناصر: کفر کفر میں فرق ہے۔ایک کفر وہ ہے جو ملّت سے خارج کردیتا ہے ۔ایک وہ کفرہے جو ملت سے خارج نہیں کرتا۔ جو کلمہ کاانکار کرے وہ ملت سے خارج ہوتاہے۔

اٹارنی جنرل: اورجو مرزا کی نبوت کاانکار کرتا ہے، وہ ملّت سے خارج نہیں ہوتا۔

مرزاناصر: نہیں ہوتا۔

اٹارنی جنرل: ایک آپ کی یہ شہادت ہے، ایک آپ کے والد کی منیر کمیشن میں شہادت تھی۔دونوں میں فرق ہے تو کون صحیح ہوگا؟

مرزاناصر: منیر کمیشن میں میرے والد نے کہا مگر اورجگہ بھی توکہا، سب کو دیکھناہے۔

اٹارنی جنرل: ایک عدالت کے سامنے جو ریکارڈ، شہادتیں اور دلائل ہوتے ہیں؟

مرزاناصر: مجھے نہیں معلوم کہ میرے باپ نے کیا کہا، مگر میں ملت سے خارج نہیں مانتا۔

اٹارنی جنرل: اور جو مرزا کو نہیں مانتا ؟

مرزاناصر: وہ قابل مؤاخذہ ۔

اٹارنی جنرل: ملت اسلامیہ سے نکل گیا؟

مرزاناصر: سیاسی معنوں میں نہیں نکلا۔

اٹارنی جنرل: حقیقی معنوں میں نکل گیا؟

مرزاناصر: جی۔

اٹارنی جنرل: صرف جی نہیں، بلکہ صاف فرمائیں کہ نکل گیا؟

مرزاناصر: کہہ تو دیاہے کہ ایک معنی میں کافر ہے،دوسرے میں مسلمان‘‘۔ (صفحہ۵۶۔۵۷)

’’اٹارنی جنرل: آپ کے باپ کی کتاب ہے’’آئینہ صداقت‘‘ صفحہ۳۵ہے۔

مسڑ چیئرمین: کیا کہا اس کتاب میں۔

اٹارنی جنرل: کل مسلمان جو مسیح موعود کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے، خواہ انہوں نے

مسیح موعود کا نام نہ سُنا ہو، وہ بھی کافراوردائرہ اسلام سے خارج ہیں۔

مرزاناصر: کفر کے دو قسم بتائے ہیں، ایک یہ بھی ہے۔یہی بات انہوں نے منیر کمیشن میں کہی تھی کہ وہ سیاسی کافر ہوں گے‘‘۔ )صفحہ۵۸)

آگے چل کر اٹارنی جنرل پھر اسی موضوع کی طرف لوٹتے ہیں:

’’اٹارنی جنرل: جو شخص ملت اسلامیہ میں ہے آپ کے اعتقاد کے مطابق وہ دائرہ اسلام میں بھی ہے ۔لیکن جو دائرہ اسلام میں ہے، وہ ہرشخص ملت اسلامیہ میں نہیں،گویا ایک شخص دائرہ اسلام سے خارج ہے مگر اس کے باوجود وہ مسلمان ہے؟

مرزاناصر : اس کے باوجود مسلمان ہے۔

اٹارنی جنرل: گویا کافر بھی ہے اور مسلمان بھی؟

مرزاناصر:بعض جہت سے کافر اور بعض سے مسلمان ‘‘۔(صفحہ۶۹)

پھر اسی مضمون کی طرف لوٹتے ہوئے اٹارنی جنرل کہتے ہیں۔

’’اٹارنی جنرل: رابطہ عالم اسلامی میں دُنیا بھر کے نمائندے ہیں۔ انہوں نے آپ کو کافر کہا۔

مرزاناصر: وہ تو نامزد لوگ ہوں گے۔ میں کہتا ہوں کہ اقوام متحدہ یا کوئی دُنیا کامنتخب ادارہ بھی ہمارے کُفر پر متفق ہوجائے توپھر بھی میں سمجھوں گاکہ اس معاملہ کو خدا پر چھوڑتے ہیں۔

