پہلا احمدی مسلمان سائنسدان عبدالسلام

نوبیل انعام کا حصول

اب تک ڈاکٹر عبد السلام کو دنیا کے بہترین انعام مل چکے تھے لیکن سب سے بڑا انعام یعنی ”نوبیل پرائز“ ابھی نہیں ملا تھا۔ اُن کی خواہش تھی کہ یہ انعام بھی ان کو مل جائے کیونکہ اس انعام کا حاصل کرنا (دین حق) اور پاکستان کے لیے باعث عزّت تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تیسرے خلیفہ حضرت حافظ مرزا ناصر احمدرحمہ اللہ تعالیٰ 1978ء میں کسرِصلیب کانفرنس کے لیے یورپ تشریف لے گئے تو ڈاکٹر عبد السلام نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا اور حضرت صاحب کو دعا کے لیے عرض کی۔ آپؒ نے دعا کی اور آپؒ کو خدا کی طرف سے بتایا گیا کہ سلام نے اب تک جو تحقیق کی ہے اس پر نوبیل انعام مشکل ہے البتہ اگلے سال تک جوکام وہ کریں گے اس پر انہیں نوبیل انعام مل سکے گا۔ اس امر کا ذکرحضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے نومبر1980ء کے آخری ہفتہ میں اسلام آباد اپنے قیام کے دَوران ایک روز بعد نمازمغرب و عشاء مجلس عرفان میں فرمایا۔

چنانچہ اگلے سال 1979ء میں پروفیسرعبد السلام صاحب کو دو امریکی سائنسدانوں کے ساتھ فزکس کے بہترین کام پر نوبیل انعام مل گیا۔ (۔“مشرق“ 19اکتوبر1979ء) اور یہ حضرت امام جماعتِ احمدیہ کی دعاؤں اورڈاکٹر سلام کی محنت کا نتیجہ تھا۔

بچو نوبیل انعام ایک سویڈش سائنسدان مسٹرالفرڈ بن ہارڈ نوبیل کی یاد میں دیا جاتاہے۔ نوبیل 21 اکتوبر1833ء میں سٹاک ہوم کے مقام پر جو کہ سویڈن کا دارالحکومت ہے پیدا ہوا اور10 دسمبر1896ء کو اٹلی میں فوت ہوا۔ نوبیل ایک بہت بڑاکیمیادان اور انجینئرتھا۔ اس کی وصیّت کے مطابق ایک فاؤنڈیشن ہر سال 5انعامات دیتی ہے۔ ان انعامات کی تقسیم کا آغاز دسمبر1901ء میں ہوا جو کہ الفرڈنوبیل کی پانچویں برسی تھی۔

نوبیل انعام فزکس، فزیالوجی، کیمسٹری یا میڈیسن، ادب اور امن کے شعبوں اور میدانوں میں نمایاں اور امتیازی کارنامہ سرانجام دینے والوں کو دیا جاتا ہے۔ ہر انعام ایک طلائی تمغہ اورسرٹیفکیٹ اوررقم بطور انعام جو کہ تقریباً 80 ہزار پونڈ پر مشتمل ہوتی ہے دی جاتی ہے۔ نوبیل انعام حاصل کرنے والے امیدواروں کے نام مختلف ایجنسیوں کے سپرد کردیے جاتے ہیں اور وہ انعام کے صحیح حقدار کا فیصلہ کرتی ہیں۔ مثلاً فزکس اور کیمسٹری رائل اکیڈمی آف سائنس سٹاک ہوم کے سپرد ہوتی ہے۔

فزیالوجی یا میڈیسن کیرولین میڈیکل انسٹی ٹیوٹ سٹاک ہوم کے سپرد ہوتی ہے۔ اَدب کا مضمون سویڈش اکیڈمی آف فرانس اور سپین کے سپرد اور امن کا انعام ایک کمیٹی کے سپرد ہوتا ہے جس کے پانچ ممبر ہوتے ہیں جو کہ نارویجین پارلیمنٹ چُنتی ہے۔ (انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا)

15 اکتوبر1979ء کو ڈاکٹر عبد السلام نے نوبیل انعام کا حقدار قرار دیے جانے کی خبر سُنی تو وہ بیت الفضل لندن جاکر خدا کا شکر ادا کرنے کے لیے سجدہ ریز ہوگئے۔

