شمائل محمد صلی اللہ علیہ وسلم

فہرست مضامین

3 ۔ خدا تعالیٰ کی محبت اور اطاعت

محامد الٰہیہ کا مورد

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اپنے محامد اور ثناء کے معارف اس طور پر کھولے ہیں کہ مجھ سے قبل کسی اور شخص پراس طرح نہیں کھولے گئے۔ (صحیح بخاری کتاب التفسیر سورۃبنی اسرائیل باب ذریۃ من حملنا )

استغفار اور حمد کی کثرت

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ سورۃ نصر نازل ہونے کے بعد جب بھی آپؐ نماز پڑھتے تو اس میں بکثرت یہ دعا مانگتے۔ اے ہمارے پروردگار!تو پاک ہے ہم تیری حمد کرتے ہیں ، اے میرے اللہ ! تو مجھے بخش دے۔ (صحیح بخاری کتاب التفسیر سورۃ نصر)

جوش توحید

حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے یہ آیت پڑھی :۔

(ترجمہ)” آسمان لپٹے ہوئے ہیں اس کے داہنے ہاتھ میں ۔ وہ پاک ہے اور بہت بلند ان شریکوں سے جو لوگ اس کے مقابل میں ٹھہراتے ہیں ۔’’

حضورؐ نے کہا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ‘‘میں بڑی طاقتوں والا اور نقصان کی تلافی کرنے والاہوں ۔ میرے لئے ہی بڑائی ہے۔ میں بادشاہ ہوں میں بلند شان والا ہوں ۔’’

اللہ تعالیٰ اس طرح اپنی ذات کی مجد اور بزرگی بیان کرتا ہے۔آنحضرت ﷺ ان کلمات کو بار بار بڑے جوش سے دہرا رہے تھے یہاں تک کہ منبر لرزنے لگا اور ہمیں خیال ہوا کہ کہیں منبر گر ہی نہ جائے۔ (مسند احمدبن جنبل جلد2ص88)

غیرت توحید

حضرت برائؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے پیادہ فوج کے پچاس آدمیوں پر احد کے دن حضرت عبداللہ بن جبیرؓ کو مقررکیا ور فرمایا کہ اگر تم یہ بھی دیکھ لو کہ ہمیں جانور نوچ رہے ہیں تب بھی اپنی اس جگہ سے نہ ہلنا جب تک تم کو میں کہلا نہ بھیجوں ۔ اور اگر تم یہ معلوم کرلو کہ ہم نے دشمن کو شکست دے دی ہے اور ان کو مسل دیا ہے تب بھی اس وقت تک کہ تمہیں کہلا نہ بھیجا جائے اپنی جگہ نہ چھوڑنا۔ اس کے بعد جنگ ہوئی اور مسلمانوں نے کفار کو شکست دے دی۔ اس بات کو دیکھ کر حضرت عبد اللہ بن جبیرؓ کے ساتھیوں نے کہا کہ اے قوم غنیمت کا وقت ہے ، غنیمت کا وقت ہے تمہارے ساتھی غالب آگئے پھر تم کیا انتظار کر رہے ہو اس پر عبداللہ بن جبیرؓ نے انہیں کہا کہ کیا تم رسول کریم ﷺ کا حکم بھول گئے ہو۔ انہوں نے کہا کہ خدا کی قسم ہم بھی ساری فوج سے مل کر غنیمت حاصل کریں گے۔ جب لشکر سے آکر مل گئے تو ان کے منہ پھیرے گئے اور شکست کھا کر بھاگے اسی کے بارہ میں قرآن شریف کی یہ آیت نازل ہوئی ہے کہ ‘‘یاد کرو جب رسولؐ تم کو پیچھے کی طرف بلا رہا تھا’’ اور رسول کریم ﷺ کے ساتھ سوائے بارہ آدمیوں کے اور کوئی نہ رہا اس وقت کفار نے ہمارے ستر آدمیوں کا نقصان کیااور رسول کریم ﷺ اور آپؐ کے اصحابؓ نے جنگ بدر میں کفار کے ایک سو چالیس آدمیوں کا نقصان کیا تھا۔ ستر قتل ہوئے تھے اور ستر قید کئے گئے تھے۔