اٹارنی جنرل: دیکھئے اقوام متحدہ یا کسی اور کے فیصلہ پر تو صاد کرکے صرف خدا کی عدالت میں اپیل کا کہتے ہیں، لیکن مسلمانوں کا ادارہ پاکستان کی نیشنل اسمبلی یا رابطہ، فیصلہ کریں تو آپ اسے صاد نہیں کرتے؟

مرزاناصر: میں نے کہا کہ میں اقوام متحدہ کے فیصلہ پر بھی معاملہ خداپر چھوڑوں گا، یہ کہ اسے بھی صحیح نہیں سمجھتا۔

اٹارنی جنرل: پھر اگر آپ پوری دُنیا کے فیصلہ کو بھی نہیں مانتے تو ان کے فیصلہ کرنے کا کیا فائدہ۔ نیز یہ کہ آپ پوری دُنیا کے کسی بھی متفقہ فیصلہ کو، جو آپ کے خلاف ہو، نہیں مانتے۔ پھر تو بات ہی ختم ہو گئی۔ آپ صرف مسلمانوں سے نہیں بلکہ پوری دُنیا سے الگ ہیں ان معنوں میں ؟

مرزاناصر: میرا دل نہیں مانتا تو وہ میں کیسے کروں گا‘‘۔(صفحہ۷۶)

یہ اقتباسات جو جناب اﷲ وسایا کی شائع شدہ کارروائی سے نقل کئے گئے ہیں ان کے بارے میں ہم ہرگز تسلیم نہیں کر رہے کہ یہ مکالمہ اس طرح سے ہوا۔ اس کارروائی میں خود ایسے اشارے موجود ہیں جن سے معلوم ہوتاہے کہ ضروری تفصیلات کو حذف کردیا گیا ہے، مثلاً منیر انکوائری کمیشن میں اِسی مسئلہ پر دیئے گئے جواب کا ذکر ہے مگر وہ جواب کارروائی میں نہیں۔ امام جماعت کے جواب ایک ایک فقرے میں ظاہر کئے گئے ہیں،کارروائی کے کئی حصّے ایسے بھی ہیں جہاں یہ محسوس ہوتا ہے کہ کارروائی میں سے جواب کا اصل اور مؤثر حصہ حذف کردیا گیا ہے۔ مگر ایک بات بالکل واضح ہے کہ اٹارنی جنرل صاحب سارا زور اِس بات پر لگا رہے ہیں اور اپنی ساری صلاحیتیں امام جماعت سے یہ کہلوانے کی خاطر بروئے کار لارہے ہیں کہ سارے مسلمان دائرۂ اسلام سے خارج ہیں اور امام جماعت احمدیہ کسی صورت بھی یہ نہیں کہہ رہے۔

اٹارنی جنرل بار بار اسی مضمون کو چھیڑتے ہیں اور اس بات پر حیرانی کا اظہار کر رہے ہیں کہ کوئی شخص گویا کافر بھی ہے مسلمان بھی ہے اور مرزا ناصراحمد پھر یہی فرماتے ہیں کہ بعض جہات سے کافر اور بعض سے مسلمان۔اور مرزا ناصر احمد صاحب بار بار دائرہ اسلام اور ملتِ اسلامیہ میں سے خارج ہونے کے فرق کو نمایاں کرتے ہیں۔

منیر انکوائری کا ذکر کیا گیا ہے کہ اس میں آئینۂ صداقت صفحہ ۳۵کے حوالہ سے کوئی سوال پوچھا گیا، مگر اس سوال اور جواب کی تفصیل پر اﷲوسایا صاحب نے ’’اجمال‘‘ کا پردہ ڈال دیا ہے۔ ہم وہ تفصیل منیر انکوائری کمیشن کے حوالہ سے پیش کر رہے ہیں۔ منیر انکوائری میں جماعت احمدیہ کے خلیفۂِ ثانی حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب سے پوچھا گیا ۔

