پہلا احمدی مسلمان سائنسدان عبدالسلام

خاندانی حالات

ڈاکٹر عبد السلام کا تعلق دریائے چناب کے کنارے واقع جھنگ شہر کے ایک گھرانے سے تھا۔ ان کے والد کا نام چودھری محمد حسین اور والدہ کانام ہاجرہ بیگم تھا۔ ان کے آباؤاجداد پاک وہند کے راجپوت خاندان کے شہزادوں میں سے تھے۔ جولائی 712ء میں محمد بن قاسم نے جب سندھ فتح کیا تو کئی بزرگ اسلام کی تبلیغ کے لیے اس ملک میں داخل ہوئے۔ ان میں ایک بہاؤالدین زکریاؒ بھی تھے جو ملتان کے علاقہ میں آئے۔ اس وقت یہاں اکثر لوگ ہندوتھے۔ ڈاکٹر عبد السلام کے جَدّامجد سعدبڈھن حضرت غوث بہاؤالدین زکریاؒ کی تبلیغ سے مسلمان ہوگئے۔ انھوں نے اپنی باقی عمر اسلام کی خدمت کے لیے وقف کردی۔ ان کی وفات ملتان میں ہوئی اور وہیں حضرت بہاؤالدین زکریاؒ کے پہلو میں دفن ہوئے۔ یہ وہی بزرگ ہیں جن کے نام پر ملتان میں بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی بنی۔

حضرت بہاؤالدین زکریاؒ نے اسلام کی تبلیغ کے لیے اپنے مریدوں کے ذمّہ مختلف علاقے کیے۔ ڈاکٹر عبد السلام کے بزرگوں کے ذمّہ جھنگ کا علاقہ کیا گیا۔ اس طرح یہ خاندان جھنگ آکر آباد ہوگیا اور دین حق کا پرچار کرتارہا۔ ان کے بزرگوں کو اس سلسلے کا خلیفہ کہاجاتاتھا۔ ڈاکٹر صاحب کے والد مرحوم بیان کرتے ہیں :۔

”مَیں نے اپنے دادا حضرت میاں قادربخش مرحوم اور اپنے والد حضرت میاں گل محمد مرحوم کو خلافت پر متمکّن دیکھا… میرے والد میاں گل محمد رحمۃ اللہ علیہ قرآن کریم کے بڑے اچھے عالم تھے… والدہ ماجدہ تہجّدگذار عورت تھیں۔“ (سرگذشت)

غرض مدّتوں سے ڈاکٹر عبد السلام صاحب کا خاندان دیندار چلا آرہاتھا۔ سیّدنا حضرت مولانا نورالدین احمدصاحب خلیفۃ المسیح الاوّل کے زمانۂ خلافت میں اس خاندان کو احمدی ہونے کی سعادت ملی۔

ان کے والد چوہدری محمدحسین صاحب مرحوم کے احمدی ہونے کا واقعہ یوں ہے کہ جب وہ اسلامیہ کالج لاہور میں پڑھتے تھے تو ایک شخص نے احمدیت کی مخالفت میں ایک انجمن بنائی اور انہیں اس میں شامل ہونے کے لیے کہا۔ انھوں نے کہا کہ اگر حضرت مرزاغلام احمدقادیانی علیہ السلام سچے ہوئے تو پھر؟ اس شخص نے کہا یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس پر انھوں نے ارادہ کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے رہنمائی حاصل کریں گے۔ چنانچہ انھوں نے کثرت کے ساتھ سورۃ فاتحہ کی دُعا اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ (یعنی اے اللہ! ہمیں سیدھا راستہ دکھا) کرنی شروع کردی۔ ایک رات انہیں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی خواب میں زیارت ہوئی اور انہیں بتایا گیا کہ یہی وہ بزرگ ہیں جن کی آپ کو تلاش ہے۔ چنانچہ چوہدری محمدحسین صاحب نے قادیان جاکر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے مبارک ہاتھ پر بیعت کرلی۔ اگرچہ اس سے پہلے اُن کے بڑے بھائی چوہدری غلام حسین صاحب اور والدہ احمدی ہوچکے تھے تاہم ان کی بہت مخالفت ہوئی لیکن وہ اپنے ایمان پر مضبوطی سے جمے رہے۔ ان کے احمدی ہونے کے اٹھارہ دن بعد حضرت مولانا نورالدین خلیفۃ المسیح الاوّل فوت ہوگئے اور حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدصاحب خلیفۃ المسیح الثانی ہوئے۔

ڈاکٹر عبد السلام صاحب کے والدچوہدری محمدحسین صاحب کی نیکی کا یہ عالم تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے انہیں زمانہ طالب علمی میں ہی احمدیہ ہوسٹل لاہور کا سپرنٹنڈنٹ مقرر کردیا تھا۔ اس وقت وہ بی۔ اے میں پڑھتے تھے۔

بی۔ اے کے بعد1920ء میں وہ گورنمنٹ ہائی سکول جھنگ میں عارضی استاد لگ گئے اور بعدمیں محکمہ تعلیم میں ہیڈکلرک ہوگئے۔

انہی دنوں ان کی شادی ہوئی۔ ان کی بیوی کانام سعیدہ بیگم تھا۔ 30 اپریل 1922ء کو ان کے ہاں بیٹی ہوئی جس کانام مسعودہ بیگم رکھا گیا۔ بیٹی کی پیدائش کے ساتھ ہی ان کی بیوی وفات پاگئیں۔ چوہدری محمدحسین صاحب نے اس کے بعد تین سال بڑی مصیبت میں گذارے۔ چھوٹی سی بچّی کو وہ خود پالتے رہے۔ اس دوران انھوں نے خدا تعالیٰ سے بہت دعائیں کیں۔