پہلا احمدی مسلمان سائنسدان عبدالسلام

دیباچہ

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی ہے کہ

”میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم و معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا منہ بند کردیں گے۔“ (تجلیات الہیہ)

اس عظیم پیشگوئی کی صداقت کے ثبوت کے لئے دلائل قاطعہ و براہین ساطعہ قطار در قطار دست بستہ کھڑے ہیں۔ دین کا میدا ن ہو یا دنیا کا جماعت احمدیہ نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر میدان میں اپنی فتح و ظفر کے جھنڈے گاڑدیئے ہیں اورکوئی نہیں جو جماعت احمدیہ کے علم کلام کے مقابل کھڑاہوسکے۔

جماعت کے دینی و مذہبی امور کی سچائی کے نشانات تو اس قدر ظاہر و باہر ہیں کہ ایک دنیا اس کی قائل ہوچکی ہے۔ یہاں تک کہ اب تو یہ کہاجاتا ہے کہ احمدیوں سے بات نہ کرو کیونکہ ان کے علم کلام کا جواب ہمارے پاس نہیں ہے۔

ان علوم دینیہ کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم میں بھی خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو ہونہارسپوت عطا فرمائے ہیں جنہوں نے اپنے پیارے امام حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی پیشگوئی کے موافق علم و معرفت میں کمال حاصل کیا اور توحید اور ایمان پرقائم رہتے ہوئے دنیا سے اپنی قابلیت کا سکہ منوایا۔

چنانچہ محترم ڈاکٹر عبد السلام صاحب جماعت کے انہی سپوتوں میں سے ایک ہونہار سپوت ہیں جنہوں نے نہ صرف دنیاوی علوم میں ترقیات کی رفعتوں کو چھوا بلکہ نہایت مخلص اور فدائی احمدی ہوتے ہوئے، حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اور خلفائے سلسلہ سے والہانہ عشق رکھتے ہوئے اور خدمات سلسلہ کے لئے ہمیشہ کمربستہ رہتے ہوئے آپ نے روحانی علوم کے آسمان کی بلندیوں اور پاک فضا میں بھی پرواز کی۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے آپ کی وفات پر فرمایا

”اب یہ ہمارا بہت ہی پیارا، علموں کا خزانہ، دنیاوی علوم میں بھی، روحانی علوم میں بھی ترقی کرنے والا، ہمارا پیارا ساتھی اور بھائی ہم سے جد اہوا۔ اللہ کے حوالے، اللہ کی پیار کی نگاہیں ان پر پڑیں۔“ (الفضل انٹرنیشنل لندن10تا16جنوری1997ء)

چونکہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی یہ پیشگوئی قیامت تک محیط ہے اس لئے علمی میدان کے اس غلبے کے حصول کے لئے ایک نہیں سینکڑوں عبد السلام مطلوب ہیں۔
چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا

”ایک عبد السلام تو پیدا کیا لیکن ایک عبد السلام سے تو بات نہیں بنتی جماعت احمدیہ کو ہر علم کے میدان میں سینکڑوں عبد السلام پیدا کرنے پڑیں گے“ (الفضل22فروری1983ء)
پس اے نونہالانِ احمدیت! آپ دن رات محنت کریں او رخلافت سے دلی وابستگی کے ذریعے خلیفہ وقت کی دعاؤں سے حصہ پاتے ہوئے علم کے ہر میدان میں آگے بڑھیں۔

پیش لفظ

اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو مختلف صلاحیتوں سے نوازرکھا ہے۔ بعض لوگ اپنی بیشترصلاحیتوں کو ضائع کردیتے ہیں اور ان سے خاطر خواہ فائدہ انہیں اٹھاتے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری ہے۔ لیکن بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ان سے بھرپور استفادہ کرتے ہیں اور دوسروں سے ممتاز ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں میں سے ایک مکرم ڈاکٹر عبد السلام صاحب ہںر۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے غیرمعمولی ذہنی صلاحیتوں سے نوازا تھا اور وہ اپنی ان خداداد ذہنی صلاحیتوں کو خوب خوب کام میں لائے اور اپنی زندگی میں بڑے بڑے عظیم الشان علمی کارنامے سرانجام دیے اور دوسروں کے لئے ایک مثال قائم کردی۔

مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان احمدی بچوں اور بچیوں کی صلاحیتوں کو متحرک کرنے اور ان میں علمی ذوق و شوق پیدا کرنے کے لئے ڈاکٹر عبد السلام صاحب کی سوانح اور ان کے علمی کارناموں پرمشتمل یہ کتاب شائع کررہی ہے۔ پہلی مرتبہ یہ کتاب1983ء میں شائع کی گئی۔ اب شعبہ اشاعت مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان اسے ایک مرتبہ پھر کمپوز کروا کر شائع کرنے کی توفیق پا رہا ہے۔ ایک لمبا عرصہ گزرجانے کی وجہ سے اس کتاب کی نظر ثانی اور اس میں بعض معلومات کے اضافے کی ضرورت تھی۔ جس کے لئے ہم کتاب کے مؤلف مکرم انجینئر محمود مجیب اصغر صاحب کے بے حد ممنون ہیں جنہوں نے ہماری درخواست پر اس پر نظر ثانی کی اور مفید معلومات کا اضافہ کیا۔ علاوہ ازیں مکرم سہیل احمد ثاقب صاحب، مکرم میر انجم پرویز صاحب اور مکرم طارق محمود بلوچ صاحب بھی شکریہ کے مستحق ہیں جنہوں نے اس کتاب کی تیاری اور پروف ریڈنگ وغیرہ کے مراحل میں خصوصی تعاون کیا۔ فجزاھم اللہ حسن الجزاء