’’سوال:۔ کیا آپ اب بھی یہ عقیدہ رکھتے ہیں جو آپ نے کتاب ’’آئینہ صداقت‘‘ کے پہلے باب میں صفحہ ۳۵پر ظاہر کیا تھا۔ یعنی یہ کہ تمام وہ مسلمان جنہوں نے مرزا غلام احمد صاحب کی بیعت نہیں کی خواہ انہوں نے مرزا صاحب کانام بھی نہ سُنا ہو وہ کافر ہیں اور دائرہ اسلام سے خارج؟جواب:۔ یہ بات خود اس بیان سے ظاہر ہے کہ میں ان لوگوں کو جو میرے ذہن میں ہیں مسلمان سمجھتاہوں۔ پس جب میں ’’کافر‘‘ کا لفظ استعمال کرتا ہوں تو میرے ذہن میں دوسری قسم کے کافر ہوتے ہیں جن کی میں پہلے ہی وضاحت کر چکا ہوں یعنی وہ جو ملت سے خارج نہیں۔ جب میں کہتا ہوں کہ وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہیں تو میرے ذہن میں وہ نظریہ ہوتا ہے جس کا اظہار کتاب مفردات راغب کے صفحہ ۲۴۰پرکیا گیا ہے۔ جہاں اسلام کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک دُوْنَ الْاِیمان اور دوسرے فَوقَ الْاِیمان۔ دُوْنَ الْاِیمانمیں وہ مسلمان شامل ہیں‘جن کے اسلام کا درجہ ایمان سے کم ہے۔ فَوقَ الْاِیمان میں ایسے مسلمانوں کاذکر ہے جو ایمان میں اس درجہ ممتاز ہیں کہ وہ معمولی ایمان سے بلند تر ہوتے ہیں۔اس لئے جب میں نے یہ کہا تھا کہ بعض لوگ دائرۂ اسلام سے خارج ہیں تو میرے ذہن میں وہ مسلمان تھے جو دُوْنَ الْاِیمان کی تعریف کے ماتحت آتے ہیں۔ مشکٰوۃ میں بھی ایک روایت ہے کہ رسول اﷲﷺنے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی ظالم کی مدد کرتااور اس کی حمایت کرتا ہے وہ اسلام سے خارج ہے‘‘۔(تحقیقاتی عدالت میں جماعت احمدیہ کا بیان)

امام راغب کے جس قول کا حوالہ دیاجارہا ہے وہ یہ ہے۔

وَالاِْسلامُ فی الشَرعِ علیٰ ضَرْبَیْنِ:۔ احَدُھُما دُونَِ الایمانِ وَھُوَ الاعِتَرافُ باللسانِ و بہٖ یُحقَنُ الدّمُ حَصَلَ معہ الاِعتِقَادُ اَولم یُحصل وایَّاہُ قُصِدَ بقولہٖ قالتِ الاعرابُ آمَنَّاقُلْ لَم تُوْمِنُوا وَلٰکِنْ قُولوا اَسْلَمْنَا ۔ والثانی فَوقَ الا یمانِ وَھو اَنْ یَکُون مَعَ الاِعتَرَافِ اعتِقَاد بِالقَلب ووفائ’‘ بالفعل۔ واستِسْلاَم ﷲِ فِیْ جَمیعِ ما قَضَیٰ وَقدّرَ کَمَاذُکِرَ عَنْ ابراھیمَ علیہ السلامُ فی قولِہٖ اذ قَالَ لَہ‘رَبُّہ‘ اَسلِمْ قَالَ اَسْلمتُ لرَبِّ الْعَالَمِین ۔(المفردات فی غریب القرآن از علامہ راغب اصفہانی، مطبوعہ 1961 اصح المطابع، آرام باغ فریئر روڈ ، کراچی۔ صفحہ ۲۴۰)