انہوں نے نوبیل انعام 10 دسمبر1979ء کو سٹاک ہوم میں شاہِ سویڈن کارل گستاف سے حاصل کیا جہاں وہ بادشاہ اور ملکہ کے دس دنوں تک مہمان رہے۔ نوبیل کی خاص تقریب کے بعدرات کو انہیں سویڈن کے بادشاہ اور ملکہ کے ساتھ کھانا پیش کیا گیا جس میں چار ہزار مہمان شامل ہوتے ہیں۔ کھانے کے بعد ہر مضمون میں انعام حاصل کرنے والوں کی طرف سے ایک ایک نمائندہ تین تین منٹ تقریر کرتا ہے۔ ڈاکٹر سلام نے فزکس میں انعام حاصل کرنے والوں کی نمائندگی میں تین منٹ کی ایک شاندار تقریر کی۔

ڈاکٹر محمداکرام الحق سابق چیئرمین شعبہ طبیعات گورنمنٹ کالج لاہور کا بیان ہے کہ ڈاکٹر عبد السلام صاحب کے ساتھ جو نوبیل پرائز لینے والے تھے گلاشو اور وائن برگ انھوں نے ڈاکٹر سلام کو کہا کہ آپ معتبر اور فلاسفر آدمی ہیں آپ ہی ہماری نمائندگی کریں گے۔ (بحوالہ رسالہ خالد ڈاکٹر عبد السلام نمبرصفحہ ۰۱۱ )

تقریر کے آغاز میں قرآن کریم کی سورۃ الملک کی آیات 4، 5کی تلاوت کی۔ وہ آیات یہ ہیں

اَلَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا مَاتَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ھَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍO ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًاوَّھُوَ حَسِیْرٌO

وہی ہے جس نے سات آسمانوں کو طبقہ در طبقہ پیدا کیا۔ تو رحمن کی تخلیق میں کوئی تضاد نہیں دیکھتا۔ پس نظردوڑاکیا توکوئی رخنہ دیکھ سکتا ہے؟ نظر پھر دوسری مرتبہ دوڑا۔ تیری طرف نظر ناکام لوٹ آئے گی اور وہ تھکی ہاری ہوگی۔

اس ہال میں یہ پہلاموقع تھا کہ قرآن کریم کی تلاوت کی گئی۔

ڈاکٹر عبد السلام کے نوبیل انعام حاصل کرنے پر پورے عالَمِ اسلام، پاکستان اور تیسری دنیا میں خاص طور پر خوشی کی ایک لہردوڑ گئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے انہیں مبارکباد کا تار دیا جس میں فرمایا:۔

”سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔ میری طرف سے اور جماعتِ احمدیہ کی طرف سے پُرخلوص دِلی مبارکباد قبول کریں۔ احمدیت اور تمام پاکستانیوں کو آپ پر فخر ہے کہ وہ پہلا مسلمان سائنسدان اور پاکستانی جس کوانعام ملا وہ ایک احمدی ہے۔ خدا تعالیٰ مستقبل میں آپ کو اپنی تائید و نصرت سے نوازتا رہے۔“ (بحوالہ الفضل17 اکتوبر1979ء)

اسلام کے دائمی مرکز مکّہ کے ایک اخبارنے لکھا ”ایک مسلمان پاکستانی عالم کا اس انعام کا حصول سارے عالمِ اسلامی کے لیے شرف و عزّت کا موجب اور ان کی محنت کا ثمرہ ہے۔“ (العالم الاسلامی 19 نومبر1979ء)

صدر پاکستان جنرل محمدضیاء الحق نے بھی مبارکباد کا تار دیا اور کہا کہ آپ نے یقینا پاکستان کی عظمت اور سرفرازی کو نئی تابانی بخشی ہے۔ اور انہیں اعلیٰ ترین سول اعزاز ”نشان امتیاز“ دیا۔ ( جنگ، کراچی16 اکتوبر1979ء )

قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد نے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی۔ اسلام آباد یونیورسٹی کے سربراہ نے کہا

”سالہاسال کی تحقیق کے بعد ماہرینِ طبیعات نے قدرت کی چار بنیادی قوّتیں تلاش کرلیں (1) کششِ ثقل (2) برقی مقناطیسی قوت (3) کمزور جوہری قوت (4) طاقتورجوہری قوت۔

