سوچنے کی باتیں

فہرست مضامین

بچے کے کان میں اذان کہنے کی حکمت

فرانس میں ایک دفعہ ایک لڑکی کو دورے پڑنے شروع ہوئے جب اسے دورہ پڑتا تو وہ جرمن زبان میں بعض مذہبی دعائیں پڑھنا شروع کر دیتی وہ فرانسیسی لڑکی تھی اور جرمن زبان کا ایک حرف بھی نہیں جانتی تھی۔ جب دورے میں اس نے جرمن زبان میں باتیں شروع کیں تو ڈاکٹروں نے فوراً شور مچا دیا کہ اب تو جن ثابت ہو گئے یہ لڑکی تو جرمن زبان نہیں جانتی۔ یہ جو جرمن زبان بول رہی ہے تو ضرور اس کے سر پر جن سوار ہے آخر ایک ڈاکٹر نے اس کے متعلق تحقیقات شروع کی وہ حافظہ کا بہت بڑا ماہر تھا۔ جب اس نے تحقیق کی تو اسے معلوم ہوا کہ جب یہ لڑکی دو اڑھائی سال کی تھی تو اس وقت اس کی ماں ایک جرمن پادری کے پاس ملازم تھی جب وہ پادری جرمن زبان میں سرمن پڑھتا تو یہ لڑکی اس وقت پنگھوڑے میں پڑی ہوتی تھی جب اسے یہ بات معلوم ہوئی تو وہ اس جرمن پادری کی تلاش میں نکلا اسے معلوم ہوا کہ وہ جرمن پادری اس وقت سپین مںا ہے۔ سپین پہنچنے پر اسے معلوم ہوا کہ وہ پادری ریٹائر ہو کر جرمنی چلا گیا ہے اس کی تلاش میں جرمنی پہنچا۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہ پادری مر گیا ہے۔ مگر اس نے اپنی کوشش نہ چھوڑی اور اس نے گھر والوں سے کہا کہ اگر اس پادری کے کوئی پرانے کاغذات ہوں تو وہ مجھے دکھائے جائیں۔ گھر والوں نے تلاش کر کے اسے بعض کاغذات دیئے اور جب اس نے ان کاغذات کو دیکھا تو اسے معلوم ہوا کہ وہ دعائیں جو بے ہوشی کی حالت میں وہ لڑکی پڑھا کرتی تھی وہ وہی ہیں جواس پادری کی سرمن تھی۔ اب دیکھو دو اڑھائی سال کی عمر میں ایک پادری نے اس کے سامنے بعض باتیں کیں جو اس کے دماغ میں اللہ تعالیٰ نے محفوظ کر دیں۔

یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کسی مسلمان کے گھر میں بچہ پیدا ہو تو فوراً اس کے ایک کان میں اذان اور دوسرے کان میں اقامت کہو۔ یورپ کے مدبرین نے تو آج یہ معلوم کیا ہے کہ انسانی دماغ میں سالہا سال کی پرانی چیزیں محفوظ رہتی ہیں۔ مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال پہلے اس نکتہ کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ بچہ کے پیدا ہوتے ہی تم اس کے کان میں اذان کہو کیونکہ اب وہ دنیا میں آگیا ہے اور اب اس کا دماغ اس قابل ہے کہ وہ تمہاری باتوں کو محفوظ رکھے۔ (سیرروحانی جلد دوم صفحہ138)

خداکا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں

دنیا کا ذرہ ذرہ گواہی دیتا ہے کہ وہ جو کچھ کرتا ہے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ بے شک بادی النظر میں بعض چیزیں قابل اعتراض نظر آئیں گی۔ لیکن جب بھی غور کیا جائے گا۔ انسان کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ کا ہر کام بے عیب اور پرحکمت ہے۔

لطیفہ مشہور ہے کہ کوئی ملا دماغ کا آدمی ایک دفعہ باغ میں گیا اور اس نے دیکھا کہ آم کے درخت پر تو چھوٹے چھوٹے پھل لگے ہوئے ہیں اور ایک معمولی سی بیل کے ساتھ بڑا سا حلوہ کدو لگا ہوا ہے وہ دیکھ کر یہ کہنے لگا کہ لوگ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ بڑا حکیم ہے مگر مجھے تو اس میں کوئی حکمت نظر نہیں آتی کہ اتنے بڑے درخت کے ساتھ تو چھوٹے چھوٹے پھل لگے ہوئے ہوں اور اتنی نازک سی بیل کے ساتھ اتنا بڑا حلوہ کدو لگا ہوا ہو۔ اس کے بعد وہ آرام کرنے کے لئے اسی آم کے درخت کے نیچے سو گیا۔ سویا ہوا تھا کہ اچانک ایک آم ٹوٹا اور زور سے اس کے سر پر آ لگا وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھا اور کہنے لگا خدایا مجھے معاف فرما۔ اب تیری حکمت میری سمجھ میں آ گئی ہے اگر اتنی دور سے حلوہ کدو میرے سر پر پڑتا تو میں تو مر ہی جاتا۔ غرض اس عالم کا ذرہ ذرہ گواہی دے رہا ہے کہ اس نے جو کچھ کیا ہے ٹھیک کیا ہے۔