یعنی ایک زبانی اقرار کا نام ہے جس کے ذریعے انسان اصطلاحاً دائرہ اسلام میں آجاتا ہے اور اس کے بارے میں امام راغب یہ کہتے ہیں’’ کہ اس اقرارِزبانی کے ساتھ اعتقاد شامل ہو یا نہ ہو ایسا اقرار زبانی کرنے والا’’دُوْنَ الْاِیمان‘‘ دائرہ اسلام میں شامل ہو جاتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اس کا خون محفوظ ہو جاتا ہے ‘‘۔اور اس بات کی تائید میں امام راغب سورۃالحجرات کی قرآنی آیت لائے ہیں اپنی طرف سے بات نہیں کی۔سورۃالحجرات کی آیت کا ترجمہ یوں ہے۔’’بدُو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے آپ ان سے کہہ دیجئے کہ تم ایمان نہیں لائے ہو لیکن یہ کہوکہ ہم اسلام لے آئے ہیں۔‘‘ اس کو ’’دُوْنَ الْاِیمان ‘‘ اسلام کہا گیا۔ یعنی دائرہ اسلام میں تو ہے مگر اسلام کی حقیقی معرفت کو نہیں پہنچا۔اور جسے امام راغب ’’فَوقَ الْاِیمَان ‘‘ کہتے ہیں۔جس کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ وہ اقرارِزبانی کے علاوہ قلبی اعتقاد اور فعلی وفامکمل طور پر خداکے قضاوقدر میں خود سپردگی کا نام ہے۔یہ اصل اسلام ہے جس کو ’’فَوقَ الْاِیمَان ‘‘ کہااور یہ بات بھی امام راغب نے خود نہیں کہہ دی اس کے لئے بھی حضرت ابراھیم ؑ کے قول کی مثال قرآن شریف سے دی اور پھر متعدد آیات قرآن شریف کی اس تائید میں لائے کہ ’’فَوقَ الْاِیمان ‘‘ والے مسلمان تو وہ ہیں جو شیطان کے چنگل سے آزادہوں،مکمل طور پر راضی بہ رضا ہوں اور یہ ایک ایسی واضح اور بدیہی بات ہے کہ اس کو اصطلاحات کی باریکیوں سے الگ کر کے بھی باآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔ یہ کون نہیں جانتا کہ ہر مسلمان اپنے ادّعااور خواہش کے باوجود حقیقی اسلام کے تقاضوں کو پورا نہیں کر پاتا۔قدم لڑکھڑاتے بھی ہیں اور سنبھل بھی جاتے ہیں۔گناہ سرزد بھی ہوجاتے ہیں۔عرقِ انفعال اور ندامت بھی دامنگیر ہوتی ہے۔اسلام کے حقیقی تقاضوں کو پورا نہیں کر رہا ہوتا لیکن یہ تو نہیں کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو گیا ۔ہر چند کہ شیطان کے بہکاوے میں آجاتا ہے۔ ایسے افعال کر بیٹھتا ہے جو کفر کے مترادف ہوتے ہیں لیکن پھر بھی مسلمان ہی رہتا ہے۔ یہ دائرہ اسلام دُوْنَ الْاِیمان ہے۔ ایسا شخص مسلمان ہے ،امت کافرد ہے۔گناہگار ہے، ایسے افعال کر بیٹھتا ہے جن سے شرک یا کفر لازم آجاتا ہے، غیر اﷲکے آگے حقیقی یا معنوی رنگ میں سجدہ ریز بھی ہوجاتا ہے، قبروں پر ماتھا جاٹیکتاہے مگر خود کو مسلمان کہتا ہے ۔دائرہ اسلام میں تو ہے مگر دُونَ الْاِیمان ہے، حقیقی اسلام تو نہیں۔فَوقَ الْاِیمان کی کیفیات کا تو کیا کہنا۔ یہ ایسی بات تو نہیں جو سمجھ میں نہ آتی ہو۔ ہر مسلمان اس بات کو جانتا ہے کہ وہ مسلمان تو ہے لیکن اسلام کے تقاضوں کو پورا نہیں کر پارہا۔ مگر ایسا شخص دائرہ اسلام سے تو خارج نہیں۔ فقہاء کی اصطلاح میں دُونَ الْاِیمان اسلام ہے۔