ماہرین طبیعات یہ چاہتے ہیں کہ چار بظاہر مختلف قوتوں کو ایک متحد قوت کا روپ دیاجائے۔ آئن سٹائن نے بھر پور کوشش کی کہ وہ کششِ ثقل کو بجلی کی قوت سے متحد کرسکے۔ عبد السلام، شیلڈن گلاشو اور سٹیون وینبرگ تمام لوگوں نے علیٰحدہ علیٰحدہ کام کرکے کمزور جوہری قوت اور برقی مقناطیسی قوت کو متحد کردیاہے۔ یہ ایک انتہائی اہمیت کا حامل نظریہ ہے جو کہ انیسویں صدی میں فیراڈے اور میکسویل کے بجلی اور مقناطیسیّت کو ہم آہنگ کرنے کے تاریخی واقعہ کے برابر ہے۔“ (سپاسنامہ ازوائس چانسلرقائداعظم یونیورسٹی اسلام آبادبحوالہ انصار اللہ جنوری فروری1980ء)

ڈاکٹر عبد السلام کی نوبیل انعام ملنے پر دنیا بھر میں عزت افزائی ہوئی۔ اٹلی کے وزیراعظم نے8 نومبر1979ء کو انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی۔ 15 جنوری سے29 جنوری تک وہ تیسری دنیا کے ترقی پذیر لاطینی ممالک کے دَورے پر رہے جہاں انہیں کئی یونیورسٹیوں کی طرف سے اعزازی ڈگریاں دی گئیں۔ وینزویلا کے صدر نے اعلیٰ ترین سول اعزاز دیا۔ مراکش کے شاہ حسن نے اپنی اکیڈمی کا رُکن بنایا۔ شاہ اردن پیرس نے آئن سٹائن گولڈمیڈل دیا اور روم، پیرس، یوگوسلاویہ، ہندوستان اور کئی اور ملکوں نے انہیں رُکن بنایا۔

نوبیل انعام کی تقریب میں تقریر

یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر عبد السلام صاحب کی اس شاندار تقریر کا متن دیا جائے جو انہوں نے فزکس میں نوبیل انعام حاصل کرنے والوں کی نمائندگی میں 10 دسمبر 1979ء کو کی۔ انھوں نے اپنی تقریر میں کہا:

” میں اپنے اور اپنے ساتھیوں پروفیسر گلاشو اور وائن برگ کی طرف سے نوبیل فاؤنڈیشن اور رائل اکیڈمی آف سائنسز (Royal Academy of Sciences) کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے ہماری عزت افزائی کی۔۔۔ طبیعات کی تحقیق تمام انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہے۔ مشرق اور مغرب، شمال اور جنوب سب نے اس میں مساوی حصہ لیا ہے۔ اسلام کی مقدس کتاب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم رحمن کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہیں پاؤ گے۔ پھر پلٹ کر دیکھو کہ تمہیں کہیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟ بار بار نگاہ دوڑاؤ تمہاری نگاہ تھک کر نامراد پلٹ آئے گی۔

فی الحقیقت تمام ماہرین طبیعات کا یہی ایمان ہے جتنی گہرائی تک ہم تلاش کریں اتنی ہی ہماری حیرت بڑھتی جاتی ہے اور اسی تناسب سے ہماری آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ میں یہ بات صرف اس لیے نہیں کہہ رہا کہ میں آج شام آپ کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں بلکہ یہ بات میں خاص طور پر تیسری دنیا کو مخاطب کرکے بھی کہہ رہا ہوں۔ تیسری دنیاوالے یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ سائنسی علم کی جستجو کی بازی ہار چکے ہیں کیونکہ ان کے پاس مواقع اور ذرائع موجود نہیں ہیں (نوبیل انعام کا اجراء کرنے والے) الفرڈ نوبیل نے یہ پیمان بندھا تھا کہ رنگ و نسل کا کوئی بھی امتیاز اس کی فیاضی کے حصول کی راہ میں حائل نہیں ہو گا۔ اس موقع پر میں ان سے مخاطب ہو کر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جن کو خدا نے یہ عطیہ عطا کیا ہے آئیے ہم سب کو ایک جیسے مواقع فراہم کرنے کے لیے جدوجہد کریں تاکہ وہ طبیعات اور سائنسی تخلیق میں شامل ہو کر ساری انسانیت کے لیے نئے فوائد حاصل کریں۔ یہ سب کچھ الفرڈ نوبیل کی آرزو اور ان خیالات کے مطابق ہو گا جو اس کی زندگی میں نفوذ کر گئے تھے۔“ ( روزنامہ پاکستان یکم دسمبر 1996ء بحوالہ رسالہ خالد عبد السلام نمبر دسمبر 1997ء ص 158-159)