سوچنے کی باتیں

فہرست مضامین

اسامہ! تم قیامت کے دن کیا جواب دوگے

محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی جو ایک کھلی کتاب کے طور پر تھی۔ اس میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نظر نہیں آتی کہ آپ کا تیر ایسے طور پر چلا ہو کہ کوئی بے گناہ اس کا شکار ہوا ہو۔ صحابہ کرامؓ سے بعض دفعہ ایسی غلطیاں ہوئی ہیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی اس کا علم ہوا آپ نے ان پر شدید ناراضگی کا اظہار فرمایا۔

حضرت اسامہؓ آپ کو نہایت عزیز تھے ان کے باپ کو آپ نے اپنا بیٹا بنایا ہوا تھا۔ ایک غزوہ میں حضرت اسامہؓ شریک تھے کہ ایک مخالف کے تعاقب میں انہوں نے اپنا گھوڑا ڈال دیا۔ جب اس نے دیکھا کہ اب میں قابو آ گیا ہوں تو اس نے کہا لَا اِلَہَ اِلاَّ اللہُ۔ جس سے اس کا مطلب یہ تھا کہ میں مسلمان ہوتا ہوں مگر حضرت اسامہؓ نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی اور اسے قتل کر دیا۔ بعد میں کسی شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی اطلاع دے دی۔ آپ حضرت اسامہؓ پر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ تو نے کیوں مارا جب کہ وہ اسلام کا اقرار کر چکا تھا۔ حضرت اسامہؓ نے کہا وہ جھوٹا اور دھوکے باز تھا وہ دل سے ایمان نہیں لایا صرف ڈر کے مارے اس نے اسلام کا اقرار کیا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت ناراضگی کے لہجہ میں فرمایا: کیا تو نے اس کا دل پھاڑ کر دیکھ لیا تھا کہ وہ سچے دل سے اسلام کا اظہار نہیں کر رہا تھا یعنی جب کہ وہ کہہ رہا تھا کہ میں اسلام قبول کرتا ہوں تو تمہارا کوئی حق نہیں تھا کہ تم یہ کہتے کہ تم مسلمان نہیں۔ اسامہ بن زیدؓ نے اپنی بات پر پھر اصرار کیا اور کہا: یا رسول اللہ! وہ تو یونہی باتیں بنا رہا تھا ورنہ اسلام اس کے دل میں کہاں داخل ہوا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اسامہؓ تم قیامت کے دن کیا جواب دو گے جب اس کا لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ تمہارے سامنے پیش کیا جائے گا اور تمہارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہو گا۔ اسامہؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ناراضگی کو دیکھ کر اس دن میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش میں اس سے پہلے کافر ہی ہوتا اور آج مجھے اسلام قبول کرنے کی توفیق ملتی تا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے فعل کی وجہ سے اتنا دکھ نہ پہنچتا۔ (بخاری۔ کتاب الدیات۔ باب قول اللہ تعالیٰ و من احیاھا و مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 200، 207)۔ (سیر روحانی جلد دوم صفحہ 55)