دُرِّثمین اُردو

فہرست مضامین

شانِ اسلام

اِسلام سے نہ بھاگو راہِ ہدیٰ یہی ہے

اَے سونے والو جاگو! شمس الضّحٰی یہی ہے

مجھ کو قسم خدا کی جس نے ہمیں بنایا

اَب آسماں کے نیچے دینِ خدا یہی ہے

وہ دِلستاں نہاں ہے کِس رَہ سے اُس کو دیکھیں

اِن مشکلوں کا یارو! مشکل کُشا یہی ہے

باطن سِیہ ہیں جن کے اس دِیں سے ہیں وہ مُنکر

پر اَے اندھیرے والو! دِل کا دِیا یہی ہے

دنیا کی سب دُکانیں ہیں ہم نے دیکھی بھالیں

آخر ہوا یہ ثابت دَارُالشّفاء یہی ہے

سب خشک ہو گئے ہیں جتنے تھے باغ پہلے

ہر طرف مَیں نے دیکھا بُستاں ہرا یہی ہے

دُنیا میں اِس کا ثانی کوئی نہیں ہے شربت

پی لو تم اِس کو یارو! آبِ بقا یہی ہے

اِسلام کی سچائی ثابت ہے جیسے سورج

پر دیکھتے نہیں ہیں دُشمن بَلا یہی ہے

جب کھل گئی سچائی پھر اس کو مان لینا

نیکوں کی ہے یہ خصلت راہِ حیا یہی ہے

جو ہو مفید لینا جو بد ہو اُس سے بچنا

عقل و خِرَد یہی ہے فہم و ذکا یہی ہے

مِلتی ہے بادشاہی اِس دِیں سے آسمانی

اَے طالبانِ دولت! ظِلِّ ہُما یہی ہے

سب دیں ہیں اِک فسانہ شِرکوں کا آشیانہ

اُس کا ہے جو یگانہ چہرہ نما یہی ہے

سَو سَو نشاں دکھا کر لاتا ہے وہ بُلا کر

مجھ کو جو اُس نے بھیجا بس مُدّعا یہی ہے

کرتا ہے معجزوں سے وُہ یار دِیں کو تازہ

اِسلام کے چمن کی بادِ صبا یہی ہے

یہ سب نِشاں ہیں جن سے دیں اب تلک ہے تازہ

اَے گرنے والو دوڑو دیں کا عصا یہی ہے

کِس کام کا وُہ دِیں ہے جس میں نِشاں نہیں ہے

دِیں کی مِرے پیارو! زرّیں قبا یہی ہے

افسوس آریوں پر جو ہو گئے ہیں شپّر

وُہ دیکھ کر ہیں مُنکِر ظلم و جفا یہی ہے

معلوم کر کے سب کچھ محروم ہو گئے ہیں

کیا اِن نیوگیوں کا ذہنِ رسا یہی ہے

اِک ہیں جو پاک بندے اِک ہیں دِلوں کے گندے

جِیتیں گے صادق آخر حق کا مزا یہی ہے

اِن آریوں کا پیشہ ہر دَم ہے بدزبانی

ویدوں میں آریوں نے شاید پڑھا یہی ہے

پاکوں کو پاک فطرت دیتے نہیں ہیں گالی

پر اِن سِیہ دِلوں کا شیوہ سَدا یہی ہے

افسوس سبّ و توہِیں سب کا ہوا ہے پیشہ

کِس کو کہوں کہ اِن میں ہَرزہ دَرا یہی ہے

آخر یہ  آدمی تھے پھر کیوں ہوئے درندے

کیا جُون اِن کی بگڑی یا خود قضا یہی ہے

جس آریہ کو دیکھیں تہذیب سے ہے عاری

کِس کِس کا نام لیویں ہر سُو وَبا یہی ہے

لیکھو کی بدزبانی کارَدْ ہوئی تھی اس پر

پھر بھی نہیں سمجھتے حُمق و خطا یہی ہے

اپنے کیے کا ثمرہ لیکھو نے کیسا پایا

آخر خدا کے گھر میں بَد کی سزا یہی ہے

نبیوں کی ہتک کرنا اور گالیاں بھی دینا

کتوں سا کھولنا مُنہ تخمِ فنا یہی ہے

مِیٹھے بھی ہو کے آخر نِشتر ہی ہیں چلاتے

