احمدیہ مسئلہ قومی اسمبلی میں

(۱۰) باؤنڈری کمیشن

اﷲوسایا کی کتاب کے مطابق اٹارنی جنرل نے قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کے سامنے یہ اعتراض بھی اُٹھایا کہ:۔

’’ بوقتِ آزادی اور سرحدوں کی حد بندی کے وقت قادیانیوں نے ایک عرضداشت پیش کی کہ وہ مسلمانوں سے الگ ایک جماعت ہیں۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ پنجاب کے کنارے کے علاقوں میں مسلمان آبادی کا تناسب گھٹ گیا اور بالآخر (ایوارڈ) فیصلے میں گورداسپورہندوستان کو دے دیا گیا تا کہ وہ کشمیر سے تعلق رکھ سکے ‘‘۔ (صفحہ ۸۳)

اور پھر جماعت احمدیہ کے امام جب ایک دوسرے سوال کی وضاحت میں جواب ریکارڈ کروا رہے تھے تو انہوں نے خلیفۂ ثانی کے۱۳؍ نومبر ۱۹۴۶ء کے خطبہ کی وضاحت کرنا چاہی تو اٹارنی جنرل نے طنزاً کہا:۔

اٹارنی جنرل: ’’ ہندوؤں نے کہا کہ احمدی مسلمانوں سے علیحدہ ہیں ۔ آپ نے واقعہ میں مسلم لیگ سے علیحدہ میمورینڈم پیش کر دیا اور یوں مسلمانوں کی تعداد ۵۱ سے ۴۹ رہ گئی۔ آپ کا خیال ہے کہ آپ اس سے مسلم لیگ کو مضبوط کررہے تھے۔ ٹھیک ہے فائل کرا دیں اور آگے چلیں۔‘‘ (صفحہ۱۴۷)

جناب اٹارنی جنرل نے جس انداز سے اس سوال سے جان چھڑائی اس سے اٹارنی جنرل کی یا تو دیانت مشتبہ ہو جاتی ہے یا ان کی ذہانت پر زد پڑتی ہے۔ مجلسِ احرار اور کانگریسی علماء بلکہ بعض مسلم لیگی علماء بھی اس بات پر اصرار کر رہے تھے کہ احمدی مسلمان نہیں ہیں۔ مسلم لیگ میں جب یہ سوال اٹھایا گیا کہ احمدی مسلم لیگ کے ممبر نہ بنائے جائیں تو قائد اعظم نے سختی سے اس بات کو دبا دیا۔ لیکن مجلسِ احرار اور کانگریس کے ڈھنڈھورچی بدستور شور مچا رہے تھے اور اس صورتِ حال سے کانگریس بھر پور فائدہ اٹھانا چاہتی تھی، اور یہ بات سمجھنے کے لئے بہت باریک بینی اور غیر معمولی ذہانت کی ضرورت نہیں، اس وجہ سے مسلم لیگ ہائی کمان نے بٹالہ مسلم لیگ اور جماعت احمدیہ کو علیحدہ میمورنڈم داخل کرنے کی اجازت دی۔ گوردا سپور کے ضلع میں مسلم اکثریت بہت معمولی تھی اور کانگریس احمدیوں کو مسلمان شمار نہ کئے جانے میں کامیاب ہو جاتی تو وہ معمولی اکثریت بھی ختم ہو جاتی۔ اس لئے اس بات کا ہر طرح سے یقینی بنایا جانا ضروری تھا تا کہ کوئی دور کا شائبہ بھی اس بات کانہ رہ جائے کہ احمدیوں کو مسلمان شمار نہ کیا جائے۔ چنانچہ احمدیوں نے قادیان کے لئے اپنا کلیم اس بنیاد پر داخل کیا کہ احمدی مسلمان ہیں اور قادیان مسلمانوں کی ایک فعال جماعت کا روحانی مرکز ہے اور دنیا بھر سے آنے والوں کا مرجعِ خلائق ہے۔

اس کے علاوہ سکھوں کی طرف سے ننکانہ صاحب کی وجہ سے شیخوپورہ کا دعویٰ کیا جا رہا تھا۔ بٹالہ مسلم لیگ کی طرف سے جو میمورنڈم داخل کیا گیا اس میں بٹالہ کی تاریخی اہمیت‘ بٹالہ کی مسلمان آبادی‘بٹالہ کی مسلمان انڈسٹری اور بٹالہ تحصیل میں واقع قادیان کے ذکر میں لکھا۔

’’اگر مذہبی مقامات اور زیارتوں کو زیر غور لانا ہے تو بٹالہ صدر پولیس سٹیشن میں واقع قادیان کا قصبہ خاص توجہ کا مستحق ہے ۔ مسلمانوں میں سے احمدی مرزا غلام احمد کو نبی تصور کرتے ہیں۔۔۔‘‘۔

احمدیوں نے اپنے میمورنڈم کے شروع ہی میں آٹھ اہم نکات قادیان کو پاکستان میں شامل کئے جانے کی بنیاد کے طور پر درج کئے۔ جس میں پہلا نکتہ یہ تھا کہ قادیان اسلام میں عالمگیر جماعت احمدیہ کا فعال مرکز ہے۔ اور ساتواں نکتہ یہ تھا کہ قادیان جس ضلع میں واقع ہے اس میں واضح مسلمان اکثریت ہے۔

جماعت احمدیہ کے میمورنڈم میں اہم نکات بیان کرنے کے بعد پہلے ہی پیرے میں لکھاکہ جماعت احمدیہ جو مسلمانوں کا اہم مذ ہبی حصہ ہے اور جس کی دنیا بھر میں شاخیں ہیں اس کا مرکز ضلع گوردا سپور میں ہے۔مغربی اور مشرقی پنجاب کی عبوری تقسیم میں یہ ضلع دونوں حصوں کی سرحد پر واقع ہے اور باؤنڈری پر فریقین کے تنازع میں اس ضلع پر دونوں فریق نے دعویٰ کیاہے۔ لہٰذاجماعت احمدیہ اپنے جائز حقوق کے تحفظ کے لئے ضروری سمجھتی ہے کہ اپنا نقطۂ نظر باؤنڈری کمیشن کے سامنے پیش کرے ۔ چنانچہ میمورنڈم کے آغاز ہی میں میمورینڈم کے پیش کئے جانے کی اغراض بیان کرتے ہوئے تین مرتبہ اس بات کا اظہارموجود ہے کہ احمدی مسلمان ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اس لئے ضلع گورداسپور پاکستان میں شامل ہونا چاہئے۔

(Partition Of Punjab Vol. I; P:428-429)

جب اس میمورینڈم پر بحث کا وقت آیا تو بحث کے پہلے فقرہ ہی میں کہا گیا کہ قادیان کو مغربی پنجاب میں شامل ہونا چاہئے۔ اور دورانِ بحث اس بات پر زور دیا گیا کہ ’’قادیان جو تحصیل بٹالہ میں ہے‘ مسلم اکثریت کا علاقہ ہے۔‘‘

جماعت احمدیہ کے میمورینڈم اور بحث کے علاوہ باؤنڈری کمیشن کی کارروائی میں یہ بات بار بار سامنے آئی کہ احمدی مسلمان ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ ہیں۔بحث کے دوران احراری اور کانگریسی علماء کے پھیلائے ہوئے زہر کا اثر جسٹس تیجہ سنگھ کے ایک سوال سے بھی ظاہر ہوا۔

’’مسٹرجسٹس تیجہ سنگھ: احمدیہ جماعت کی اسلام کے حوالہ سے کیا پوزیشن ہے؟

شیخ بشیر احمد: وہ اول و آخر مسلمان ہونے کے مدعی ہیں۔ وہ اسلام کا حصہ ہیں‘‘۔

(Partition Of Punjab Vol. II; P:213)

اس طرح سے خود کانگریس کے وکیل نے اپنی بحث میں ضلع گوردا سپور کو غیر مسلم اکثریت کا علاقہ قرار دیتے ہوئے یہ مؤقف اختیار کیا کہ ضلع گورداسپور میں مسلمانوں کی اکثریت صرف اس وجہ سے ہے کہ تین چھوٹے چھوٹے حصوں یعنی قادیان، فتح گڑھ چوڑیاں اور بٹالہ میں ان کی اکثریت بہت زیادہ ہے۔ اور ان تین علاقوں کے مسلمانوں کی تعداد نکال دی جائے تو ضلع غیر مسلم اکثریت کا نظر آتا ہے۔گویا سیتل واڈ نے بھی قادیان کو مسلم اکثریت کے علاقہ کے طور پر شمار کیا اور اپنی بحث کو ایک نیا موڑ دے دیا۔

