سوچنے کی باتیں

فہرست مضامین

ہنوز دلّی دور است

حضرت نظام الدین صاحب اولیاؒ جو دلّی کے ایک بہت بڑے بزرگ گذرے ہیں، ان کے زمانہ کا بھی ایک بادشاہ غیاث الدین تغلق ان کامخالف ہو گیا۔ وہ اس وقت بنگال کی طرف کسی جنگ پر جا رہا تھا۔ اس نے کہا جب میں واپس آؤں گا تو انہیں سزا دوں گا۔ ان کے مریدوں نے یہ بات سنی تو وہ بڑے گھبرائے اور انہوں نے شاہ صاحب سے آکر کہا کہ حضور جو لوگ شاہی دربار میں رسوخ رکھتے ہیں اگر ان کے ذریعہ بادشاہ کے پاس سفار ش ہو جائے تو بہتر ہو گا۔ آپ نے فرمایا: ہنوز دِلی دور است۔ ابھی تو اس نے لڑائی کے لئے جانا ہے اور پھر دشمن سے جنگ کرنی ہے۔ ابھی سے کسی فکر کی کیا ضرورت ہے۔ اس وقت تو وہ دلّی میں موجود ہے اور لڑائی کے لئے گیا بھی نہیں۔ پھر آٹھ دس دن اور گذر گئے تو مرید پھر گھبرائے ہوئے آپ کے پاس آئے اور کہا: حضور اب تو آٹھ دس دن گذرچکے ہیں اور بادشاہ لڑائی کے لئے جا چکا ہے اب تو کوئی علاج سوچنا چاہئے۔ مگر آپ نے پھر یہی جواب دیا کہ ہنوز دلّی دور است۔ آخر جس جنگ پر وہ گیا تھا اس کے متعلق خبر آ گئی کہ اس میں بادشاہ کو فتح حاصل ہو گئی ہے اور وہ واپس آ رہا ہے۔ مرید پھر گھبرائے ہوئے آپ کے پاس پہنچے اور بادشاہ کی واپسی کی خبر دی۔ مگر آپ نے پھر یہی جواب دیا کہ ہنوز دلّی دور است۔ ابھی تو وہ دوچارسو میل کے فاصلہ پر ہے۔ ابھی کسی فکر کی کیا ضرورت ہے۔ جب وہ آٹھ دس منزل کے فاصلہ پر پہنچ گیا تو وہ پھر آئے اور انہوں نے کہا کہ اب تو وہ بہت قریب آگیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ہنوز دلّی دور است۔ جب وہ اور زیادہ قریب آگیا اور دو تین منزل تک پہنچ گیا تو پھر آپ کے مرید سخت گھبراہٹ کی حالت میں آپ کے پاس پہنچے مگر آپ نے پھر یہی جواب دیا کہ ہنوز دلّی دور است۔ آخر ایک دن پتا لگا کہ بادشاہ کی فوجیں فصیل کے باہر ٹھہر گئی ہیں۔ ان کے مرید یہ خبر سن کر پھر آپ کے پاس آئے اور کہاحضور اب تو وہ دلّی کی فصیلوں تک آپہنچا ہے۔ آپ نے فرمایا: ہنوز دلّی دور است۔ ابھی تو وہ فصیل کے باہر ہے۔ اندر تو داخل نہیں ہوا کہ ہمیں گھبراہٹ ہو۔ اسی رات ولی عہد نے فتح کی خوشی میں ایک بہت بڑی دعوت کی اور شاہانہ جشن منایا۔ ہزاروں لوگ اس دعوت اور رقص و سرور کی محفل میں شریک ہوئے۔ ولی عہد نے اس دعوت کا انتظام ایک بہت بڑے محل کی چھت پر کیا تھا۔ چونکہ چھت پر بہت زیادہ لوگ اکٹھے ہو گئے تھے، اس لئے اچانک چھت نیچے آگری اور بادشاہ اور اس کے رفقاء سب دب کر ہلاک ہو گئے۔ صبح جب بادشاہ کی موت کی خبر آئی تو انہوں نے کہا: میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ ہنوزدِلّی دور است۔

غرض ہمارا خدا بڑی بزرگ شان رکھنے والا ہے اور جو بھی اس کے ساتھ سچا تعلق پیدا کرتا ہے وہ اپنی اپنی روحانیت اور درجہ کے مطابق بزرگی حاصل کر لیتا ہے اور جس طرح خدا تعالیٰ کی شان اور عظمت پر حملہ کرنے والا سزا پاتا ہے اسی طرح وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے مقربین پرحملہ کرتے ہیں وہ بھی اپنے کئے کی سزا پائے بغیر نہیں رہتے۔ (تفسیر کبیرجلد 7 صفحہ 36 ۔ 37)

تورا شنان سو مورا شنان

اس وقت ضرورت ہے کہ (دین حق) کے لئے اور سلسلہ احمدیہ کے لئے ہر ایک قربانی جس کی ضرورت ہو، کی جائے اور جب تک تم میں سے ہر ایک قربانی نہیں کرے گا، ان ترقیوں کے منہ نہیں دیکھ سکو گے جو مقدر ہیں۔ زید و بکر کی قربانی تمہارے لئے کافی نہیں ہوسکتی۔ تمہارے لئے تمہاری اپنی ہی قربانی کام آنے والی ہے۔ اگر تم دوسروں کی قربانیوں پر خوش ہو گئے تو تمہاری مثال ایسی ہی ہوگی جیسی کسی پنڈت کے متعلق مشہور ہے۔ کہتے ہیں ایک پنڈت صبح کے نہانے کو فرض قرار دیتا تھا۔ صبح کے وقت دریا پر گیا۔ سردی کا موسم تھا اتنی تو جرأت نہ ہوئی کہ دریا میں داخل ہو کر نہائے۔ ایک کنکر اٹھا کر اس کو مخاطب کرکے کہنے لگا۔ ”تورا شنان سو مورا شنان“ یعنی تیرا نہانا میرا نہانا ہی ہے۔ یہ کہہ کر کنکر دریا میں ڈال دیا۔ راستہ میں ایک دوسرا پنڈت ملا۔ اس نے کہا بھئی کیسے نہائے۔ اس نے ترکیب بتلائی۔ اس پنڈت نے اسے مخاطب کرکے کہہ دیا کہ ”تورا شنان سو مورا شنان“ اور واپس آگیا۔ پس سید عبد اللطیف اور عبد الرحمن خان کی قربانی کو اپنے لئے کافی نہ سمجھو۔ کسی کی نماز سے اپنی نماز ادا نہیں ہوسکتی۔ جو کچھ ان سے ظاہر ہوا، وہ ان کا کام تھا۔ تم اپنا فرض آپ ادا کرنے کی کوشش کرو۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرماوے کہ ہم ان قربانیوں کو ادا کریں۔ جن کی اس وقت (دین حق) کے لئے ضرورت ہے اور ہمیں وہ دن نصیب کرے کہ ہم پوری ترقیاں دیکھیں اور (دین حق) اپنی اصلی شان میں آجائے۔ (خطباتِ محمود جلد 6 صفحہ 243 بحوالہ الفضل 24 جون 1919ء)