اِن تیرہ باطنوں کے دِل میں دغا یہی ہے

جاں بھی اگرچہ دیویں اِن کو بطورِ احساں

عادت ہے ان کی کُفراں رنج و عنا یہی ہے

ہندو کچھ ایسے بگڑے دِل پُر ہیں بُغض و کِیں سے

ہر بات میں ہے تَوہِیں طرزِ ادا یہی ہے

جاں بھی ہے اِن پہ قُرباں گر دِل سے ہوویں صافی

پس ایسے بدکُنوں کا مجھ کو گِلا یہی ہے

احوال کیا کہوں مَیں اِس غم سے اپنے دِل کا

گویا کہ اِن غموں کا مہماں سَرا یہی ہے

لیتے ہی جنم اپنا دُشمن ہوا یہ فرقہ

آخر کی کیا اُمیدیں جب اِبتدا یہی ہے

دِل پَھٹ گیا ہمارا تحقیر سُنتے سُنتے

غم تو بہت ہیں دِل میں پر جاں گزا یہی ہے

دنیا میں گرچہ ہو گی سَو قِسم کی بُرائی

پاکوں کی ہتک کرنا سب سے بُرا یہی ہے

غفلت پہ غافلوں کی روتے رہے ہیں مُرْسَلْ

پر اِس زماں میں لوگو! نوحہ نیا یہی ہے

ہم بد نہیں ہیں کہتے اُن کے مقدّسوں کو

تعلیم میں ہماری حکمِ خُدا یہی ہے

ہم کو نہیں سکھاتا وہ پاک بدزبانی

تقویٰ کی جڑھ یہی ہے صِدق و صفا یہی ہے

پر آریوں۱؎ کے دیں میں گالی بھی ہے عبادت

کہتے ہیں سب کو جُھوٹے کیا اِتّقا یہی ہے

۱؎ اگر ایسے لوگ بھی ان میں ہیں جو خدا کے پاک نبیوں کو گالیاں نہیں دیتے اور صلاحیّت اور شرافت رکھتے ہیں وہ ہمارے بیان سے باہر ہیں۔ منہ

جتنے نبی تھے آئے موسٰیؑ ہو یا کہ عیسٰیؑ

مکّار ہیں وُہ سارے اِن کی نِدا یہی ہے

اِک وید ہے جو سچّا باقی کتابیں ساری

جھوٹی ہیں اور جعلی اِک راہنما یہی ہے

یہ ہے خیال اِن کا پَربَت بنایا تِنکا

پر کیا کہیں جب اِن کا فہم و ذکا یہی ہے

کِیڑا جو دَب رہا ہے گوبر کی تہ کے نیچے

اُس کے گماں میں اُس کا اَرض و سما یہی ہے

ویدوں۲؎ کا سب خلاصہ ہم نے نیوگ پایا

اِن پُستکوں کی رُو سے کارَج بھلا یہی ہے

۲؎ اس جگہ وید کے لفظ سے وہ تعلیم مُراد ہے جو آریہ سماج والوں نے اپنے زعم میں ویدوں کے حوالہ سے شائع کی ہے، ورنہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہم ویدوں کی اصل حقیقت کو خدا تعالیٰ کے حوالے کرتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے اسمیں کیا بڑھایا اور کیا گھٹایا۔ جب کہ ہندوستان اور پنجاب میں وید کی پیروی کا دعویٰ کرنے والے صدہا مذہب ہیں تو ہم کسی خاص فرقہ کی غلطی کو وید پر کیونکر تھوپ سکتے ہیں۔ پھر یہ بھی ثابت ہے کہ وید بھی محرف ہوچکا ہے۔ پس بوجہ تحریف اس سے کسی بہتری کی امید بھی لاحاصل ہے۔منہ

جس اِستری۱؎ کو لڑکا پیدا نہ ہو پِیا۲؎ سے

ویدوں کی رُو سے اُس پر واجب ہوا یہی ہے

۱؎ عورت ۲؎ خاوند

جب ہے یہی اشارہ پھر اس سے کیا ہے چارہ

جب تک نہ ہوویں گیارہ(۱۱) لڑکے رَوا یہی ہے

ایشر کے گُن عجب ہیں ویدوں میں اے عزیزو!

