پہلا احمدی مسلمان سائنسدان عبدالسلام

زندگی کا نازک موڑ

انگلستان سے واپسی پر سلام کو امپیریل کالج لندن کے ایک مشہور پروفیسر لیوی نے کہا کہ اگر وہ چاہیں تو اس کالج میں ملازم ہوجائیں لیکن سلام کے دِل میں خواہش تھی کہ وہ اپنے ملک پاکستان کی خدمت کریں اس لیے انھوں نے اس وقت پروفیسرلیوی کو انکار کردیا۔ اس کے باوجود پروفیسرلیوی نے انہیں کہا کہ اگر وہ کبھی انگلستان آنا چاہیں تو وہ امپیریل کالج میں انہیں لیکچرار لگوا دیں گے۔

پاکستان آکر ڈاکٹر سلام نے کوشش کی کہ گورنمنٹ کالج لاہور میں ریسرچ کو ترقی دیں لیکن انتظامیہ نے ان کی مخالفت کی اورانہیں فٹ بال کلب کا صدر بنا دیا۔

(Biographic sketch of prof. Abdus Salam)

ان کی مخالفت کا یہ حال تھا کہ ایک مرتبہ وہ ایک مشہور سائنسدان ڈاکٹر بہلا کی دعوت پر بمبئی گئے۔ گرمیوں کی چھٹیوں کے دن تھے۔ انھوں نے وہاں جاکر ایک یورپی سائنسدان ڈاکٹر پالی سے تبادلہ خیال کیا۔ ا س جرم کی سزا میں اُن کی تنخواہ کاٹ لی گئی۔ تین سال وہ لاہور میں رہے اور اس دَوران وہ حالات کا مقابلہ کرتے رہے۔

ان کا خیال تھا کہ جس طرح کسی ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے فوج ضروری ہے اسی طرح ملک کی ترقی کے لیے سائنس پڑھنا ضروری ہے۔ انھوں نے گورنمنٹ کو مشورہ دیا کہ سائنس کی ایک الگ وزارت قائم کی جائے لیکن اُن کی بات ماننے سے انکار کردیا گیا۔

ادھر1953ء میں جماعتِ احمدیہ کے خلاف تحریک شروع ہوگئی۔ ان دنوں ان پرقاتلانہ حملے کی بھی کوشش کی گئی۔ اس دَوران انہیں کیمبرج یونیورسٹی کی طرف سے ملازمت پیش کی گئی اور جنوری 1954ء میں وہ کیمبرج پہنچ گئے جہاں سے ان کی زندگی کا ایک نیا موڑ شروع ہوا۔

شاندار سائنسی کارنامے اور عالمگیر شُہرت

عبد السلام اسلامی ملکوں کے پہلے مسلمان اورپاک و ہند کے پہلے سائنسدان ہیں جنہیں سب سے شاندار اور انگلینڈ کی کیمبرج یونیورسٹی میں لیکچرار کی نوکری کی پیشکش ہوئی۔ تاہم ہندوستان کے رادھاکرشنا آکسفورڈ میں فلاسفی کا مضمون پڑھا چکے ہیں لیکن فلاسفی غیرسائنسی مضمون تھا۔ سائنس کا مضمون سب سے پہلے پڑھانے کا اعزاز صرف ڈاکٹر سلام کو حاصل ہوا۔ رادھا کرشنا ہندوستان کے دوسرے صدر بنے۔

کیمبرج میں ڈاکٹر سلام گریجوایٹ اور پی ایچ۔ ڈی کی کلاسوں کو پڑھانے اور اُن کی نگرانی پر مقرر ہوئے۔ کیمبرج میں ایک ہی مضمون آدھی آدھی کلاس کو دو پروفیسر پڑھاتے تھے اور طلباء کو یہ سہولت تھی کہ دونوں میں سے جس پروفیسر کی کلاس میں جانا چاہیں جاسکتے ہیں۔ ڈاکٹر سلام بجلی اور مقناطیس کا مضمون پڑھاتے تھے۔ ان کے پڑھانے کا انداز اتنا دلچسپ تھا کہ دو تہائی طلباء ڈاکٹر سلام کی کلاس میں جاتے اور صرف ایک تہائی طلباء دوسرے پروفیسر کا لیکچر سُنتے۔