لہٰذا احمدیہ لڑیچر میں جہاں بھی مسلمانوں کو کافر کہا گیا وہ اس’’ کفر کم تر ازکفر ‘‘کے معنوں میں کہاگیا اور اس بات کو امام جماعت احمدیہ نے تفصیل سے بیان کیا اور جناب اﷲوسایا ان تفصیلات کو حذف کرکے’’ اجمال‘‘ کی نقاب اوڑھے ہوئے یہ اشتعال انگیزی کرنا چاہتے ہیں کہ احمدی تمام مسلمانوں کومطلقاً کافر سمجھتے ہیں۔ مگر اہل انصاف کیلئے یہ نقطۂ نظر سمجھنے میں کوئی دقّت نہیں کہ جو خود کو مسلمان کہتا ہو اور پانچ ارکانِ اسلام پر ایمان کا زبانی اقرار کرتا ہو وہ مسلمان ہی رہتا ہے ،اُمت مسلمہ سے خارج نہیں ہوتا۔ جو شخص بھی دیانتداری سے اپنی کمزوریوں، کوتاہیوں، گناہوں، نافرمانیوں پر نظر ڈالے گا وہ اس نتیجے پر پہنچے گا کہ خدا کے رسولؐ نے اس پر بہت بڑا احسان کیا کہ ان تمام کوتاہیوں کے باوجود اس کے مسلمان ہونے کو ایسا تسلیم کیا کہ خدا اور اس کے رسولؐ کا ذمّہ قرار دے دیا۔

یہی بات جب منیر انکوائری میں امام راغبؔ کے حوالے سے جماعت احمدیہ کے خلیفہ ثانی نے کہی یا قومی اسمبلی میں جماعت کے خلیفۂ ثالث نے کہی تو اُن لوگوں کی سمجھ میں نہ آئی ہو جو سیاست کے نام پر ووٹ لے کر آئے تھے، جنہیں ایمانیات پر رائے دینے کا بھی حق نہ تھامگر ان چند حضرات کی سمجھ میں تو ضرورآجانی چاہیے تھی جن کے مدارس میں انہی حوالوں سے ایمان اور اسلام کی بحثیں پڑھائی جاتی ہیں۔ جماعت احمدیہ کا نقطۂ نظر چونکہ ان وضاحتوں کے ساتھ عوام کو باآسانی سمجھ آسکتا تھا۔ ان حضرات پر یہی دُھن سوار تھی کہ ’’ہاں‘‘ یا ’’نہ‘‘ میں جواب دو ۔وضاحت نہ کرو۔ مضمون کو کھول کر نہ بیان کرو۔آخر کیا مقصد تھا ؟کہ کہیں عوام اصل بات کو سمجھ نہ لیں۔ اور جب امام جماعت احمدیہ، اس مردِ خدانے اس شور وغوغا کے باوجود مسئلہ کھول کر بیان کر دیا تو اٹارنی جنرل صاحب کہتے ہیں کہ:۔

’’ یہ ایک ایسی بات ہے جسے میں بالکل نہیں سمجھ سکا۔ میں نے یہ سمجھنے کی انتہائی کوشش کی کہ جب ایک شخص کافر ہوجاتا ہے تو وہ شخص کیسے دائرۂ اسلام سے خارج ہے مگر ملتِ محمدیہ سے نہیں۔‘‘(صفحہ۳۰۷)

مگر جب ان فتاویٰ ٔ کفر کا سامنا کرنا پڑا جو سب فرقے ایک دوسرے پر لگا چکے ہیں تواٹارنی جنرل خود علامہ اقبال کا یہ اقتباس نقل کرتے ہیں:۔

’’فقہ کا طالبِ علم جانتا ہے کہ ائمہ فقہ اس قسم کے کفر کو کفرکم تر از کفر سے موسو م کرتے ہیں یعنی اس طرح کا کفر مجرم کو دائرہ اسلام سے خارج نہیں کرتا‘‘۔(صفحہ۲۸۳)

اتنی بات تو اٹارنی جنرل صاحب کی سمجھ میں بھی آ گئی کہ ثانوی درجہ کا کفربھی ہوتا ہے۔ وہی بات جو امام راغب نے کہی، جماعت احمدیہ کے خلیفہ ثانی نے کہی، اب وہی بات مرزا ناصر احمدصاحب کہہ رہے ہیں، وہی بات خود اٹارنی جنرل صاحب علّامہ اقبال کے حوالہ سے دہرا بھی رہے ہیں، مگر پھر بھی اصرار ہے کہ آپ ہمیں مسلمان نہیں سمجھتے۔