اس میں نہیں مروَّت ہم نے سُنا یہی ہے

دے کر نجات و مُکتی پھر چھینتا ہے سب سے

کیسا ہے وہ دیالُو جس کی عطا یہی ہے

ایشر بنا ہے مُنہ سے خالق نہیں کِسی کا

رُوحیں ہیں سب اَنادی پھر کیوں خدا یہی ہے

رُوحیں اگر نہ ہوتیں ایشر سے کچھ نہ بنتا

اس کی حکومتوں کی ساری بِنا یہی ہے

اُن کا ہی مُنہ ہے تکتا ہر کام میں جو چاہے

گویا وہ بادشہ ہیں اُن کا گدا یہی ہے

القصّہ آریوں کے ویدوں کا یہ خدا ہے

اُن کا ہے جس پہ تکیہ وُہ بے نَوا یہی ہے

اے آریو! کہو اب ایشر کے ہیں یہی گُن

جس پر ہو ناز کرتے بولو وہ کیا یہی ہے

ویدوں کو شرم کر کے تم نے بہت چُھپایا

آخر کو راز بستہ اُس کا کھلا یہی ہے

قدرت نہیں ہے جس میں وہ خاک کا ہے ایشر

کیا دینِ حق کے آگے زور آزما یہی ہے

کچھ کم نہیں بُتوں سے یہ ہندوؤں کا ایشر

سچ پوچھئے تو واللہ بُت دوسرا یہی ہے

ہم نے نہیں بنائیں یہ اپنے دِل سے باتیں

ویدوں سے اَے عزیزو ہم کو مِلا یہی ہے

فِطرت ہر اِک بشر کی کرتی ہے اس سے نفرت

پھر آریوں کے دِل میں کیونکر بسا یہی ہے

یہ حکم وید کے ہیں جن کا ہے یہ نمونہ

ویدوں سے آریوں کو حاصل ہوا یہی ہے

خوش خوش عمل ہیں کرتے اوباش سارے اس پر

سارے نیوگیوں کا اِک آسرا۱؎ یہی ہے

۱؎ یاد رہے کہ وید کی تعلیم سے مراد ہماری اس جگہ وہ تعلیمیں اور وہ اُصول ہیں جن کو آریہ لوگ اس جگہ ظاہر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نیوگ کی تعلیم وید میں موجود ہے۔ اور بقول اُنکے وید بلند آواز سے کہتا ہے کہ جس کے گھر میں کوئی اولاد نہ ہو یا صرف لڑکیاں ہوں تو اس کیلئے یہ ضروری اَمر ہے کہ وہ اپنی بیوی کو اجازت دے کہ وہ دوسرے سے ہم بستر ہو اور اس طرح اپنی نجات کے لئے لڑکا حاصل کرے اور گیارہ لڑکے حاصل کرنے تک یہ تعلّق قائم رہ سکتا ہے اور اس کا خاوند کہیں سفر میں گیا ہو تو خود اس کی بیوی نیوگ کی نیّت سے کسی دوسرے آدمی سے آشنائی کا تعلق پیدا کر سکتی ہے تا اِس طریق سے اولاد حاصل کرے اور پھر خاوند کے سفر سے واپس آنے پر یہ تحفہ اس کے آگے پیش کرے اور اُس کو دکھاوے کہ تُو تو مال حاصل کرنے گیا تھا، مگر مَیں نے تیرے پیچھے یہ مال کمایا ہے۔ پس عقل اور غیرتِ انسانی تجویز نہیں کر سکتی کہ یہ بے شرمی کا طریق جائز ہو سکے۔ اور کیونکر جائز ہو؟ حالانکہ اس بیوی نے خاوند سے طلاق حاصل نہیں کی اور اس کی قیدِ نکاح سے اُس کو آزادی حاصل نہیں ہوئی۔