غرضیکہ جب لشکر پراگندہ ہوگیا اور رسول کریمؐ کے گرد صرف ایک قلیل جماعت ہی رہ گئی تو ابوسفیان نے پکار کر کہا کہ کیا تم میں محمد ﷺ ہے اور اس بات کو تین بار دہرایا لیکن رسول کریمؐ نے صحابہؓ کو منع کردیا کہ وہ جواب دیں ۔اس کے بعد ابوسفیان نے تین دفعہ بآواز بلند کہا کہ کیا تم میں ابن ابی قحافہ(حضرت ابوبکرؓ ) ہے۔ اس کا جواب بھی نہ دیا گیا تو اس نے پھر تین دفعہ پکار کرکہا کہ کیا تم میں ابن الخطاب(حضرت عمرؓ ) ہے۔ پھر بھی جب جواب نہ ملا تو اس نے اپنے ساتھیوں کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ یہ لوگ مارے گئے ہیں ۔ اس بات کو سن کر حضرت عمرؓ برداشت نہ کرسکے اور فرمایا کہ اے خدا کے دشمن تو نے جھوٹ کہا ہے جن کا تو نے نام لیا ہے وہ سب زندہ ہیں اور وہ چیز جسے تو ناپسند کرتا ہے ابھی باقی ہے۔ اس جواب کو سن کر ابوسفیان نے کہاکہ آج کا دن بدر کا بدلہ ہوگیا۔ اور لڑائیوں کا حال ڈول کا سا ہوتا ہے تم اپنے مقتولوں میں بعض ایسے پاؤگے کہ جن کے ناک کان کٹے ہوئے ہوں گے۔ میں نے اس بات کا حکم نہیں دیا تھالیکن میں اس بات کو ناپسند بھی نہیں کرتا۔ پھر فخریہ کلمات بآواز بلند کہنے لگا اُعْلُ ھُبَلَ اُعْلُ ھُبَل یعنی اے ہبل(بت) تیرا درجہ بلند ہو، اے ہبل تیرا درجہ بلند ہو ۔ اس پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم اس کو جواب کیوں نہیں دیتے۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ ہم کیاکہیں ؟ آپؐ نے فرمایا کہو :۔اللہ اعلیٰ و اجل

‘‘خداتعالیٰ ہی سب سے بلند رتبہ اور سب سے زیادہ شان والا ہے۔’’

ابوسفیان نے یہ سن کر کہا

‘‘ہمارا تو ایک بت عزّیٰ ہے اور تمہارا کوئی عزّیٰ نہیں ’’۔ جب صحابہؓ خاموش رہے تو رسول کریمؐ نے فرمایا کہ کیا تم جواب نہیں دیتے۔ صحابہؓ نے عرض کیایا رسول اللہ ہم کیا کہیں ؟ آپؐ نے فرمایا انہیں کہو کہ اللہ مولانا ولا مولیٰ لکم

‘‘خدا ہمارا دوست و کارساز ہے اور تمہارا کوئی دوست نہیں ۔’’ (صحیح بخاری کتاب الجہاد باب مایکرہ من التنازع)

اطاعت خداوندی

آپؐ اس وقت تک مکہ سے نہیں نکلے جب تک کہ خدا کی طرف سے حکم نہ ہوا۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں ہم ایک دن بیٹھے ہوئے تھے کہ عین دوپہر کے وقت رسول کریمؐ تشریف لائے اور سرلپیٹا ہواتھا۔ آپ اس وقت کبھی نہیں آیا کرتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا میرے ماں باپ آپ پر فداہوں آپ اس وقت کسی بڑے کام کے لئے آئے ہوں گے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول کریمؐ نے اجازت مانگی اور اجازت ملنے پر گھر میں آئے اور فرمایا کہ جو لوگ بیٹھے ہیں ان کو اٹھا دو۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ، واللہ وہ آپ کے اہل ہی تو ہیں ۔ آپؐ نے فرمایا اچھا مجھے ہجرت کا حکم ہوا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیایا رسول اللہؐ کیا مجھے آپ کی مصاحبت نصیب ہوسکتی ہے ۔ آپ نے ان کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے فرمایا ‘‘ہاں ’’۔ (بخاری کتاب المناقب باب ھجرۃ النبی)

اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ اس وقت تک مکہ سے نہیں نکلے جب تک حکم نہ ہوا اور آخر وقت تک اس بات پر قائم رہے کہ خدا تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی کام نہیں کرنا۔