سیتل واڈ کی بحث کے دوران جسٹس منیر نے کہا :۔

’’مسٹر جسٹس منیر احمد:میں سمجھ گیا ہوں بٹالہ کے یہ چھوٹے چھوٹے دو نقطے دیکھیں ۔ آپ ان کے بارہ میں کیا کہتے ہیں۔

مسٹر سیتل واڈ: تیسرا قادیان کا قصبہ ہے۔

مسٹر جسٹس منیر: اس کی آبادی کیا ہے؟

مسٹر سیتل واڈ: اعداد وشمار ابھی آپ کو دیتا ہوں۔

مسٹر جسٹس منیر: کیا میں سمجھوں کہ اس پوری تحصیل میں قادیان کے علاوہ کوئی مسلم اکثریت کا علاقہ نہیں۔

مسٹر سیتل واڈ: نہیں جہاں تک میں نقشہ کو دیکھتا ہوں ایسا ہی ہے۔ ہم نے مسلم اکثریت کے بڑے بڑے علاقے چنے ہیں اور ہمیں اس سائز کے اور علاقے نہیں ملتے۔لہٰذا ہم نے ان کو نقشے پر علیحدہ ظاہر نہیں کیا‘‘۔

(Partition Of Punjab Vol. II; P:214)

اسی طرح اپنی جوابی بحث میں مسٹر سیتل واڈ نے کہا:

’’ اب اگلے نقطے پر آئیے جو بٹالہ ہے اس میں آپ تین سفید حصے دیکھیں گے۔ میں آپ کو اس تحصیل کے اعداد وشمار دیتا ہوں۔

مسلمان : 209277

غیر مسلم : 177776

31501 کا فرق ہے اور یہاں میں نے تینوں pockets کو اکٹھا لے لیا ہے۔ پہلا فتح گڑھ چوڑیاں ہے جہاں مسلمان18055 اور غیر مسلم 4641 ۔ دوسرا بٹالہ کا شہر اور مضافاتی گاؤں ہیں جہاں مسلمان 45181 اور غیر مسلم 4664۔ تیسرا حصہ قادیان ہے جہاں مسلمان 10226 اور غیر مسلمان 1135 ہیں۔ اگر ہم تینوں کو اکٹھا لے لیں تو مسلمانوں کی مجموعی تعداد 73462 اور غیر مسلموں کی 22227 ہے‘‘۔

(Partition Of Punjab Vol. II; P:528)

گویا ساری کارروائی کے دوران قادیان اور احمدیوں کو مسلمانوں کے ساتھ شامل کیا جاتا رہا۔ لہٰذا یہ کہنا کہ احمدی الگ ہو گئے اور مسلمانوں کی اکثریت گھٹ گئی، ایک بیہودہ، نامعقول اورشرمناک جھوٹ ہے اور سرکاری ریکارڈ اس جھوٹ کی تردید کررہا ہے۔

شیخ بشیر احمد کی بحث کے دوران جب احمدیوں کی تعداد 5,00,000 بتائی گئی تو جسٹس تیجہ سنگھ نے پوچھا:

’’مسٹر جسٹس تیجہ سنگھ: کیا انہیں گزشتہ مردم شماری کے دوران علیحدہ شمار کیا گیا تھا۔

شیخ بشیر احمد: گزشتہ مردم شماری میں احمدیوں کا کوئی فرق روا نہیں رکھا گیا ۔ جو فرق تسلیم کیا گیا و ہ یہ تھا کہ اگر کوئی خود کو شیعہ ظاہر کرے تو اس کو شیعہ درج کیا جائے اوراگر کوئی شخص کوئی اور تفصیل بتائے تو اس کوسُنّی درج کیا جائے‘‘۔

مگر اٹارنی جنرل بااصراراس بات کو پیش کرتے رہے کہ احمدیوں نے باؤنڈری کمیشن میں الگ میمورینڈم پیش کرکے خود کو مسلمانوں سے علیحدہ ظاہر کیا جس سے مسلمانوں کی تعداد گھٹ گئی اور گورداسپور،ہندوستان کو چلاگیا۔ اٹارنی جنرل صاحب مسلم لیگی تھے اور سیاسی کارکن رہے ہیں۔اگر پہلے احراری لیڈروں کے مسلسل جھوٹ کے زیر اثر وہ کوئی غلط تأثر قائم کر بھی چکے تھے تو باؤنڈری کمیشن کی پوری کارروائی شائع ہوچکی ہے، اس سے استفادہ کر سکتے تھے۔ یقیناًجناب یحيٰ بختیار پڑھنے لکھنے کا ذوق رکھتے ہوں گے اور ان تاریخی دستاویزات کا مطالعہ تو انکا محبوب مشغلہ رہاہوگا۔ ان کے علم میں ہونا چاہئے تھا کہ یہ اعتراض مجلسِ احرار کی طرف سے اٹھایا گیا، کبھی مسلم لیگ کی ہائی کمان کی طرف سے یہ اعتراض نہیں اٹھایا گیا۔

مذہبی امور میں مولوی حضرات کے مہیّا کردہ سوالات کے بارہ میں اٹارنی جنرل صاحب کی مجبوری سمجھ میں آ سکتی ہے مگر اس سیاسی سوال پر اٹارنی جنرل صاحب کی لا علمی نا قابلِ فہم ہے۔ اﷲ وسایا کی کتاب سے ظاہر ہے کہ اٹارنی جنرل باؤنڈری کمیشن میں جماعت احمدیہ کے میمورینڈم کامطالعہ کر چکے تھے، کیونکہ احمدیوں کی تعداد کے بارے میں اُسی میمورینڈم کے حوالہ سے دوسری جگہ سوال و جواب موجود ہے۔

یہ اب تاریخی طور پر ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ریڈ کلف کا ایوارڈ غیرمنصفانہ تھا۔ ایوارڈ کا اعلان کرنے میں تاخیر ہورہی تھی۔ طرح طرح کی خبریں سننے میں آرہی تھیں ۔ جنکی وجہ سے چوہدری محمد علی صاحب جو مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری تھے وہ قائداعظم کے ارشاد پر قائداعظم کی تشویش کا اظہار کرنے کے لئے دہلی تشریف لے گئے اور یہ تشویش ضلع گورداسپور کے بارے میں تھی۔ اس بارے میں چوہدری محمد علی کا بیان یہ ہے:۔

When I reached Delhi, I went straight from the airport to the Viceroy’s house where Lord Ismay was working. I was told that Lord Ismay was closeted with Sir Cyril Radcliffe. I decided to wait until he was free. When, after about an hour, I saw him, I conveyed to him the Quaid-e-Azam’s message. In reply Ismay professed complete ignorance of Radcliffe’s ideas about the boundry and stated categorically that neither Mountbatten nor he himself had ever discussed the question with him. It was entirely for Radcliffe to decide and no suggestion of any kind had been or would ever be made to him. When I plied Ismay with details of what had been reported to us, he said he could not follow me. There was a map hanging in the room and I beckoned him to the map so that I could explain the position to him with its help. There was a pencil line drawn across the map of the Punjab. The line followed the boundary that had been reported to the Quaid-e-Azam. I said that it was unneccessary for me to explain further since the line, already drawn on the map, indicated the boundary I had been talking about. Ismay turned pale and asked in confusion who has been fooling with his map. This line differed from the final boundary in only one respect that the Muslim majoraty Tehseels of Ferozupr and Zera in the Ferozpur district were still on the side of Pakistanas in the sketch-map.