افسوس بلکہ ہزار افسوس کہ یہ وہ باتیں ہیں جو آریہ لوگ وید کی طرف منسوب کرتے ہیں، مگر ہم نہیں کہہ سکتے کہ درحقیقت یہی تعلیم وید کی ہے ۔ ممکن ہے ہندوؤں کے بعض جوگی جو مجرّد رہتے ہیں اور اندر ہی اندر نفسانی جذبات ان کو مغلوب کرلیتے ہیں اُنہوں نے یہ باتیں خود بنا کر وید کی طرف منسوب کردی ہوں یا تحریف کے طور پر ویدوں میں شامل کر دی ہوں، کیونکہ محقق پنڈتوں نےلکھا ہے کہ ایک زمانہ ویدوں پر وہ بھی آیا ہے کہ ان میں بڑی تحریف کی گئی ہے اور ان کے بہت سے پاک مسائل بدلا دیئے گئے ہیں، ورنہ عقل قبول نہیں کرتی کہ وید نے ایسی تعلیم دی ہو اور نہ کوئی فطرتِ صحیحہ قبول کرتی ہے کہ ایک شخص اپنی پاکدامن بیوی کو بغیر اس کے کہ اس کو طلاق دے کر شرعی طور پر اُس سے قطع تعلّق کرے۔ یُونہی اولاد حاصل کرانے کے لئے اپنے ہاتھ دوسرے سے ہم بستر کرا دے۔ کیونکہ یہ تو دیّوثوں کا کام ہے۔ ہاں اگر کسی عورت نے طلاق حاصل کر لی ہو اور خاوندسے اس کا کوئی تعلق نہ رہا ہو تو اس صورت میں ایسی عورت کے لئے جائز ہے کہ دوسرے سے نکاح کرے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور نہ اس کی پاکدامنی پر حرف، ورنہ ہم بلند آواز سے کہتے ہیں کہ نیوگ کا نتیجہ اچھا نہیں ہے۔

جس صورت میں آریہ سماج کے لوگ ایک طرف تو عورت کے پَردہ کے مخالف ہیں کہ یہ مسلمانوں کی رَسم ہے۔ پھر دوسری طرف جبکہ ہر روز نیوگ کا ’’پاک‘‘ مسئلہ ان عورتوں کے کانوں تک پہنچتا رہتا ہے اور ان عورتوں کے دلوں میں جما ہوا ہے کہ ہم دوسرے مردوں سے بھی ہم بستر ہو سکتی ہیں، تو ہر ایک دانا سمجھ سکتا ہے کہ ایسی باتوں کے سُننے سے خاص کر جبکہ ویدوں کے حوالہ سے بیان کی جاتی ہیں کس قدر ناپاک شہوات عورتوں کی جوش ماریں گی بلکہ وہ تو دس قدم اور بھی آگے بڑھیں گی اور جبکہ پردہ کا پُل بھی ٹوٹ گیا تو ہر ایک سمجھ سکتا ہے کہ ان ناپاک شہوتوں کا سیلاب کہاں تک خانہ خرابی کرے گا۔ چنانچہ جگن ناتھ اور بنارس اور کئی جگہ میں اسکے نمونے بھی موجود ہیں۔ کاش! اس قوم میں کوئی سمجھدار پیدا ہو!

