دُرِّثمین اُردو

فہرست مضامین

متفرق اشعار

۱۔

نہیں محصور ہرگز راستہ قُدرت نمائی کا

خدا کی قدرتوں کا حصر دعویٰ ہے خدائی کا

(براہین احمدیہ حِصّہ چہارم صفحہ ۴۰۱ مطبوعہ ۱۸۸۴ء)

۲۔

قُدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت

اس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے

جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور

ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے

(اِشتہار اعلان مطبوعہ ریاض ہند امرتسر۔ ۲۲ ؍مارچ ۱۸۸۶ء)

۳۔

جس نے پیدا کیا وہی جانے

دوسرا کیونکر اُس کو پہچانے

غیر کو غیر کی خبر کیا ہو

نظرِ دُور کارگر کیا ہو

(سُرمہ چشم آریہ صفحہ ۱۸۴ مطبوعہ ۱۸۸۶ء)

۴۔

ہم نے اُلفت میں تِری بار اُٹھایا کیا کیا

تجھ کو دکھلا کے فلک نے ہے دکھایا کیا کیا

(اشتہار محک اَخیار و اَشرار (سرمہ چشم آریہ) مطبوعہ ۱۸۸۶ء)

۵۔

جو ہمارا تھا وہ اب دِلبر کا سارا ہو گیا

آج ہم دِلبر کے اور دِلبر ہمارا ہو گیا

شکر لِلّٰہ! مل گیا ہم کو وہ لعلِ بے بدل

کیا ہوا گر قوم کا دل سنگ خارا ہو گیا

(ازالہ اوہام حصّہ دوم صفحہ ۶۶۵ مطبوعہ ۱۸۹۱ء)

۶۔

پیش گوئی کا جب انجام ہویدا ہو گا!

قُدرتِ حق کا عجب ایک تماشا ہو گا

جھوٹ اور سچ میں جو ہے فرق وہ پیدا ہو گا

کوئی پا جائے گا عزت کوئی رُسوا ہو گا!

(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ ۲۸۱ مطبوعہ ۱۸۹۳ء)

۷۔

لوگوں کے بُغضوں سے اور کینوں سے کیا ہوتا ہے

جس کا کوئی بھی نہیں اُس کا خدا ہوتا ہے

بے خدا کوئی بھی ساتھی نہیں تکلیف کے وقت

اپنا سایہ بھی اندھیرے میں جُدا ہوتا ہے

(حاشیہ اشتہار معیار الاَخیار و الاَشرار مطبوعہ ۱۷ ؍مارچ ۱۸۹۴ء)

۸۔

جس کی تعلیم یہ خیانت ہے

ایسے دِیں پر ہزار لعنت ہے

(آریہ دھرم صفحہ ۴۵ مطبوعہ ۱۸۹۵ء)

۹۔

دوستو اِک نظر خدا کے لئے

سیّد الخلق مصطفیٰؐ کے لئے

(اشتہار مُسْتَیْقِنًا بِوَحْیِ اللّٰہِ الْقَھَّارِ ۱۴ ؍جنوری ۱۸۹۷ء)

۱۰۔

کوئی جو مُردوں کے عالَم میں جاوے

وہ خود ہو مُردہ تب وہ راہ پاوے

کہو زِندوں کا مُردوں سے ہے کیا جوڑ

یہ کیونکر ہو کوئی ہم کو بتاوے

(ایّام الصّلح صفحہ ۱۴۳۔ مطبوعہ ۱۸۹۹ء)

۱۱۔

مر گیا بدبخت اپنے وار سے

کٹ گیا سَر اپنی ہی تلوار سے

کھل گئی ساری حقیقت سیف کی

کم کرو اب ناز اُس مُردار سے

(نزول المسیح صفحہ ۲۲۴ ۔ مطبوعہ ۱۹۰۹ء)

۱۲۔

کیسے کافر ہیں مانتے ہی نہیں

ہم نے سَو سَو طرح سے سمجھایا

اِس غرض سے کہ زندہ یہ ہوویں

ہم نے مرنا بھی دِل میں ٹھہرایا

بھر گیا باغ اب تو پُھولوں سے

آؤ بُلبل چلیں کہ وقت آیا

( رسالہ تشحیذ الاذہان ماہ دسمبر ۱۹۰۹ء)

 

۱۳۔

جب سے اے یار! تجھے یار بنایا ہم نے

ہر نئے روز نیا نام رکھایا ہم نے

کیوں کوئی خلق کے طعنوں کی ہمیں دے دھمکی

تو سب نقش دل اپنے سے مٹایا ہم نے

(از مسوّدات حضرت مسیح موعود علیہ السلام)

۱۴۔

اگر وہ جاں کو طلب کرتے ہیں تو جاں ہی سہی

بلا سے کچھ تو نپٹ جائے فیصلہ دِل کا

اگر ہزار بلا ہو تو دِل نہیں ڈرتا

ذرا تو دیکھئے کیسا ہے حوصلہ دِل کا

(اخبار الفضل ۳۱؍ دسمبر ۱۹۱۳ء)

۱۵۔

وقت تھا وقتِ مسیحا، نہ کسی اور کا وقت

مَیں نہ آتا تو کوئی اَور ہی آیا ہوتا

(از مسوّدات حضرت مسیح موعود علیہ السلام)

۱۶۔

چل رہی ہے نسیم رحمت کی

جو دعا کیجئے قبول ہے آج

(نزول المسیح صفحہ ۲۲۵ ۔مطبوعہ۱۹۰۹ء)