(Ch. Muhammad Ali, Emergence of Pakistan; Published by Research Society of Pakistan ; Page 218)

ترجمہ:۔

’’جب میں دہلی پہنچا تو میں ائرپورٹ سے سیدھا وائسرائے ہاؤس گیا جہاں لارڈایزمے کام کیا کرتے تھے۔ مجھے بتایا گیا کہ لارڈ ایزمے سر سیرل ریڈکلف کے ساتھ بند کمرے میں مصروف ہیں۔ میں نے فیصلہ کیا کہ ان کے فارغ ہونے تک میں انتظار کروں گا۔تقریبًا ایک گھنٹے بعد جب میں ان سے ملا تو میں نے انہیں قائد اعظم کا پیغام دیا۔ جوابًا لارڈ ایزمے نے باؤنڈری کمیشن سے متعلق ریڈکلف کے خیالات کے بارہ میں مکمل لاعلمی کا اظہار کیا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ نہ تو انہوں نے خود اور نہ ماؤنٹ بیٹن نے اس مسئلہ پر ان سے کوئی گفتگو کی ہے۔ فیصلہ کرنا کلیۃً ریڈکلف کا کام ہے اور کسی قسم کی کوئی تجویز نہ انہیں دی گئی ہے اور نہ دی جائے گی۔ جب میں نے ایزمے کو ان اطلاعات کی تفصیلات سے آگاہ کیا جو ہمیں مل رہی تھیں تو انہوں نے کہا کہ وہ میری بات سمجھ نہیں سکے۔ کمرے میں ایک نقشہ لٹکا ہوا تھا میں نے انہیں اس نقشہ کی طرف بلایا تا کہ نقشہ کی مدد سے صورتحال واضح کر سکوں۔پنجاب کے نقشہ کے بیچوں بیچ پنسل سے ایک لائن کھینچی ہوئی تھی اور یہ لائن اس باؤنڈری کے مطابق تھی جس کی اطلاعات قائداعظم کو مل رہی تھیں۔ میں نے کہا کہ اب مزید وضاحت ضروری نہیں ہے۔ کیونکہ نقشہ پر موجود لائن اس باؤنڈری کو ظاہر کر رہی ہے جس کے بارہ میں میں بات کر رہا ہوں۔ ایزمے کا رنگ پیلا پڑ گیا اور گھبراہٹ میں کہنے لگے ان کے نقشہ کو کون چھیڑتا رہا ہے۔ یہ لائن حتمی باؤنڈری سے صرف ایک لحاظ سے مختلف تھی یعنی فیروز پور اور زیرہ کی مسلمان اکثریت والی تحصیلیں اس وقت تک بھی اس نقشہ میں پاکستان کی طرف تھیں‘‘۔

جسٹس منیر اپنی کتاب From Jinah to Zia میں لکھتے ہیں۔

Another occasion for us to resign arose when after an interview with Sir Cyril at Simla Mr. Justice Din Muhammad came out with the impression that practically the whole of Gurdaspur with a link to Kashmir was going to India, but we were againasked to proceed with our work. (From Jinah to Zia;2nd Edition, Page 12)

ترجمہ:۔

’’ہمارے استعفیٰ دینے کا ایک اور موقعہ اس وقت پیدا ہوا جب شملہ میں سر سیرل سے ایک انٹرویو کے بعد جسٹس دین محمد یہ تاثر لے کر باہر آئے کہ گورداسپور کا سارا ضلع کشمیر کو ایک رابطہ کے ساتھ ہندوستان کو جا رہا ہے۔ لیکن ہمیں پھر یہ کہا گیا کہ ہم اپنا کام جاری رکھیں۔‘‘

پھر آگے چل کر گورداسپور کے بارہ میں لکھتے:۔

One of the moot points was Gurdaspur, a Muslim majority district and it became predominantly Muslim area if Pathankot was adjoined to the adjacent Hindu areas to the east. But Pathankot being not exclusively Hindu, the adhopur Headworks, which would mostly irrigate Muslim majority areas, with the area to the west of it, should be awarded to Pakistan, But the argument had no effect on him and he gave both Gurdapur and Batala, which had a Muslim majority, to India. Ajnala Tehsil in Ameritsaralso, which was Muslim area (59.04) he refused to join with the district of Lahore and gave it to India. (From Jinah to Zia; 2nd Edition, Page 13)

ترجمہ:۔’’زیر بحث سوالات میں سے ایک گورداسپور تھا جو مسلم اکثریت کا ضلع تھا اور اگر اس میں سے پٹھان کوٹ مشرقی جانب ہندو اکثریت کے حصہ کے ساتھ شامل کر دیا جاتا تو گورداسپور میں غالب اکثریت مسلم اکثریت ہو جاتی۔ لیکن پٹھان کوٹ چونکہ کلیۃً ہندو علاقہ میں تھا اور مادھو اور ہیڈورک سے زیادہ تر مسلم اکثریت کے علاقوں کی آب پاشی ہوئی تھی اس لئے یہ اس کی مغربی جانب کا حصہ پاکستان کو جانا چاہئے۔ لیکن اس دلیل کا اس پر کوئی اثر نہ ہوا اور اس نے گورداسپور اور بٹالہ دونوں مسلم اکثریت کے علاقے ہندوستان کو دے دیئے۔ امرتسر کی تحصیل اجنالہ جو مسلمان علاقہ تھا (59.04) کو اس نے لاہور کے ساتھ شامل کرنے سے انکار کر دیا اور وہ بھی ہندوستان کو دے دیا۔‘‘

جسٹس منیر مزید لکھتے ہیں :۔

There is conclusive proof, oral as well as documentary, that the award was altered in respect of the Ferozepure Tehsils and the areas that lie between the angle of theBeas and the Satluj. (From Jinah to Zia; 2nd Edition, Page 14)

ترجمہ:۔’’ اس بات کے زبانی اور تحریری طور پر قطعی ثبوت موجود ہیں کہ فیروز پور کی تحصیل اور ستلج اور بیاس کے درمیانی علاقوں کے بارے میں ایوارڈ میں ردوبدل کیا گیا۔‘‘

قائداعظم جو ایسے معاملوں میں بہت احتیاط سے کام لیتے تھے خود انہوں نے فرمایا:۔

The division of India has now been finally and irrevocably effected. No doubts, we feel the carving out of this great independent sovereign Muslim state has suffered injustices. We have been squeezed in as uch as it was possible in the latest blow that we have received was the Award of the boundary commmission. It is an unjust, incomprehensible and even perverse Award. It may be wrong unjust and perverse and it may not be a judicial but political Award, but we had agreed to abide by it and it is binding upon us. As honorable people, wemust abide by it. (Speeches and Statementsof Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinah(Lahore: Research Society of Pakistan;1976)Page; 432)

ترجمہ:۔

’’ ہندوستان کی تقسیم اب حتمی اور ناقابل تنسیخ طور پر عمل میں آ چکی ہے۔ اس میں بلاشبہ ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس عظیم خود مختار مسلم ریاست کے قیام میں ناانصافیاں ہوئی ہیں اور باؤنڈری کمیشن کے ہاتھ جو ہمیں آخری ضرب پہنچی ہے اس کے ذریعہ ہمیں جہاں تک ہو سکا ہے سکیڑ دیا گیا ہے۔ یہ ایک غیر منصفانہ ناقابل فہم بلکہ غلط ایوارڈ ہے۔ گو یہ غیر منصفانہ اور غلط ایوارڈ ہے اور یہ انصاف کی بجائے سیاست پر مبنی ایوارڈ ہے لیکن ہم نے اسے تسلیم کرنے کا اقرار کیا تھا اور اب ہم اس کے پابند ہیں۔ ایک باوقار قوم کی حیثیت سے ہمیں اسے قبول کرنا ہوگا۔‘‘

دنیا بھر کے محققین ریڈ کلف کی شرمناک بددیانتی پر متفق ہیں ۔ مگر مجلس احرار، کانگریسی علماء اور مجلس ختم نبوت کا سارا زور اس بات پر ہے کہ ریڈ کلف بیچارہ کیا کرتا، احمدیوں نے اعدادوشمار ہی ایسے دے دیئے۔گویا ریڈکلف تونہایت صاف ستھرا، دیانتداراور منصف مزاج آدمی تھا، ایوارڈ بالکل درست ہورہاتھا، احمدیوں نے الگ میمورینڈم داخل کرکے یا اعداد وشمار داخل کرکے گورداسپور کو ہندوستان میں شامل کرنے کا راستہ صاف کردیا۔ یہ ریڈکلف کے گماشتے اتنا بھی نہیں جانتے کہ گورداسپور اور زیرہ وغیرہ اعداد وشمار کی بنا پر ہندوستان کو نہیں دیئے گئے، Other Factors کی بنیاد پر دئیے گئے ۔اس بارے میں بددیانت اور ظالم ریڈکلف کوخود بھی شرم آئی اور وہ جو کسی بات کی توجیہ پیش کرنے کا پابند نہیں تھا اسے توجیہ پیش کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ چونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ کھلی کھلی بددیانتی کا مرتکب ہورہا تھا، اس لئے اس نے ایک لولا لنگڑا عذرپیش کر دیا۔