اور ہمیں یہ بھی سمجھ نہیں آتا کہ مکتی حاصل کرنے کیلئے اولاد کی ضرورت کیوں ہے؟ کیا ایسے لوگ جیسے پنڈت دیانند تھا جس نے شادی نہیں کی اور نہ کوئی اولاد ہوئی مکتی سے محروم ہیں؟ اور ایسی مکتی پر تو لعنت بھیجنا چاہیے کہ اپنی عورت کو دوسرے سے ہم بستر کرا کر اور ایسا فعل اس سے کرا کر جو عام دنیاکی نظر میں زنا کی صورت میں ہی حاصل ہو سکتی ہے اور بجز اس ناپاک فعل کے اور کوئی ذریعہ اس کی مکتی کا نہیں۔ اور یہ بھی ہم نہیں سمجھ سکتے کہ جو ہزاروں طاقتیں اور قوّتیں اور خاصیتیں رُوحوں اور ذرّاتِ اجسام میں ہیں وہ سب قدیم سے خودبخود ہیں پرمیشر سے وہ حاصل نہیں ہوئیں۔ پھر ایسا پرمیشر کس کام کا ہے اور اس کے وجود کا ثبوت کیا ہے؟ اور کیا وجہ کہ اس کو پرمیشر کہا جائے اور کامل اطاعت کا وہ کیونکر مستحق ہو سکتا ہے۔ جبکہ اس کی پرورش کامل نہیں اور جن طاقتوں کو اُس نے آپ نہیں بنایا اُن کا علم اُس کو کیونکر ہے؟ اور جبکہ وہ ایک رُوح کے پیدا کرنے کی بھی قدرت نہیں رکھتا تو کن معنوں سے اُس کو سرب شکتی مان کہا جاتا ہے جبکہ اس کی شکتی صرف جوڑنے تک ہی محدود ہے۔ میرا دل تو یہی گواہی دیتا ہے کہ یہ ناپاک تعلیمیں وید میں ہرگز نہیں ہیں۔ پرمیشر تو تبھی پرمیشر رہ سکتا ہے جبکہ ہر ایک فیض کا وہی مبداء ہو۔ ویدانت والوں نے بھی اگرچہ غلطیاں کی ہیں، مگر تھوڑی سی اصلاح سے ان کا مذہب قابلِ اعتراض نہیں رہتا، مگر دیانند کا مذہب تو سراسر گند ہی معلوم ہوتا ہے کہ دیانند نے ان جھوٹے فلسفیوں اور منطقیوں کی پیروی کی ہے جن کو وید سے کچھ بھی تعلق نہ تھا بلکہ وید کے دَر پردہ پکّے دشمن تھے۔ اسی وجہ سے ان کے مذہب میں پرمیشر کی وہ تعظیم نہیں جو ہونی چاہئے اور نہ پاک دل جوگیوں کی طرح پرمیشر سے ملنے کے لئے مجاہدات کی تعلیم ہے۔ صرف تعصّب اور خدا تعالیٰ کے پاک نبیوں سے کینہ اور گالیاں دینا ہی یہ شخص بدنصیب اپنے چیلوں کو سکھا گیا ہے۔ بلکہ یوں کہوکہ ایک زہر کا پیالہ پلا گیا ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہمارا سب اعتراض دیانند کے فرضی ویدوں پر ہے نہ خدا کی کسی کتاب پر۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ۔ منہ

پھر کِس طرح وُہ مانیں تعلیمِ پاکِ فُرقاں

اُن کے تو دِل کا رہبر اور مُقتدا یہی ہے

جب ہو گئے ہیں مُلزم اُترے ہیں گالیوں پر

ہاتھوں میں جاہلوں کے سنگِ جفا یہی ہے

رُکتے نہیں ہیں ظالم گالی سے ایک دم بھی

اِن کا تو شغل و پیشہ صبح و مسا یہی ہے

کہنے کو وید والے پر دِل ہیں سب کے کالے

پَردہ اُٹھا کے دیکھو اِن میں بھرا۱؎ یہی ہے

۱؎ اگر ایسے لوگ بھی ان میں ہیں جو خدا کے پاک نبیوں کو گالیاں نہیں دیتے اور صلاحیت اور شرافت رکھتے ہیں وہ ہمارے اس بیان سے باہر ہیں۔ منہ

فِطرت کے ہیں درندے مُردار ہیں نہ زندے

ہر دم زباں کے گندے قہرِ خدا۲؎ یہی ہے

۲؎ یاد رہے کہ یہ ہماری رائے اُن آریہ سماج والوں کی نسبت ہے جنہوں نے اپنے اشتہاروں اور رسالوں اور اخباروں کے ذریعہ سے اپنی گندی طبیعت کا ثبوت دیدیا ہے اور ہزارہا گالیاں خدا تعالیٰ کے پاک نبیوں کو دی ہیں جن کی اخبار اور کتابیں ہمارے پاس موجود ہیں، مگر شریف طبع لوگ اس جگہ ہماری مراد نہیں ہیں اور نہ وہ ایسے طریق کو پسند کرتے ہیں۔ منہ

