پہلا احمدی مسلمان سائنسدان عبدالسلام

جماعت احمدیہ کا تعلیمی منصوبہ

ڈاکٹر عبد السلام کے ذریعے اسلام کو سائنس کا گمشدہ ورثہ واپس ملنے کا آغاز ہوا ہے لیکن اسلام کی عظمت کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے ان جیسے مسلمان سائنسدانوں کا کثرت سے پیدا ہوتے رہنا ضروری ہے لیکن اس ضرورت کا احساس صرف جماعت احمدیہ کو ہے اور اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کے ذریعے یہ انقلاب لانا چاہتا ہے۔

چنانچہ جلسہ سالانہ 1979ء کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر سلام کی نوبیل انعام لینے پر تعریف کی اور ان کے نقش قدم پر چل کر احمدی بچوں کو کثرت سے چوٹی کے سائنسدان بننے کی تلقین فرمائی۔

حضور نے فرمایا کہ قیام احمدیت کی آئندہ صدی میں جو کہ غلبہ اسلام کی صدی ہے جماعت کو ایک ہزار چوٹی کے سائنسدان اور محقق چاہئیں۔ یہ صدی 1989ء سے شروع ہو چکی ہے اور اس دوران 1979ء سے 1989ء تک دس سالوں میں سو چوٹی کے سائنسدان اور محقق چاہئیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے حضور نے تعلیمی منصوبہ بندی کا اعلان کیا اور فرمایا:۔

”آج میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جماعت احمدیہ ہر ذہین مگر غریب بچے کو پرائمری سے سنبھالے گی۔۔۔ جماعت کا کوئی ذہین بچہ چاہے وہ ماسکو میں ہو یا نیویارک میں یا پاکستان کے اندر یا باہر اس کا ذہن ضائع نہیں ہونے دیا جائے گا۔ نوع انسانی کے اس ذہن کو سنبھالنا ہے۔ یہ اسلام نے بتایا ہے اور اسلام کے اس حکم کو قائم کرنا ہے۔۔۔ ہم ہر سال جماعت احمدیہ کی طرف سے سوا لاکھ روپے کے وظیفے ذہین طلباء کو دیں گے۔۔۔ یہ انعام نہیں یہ ان طالب علموں کا حق ہے۔۔۔ جماعت احمدیہ اپنی طرف سے ڈاکٹر عبد السلام صاحب کی یہ عزت افزائی کرتی ہے کہ ان کو اس کمیٹی کا صدر مقرر کرتی ہے۔۔۔ میری دعا ہے کہ یہ سکیم جماعت اور قوم کے لیے انتہائی مفید ثابت ہو۔“ (الفضل3جنوری1980)

تیسری دنیا کے لیے خدمات

بچو! تیسری دنیا سے مراد غریب اور غیر ترقی یافتہ ممالک ہیں جن کے لیے ڈاکٹر سلام کی بے شمار خدمات میں سے بعض یہ ہیں:

٭ تیسری دنیا کے ممالک میں سائنس کی ترقی کی کوشش۔

٭ اٹلی میں طبیعات کی تعلیم وتربیت کے لیے عالمی مرکز کا قیام۔

٭ دنیا میں د ولت کی غیر مساوی تقسیم روکنے کے لیے سائنسی مجالس میں تیسری دنیا کی نمائندگی۔

٭ ایٹم برائے امن کے لیے جدوجہد۔

٭ ترقی پذیر ممالک کے دورے اور حکومتوں کو اہم مشورے۔

ڈاکٹر عبد السلام کی پاکستان، اسلامی ممالک اور تیسری دنیا کے لیے خدمات کے اعتراف میں ان ممالک کی ایک درجن سے زائد یونیورسٹیوں نے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریاں دی ہیں اور کئی موقعوں پر اس کا اعتراف کیا ہے۔

خدمات کا نہایت وسیع دائرہ

نوبیل انعام کے حصول کے بعد بھی ڈاکٹر عبد السلام مسلسل اپنے کاموں میں پورے ولولے اور جوش و خروش کے ساتھ لگے رہے۔ پاکستان کے ایک نامور سائنسدان کا کہنا ہے کہ ”ڈاکٹر عبد السلام صاحب کے گرد مختلف دائرے تھے۔

٭ پہلا دائرہ ان کی فیملی (Family) اور کیمونٹی (Community) کا تھا (یعنی جماعت احمدیہ عالمگیر)

٭ دوسرا پاکستان کا

٭ پھر اسلامی ممالک کا

٭ پھر ترقی پذیر ممالک کا

٭ اور پھر پوری دنیا کا

اس طرح انھوں نے ہر دائرے کے حوالے سے کام کیا اور پاکستان میں یہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ ڈاکٹر سلام مختلف رسالوں، خاص طور پر مہلک ہتھیاروں کے خاتمے کی تحریک چلانے والے رسالے بلیٹن آف اٹامک سائنسز (Bulletin of Atomic Sciences)، جس کے بانیوں میں آئن سٹائن بھی تھا، کے بورڈ آف ایڈیٹرز (Board of Editors) کے بھی ممبر تھے اور ڈاکٹر سلام ہمیشہ (پر امن) Peacefulدنیا کے لیے کام کرتے رہے جس میں ہر طرف امن اور خوشحالی ہو۔

اس دوران بھی اللہ تعالیٰ ان کو بہت نوازتا رہا اور انھوں نے اپنی علمی برتری اور نہایت وسیع اور عظیم الشان خدمات کی بدولت مزید کئی ممالک سے اعزازی ڈگریاں، ایوارڈز، اعزازت اور مختلف بین الاقوامی سائنسی سوسائیٹیوں کی ممبر شپ حاصل کی اور ساری دنیا سے اپنی قابلیت کا لوہا منوایا۔