کیمبرج میں ڈاکٹر سلام نے تحقیق کا کام جاری رکھا۔ 1954ء میں انھوں نے ایک تحقیقی مقالہ لکھا 1955ء میں پانچ اور 1956ء میں چار مقالے لکھے۔ ان تحقیقی کاموں کی وجہ سے وہ چندسالوں میں ہی مشہور سائنسدان بن گئے اور انہیں دنیا کی بڑی بڑی سائنسی کانفرنسوں میں شامل کیاجانے لگا۔ چنانچہ1955ء میں ڈاکٹر سلام کو اقوام متحدہ نے ایٹم برائے امن کی پہلی کانفرنس کے لیے سیکرٹری چُنا۔ یہ کانفرنس سوئٹزرلینڈ میں جنیوا کے مقام پر ہوئی جہاں انہیں سائنس کے ذریعے خدمت کا بہت احساس ہوا۔

1957ء میں ڈاکٹر سلام امپیریل کالج لندن میں پروفیسر بنادیے گئے۔ اس وقت ان کی عمر صرف اکتیس سال کی تھی۔ اس سے پہلے انگریزوں میں اتنا بڑا عہدہ کسی مسلمان کو نہیں ملا تھا۔

امپیریل کالج میں آنے کے بعد انھوں نے ایٹم کے بنیادی ذرّات پر لیکچر دیا جس میں دنیا کے چوٹی کے سائنسدان شریک ہوئے اور ان کی شہرت دنیا میں بڑھنے لگی۔ ان دنوں پاکستان کے ایک مشہور سیاستدان اور پاکستان کے انگریزی اخبار پاکستان ٹائمز کے مالک میاں افتخار الدین انگلستان گئے۔ انہیں یقین نہیں آتا تھا کہ ایک پاکستانی لندن یونیورسٹی میں سائنس کا چیئر مین ہوسکتا ہے۔ انھوں نے پاکستان ٹائمزکے پورے صفحے پر ڈاکٹر سلام پر ایک شاندار مضمون دیا جس سے پاکستانیوں کے سرفخر سے بلند ہونے لگے۔

ڈاکٹر عبد السلام کو اپنے ملک سے باہر ریاضی اور طبیعات میں تحقیقی کام کرنے کا بہت موقع ملا اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان کی مدد اور رہنمائی کرتا رہا۔ انھوں نے ان علوم میں نئی نئی باتیں پیش کیں اور مختلف ملکوں کے بُلانے پر وہ ملک ملک جاکراپنے نظریات کی وضاحت کرتے رہے۔ انہوں نے سخت محنت کو ہمیشہ اپنی کامیابی کا ذریعہ بنایا۔ اتنی زیادہ محنت کرنے کے باوجود وہ لوگوں سے خوشی کے ساتھ ملتے۔ محترم قاضی محمداسلم صاحب مرحوم جو گورنمنٹ کالج لاہور اور تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے پرنسپل رہ چکے ہیں، کا بیان ہے کہ سلام 1951ء اور1953ء کے درمیان اٹھارہ ماہ تک اُن کے پاس لاہور میں رہے۔ ان کوسخت محنت کی عادت تھی۔ جب بھی کوئی ان کے کمرے میں گیا اس نے دیکھا کہ سلام کرسی میز پر بیٹھے کام کررہے ہیں لیکن اس کے ساتھ خوش ہوکر ملتے اور اسے پورا وقت دیتے حتی کہ وہ چلا جاتا اور ڈاکٹر سلام پھر اپنے کام میں لگ جاتے اور انہیں کبھی یہ احساس نہ ہوتا کہ اُن کے کام میں حرج واقع ہواہے۔ یہی کیفیت ان کی انگلستان میں رہی۔

ڈاکٹر عبد السلام نے بہت شروع میں ایٹم کے بنیادی ذرّات پر تحقیق کا کام شروع کیا اور جن نئے نظریات کی نشاندہی کی، ان پر تحقیق کرکے کئی سائنسدان ایک عرصہ بعد اس نتیجہ پر پہنچے۔

1956ء میں ڈاکٹر سلام نے ایٹم کے بنیادی ذرّات کے بارہ میں جو نظریہ پیش کیا اس کی دنیا کے بڑے بڑے سائنسدانوں نے بہت مخالفت کی اور جب دوسرے سائنسدانوں کے تجربوں سے سلام کا نظریہ درست نکلا تو ان کی شہرت میں بہت اضافہ ہوا اور 33سال کی عمر میں انگلستان کی شاہی سوسائٹی نے انہیں اپنا فیلو بنالیا۔ یہ اعزاز اس سے پہلے کسی مسلمان کو نہیں مل سکا۔