دینِ خدا کے آگے کچھ بن نہ آئی آخر

سب گالیوں پہ اُترے دل میں اُٹھا یہی ہے

شرم و حیا نہیں ہے آنکھوں میں اُن کے ہرگز

وہ بڑھ چکے ہیں حد سے اب اِنتہا یہی ہے

ہم نے ہے جس کو مانا قادر ہے وہ توانا

اُس نے ہے کچھ دِکھانا اس سے رجا یہی ہے

اِن سے دو چار ہونا عزّت ہے اپنی کھونا

ان سے ملاپ کرنا راہِ رِیا یہی ہے

بس اَے مِرے پیارو! عقبیٰ کو مت بسارو

اِس دیں کو پاؤ یارو بدر الدّجیٰ یہی ہے

مَیں ہُوں سِتم رسیدہ اُن سے جو ہیں رمیدہ

شاہد ہے آبِ دیدہ واقف بڑا یہی ہے

مَیں دِل کی کیا سُناؤں کِس کو یہ غم بتاؤں

دُکھ درد کے ہیں جھگڑے مجھ پر بلا یہی ہے

دِیں کے غموں نے مارا اب دل ہے پارہ پارہ

دِلبر کا ہے سہارا ورنہ فنا یہی ہے

ہم مر چکے ہیں غم سے کیا پوچھتے ہو ہم سے

اس یار کی نظر میں شرطِ وفا یہی ہے

برباد جائیں گے ہم گر وہ نہ پائیں گے ہم

رونے سے لائیں گے ہم دِل میں رجا یہی ہے

وہ دن گئے کہ راتیں کٹتی تھیں کر کے باتیں

اَب موت کی ہیں گھاتیں غم کی کتھا یہی ہے

جلد آ پیارے ساقی اب کچھ نہیں ہے باقی

دے شربتِ تلاقی حِرص و ہَوا یہی ہے

شکرِ خدائے رحماں! جس نے دِیا ہے قرآں

غنچے تھے سارے پہلے اب گُل کھِلا یہی ہے

کیا وصف اس کے کہنا ہر حرف اس کا گہنا

دِلبر بہت ہیں دیکھے دِل لے گیا یہی ہے

دیکھی ہیں سب کتابیں مجمل ہیں جیسی خوابیں

خالی ہیں اُن کی قابیں خوانِ ہُدیٰ یہی ہے

اُس نے خدا ملایا وہ یار اُس سے پایا

راتیں تھیں جتنی گذریں اب دِن چڑھا یہی ہے

اُس نے نشاں دکھائے طالب سبھی بلائے

سوتے ہوئے جگائے بس حق نُما یہی ہے

پہلے صحیفے سارے لوگوں نے جب بگاڑے

دُنیا سے وہ سدھارے نوشہ نیا یہی ہے

کہتے ہیں حُسنِ یوسف ؑ دلکش بہت تھا لیکن

خوبی و دِلبری میں سب سے سوا یہی ہے

یوسف ؑ تو سن چکے ہو اِک چاہ میں گرا تھا

یہ چاہ سے نکالے جس کی صَدا یہی ہے

اِسلام کے محاسن کیونکر بیاں کروں مَیں

سب خشک باغ دیکھے پُھولا پَھلا یہی ہے

ہر جا زمیں کے کیڑے دِیں کے ہوئے ہیں دشمن

اِسلام پر خدا سے آج اِبتلا یہی ہے

تھم جاتے ہیں کچھ آنسو یہ دیکھ کر کہ ہر سُو

