سوچنے کی باتیں

فہرست مضامین

جہاں ہدایت کا سوال آ جائے۔۔۔

دیال سنگھ کیوں مسلمان نہ ہوا

اگر کبھی کوئی ایسا موقع آ جائے کہ دوسرے کو ہدایت دیتے دیتے تمہارے اپنے ایمان کے ضائع ہو جانے کا بھی خطرہ ہو تو ایسی حالت میں تم دوسرے کو بے شک ہلاک ہونے دو اور اپنے ایمان کی حفاظت کرو۔

دیال سنگھ کالج کے بانی کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ بالکل اسلام کے قریب پہنچ گئے تھے مگر جو شخص انہیں تبلیغ کر رہا تھا اس نے ایک دفعہ صرف اس آیت پر تھوڑی دیر کے لئے عمل چھوڑ دیا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اسلام سے منحرف ہو گئے۔ سردار دیال سنگھ صاحب جن کے نام پر لاہور میں کالج بنا ہوا ہے سکھ مذہب سے سخت متنفر تھے کسی مولوی سے انہیں اسلام کا علم ہوا اور جب اسلامی تعلیم پر انہوں نے غور کیا تو وہ بہت ہی متاثر ہوئے اور انہوں نے اپنی مجلس میں اسلام کی خوبیوں کا اظہار کرنا شروع کر دیا اور کہنے لگ گئے کہ میں اب اسلام قبول کرنے والا ہوں۔ ان کا ایک ہندو دوست تھا جو بڑا چالاک تھا۔ اس نے جب دیکھا کہ یہ مسلمان ہونے لگے ہیں تو اس نے انہیں کہا کہ سردار صاحب ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ہوتے ہیں اور دکھانے کے اور۔ یہ تو محض مسلمانوں کی باتیں ہیں کہ اسلام بڑا اچھا مذہب ہے ورنہ عمل کے لحاظ سے کوئی مسلمان بھی اسلامی تعلیم پر کاربند نہیں۔ اگر آپ کو میری اس بات پر اعتبار نہ ہو تو جو مولوی آپ کو اسلام کی تبلیغ کرنے کے لئے آتا ہے آپ اس کے سامنے ایک سو روپیہ رکھ دیں اور کہیں کہ ایک دن تو میری خاطر شراب پی لے۔ پھر آپ دیکھیں گے کہ وہ شراب پیتا ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا بہت اچھا چنانچہ جب دوسرے دن وہی مولوی آیا تو انہوں نے سو روپیہ کی تھیلی اس کے سامنے رکھ دی اور کہا مولوی صاحب اب تو میں نے مسلمان ہو ہی جانا ہے۔ ایک دن تو آپ بھی میرے ساتھ شراب پی لیں اور دیکھیں میں نے آپ کی کتنی باتیں مانی ہیں کیا آپ میری اتنی معمولی سی بات بھی نہیں مان سکتے۔ اس کے بعد تو میں نے شراب کو ہاتھ بھی نہیں لگانا۔ صرف آج شراب پی لیں۔ اس نے سو روپیہ کی تھیلی لے لی اور شراب کا گلاس اٹھا کر پی لیا۔ سردار دیال سنگھ صاحب پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ وہ بجائے مسلمان ہونے کے برہمو سماج سے جا ملے اور انہوں نے اپنی ساری جائداد اس کے لئے وقف کر دی۔ یہ نتیجہ تھا درحقیقت اس آیت کی خلاف ورزی کا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ لَایَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْ (المائدۃ:۶۰۱) اگر روٹی کا سوال ہو تو بے شک خود بھوکے رہو اور دوسرے کو کھانا کھلاؤ۔ لیکن جہاں ہدایت کا سوال آ جائے اور تمہیں محسوس ہو کہ اگر تمہارا قدم ذرا بھی ڈگمگایا تو تم خود بھی ہدایت سے دور ہو جاؤ گے تو تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایسی صورت میں تمہیں مضبوطی سے ہدایت پر قائم رہنا چاہیے اور دوسرے کی گمراہی کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ (سیر روحانی جلد اول صفحہ 153 ۔ 154)