جو نئے نظریات ڈاکٹر سلام پیش کررہے تھے ان کی تصدیق اس طرح سے ہوجاتی کہ امریکہ اور جاپان اور چین وغیرہ کے سائنسدان اپنی تحقیق کے ذریعے اسی نتیجہ پر پہنچ جاتے۔ جلد ہی ڈاکٹر سلام ساری دنیا کے سائنسدانوں میں مشہور ہوچکے تھے۔ چنانچہ ان کے کاموں کی قدر کرتے ہوئے1957ء میں کیمبرج یونیورسٹی نے انہیں ہاپکن انعام اور1958ء میں آدم انعام دیا۔ 1961ء میں انہیں انگلستان میں سائنس کی سب سے بڑی فزیکل سوسائٹی کی طرف سے Maxwell Medal اور ایک سَوگنی انعام ملا۔ 1959ء میں حکومتِ پاکستان نے انہیں ستارئہ پاکستان، پرائڈ آف پرفارمنس اور بیس ہزار روپے کا انعام دیا۔ 1964ء میں سلام کو دنیا کی سائنس کی سب سے پُرانی Royal Society نے Hugeus Medal دیا۔ اس موقع پر ایک رسالے نے لکھا کہ ”دُنیا میں ایسے بہت کم سائنسدان ہیں جنھوں نے مسلسل اور اتنی تیزی سے نئے نظریات پیش کیے ہوں جیسے ڈاکٹر عبد السلام نے گذشتہ تیرہ سالوں میں کیے ہیں۔“

(Biographic Sketch of prof. A. Salam by Dr.A.Ghani)

1969ء میں انہیں امریکہ کی یونیورسٹی آف میامی نے ان کی خدمات پر اوپن ہیمرمیڈل دیا۔ 1970ء میں سویڈن) (Royal Academy of Science Swedenنے اور 1971ء میں روس (Academy of Science USSR) اور امریکہ (American Academy of Arts and Science) نے ڈاکٹر سلام کو اپنی اپنی سوسائٹی کارکن بنالیا۔

ڈاکٹر عبد السلام ابھی بچہ تھے کہ ان کے والد صاحب کو خواب کے ذریعے ان کے تیزی کے ساتھ ترقی کرنے کے بارہ میں اطلاع دی گئی۔ ان کے والد فرماتے ہیں ”ایک رؤیا میں ایک نہایت بلند درخت دکھایا گیا جس کی شاخیں فضا میں نہایت ارفع چلی گئی ہیں عزیزم عبد السلام اس درخت پر چڑھ رہا ہے اور بڑی پھرتی سے چڑھتا چلا جارہاہے… دیکھ کر مَیں ڈرا کہ معصوم بچہ ہے گِر نہ جائے اور اسے زور سے آواز دینے لگا کہ سلام اب بس کرو اور نیچے اُترو۔ بچہ میری طرف دیکھتا ہے اور مسکراتے ہوئے کہتا ہے کہ ابّاجان فکر نہ کریں۔ یہ کہتے ہوئے پھر اوپرہی اوپر چڑھتا گیا اور اتنی بلندی پر گیا کہ گویا نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ (سرگذشت)

٭انٹرنیشنل سنٹرآف تھیوریٹیکل فزکس:

1964ء میں ڈاکٹر عبد السلام نے اٹلی میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے تحت اٹلی کی مدد سے سائنس کا عالمی مرکز قائم کیا۔ یہ ایک بہت بڑا کارنامہ تھا جس پر انہیں 1968ء میں (Ford Foundation) فورڈفاؤنڈیشن نے ”ایٹم برائے امن“ کا عالمی ایوارڈ اور تیس ہزار ڈالر انعام دیا۔ نیز1970ء سے اقوامِ متحدہ کا ادارہ یونیسکو بھی فریق بن گیا۔

(Biographic sketch of prof. Abdus Salam by Dr.A.Ghani)

1968ء میں انھوں نے ساری دنیا کے لیے ایک سائنسی ادارہ International Federation for Institution of Advance Studies. کے نام سے قائم کرنے کی تجویز پیش کی جس کو بہت اچھا سمجھا گیا اور امریکہ نے انہیں میڈل (John Torence T،dte Medal from Amerial Institute of Physics.) دیا۔

اپنی تحقیق کے نتیجہ میں ڈاکٹر سلام نے چار میں سے دو بنیادی طاقتوں کو یکجا کرنے کا نظریہ (Unified Electroweak Theory) پیش کیا جس پر لندن کے طبیعات کے ادارے نے انہیں 1976ء مںج میڈل (Gother Medal) دیا اور ہندوستان کلکتہ یونیورسٹی نے انہیں 1977ء میں میڈل دیا اور 1978ء میں رائل سوسائٹی نے اعلیٰ ترین شاہی میڈل دیا۔

(نوٹ اس عالمی سنٹر کا نام ڈاکٹر عبد السلام کی پہلی برسی کے موقع پر دنیا بھر کے سائنسدانوں نے، سلام سنٹر، رکھ دیاہے۔ )