اِس غم سے صادقوں کا آہ و بُکا یہی ہے

سب مشرکوں کے سر پر یہ دیں ہے ایک خنجر

یہ شرک سے چھڑاوے اُن کو اَذیٰ یہی ہے

کیوں ہو گئے ہیں اس کے دُشمن یہ سارے گمراہ

وہ رہنما ہے رازِ چُون و چَرا یہی ہے

دِیں غار میں چُھپا ہے اِک شور کُفر کا ہے

اب تم دُعائیں کر لو غارِ حرا یہی ہے

وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نُور سارا

نام اُس کا ہے محمدؐ دلبر مِرا یہی ہے

سب پاک ہیں پیمبر اِک دُوسرے سے بہتر

لیک از خدائے برتر خیر الوریٰ یہی ہے

پہلوں سے خوب تر ہے خوبی میں اِک قمر ہے

اُس پر ہر اِک نظر ہے بدرُ الدّجیٰ یہی ہے

پہلے تو رہ میں ہارے پار اُس نے ہیں اُتارے

مَیں جاؤں اُس کے وارے۱؎ بس ناخدا یہی ہے

۱؎ قربان

پردے جو تھے ہٹائے اندر کی رہ دکھائے

دِل یار سے ملائے وہ آشنا یہی ہے

وہ یارِ لامکانی، وہ دلبرِ نہانی

دیکھا ہے ہم نے اس سے بس رہ نُما یہی ہے

وہ آج شاہِ دیں ہے وہ تاجِ مرسلیں ہے

وہ طیّب و اَمِیں ہے اُس کی ثناء یہی ہے

حق سے جو حکم آئے سب اُس نے کر دکھائے

جو راز تھے بتائے نعم العطاء یہی ہے

آنکھ اُس کی دُوربیں ہے دِل یار سے قریں ہے

ہاتھوں میں شمعِ دیں ہے عینُ الضیاء یہی ہے

جو رازِ دیں تھے بھارے اُس نے بتائے سارے

دولت کا دینے والا فرماں روا یہی ہے

اُس نُور پر فدا ہوں اُس کا ہی مَیں ہوا ہوں

وہ ہے مَیں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے

وہ دلبرِ یگانہ عِلموں کا ہے خزانہ

باقی ہے سب فسانہ سچ بے خطا یہی ہے

سب ہم نے اُس سے پایا شاہد ہے تُو خدایا

وہ جس نے حق دِکھایا وہ مہ لقا یہی ہے

ہم تھے دِلوں کے اندھے سَو سَو دِلوں میں پھندے

پھر کھولے جس نے جندے۱؎ وہ مجتبیٰ یہی ہے

۱؎ جندے سے مراد اس جگہ قفل ہے۔ چونکہ اس جگہ کوئی شاعری دکھلانا منظور نہیں اور نہ مَیں یہ نام اپنے لئے پسند کرتا ہوں۔ اس لئے بعض جگہ مَیں نے پنجابی الفاظ استعمال کئے ہیں اور ہمیں صرف اردو سے کچھ غرض نہیں اصل مطلب امر حق کو دلوں میں ڈالنا ہے۔ شاعری سے کچھ تعلق نہیں ہے۔منہ