The Partition of Punjabکے شروع میں پیش لفظ کے بعد شریف الدین پیرزادہ کا ایک مضمون ریڈ کلف ایوارڈ کے بارہ میں شامل کیا گیا ہے ۔اس مضمون میں شریف الدین پیر زادہ جسٹس منیر کے مضمون Days to Remember کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ گورداسپور کے بارہ میں ریڈ کلف سے گفتگو کا ذکر کرتے ہوئے جسٹس منیر نے لکھا ہے :

It was a Muslim majority area and , therefore if a district was to be taken as a unit , the whole of it had to go to Pakistan. But if …..the district had to be partitioned , the Pathankot Tehsil could… be separated from it and joined with the contiguous non-Muslim area. Shakargarh was not only a Muslim majority area but also a physical entity, with the Ravi as its eastern boundary,and could not conceivably be split up .(27e)

ترجمہ:۔

’’ یہ مسلمان اکثریت کا علاقہ تھا لہٰذا اگر ضلع کو اکائی سمجھا جاتا تو یہ سارا ضلع پاکستان کو جانا چاہئے تھا لیکن اگر۔۔۔ضلع کو تقسیم کرنا تھا توپھر پٹھانکوٹ کو اس سے الگ کیا جاسکتا تھا ۔ شکر گڑھ نہ صرف مسلم اکثریتی علاقہ تھا بلکہ طبعی طور پر اکائی تھا کیونکہ راوی اس کی مشرقی سرحد بنتا تھا اور یوں اسے توڑنے کا کوئی تصور نہیں تھا‘‘۔

یہ اسی مضمون کا حوالہ ہے جس کا ذکر اٹارنی جنرل کررہے ہیں۔ گویا جسٹس منیر واضح طور پر لکھ رہے ہیں کہ گورداسپور مسلمان اکثریتی علاقہ ہی تھا۔ کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ اس کی مسلم اکثریت احمدیوں کی وجہ سے گھٹ گئی تھی۔

جسٹس منیر مزید لکھتے ہیں:۔

Further, there is intrinsic evidence in the award itself to show that this part of the award was not the result of an honest endevour to arrive at a just decision. I have already said that Sir Cyril gave no reasons for the award but for these two Tehsil’s remaining in India he did give a reason and that reason is nothing but convincing. The reason is as follwos: I have hesitated long over those not inconsiderable areas east of the Satluj river and in the angle of the Beas and Satluj River in which Muslim majorities are found but on the whole I have come to the conclusion that it would be in the interest of neither state to extend the territories of the west Punjab to a strip on the far side of the Satluj and that there are factors such as the disruption of railway communication and water systems that ought in this instance to displace the priary claims of contiguous majorities. But I must call attention to the fact that the Depalpur canal, which serves areas in the west Punjab, takes off from the Ferozpure headworks and I find it difficult to envisage a satisfactory demarcation of boundary at this point that is not accompanied by some arrangement for joint control of the intake ofthedifferent canals dependent on these headworks.”

(Notes on the Radcliffe Award by S Sharif-ud-Din Pirzada; The Partition of The Punjab, Vol I; — National Documentation Center, 1983, Page xxxvi)

ترجمہ:

’’مزید برآں ایوارڈ میں اس بات کے اندرونی شواہد موجود ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ ایوارڈ کسی منصفانہ نتیجہ پر پہنچنے کیلئے کسی دیانتدارانہ کوشش کا نتیجہ نہیں ہے۔ میں بتا چکا ہوں کہ سر سیرل ؔ نے اس ایوارڈ کی کوئی وجوہات یا دلائل بیان نہیں کئے۔ لیکن بایں ہمہ ان دو تحصیلوں کے ہندوستان میں شامل کرنے کی دلیل ضرور دی گئی ہے۔ اور وہ دلیل معقول (قائل کرنے والی) نہیں ہے۔ وہ دلیل یوں ہے، دریائے ستلج کے مشرق کی جانب معتدبہ علاقے جو تھوڑے بھی نہیں ہیں اور ستلج اور بیاس کے درمیانی علاقہ کے بارہ میں جو مسلم اکثریت کے علاقے ہیں۔میں طویل تذبذب کا شکار رہا ہوں لیکن بحیثیت مجموعی میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ دونوں ریاستوں میں سے کسی کے مفاد میں نہیں ہوگا کہ مغربی پنجاب کی حدود کو ستلج دریا کے بیرونی طرف تک بڑھا دیا جائے اور ریلوے کے رسل و رسائل اور آبپاشی کا نظام ایسے عوامل ہیں جو اس موقعہ پر ملحقہ اکثریتی آبادیوں کی دلیل پر حاوی ہیں۔ مجھے اس جانب توجہ دلانی ہے کہ دیپال پور نہر جو کہ مغربی پنجاب کے علاقوں کو سیراب کرتی ہے وہ فیروز پور ہیڈ ورکس سے نکلتی ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس نقطہ پر باؤنڈری کی ایسی نشاندہی بہت مشکل ہے جس میں اس ہیڈورکس سے نکلنے والی مختلف نہروں کے مشترکہ کنٹرول کا نظام شامل نہ ہو۔‘‘

شریف الدین پیرزادہ نے اپنے مضمون میں Aloys A. Michelکی کتاب The Indus Riverکا حوالہ بھی درج کیا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں:۔

But in Gurdaspur “other factors” came into consideration as they had in Ferozpur, and irrigation was one of them.Thus the argument form the irrigation standpoint would appear to have reinforced that from the population standpoint: if the principal of “contiguous majority” applied to districts as a whole, then it would have been quite logical and quite consistent to award Ferozpure, Amritsur, and Jullundur to India and Gurdaspur to Pakistan; if irrigation considerations were to take precedence, why not give Madhopur headworks to Pakistan, since the area served was mainly in the Lahore District, since Pakistan could not supply Lahore without supplying Amritsur on the way, and since – if Pakistan were to interfere with the supplies on two southern branches- India could retaliate by cutting of supplies from Ferozpure headworks to the Depalpur Canal?… Yet straight forward logic of irrigation consideration in Gurdaspur was apparently vitiated by still further “other factors” Gurdaspur included the only road linking the Eastern Punjab, and hence India, with Jammu and Kashmir, and the only bridge (on the Madhopur Barrage) over the Ravi above Lahore. The railways from Amritsur and Jullundur met at Pathankot, with a branch to Madhopur, although there was no rail connection across the river here (one was under construction in1965).Had Radcliffe awarded Gurdaspur to Pakistan, there would have been no land commmunication between India and Jammu-Kashmir (Notes on the Radcliffe Award by S Sharif-ud-Din Pirzada; The Partition of The Punjab, Vol I; — National Documentation Center, 1983, Page xxxix)

ترجمہ:۔

’’لیکن گورداسپور کے معاملہ میں”Other Factors” زیرِغور آگئے ، جیسا کہ فیروز پور کے بارہ میں آئے تھے اور آبپاشی کا نظام ان میں سے ایک تھا۔یوں نظام آبپاشی کی دلیل آبادی کی دلیل کو تقویت پہنچاتی ہوئی معلوم ہوتی ہے ۔ اگر’’ ملحقہ اکثریتی آبادی ‘‘ کا اصول ضلعوں پر مجموعی طور پر لاگو کیا جاتا تو منطقی طور پر فیروز پور ،ا مرتسر اور جالندھرہندوستان کو دئے جاتے اور گورداسپور پاکستان کو۔اور اگر نظامِ آبپاشی کی دلیل کو فوقیت دی جاتی تو پھر مادھوپور ہیڈورکس ، جس سے لاہور کا ضلع سیراب ہوتا تھا اور پاکستان کو پانی دئے بغیر لاہور کو پانی مہیا نہیں کر سکتا تھا، پاکستان کو کیوں نہ دیا جاتا۔ پاکستان دو جنوبی لہروں کا پانی روک لیتا تو ہندوستان فیروز پور ہیڈ ورکس سے دیپالپور کی نہر کا پانی روک سکتا تھا۔۔۔۔۔۔ مگر آبپاشی کی سیدھی سادی منطق گورداسپور کے معاملہ میں بظاہر مزید”Other Factors”کی زد میں آگئی۔ مشرقی پنجاب ، اور یوں ہندوستان کو جموں اور کشمیر سے ملانے والی واحد سڑک گورداسپور میں واقع تھی اور راوی پر مادھوپو ر ہیڈورکس کا پل لاہور کے بالائی علاقہ میں واحد پل تھا۔ امرتسر اور جالندھر سے ریل پٹھانکوٹ پر ملتی تھی، جس کی ایک شاخ مادھو پور کو جاتی تھی ۔ اگر چہ دریا کے اس پار ، اس وقت ریل کا کوئی راستہ نہیں تھا

