پہلا احمدی مسلمان سائنسدان عبدالسلام

اعلیٰ تعلیم اور حیران کن کامیابیاں

عبد السلام اب اعلیٰ نمبروں میں ایم۔ اے کرچکے تھے۔ ان کے والدین کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا مقابلے کا امتحان دے کر ڈپٹی کمشنر بنے لیکن ان دنوں دوسری جنگِ عظیم کی وجہ سے مقابلے کا امتحان ملتوی ہوگیا۔ سلام کے دل میں بَیرونِ ملک اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہوئی لیکن والد صاحب کی تھوڑی آمدنی کی وجہ سے بیرون ملک جانا ممکن نہ تھا لیکن اللہ تعالیٰ جو ہر چیز پر قادر ہے اس نے اس ناممکن بات کو اس طرح ممکن بنا دیا کہ 15لاکھ روپے کی رقم جو ایک مشہور زمیندار خضر حیات ٹوانہ نے جنگِ عظیم میں انگریزوں کی مدد کے لیے اکٹھی کی تھی وہ 1945ء میں جنگ بند ہونے کی وجہ سے بچ گئی اور1946ء میں انھوں نے پنجاب کا وزیراعظم بن کر اس رقم میں سے چھوٹے زمینداروں کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے وظیفے دینے کا اعلان کردیا۔ عبد السلام کو اس فنڈ میں سے550روپے ماہوار وظیفہ ملا۔ ستمبر1946ء کو عبد السلام وظیفہ لے کر انگلستان کی کیمبرج یونیورسٹی میں داخل ہوگئے۔ خدا کی قدرت کہ اس سے اگلے سال ہندوستان تقسیم ہوگیا اور عبد السلام کے سوا اِس فنڈ سے کسی اور کو وظیفہ نہ مل سکا۔

اکتوبر1946ء سے عبد السلام نے کیمبرج میں ریاضی کا تین سالہ بی۔ اے آنرز کا کورس شروع کردیا جسے ٹرائی پوز (Tripos) کہتے ہیں۔ اس کورس کے دوران سلام روزانہ 14سے16گھنٹے پڑھتے اور اپنے کورس کی کتابوں کے علاوہ تاریخی اور دینی کتابیں بھی پڑھتے۔ عبد السلام نے تین سال کا یہ کورس اوّل درجہ میں صرف دو سالوں میں کرلیا۔ جن دنوں عبد السلام یہ کورس کررہے تھے ان دنوں ہندوستان میں فسادات ہورہے تھے اور ان کے عزیزواقارب جن علاقوں میں رہتے تھے وہ بھی خطرے سے خالی نہ تھے لیکن انھوں نے بڑی ہمت اور محنت سے اپنی توجہ تعلیم کی طرف رکھی اور 1948ء میں بی۔ اے آنرز (ریاضی) کی ڈگری حاصل کرلی۔

عبد السلام ایک سال کا وظیفہ چھوڑ کر واپس آنا چاہتے تھے لیکن جب انھوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کو مشورہ کے لیے خط لکھا تو حضور نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ بُزدلی ہوگی اگر مِلا ہوا وظیفہ آپ چھوڑ کر واپس آتے ہیں۔ اس پر سلام نے ریاضی سے ملتے جلتے مضمون فزکس میں داخلہ لے لیا۔ خلیفۂ وقت کی خواہش کا احترام کرنے کے لیے سلام نے ایسا قدم اُٹھایا جس میں کامیاب ہونا بظاہر ناممکن تھا کیونکہ ایک تو فزکس کا یہ کورس تین سال کا تھا اور وظیفہ ایک سال کا باقی تھا اور دوسرے فزکس کا مضمون انھوں نے ایف۔ اے کے بعد پڑھا ہی نہیں تھا لیکن ان کی محنت اور خلیفۂ وقت اور ان کے والدین کی دعاؤں نے کچھ ایسا اثر دکھایا کہ انھوں نے یہ کورس اوّل درجہ میں صرف ایک سال میں پاس کرلیا اور بی۔ اے آنرز (فزکس) کی ڈگری حاصل کرلی۔

تین سال بعد1949ء میں سلام واپس آئے۔ اس دوران ان کا نکاح اپنے تایا کی بیٹی امۃ الحفیظ بیگم سے ہوا۔ نکاح حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے کوئٹہ میں پڑھا جہاں حضور گرمیوں میں گئے ہوئے تھے۔