اَے میرے ربِّ رحمٰں تیرے ہی ہیں یہ احساں

مشکل ہو تجھ سے آساں ہر دم رجا یہی ہے

اَے میرے یارِ جانی! خود کر تو مہربانی

ورنہ بَلائے دُنیا اِک اژدھا یہی ہے

دِل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چُوموں

قرآں کے گِرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے

جلد آمرے سہارے غم کے ہیں بوجھ بھارے

مُنہ مت چھپا پیارے میری دوا یہی ہے

کہتے ہیں جوشِ اُلفت یکساں نہیں ہے رہتا

دِل پر مرے پیارے ہر دم گھٹا یہی ہے

ہم خاک میں ملے ہیں شاید ملے وہ دِلبر

جیتا ہوں اِس ہَوس سے میری غذا یہی ہے

دُنیا میں عِشق تیرا باقی ہے سب اندھیرا

معشوق ہے تو میرا عشقِ صفا یہی ہے

مُشتِ غبار اپنا تیرے لئے اُڑایا

جب سے سُنا کہ شرطِ مہر و وفا یہی ہے

دِلبر کا دَرد آیا حرفِ خودی مِٹایا

جب مَیں مَرا جِلایا جامِ بقا یہی ہے

اِس عشق میں مصائب سَو سَو ہیں ہر قدم میں

پر کیا کروں کہ اس نے مجھ کو دیا یہی ہے

حرفِ وَفا نہ چھوڑوں اِس عہد کو نہ توڑوں

اِس دلبرِ ازل نے مجھ کو کہا یہی ہے

جب سے ملا وہ دِلبر دُشمن ہیں میرے گھر گھر

دِل ہو گئے ہیں پتھر قدر و قضا یہی ہے

مجھ کو ہیں وہ ڈراتے پھر پھر کے در پہ آتے

تیغ و تبر دِکھاتے ہر سُو ہَوا یہی ہے

دِلبر کی رہ میں یہ دل ڈرتا نہیں کسی سے

ہشیار ساری دُنیا اِک باؤلا یہی ہے

اِس رہ میں اپنے قصّے تم کو مَیں کیا سُناؤں

دُکھ دَرد کے ہیں جھگڑے سب ماجرا یہی ہے

دِل کر کے پارہ پارہ چاہوں مَیں اِک نظارہ

دِیوانہ مت کہو تم عقلِ رسا یہی ہے

اَے میرے یارِ جانی! کر خود ہی مہربانی

مت کہہ کہ لَنْ تَرَانِیْ تجھ سے رجا یہی ہے

فرقت بھی کیا بنی ہے ہر دم میں جاں کنی ہے

عاشق جہاں پہ مرتے وہ کربلا یہی ہے

تیری وفا ہے پوری ہم میں ہے عیبِ دُوری

طاعت بھی ہے اَدھُوری ہم پر بَلا یہی ہے

تُجھ میں وفا ہے پیارے سچے ہیں عہد سارے

ہم جا پڑے کنارے جائے بُکا یہی ہے

ہم نے نہ عہد پالا یاری میں رخنہ ڈالا

پر تو ہے فضل والا ہم پر کھلا یہی ہے

اَے میرے دِل کے درماں ہجراں ہے تیرا سوزاں

کہتے ہیں جس کو دوزخ وہ جاں گزا یہی ہے

اِک دیں کی آفتوں کا غم کھا گیا ہے مجھ کو

سینہ پہ دشمنوں کے پتّھر پڑا یہی ہے

کیونکر تبہ وہ ہووے کیونکر فنا وہ ہووے

ظالم جو حق کا دشمن وہ سوچتا یہی ہے

ایسا زمانہ آیا جس نے غضب ہے ڈھایا

جو پیستی ہے دِیں کو وہ آسیا یہی ہے

شادابی و لطافت اس دیں کی کیا کہوں مَیں

سب خشک ہوگئے ہیں پھولا پھلا یہی ہے

آنکھیں ہر ایک دِیں کی بے نور ہم نے پائیں

سُرمہ سے معرفت کے اِک سُرمہ سا یہی ہے

لعلِ یمن بھی دیکھے دُرِّ عدن بھی دیکھے

سب جوہروں کو دیکھا دِل میں جچا یہی ہے

اِنکار کر کے اِس سے پچھتاؤ گے بہت تم

بنتا ہے جس سے سونا وہ کیمیا یہی ہے

پر آریوں کی آنکھیں اَندھی ہوئی ہیں ایسی

وہ گالیوں پہ اُترے دِل میں پڑا یہی ہے

بدتر ہر ایک بد سے وہ ہے جو بد زباں ہے

جس دل میں یہ نجاست بیت الخلا یہی ہے

گو ہیں بہت درندے انسان کی پوستیں میں

پاکوں کا خوں جو پِیوے وہ بھیڑیا یہی ہے

کِس دیں پہ ناز اُن کو جو وید۱؎ کے ہیں حامی

مذہب جو پھل سے خالی وہ کھوکھلا یہی ہے

۱؎ یاد رہے کہ وید پر ہمارا کوئی حملہ نہیں ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ اسکی تفسیر میں کیاکیا تصرف کئے گئے آریہ ورت کے صدہا مذہب اپنے عقائد کا ویدوں پر ہی انحصار رکھتے ہیں حالانکہ وہ ایک دوسرے کے دشمن ہیں اور باہم اُن کا سخت اختلاف ہے۔ پس ہم اسجگہ وید سے مراد صرف آریہ سماج والوں کی شائع کردہ تعلیمیں اور اصول لیتے ہیں۔ منہ

اَے آریو! یہ کیا ہے کیوں دِل بگڑ گیا ہے

اِن شوخیوں کو چھوڑو راہِ حیا یہی ہے

مجھ کو ہو کیوں ستاتے سَو اِفترا بناتے

بہتر تھا باز آتے دُور از بلا یہی ہے

جس کی دعا سے آخر لیکھو۱؎ مرا تھا کٹ کر

ماتم پڑا تھا گھر گھر وہ میرزا یہی ہے

۱؎ پنڈت لیکھ رام

اچھا نہیں ستانا پاکوں کا دِل دُکھانا

گُستاخ ہوتے جانا اس کی جزا یہی ہے

اِس دیں کی شان و شوکت یا ربّ مجھے دِکھا دے

سب جھوٹے دِیں مِٹا دے میری دعا یہی ہے

کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں تعلق

اِس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدّعا یہی ہے

(’’قادیان کے آریہ اور ہم ‘‘صفحہ ۴۸ ۔ مطبوعہ ۱۹۰۷ء)