(جو۱۹۶۵ء میں زیر تعمیرتھا) ۔اگر ریڈ کلف گورداسپور پاکستان کو دے دیتا تو ہندوستان اور جموں کشمیر کے درمیان کوئی زمینی رابطہ نہ رہتا‘‘۔

الغرض باؤنڈری کمیشن کے رکن جسٹس محمد منیر، قومی اور بین الاقوامی محققین سب اس بات پر متفق ہیں کہ گورداسپور بددیانتی سے ہندوستان کو دے دیا گیا اور اس بارہ میں اکثریت کے اصول کو نظر انداز کردیا گیا۔

یہ ساری تفصیلات پاکستان کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے کسی بھی بیدار مغز علم دوست اور سیاسی وقائع سے دلچسپی رکھنے والے شہری کو معلوم ہونی چاہئیں ۔کم از کم مسلم لیگی کارکنان اور سب سے بڑھ کر مسٹر یحییٰ بختیاراٹارنی جنرل کے علم میں ہونی چاہئے تھیں۔مگر اٹارنی جنرل تومولویوں کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے تھے۔ سچائی سے انہیں کوئی سروکار نہیں تھا اور جھوٹ کو اچھا ل رہے تھے۔

اٹارنی جنرل نے آگے چل کر پھر جسٹس منیر کے ایک اخباری مضمون کے حوالہ سے غلط اور نامکمل معلومات کی بنا پر یہ سوال کیا۔

’’اٹارنی جنرل : آزادی کی جدو جہد میں باؤنڈری کمیشن کا مرحلہ آتا ہے ۔ جسٹس منیر صاحب کے حوالے سے ظفراللہ خان کی بڑی خدمات ہیں ۔ وہ پاکستان کی نمائندگی کر رہے تھے ۔ مسلم لیگ کے وکیل تھے ۔ لیکن جسٹس منیر صاحب جو باؤنڈری کمیشن کے رکن تھے ‘انہوں نے ’’پاکستان ٹائمز۔ میں ۲۴ جون ۱۹۶۴ء آرٹیکل لکھے۔ ان میںیہ بھی تھا۔ ’’پاکستان ٹائمز‘‘ ۲۱ جون۱۹۶۴ ’’ میرے یادگار دن‘‘۔ معاملہ کے اس حصے کے متعلق میں ایک نہائت ہی ناخوشگوار واقعہ کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مجھے یہ بات کبھی سمجھ نہیں آئی کہ احمدیوں نے علیحدہ عرضداشت کیوں دی تھی ‘ اس قسم کی عرضداشت کی ضرورتبھی ہو سکتی تھی جب احمدی مسلم لیگ کے نقطۂ نظر سے متّفق نہ ہوتے ، جو کہ بذاتِ خود ایک افسوسناک صورتِ حال ہوتی ۔ہو سکتا ہے کہ اس طرح احمدی مسلم لیگ کے نقطۂ نظر کی تائید کرنا چاہتے ہوں مگر ایسا کرتے ہوئے انہوں نے گڑھ شنکر کے مختلف حصوں کے بارے میں اعدادوشمار دیئے جن سے یہ بات نمایاں ہوئی کہ بین دریا اور بسنتر دریا کے مابین کا علاقہ غیر مسلم اکثریت کا علاقہ ہے اور یہ بات اس تنازعہ کی دلیل بنتی تھی کہ اگر اچ دریا اور بین دریا کا درمیانی علاقہ ہندوستان کو مل جائے تو بین دریا اور بسنتر دریا کا درمیانی علاقہ خود بخودہندوستان کو چلا جاتا ہے ، جیسا کہ ہوا۔ احمدیوں نے جو رویہ اختیار کیا تھا ،وہ ہمارے لئے گورداسپور کے بارے میں خاصا پریشان کن ثابت ہوا۔

مسلمان ۵۱ فیصد تھے ‘ہندو ۴۹ فیصد ‘ احمدی ۲ فیصد ۔ جب یہ مسلمانوں سے علیحدہ ہو گئے تو مسلمان ۵۱ کی بجائے ۴۹ فیصد ہو گئے ۔ اس سے گورداسپور جاتا رہا اور کشمیر کا مسئلہ پیدا ہو گیا۔ آپ کہتے ہیں کہ ہم نے لیگ سے تعاون کیا مگر یہ قضیہ تو عجیب سا لگتا ہے۔

مرزاناصراحمد: جسٹس منیر صاحب نے اپنی رپورٹ میں ظفراللہ خان کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا، اب اس کے ۱۷ سال بعد جب بوڑ ھے ہو گئے تویہ بیا ن د ے دیا ۔ وہ بوڑھے ہو چکے تھے، باؤنڈری کمیشن کے یہ جج تھے۔ پہلے خراجِ تحسین اور اب یہ شکوک ۔ ۱۷ سال کی خاموشی کے بعد جب وہ کافی بوڑھے ہو چکے تھے ، شاید ممکن ہے بڑھاپے کی وجہ سے جو بات جوانی سے سمجھ آئی ہو ،وہ بڑھاپے میں نہ سمجھ آئی ہو۔

اٹارنی جنرل: یہ اچھا جواب ہے ۔ خیر میں صرف آپ کی توجہ دلانا چاہتا تھامگر علیحدہ یادداشت کیوں پیش کی‘‘۔

’’میرے یادگاردن‘‘ کے عنوان سے جسٹس محمد منیر کے جس مضمون کا ذکر کیا گیا ہے اس کے بارے میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جسٹس منیر کی عبارت نقل کرنے کے بعد جو نتیجہ اٹارنی جنرل کے سوال میں نکالا گیا ہے وہ اس بیان سے ہر گز نہیں نکلتا۔ یہ بات کہ’’مسلمان۵۱فیصد تھے ہندو۴۹فیصد اور احمدی ۲فیصد۔ جب یہ مسلمانوں سے علیحدہ ہوگئے تومسلمان ۵۱فیصد کی بجائے ۴۹فیصد ہوگئے اس سے گورداسپور جاتا رہا اور کشمیر کا مسئلہ پیدا ہوگیا۔آپ کہتے ہیں کہ ہم نے لیگ سے تعاون کیامگر یہ قضیہ تو عجیب سالگتاہے‘‘۔

یہ ساری بات جسٹس منیر کے مضمون میں نہیں۔

(۱)۔۔۔یہ بات بھی موجود نہیں کہ مسلمان ۵۱فیصد اورہندو۴۹فیصد تھے۔

(۲)۔۔۔یہ بھی نہیں کہ احمدی ۲فیصد تھے۔

(۳)۔۔۔یہ بات بھی جسٹس منیر کے مضمون میں موجود نہیں کہ احمدی مسلمانوں سے علیحدہ ہوگئے تو مسلمان ۴۹فیصد رہ گئے۔ یہ سارا اعداد وشمار کا افسانہ جسٹس منیر کے مضمون میں موجود نہیں،از خود تراش لیا گیاہے۔

جسٹس منیر نے اپنے بیان میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ گورداسپور اس وجہ سے جاتارہا کہ ’’احمدی مسلمانوں سے علیحدہ ہوگئے‘‘۔یہ سارا قصہ ہی ایک شرانگیز افسانہ ہے ۔ البتہ جسٹس منیر نے اپنے مضمون میں یہ لکھا:۔