حرف آغاز

بچو! ہمارا دین علم حاصل کرنے پر بہت زور دیتا ہے۔ ہر علم کی بنیاد قرآن کریم میں موجود ہے اور کوئی بھی ایسا علم نہیں جس کا اصولی اور بنیادی طور پر قرآن کریم میں ذکر موجود نہ ہو۔ اسی لیے ہمارے پیارے نبی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مسلمان مرد اور عورت کو علم حاصل کرنے کا حکم دیاہے۔

اسلام کے شروع زمانہ میں خدا، رسولؐ اور قرآن سے پیار کرنے والے بے شمار لوگ گذرے ہیں جنھوں نے خدا کی صفات کا علم حاصل کرنے کے لئے ہر قسم کے علوم کو سیکھا، ان کو ترقی دی اور ان کے ذریعے خدا کے بندوں کی خدمت کی۔

سائنسی علوم کی ترقی اسلام کی پہلی صدی میں اس وقت شروع ہوئی جب طارق بن زیاد نے 92ھ مطابق711ء میں سپین کا ملک فتح کیا، اور سپین میں اسلامی حکومت قائم ہوئی۔ وہ زمانہ مسلمانوں کی حیرت انگیز ترقیات کا زمانہ تھا اس دَوران بڑے بڑے لائق مسلمان سائنسدان پیدا ہوئے جنھوں نے اپنی محنت اور خدا کی مدد سے علوم میں کمال حاصل کیا اور ساری دنیا سے اپنے علم کا سکّہ منوایا۔ ان میں جابر، خوارزمی، رازی، مسعودی، وفا، البیرونی، بُوعلی سینا، ابن الہیثم، ابنِ رُشد، طُوسی اور ابنِ نفیس وغیرہ کے نام خاص طور پر مشہور ہیں۔ مسلمانوں نے متواتر کئی سوسال علمی دنیاکے استاد اور لیڈر بن کر خدا کے بندوں کی بے لوث خدمت کی اور اپنے پیچھے کتابوں کی شکل میں علم کے خزانے چھوڑے جن سے ماہرین آج بھی رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔

اس زمانہ میں یورپ کے بڑے بڑے عیسائی سپین کی عرب درس گاہوں سے آکر علوم حاصل کرتے تھے اور اس طرح مسلمانوں کے ذریعے ہی یورپ میں علم و سائنس کا آغاز ہوا۔ لیکن جب مسلمانوں پر عارضی کمزوری کازمانہ آیا اوراُن کے بچوں کے دلوں سے علم کی محبت نکل گئی تو خدا نے علم کی شمع ان سے چھین کر یورپ والوں کے ہاتھوں میں تھمادی۔ مسلمان اپنے آباؤاجداد کے علمی ورثے کو نہ سنبھال سکے۔ اُن کی کتابیں یورپ کے ملکوں میں پہنچ گئیں۔ ان کے ترجمے کرکے یورپ والوں نے علم و سائنس کو اپنے ملکوں میں بہت ترقی دی۔ یورپی قومیں مسلمانوں کو پیچھے چھوڑ کر علم کے میدان میں بہت آگے نکل گئیں۔

بچو!کئی سوسالوں کی خاموشی کے بعد چودھویں صدی ھجری کے آخر میں ایک احمدی سائنسدان نے علم کے میدان میں دنیا کا سب سے بڑا انعام ”نوبیل اِنعام“ حاصل کرکے تاریخ کے دھارے کو موڑ دیاہے۔ انہی دنوں جماعتِ احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق بخشی کہ سات سو سال بعد سپین میں پہلی بیت الذکر بنادی ادھرحضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی طرف سے تعلیمی منصوبہ جاری ہوا۔ یوں لگتا ہے کہ ان دونوں واقعات کے ساتھ ساتھ رونماہونے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اب پھر مسلم سپین کی طرح علمی دَور کا آغاز ہوا ہے اور خدا تعالیٰ چاہتاہے کہ مومن تعلیم کے میدان میں اپنی عظمت دوبارہ قائم کریں اور یورپ کو علم کے میدان میں شکست دیں اورایک بارپھر علمی دنیا کے امام بن کر اس کو ہمیشہ کے لیے قائم رکھیں۔

بچو! جس طرح اسلام کی پہلی صدی کے آخر میں سپین کی فتح اور مسلمانوں کے ذریعے علم کی ترقی کوئی اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی خاص تقدیروں میں سے ہے اسی طرح احمدیت کی پہلی صدی کے آخر میں ایک احمدی سائنسدان کا عالمی سطح پر اُبھرنا اور سپین میں مسلمانوں کے زوال کے سات سَوسال بعد جماعت احمدیہ کے ذریعے ایک نئی بیت الذکر کا بننا بھی کوئی اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی خاص تقدیر ہے۔

ان واقعات کی اہمیت کے پیشِ نظر ہم نے گذشتہ صدی کے عظیم سائنسدان ڈاکٹر عبد السلام صاحب کی زندگی کے مختصر حالات لکھے ہیں تاکہ احمدی بچے ان کے نمونے کو سامنے رکھ کر علم کے میدان میں ساری دنیا سے آگے نکل جائیں اور خدا کی مخلوق کی خدمت کریں۔