کیمبرج سے بی۔ اے آنرز کرنے کے بعد عبد السلام پی ایچ ڈی کرنا چاہتے تھے جس کے لیے ان کے وظیفہ میں دو سال کی گورنمنٹ نے توسیع کردی۔ ان کا وظیفہ ان کی بیوی کا خرچ برداشت کرنے کے لیے کافی نہ تھا اس لیے وہ شادی کے بعد چھ ہفتے پاکستان رہ کر اکیلے واپس انگلستان چلے گئے اور پی ایچ۔ ڈی فزکس کے لیے کیمبرج یونیورسٹی میں داخل ہوگئے۔

یہاں سلام نے ایٹمی ذرّات پر تحقیق کا آغاز کیا۔ ان کے ذمّہ ایک ایسا کام لگایا گیا جس میں بڑے بڑے سائنسدان ناکام ہوچکے تھے اور جو طالب علم اس پر سلام سے پہلے کام کر رہا تھا وہ اس مسئلہ کے حل کے لیے امریکہ کی اس یونیورسٹی میں جا رہا تھا جہاں دنیا کے چوٹی کے سائنسدان تحقیق کررہے تھے۔ سلام نے تھوڑے سے وقت میں اس مسئلہ کو حل کر دکھایا جس پر انہیں 1950ء میں کیمبرج یونیورسٹی نے سمتھ انعام دیا۔

سلام کا یہ تحقیقی مقالہ امریکہ کی اسی یونیورسٹی میں ایک مشہور سائنسدان ڈائسن کو پڑتال کے لیے بھجوایا گیا۔ وہ خود اس مسئلہ کو حل کرنے میں ناکام ہوچکے تھے اس لیے انھوں نے جب سلام کا مقالہ پڑھا تو بہت خوش ہوئے۔ انھوں نے برمنگھم میں لیکچر دینا تھا۔ وہاں پہنچ کر انھوں نے سلام کو بھی برمنگھم بُلوا لیا اور ان سے لیکچر دلوایا۔

سلام سے زبانی سمجھ کر جب وہ برمنگھم سے واپس گئے تو انھوں نے واپسی پر مشہورِ عالَم سائنسدان رابرٹ اوپن ہمیر کے سامنے سلام کی بے حد تعریف کی اور بتایا کہ غیرترقّی یافتہ ملک کا ہونے کے باوجود سلام غیرمعمولی طور پر ذہین ہیں۔ چنانچہ انھوں نے پی ایچ ڈی کا دوسرا سال گذارنے کے لیے سلام کو پرنسٹن یونیورسٹی امریکہ بُلوا لیا جہاں انھیں دنیا کے چوٹی کے سائنسدانوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ اِس دَوران سلام کو گذشتہ صدی کے سب سے بڑے سائنسدان آئن سٹائن کو قریب سے دیکھنے کا موقع مِلا جو اُن دنوں کششِ ثقل اور برقی مقناطیسی طاقتوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔ اس طرح انہوں نے ایک سال کے لیے دنیا کے چوٹی کے سائنسدانوں کے ساتھ کام کیا۔ تیسرا سال گذارنے کے لیے وہ کیمبرج آئے مگر اب وظیفہ ختم ہوچکا تھا۔ چنانچہ انہیں قابلیّت کی بناء پر یہ رعایت دی گئی کہ وہ واپس پاکستان جاکر تیسرا سال وہیں ریسرچ کریں اور مقالہ وہیں سے بھیج دیں۔ یہ رعایت انہیں غیرمعمولی قابلیّت کی وجہ سے دی گئی۔

کیمبرج چھوڑنے سے پہلے انھوں نے اپنے نگران پروفیسر کو کہا کہ وہ انہیں ایک سرٹیفکیٹ دے دیں کہ ”مَیں نے دوسال پی ایچ ڈی کاکام تسلی بخش کیاہے۔“ ان کے نگران پروفیسر جو اُن کی قابلیت سے بے حد متاثر ہوچکے تھے کہنے لگے ”میرے خیال میں آپ مجھے ایک سندلکھ دیں کہ آپ نے میرے ساتھ کام کیاہے۔“

غرض 1951ء میں سلام واپس پاکستان آگئے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں شعبہ ریاضی کے سربراہ لگ گئے۔ ایک سال بعد1952ء میں انھوں نے تحقیقی مقالہ مکمل کرکے کیمبرج بھیجا اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