’’انہوں نے گڑھ شنکر کے مختلف حصّوں کے بارے میں اعداد وشمار دیئے‘‘۔

اعداد وشمار کیا تھے؟ ان کا ذکر نہیں ۔ اس بیان کے بارے میں جو جواب حضرت مرزاناصر احمد صاحب کی طرف منسوب اللہ وسایا کی کتاب میں شائع کیا گیا ہے اس کو اٹارنی جنرل صاحب نظر انداز کرکے آگے چل پڑے ۔ اس سوال جواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ تفصیلات ضرورحذف کر دی گئی ہیں اور قارئین سے پوشیدہ رکھی گئی ہیں۔مگر اس سوال کے اندرایسے شواہد موجود ہیں اور جسٹس منیر کے پورے مضمون کے مطالعہ سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ مرزا ناصر احمد صاحب کا جواب جیسا بھی درج کیا گیا ہے وہ درست تھا۔ جسٹس منیر نے جب یہ مضمون لکھا تو ضعیف العمری کی وجہ سے انکی یادداشت ماند پڑچکی تھی اور ان کے حافظہ نے ساتھ نہیں دیا ۔اس بات کی اندرونی شہادت اس مضمون کے اندر موجود ہے اور بیرونی شہادت ریکارڈ پر موجود ہے۔

اندرونی شہادت

جسٹس منیر نے اپنے مضمون کے آغاز میں ہی خودلکھا :۔

’’حافظے کی مثال ایک ایسے باکس کی ہے جس کی گنجائش محدود ہو جو بچپن سے اس ترتیب سے بھرنا شروع ہوجاتا ہے جس ترتیب سے واقعات رونماہوتے ہیں تا وقتیکہ میری عمر میں پہنچ کر اوپر تک بھر جاتا ہے۔ فزیالوجی کے اسی اصول کے تحت پہلے رونما ہونے والے تازہ واقعات کی نسبت بہتر محفوظ رہتے ہیں۔چونکہ باکس بھر چکاہوتا ہے اور واقعات رونما ہونے کے جلد بعد ہی دوسرے رونما ہونے والے واقعات کی وجہ سے چھلک جاتے ہیں لیکن بعض تازہ واقعات اپنی اثر پذیری کی وجہ سے اتنے ٹھوس ہوتے ہیں کہ وہ کبھی نہیں بھولتے اور یاد داشت تازہ کرنے کی معمولی کوشش سے باآسانی اپنی شکل میں سامنے آجاتے ہیں۔ جومیں کہنے والا ہوں وہ مؤخرالذکر سے تعلق رکھتے ہیں‘‘۔

(۱)۔۔۔ پہلی بات تو واضح ہے جسٹس منیر کو خود اپنے حافظہ پر اسوقت پورا بھروسہ نہیں اور یاد داشت تازہ کرنے کی جس کوشش کا ذکر کیا ہے وہ کوشش جگہ جگہ دھوکہ دے گئی ہے۔ لہذا بعض باتیں جن کی دوسرے ذرائع سے تصد یق ہو سکتی ہو، یقیناًاہم ہیں ۔

(۲)۔۔۔ مضمون کی پہلی قسط کے کالم نمبر ۳ میں انہوں نے لکھا:۔

’’مسٹر شیتل وارڈ کانگرس کی طرف سے پیش ہوئے ۔ مسٹر ہرنام سنگھ سکھوں کی طرف سے اور سرمحمدظفر اللہ خان مسلم لیگ اور احمدیو ں کی طرف سے ‘‘۔

یہاں ان کے حافظہ نے واضح طور پر ٹھوکر کھائی ہے۔ ریکارڈ سے ظاہر ہے کہ ظفر اللہ خان مسلم لیگ کی طرف سے پیش ہوئے تھے، احمدیوں کی طرف سے نہیں ۔جماعت احمدیہ کی طرف سے شیخ بشیر احمد صاحب پیش ہوئے تھے ۔ حافظے نے جو یہاں ٹھوکر کھائی ہے اسکی اہمیت صرف یہ نہیں کہ انہوں نے احمدیو ں کی طرف سے سر ظفر اللہ کے پیش ہونے کا کہا بلکہ اصل اہمیت یہ ہے کہ شیخ بشیر احمد، جسٹس منیر کے ذہن سے بالکل غائب ہیں۔ لہذا انکی طرف سے پیش کردہ دلائل بھی انکے ذہن سے محو ہو چکے ہیں اور موجو د نہیں ۔

(۳)۔۔۔ اپنے مضمون کی تیسر ی قسط میں جہاں سے اٹارنی جنرل کا متصلہ سوال لیا گیا ہے جسٹس منیر نے یہ لکھا:۔

’’ احمدیوں نے گڑھ شنکر کے ایک حصے کے بارے میں ایسے اعدادوشمار دیئے جس سے یہ بات نمایاں ہو گئی کہ دریائے بین اور دریائے بنستر کا درمیانی علاقہ غیر مسلم اکثریت کا علاقہ ہے‘‘۔

اول تو گڑھ شنکر کے نام کی کوئی تحصیل گورداسپور میں تھی ہی نہیں ۔ گڑھ شکر ضلع ہوشیارپور کی تحصیل تھی۔ ظاہر ہے کہ وہ تحصیل شکر گڑھ کا ذکر کرنا چاہتے ہیں ۔یہا ں پر بھی ان کے حافظہ نے واضح ٹھوکر کھائی ہے ۔

(۴)۔۔۔ دریائے بین دریائے بسنترکا ذکر جماعت احمدیہ کے میمورنڈم میں سرے سے موجود ہی نہیں ۔ یہ بحث کانگرس کے وکیل مسٹر سیتل وارڈ نے اٹھائی تھی کہ تقسیم تحصیل اور ضلعوں کی بجائے دریاؤں کے درمیان دوآبوں کی بنیاد پر کی جائے اور دریاؤں اور نہروں کو سرحد بنایا جائے۔ تحصیل شکر گڑھ راوی کے اس پار واقع تھی اور واضح مسلم اکثریت کی تحصیل تھی لہذا کانگرس اسے دریاؤں کے درمیانی علاقوں کی بنیاد پر مشرقی پنجاب میں شامل کروانا چاہتی تھی ۔ جماعت احمدیہ کے میمورنڈم میں یا بحث میں کہیں بھی دریائے بین یا دریائے بسنتر کا ذکر موجود نہیں ۔ جماعت احمدیہ کا میمورنڈم پارٹیشن آف پنجاب کے صفحہ ۴۲۸تا صفحہ۴۴۹پرسرکاری طور پر شائع شدہ موجود ہے جو دیکھا جاسکتا ہے۔ جماعت احمدیہ نے دریاؤں کو سرحد بنانے کے اصول کی مخالفت کی تھی اور ایک دلیل یہ دی تھی کہ دریا اپنے رخ بدلتے رہتے ہیں ۔ بہر حال اس بارے میں جسٹس منیر کے حافظہ نے ٹھوکر کھائی ہے۔اس سے پہلے جسٹس منیر اپنے ایک عدالتی فیصلے میں واضح طور پر لکھ چکے تھے۔

’’ احمدیوں کے خلاف معاندانہ اور بے بنیاد الزامات لگائے گئے ہیں کہ باؤنڈری کمیشن کے فیصلے میں ضلع گورداسپور اس نے ہندوستان میں شامل کردیا کہ احمدیوں نے ایک خاص رویہ اختیارکیا۔‘‘

جوالزامات ۱۹۶۴ء کی تحریر کی بنیاد پر لگائے جا رہے ہیں انہیں ۱۹۵۴ء میں جسٹس منیر معاندانہ اور بے بنیاد قراردے چکے ہیں ۔ یہ ایک عدالتی فیصلے کا حصّہ ہے ۔عدالتی فیصلے حقائق و واقعات سامنے رکھ کر احتیاط کے ساتھ لکھے جاتے ہیں ۔ ۱۹۶۴ء کا بیا ن یادداشتوں پر مبنی ہے اور اس میں اندرونی تضاد موجود ہیں ۔

گورداسپور ایک سازش کے ماتحت ہند وستان میں شامل کیا گیااور اس بارے میں ناقابل تردید تاریخی شہادت موجو د ہے جو اوپر پیش کی جا چکی ہے۔

رہی یہ بات کہ تقسیم کے وقت جماعت احمدیہ نے ایک علیحدہ میمورینڈم کیوں داخل کیا ؟ اٹارنی جنرل کو معلوم ہونا چاہئے تھا اور اگر نہیں معلوم تھا تو انہیں متعلقہ محکمہ یا ریکارڈ سے اس بات کی تسلی کرلینی چاہئے تھی۔ اگر وہ ایسا کرتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ تقسیم پنجاب کے بارے میں سرکاری طور پرشائع کردہ ریکارڈ کے مطابق ۱۸؍جولائی ۱۹۴۷ء تک ۴۹میمورینڈم مختلف تنظیموں کی طرف سے داخل کئے گئے تھے جن کی فہرست ریکارڈ میں دستاویز ۲۴۳کے طور پر مذکورہ کتاب کے صفحہ ۴۷۴پر درج ہے۔ جن میں :۔

(۱)۔۔۔پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن ۔

(۲)۔۔۔ سٹی مسلم لیگ‘ منٹگمری ۔

(۳)۔۔۔ بٹالہ مسلم لیگ ،بٹالہ۔

(۴)۔۔۔ ڈسٹرکٹ مسلم لیگ، لدھیانہ ۔

(۵)۔۔۔ینگ مین مسلم ایسوسی ایشن‘سٹی اینڈ ڈسڑکٹ مسلم لیگ،جالندھر۔

(۶)۔۔۔ انجمن مغلیاں لوہاراں، ترکھاناں پنجاب۔

(۷)۔۔۔انجمن بھٹی راجپوتاں پنجاب۔

(۸)۔۔۔ انجمن راٹیاں جالندھر، تحصیل جالندھر۔

(۹)۔۔۔ مسلم راجپوت ایسوسی ایشن۔

(۱۰)۔۔۔ مسلم راجپوت کمیٹی تحصیل گڑھ شنکر اینڈ نواں شہر۔

(۱۱)۔۔۔مسلم لیدر مرچنٹ ایسوسی ایشن۔

(۱۲)۔۔۔ انجمن مدرسۃالبنات جالندھر۔

(۱۳)۔۔۔ مزنگ منڈی سرکل۔

کی طرف سے میمورینڈم داخل کئے گئے تھے اور یہ سارے میمورینڈم مسلم لیگ کی تائید میں تھے۔ اسی طرح بہت سی ہندو ‘ سکھ تنظیموں نے کانگریس کی تائید میں اپنے میمورینڈم داخل کئے ۔ عیسائیوں اور اینگلو انڈینز کی طرف سے مسلم لیگ کی تائید میں، پاکستان کے حق میں اور کچھ کانگریس کی تائید میں ، ہندوستان کی تائید میں داخل کئے گئے۔ اصل بات جو نمایاں طور پر واضح تھی وہ یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کا میمورینڈم دوسری بہت سی مسلم تنظیموں کے ساتھ مسلم لیگ کی تائید میں داخل کیا گیا تھااور اس کی وجہ یہ تھی کہ تقسیم پنجاب کے وقت پارٹیشن پلان کے ساتھ ایک فہرست اور ایک جدول بھی شامل کئے گئے تھے جس میں ۱۹۴۱ء کی مردم شماری کے مطابق پنجاب میں مسلم اکثریت کے ضلعوں کی تفصیل دی گئی تھی ۔ گورداسپور کا ضلع جو کہ مسلم اکثریت کا ضلع تھا اسے عارضی اور عبوری طور پر پاکستان میں شامل کیا گیا تھا۔مگروائسرائے نے اپنی پریس کانفرنس میں ضلع گورداسپور کے بارہ میں یہ اظہار کیا تھا کہ اس ضلع میں مسلمانوں کی اکثریت صرف ۸ء۰ فیصد ہے اس لئے ضلع گورداسپور کے بعض حصے لازماً غیر مسلم اکثریت کے ہوں گے۔چوہدری محمد علی اپنی کتاب Emergence of Pakistan میں لکھتے ہیں :

”at his press confrence of June 4 1947 Mount Batten was asked why he had, in the broad cast of previous evening on the June 3 Partition Plan, catagorcally stated that,” the ultimate boundries will be settled by a boundary commission and will almost certainly not be identical with those which have been provisionally adopted.” Mount Batten immidiately replied,” I put that in for the simple reason that in the district of Gurdaspur in the Punjab the population is 50.4 % Muslim, I think and 49.6 % non muslims. With a differance of 0.8 % You will see at once that it is unlikely that the boundary commission will throw the whole of the district into the Muslimmajority areas.”

(Ch. Muhammad Ali, Emergence of Pakistan; Published by Research Society of Pakistan ; Page 215)

ترجمہ:۔۴ جون ۴۷ ۱۹ء کی پریس کانفرنس میں ماؤنٹ بیٹن سے یہ پوچھا گیا کہ انہوں نے ۳؍ جون کے منصوبہ کے بارہ میں گزشتہ شب اپنی نشری تقریر میں دو ٹوک انداز میں یہ کیوں کہا کہ ’’ حتمی باؤنڈری کا تصفیہ باؤنڈری کمشن کرے گا اور یہ بات تقریباً یقینی ہے کہ حتمی باؤنڈری ،عبوری باؤنڈری کے ہوبہو مطابق نہیں ہو گی‘‘ ماؤنٹ بیٹن نے جواب دیا ،

’’میرے ایسا کرنے کی سیدھی سی وجہ یہ تھی کہ پنجاب کے ضلع گورداسپور میں مسلمان آبادی میرے خیال میں ۴ء۵۰ فیصدہے اور غیر مسلم آبادی ۶ء۴۹فیصد ہے ۔ آپ با آسانی سمجھ سکتے ہیں کہ یہ بات غیر اغلب ہے کہ صرف ۸ء۰ فیصد کے فرق کی وجہ سے باؤنڈری کمشن پورا ضلع ہی مسلم اکثریت کے حصہ میں ڈال دے۔

چونکہ گورداسپور جالندھر اور فیروزپور کے بعض علاقے اس عارضی اور عبوری سرحد (Notional Boundary) کے قریب تھے ۔ اس لئے اس عبوری سرحد کے قریب قریب واقع دونوں طرف کے علاقے گویا فریقین کے درمیان زیر بحث تھے ۔ کانگریس لاہور اور منٹگمری کے ضلعوں میں سے بھی کچھ علاقوں کا مطالبہ کررہی تھی اور مسلم لیگ امرتسراور فیروز پور کے علاقوں کا مطالبہ کررہی تھی۔ لہٰذا ان علاقوں کے لوگوں کی طرف سے اس امر کا اظہار کہ کانگریس اور مسلم لیگ کے مطالبات کے قطع نظر یہ سوال کہ ان علاقوں کے لوگ کسی طرف شامل ہونے کے خواہش مند ہیں بھی اہمیت اختیار کرگیاتھا۔چنانچہ اس علاقے کی بعض عیسائی تنظیموں نے پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کے بارے میں میمورنڈم داخل کئے۔

باؤنڈری کمیشن کےTerms Of Reference یہ تھے:۔

“For the Punjab:The boundary commission is instructed to demarcate the boundaries of the two parts of the Punjab on the basis of ascertaining the contiguous majorities areas of Muslims and Non-muslims. In doing so it will alsotake into account other factors.”

دونوں فریق Terms Of Referenceمیں Other Factorsکی شق کی وجہ سے اپنے اپنے حق میں استدلال کرناچاہتے تھے۔ جماعت احمدیہ کامیمورینڈم کوئی علیحدہ یا انوکھی چیز نہیں تھی ۔ اس دستاویز میں سارا زور اس بات پرہے کہ تقسیم پنجاب کے لئے خواہ کوئی طریقہ اپنایا جائے ‘ قادیان کو پاکستان کا حصّہ ہونا چاہئے ۔ اس کی تائید میں جماعت احمدیہ کی طرف سے شیخ

بشیر احمدایڈووکیٹ نے بحث کی جو جلد دوم کے صفحہ ۲۴۰ سے شروع ہوتی ہے اور بحث کا آغاز ہی اس فقرے سے ہوتاہے۔

’’میں اپنی معروضات کو ایک محدود سوال تک محدود رکھنا چاہتا ہوں یعنی مغربی پنجاب میں شامل کئے جانے کے لئے قادیان کا کلیم کیا ہے‘‘۔

صفحہ ۲۵۱پر ان کا یہ بیان درج ہے کہ ’’قادیان کے تقسیم کے Referenceمیں مسلمانوں کو یکجا رکھنا مقصود ہے اور آپس میں ملحقہ مسلم علاقوں کو یکجا رکھنا مقصد ہے ۔‘‘

انہوں نے کہا:۔

’’تقسیم کی بنیا د مذہب ہے ، قادیان اسلامی دنیا کا ایک بین الاقوامی زندہ مرکز بن چکا ہے‘‘۔لہذا ا س اکائی کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ہندوستان میں شامل ہوں یا پاکستان میں اور ہمارا فیصلہ یہ ہے کہ ہم پاکستان میں داخل ہوں گے۔

میمورنڈم میں صفحہ ۴۳۷پر جو نکات پیش کئے گئے ہیں ان میں سے نمبرایک پر یوں درج ہے:۔

’’قادیان ضلع گورداسپور کی تحصیل بٹالہ کے تھانہ بٹالہ میں واقع ہے ۔ ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ گورداسپور ضلع کو مغربی پنجاب میں شامل کئے جانے کا کلیم اتنا واضح اور مستحکم بنیادوں پر قائم ہے کہ عملاً اس بارے میں کوئی بحث بھی باؤنڈری کمیشن کے دائرہ سے باہر ہے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وائسرائے نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ کہا تھا کہ اس ضلع میں مسلمانوں کی اکثریت صرف زیرو پوائنٹ آٹھ فی صدہے۔ اس لئے ضلع گورداسپور کے بعض حصے لازماًغیر مسلم اکثریت کے ہوں گے۔ہماری گزارش یہ ہے کہ اس بارے میں وائسرائے کی معلومات درست نہیں تھیں۔ ۱۹۴۱ء کی مردم شماری رپورٹ کے مطابق ضلع گورداسپور کی مسلمان آبادی کُل آبادی کا ۱۴ء۴۹فی صد ہے۔ اس طرح سے مسلمانوں کی آبادی دوسروں کی نسبت ۸ء۲فی صدزیادہ ہے۔۸ء۰فی صد نہیں ‘‘۔

اس میمورنڈم میں مزید وضاحت یہ کی گئی کہ اگر اچھوت اقوام اور ہندوستانی عیسائی ہندوؤں اور سکھوں کا ساتھ دیں تب بھی مسلمان آبادی ۸ء۲ فیصد زائد ہے۔ مگر عیسائی راہنما ایس پی سنگھا، جو بٹالہ ضلع گورداسپور سے تعلق رکھتے ہیں، نے کہا …….کہ وہ پاکستان میں رہنا پسند کریں گے۔عیسائیوں کی آبادی ضلع گورداسپورمیں ۴۶ء۴فیصدہے ۔ اگر اس کو مسلمان آبادی کے ساتھ شامل کر لیا جائے تو پھر ضلع گورداسپور میں پاکستان میں شمولیت اختیا ر کرنے والوں کا تناسب۶۰ء۵۵فیصد ہو جاتا ہے۔ اور یہ معتدبہ تفاوت ہے ۔

میمورنڈم میں دوسری تحصیلوں کے بارے میں یہ اعداد وشمار دئیے گئے۔

(۱)۔۔۔تحصیل بٹالہ۰۷ء۵۵

(۲)۔۔۔تحصیل گورداسپور۱۵ء۵۲

(۳)۔۔۔تحصیل شکرگڑھ۱۴ء۵۳

(۴)۔۔۔تحصیل پٹھانکوٹ۸۸ء۳۸

اور اس میمورنڈم میں یہ واضح کیا گیا کہ تحصیل بٹالہ میں مسلمانوں کی آبادی ۱۴ء۱۰فی صد زیادہ ہے ۔تحصیل گورداسپور میں ۳۰ء۴شکرگڑھ میں ۲۸ء۶فی صد۔ اور اگر اُن عیسائیوں کو شامل کر لیا جائے جو پاکستان میں شمولیت کے خواہاں ہیں تو پھر تحصیل بٹالہ میں اکثریت ۵۳ء۶۰فی صد اور تحصیل شکرگڑھ میں۸۸ء۵۴فی صد ہو جاتی ہے۔

تحصیل پٹھانکوٹ کے بارے میں جماعت احمدیہ نے یہ کہا کہ اس کو بھی پاکستان میں شامل ہونا چاہئے ۔کیونکہ اس میں ’’OTHER FACTORS‘‘ کی شق کے تحت پاکستان میں شامل کئے جانے کے قوی دلائل موجود ہیں۔جو یہ ہیں کہ دریائے راوی اس تحصیل میں سے گزرتا ہے اور پھر مغربی پنجاب میں داخل ہوتا ہے اس میں سے جو نہریں نکالی گئی ہیں ان کا ھیڈورکس مادھوپور ہے۔ اور یہ نہریں مغربی پاکستان کے علاقے کو سیراب کرتی ہیں اور اس کو مشرقی پنجاب میں شامل کئے جانے کے نتائج بڑے بھیانک ہو سکتے ہیں ۔

جماعت احمدیہ کے میمورنڈم میں اس بات کا بھی جائزہ لیا گیا کہ اگر تحصیل بہ تحصیل آبادی کا جائزہ لیا جائے توبھی ضلع گورداسپور اور اسکی تمام تحصیلوں کو پاکستان میں آنا چاہئے اور اگر ذیل کو اکائی قرار دیا جائے یا تھانہ کو اکائی قرار دیا جائے توبھی قادیان کو پاکستان میں آنا چاہئے ۔ کیونکہ دِ ذیل جو کہ پچاس ساٹھ دیہات پر مشتمل اکائی ہوتی ہے اگر اس کو بنیا د بنایا جائے تو قادیان جو کہ دلّہ کی ذیل میں آتا ہے اس میں مسلمان اکثریت۱۰ء۶۱فی صد ہے اور قادیان سے مشرق کی جانب دریائے بیاس تک اورمغرب کی جانب بٹالہ تک سارے کے سارے ذیل مسلم اکثریت کے ذیل ہیں اس لئے قادیان کو پاکستان میں شامل ہونا چاہئے۔یہ میمورینڈم کتاب کی جلد اوّل کے صفحہ ۴۲۸سے لے کر ۴۵۹تک لفظ لفظ ریکارڈ پر موجود ہے ۔اس میمورینڈم کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک نہایت مدّلل اور قوی دستاویز ہے جس کا مطالعہ قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوگا۔

غرضیکہ حقائق اتنے واضح روشن اور واشگاف ہیں کہ اس بارہ میں اٹارنی جنرل کی طرف سے سوال اٹھایا جانانا قابلِ فہم ہے۔

تاریخ میں جن لوگوں کی وابستگیاں کانگریس کے ساتھ رہی ہوں اور جوسستی شہرت حاصل کرنے کے لئے پبلک سٹیج پر سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے کے لئے من گھڑت ‘غیر مستند بے سروپا الزامات دہرانے کے عادی ہوں ان کی بات اور ہے مگر قومی اسمبلی ہر شہری کے نزدیک متانت، وقاراور ثقہ بحث کی آئینہ دارہونی چاہئے تھی۔ خصوصی کمیٹی میں یہ سوال اٹھا کر کمیٹی کی پوری کارروائی کو مسندِاعتبار سے گرا کر مشتبہ بنا دیا گیا۔

کمیٹی کے سامنے جو بات زیرِ غور تھی وہ عقیدۂ ختمِ نبوت سے تعلق رکھتی تھی۔ اگر اس سوال کا مقصد تحریکِ پاکستان سے سیاسی وابستگی یا عدم وابستگی ظاہر کرنا تھا تو ترمیم ان الفاظ میں ہونی چاہئے تھی:۔

’’جو شخص تحریکِ پاکستان میں مسلم لیگ کے مفاد کے خلاف کام کر چکا ہو وہ آئین اور قانون کی اغراض سے غیر مسلم ہو گا اور پاکستانی شہریت کا حقدار نہ ہو گا۔‘‘

اگر یہ مقصد ہوتا تو جماعت احمدیہ تو اپنے علیحدہ میمورینڈم کے باوجود اس تعریف میں نہ آتی مگر یہ ختمِ نبوت والے احراری اور کانگریسی علماء ضرور اس تعریف میں آ جاتے۔ عقل دنگ ہے کہ اٹارنی جنرل ان مولویوں کے ہاتھوں ایسے بے بس ہو گئے کہ ان کو اپنا بنیادی ریفرینس ہی بھول گیا ۔مگر کیا کیجئے اﷲوسایا کی کتاب سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے ۔