سوچنے کی باتیں

فہرست مضامین

نادان ہے جو شمشیر کو دیکھتا ہے

شمشیربذاتِ خود کچھ نہیں کرسکتی۔ ہاں جب شمشیرزن کے ہاتھ میں ہوتی ہے تو اس وقت کام کرتی ہے۔ نادان ہے جو شمشیر کو دیکھتا ہے۔ دانا وہی ہے جو شمشیر زن کو دیکھے۔

مثل ہے کہ ایک بادشاہ کے لڑکے نے دیکھا کہ ایک سوار تلوار کے ایک وار میں جانور کے چاروں پاؤں کاٹ دیتا تھا۔ اس زمانہ میں امتحان کے لئے چاروں پاؤں جانور کے باندھ کر کھڑا کردیتے تھے اور شمشیر زن ایک وار میں چاروں پاؤں کاٹ دیتا تھا۔ لڑکے نے اس سوار سے تلوار مانگی۔ مگر اس نے کہا : میاں اس تلوار کو کیا کروگے۔ تمہارے ہاں اور بہت سی تلواریں ہیں۔ لڑکے نے اپنے باپ بادشاہ کو کہا کہ فلاں سوار سے میں نے اس کی تلوار مانگی تھی مگر وہ نہیں دیتا۔ بادشاہ نے سوار کو بلا کر جھاڑا اور تلوار لے دی۔ لڑکے نے تلوار چلائی۔ مگر اس کے چاروں پیر تو کیا کھال بھی نہ کٹی۔ اس نے بادشاہ سے کہا کہ سوار نے اس تلوار کی بجائے کوئی اور دے دی ہے۔ سوا رکو بادشاہ نے پھر بلایا۔ تو اس نے کہا میں نے وہی تلوار دی ہے۔ لایئے میں کاٹ کر دکھلاؤں۔ چنانچہ سوا ر نے تلوار لے کر جانور کے چاروں پاؤں کاٹ دیئے۔ تب بادشاہ سمجھ گیا کہ اصل میں یہ تلوار کا کام نہ تھا بلکہ اس شمشیر زن کا کام تھا۔ (خطبات محمود جلد 6 صفحہ 556 بحوالہ الفضل 6 دسمبر 1920ء)

ادنی اعلیٰ پر قربان ہوتا ہے

ایک مشہور واقعہ ہے اور ہندوستان کی تاریخ پڑھنے والے بچے بھی جانتے ہیں کہ جس وقت ہمایوں بادشاہ شیر شاہ سے شکست کھا کر بھاگا ہے۔ اس وقت اس کا مشہور جرنیل بیرم خان دشمنوں کے قبضہ میں آگیا جس کے ساتھ اس کا غلام بھی گرفتار ہوا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ بیرم خان کون ہے؟ تو غلام نے کہا مَیں ہوں۔ اس پر بیرم خان نے بہت کوشش کی کہ وہ اپنا آپ دشمنوں پر ظاہر کردے اور انہیں یقین دلا دے کہ میں ہی بیرم خان ہوں لیکن اس کے غلام نے ایسا رنگ اختیا رکیا اور ایسے طریق سے گفتگو کی کہ دشمنوں کو یقین آگیا کہ وہی بیرم خان ہے اور انہوں نے اسے قتل کردیا۔ اس طرح بیرم خان بچ گیا۔ اگرچہ غلام نے جھوٹ سے کام لیا۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ اس نے اپنے آپ کو آقا پر قربان کرکے اس کی جان بچالی۔ کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ میرے وجود کی نسبت اس کا وجود بہت قیمتی اور کار آمد ہے۔ چنانچہ بیرم خاں ہمایوں کی اس مصیبت کے وقت میں بہت کام آیا اور اسی کے ذریعہ ہمایوں کو بہت سی فوج ملی جس سے اس نے ہندوستان کو دوبارہ فتح کیا۔

یہ تو ایک شخص کی قربانی کا واقعہ ہے۔ بعض جگہ تو ہزاروں اور لاکھوں انسانوں نے صرف ایک شخص کے لئے اپنی جان قربان کردی ہے۔

ابھی قریب ہی کے زمانہ میں ایک مشہور بادشاہ گذرا ہے جس کا نام نپولین تھا۔ یہ ایک معمولی خاندان کا ممبر اور بہت ہی معمولی حیثیت کا انسان تھا۔ حتٰی کہ مؤرخین کواس کے والدین کے تاریخی حالات میں بھی شبہ پڑاہوا ہے۔ بعض اس کے والد کے متعلق کچھ لکھتے ہیں اور بعض کچھ۔ یہ جزیرہ کا رسیکا کا رہنے والاتھا اور تعلیم پانے کے لئے فرانس میں آیاتھا۔ لیکن اپنی دانائی اور ملک کی خیرخواہی کی وجہ سے آہستہ آہستہ فرانس کا بادشاہ بن گیا۔ فرانس میں جب بغاوت اور فساد ہوا تو بادشاہ اسی کو بنایا گیا تھا۔ نسلی یا خاندانی تو کوئی وجہ ایسی نہ تھی کہ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوتے اور اپنا شہنشاہ بنا لیتے لیکن اس میں جو قابلیت اور ملک کی خیرخواہی تھی، اس کی وجہ سے یہ مقام ایسا حاصل ہوا کہ بعض اوقات لاکھوں ہزاروں انسان اس کی خاطر اور اس کی حفاظت کرتے ہوئے ذبح ہوگئے۔ آخری دفعہ واٹرلو کے میدان میں جب انگریزوں اور جرمنوں نے اس کو شکست دی ہے، اس وقت کے واقعات نہایت موثر اور رقت پیدا کرنے والے ہیں۔ اس کے متعلق اسی کا ایک جرنیل لکھتا ہے کہ جس وقت نپولین کو یہ دھوکا لگ گیاکہ اس نے سمجھا کہ اس کی فوج کا وہ حصہ جسے اس نے پیچھے اپنی مدد کے لئے چھوڑ رکھا تھا کہ بعد میں آملے وہ آرہا ہے۔ حالانکہ آنے والی فوج دشمن کی فوج تھی اور وہ بالکل قریب آ گئی تھی۔ تو یہ خبر لے کر مَیں ہی نپولین کے پاس گیا۔ جس وقت میں گیا تو ہماری ساری فوج پراگندہ ہو رہی تھی اور گولہ بارود بالکل ختم ہو چکا تھا۔ آگے اور پیچھے دونوں طرف دشمن حملہ آور تھا۔ اس خطرناک صورت میں ہر ایک جرنیل نپولین کے پاس آتا اور کہتا کہ اب آپ میدان سے ہٹ جائیں لیکن اس کا یہی جواب تھا کہ جس میدان میں مَیں اپنے ملک کے نوجوانوں کو لا کرقربان کر رہا ہوں، اس سے خود کس طرح ہٹ جاؤں۔ میں یہاں سے کبھی نہیں ہٹوں گا۔ اس وقت توپ خانہ کے آدمی نہتے ہو کر نپولین کے گرد کھڑے تھے۔ جن سے پوچھا گیا کہ جب تمہارے پاس لڑائی کا سامان نہیں تو کیوں نہیں ہٹ جاتے۔ انہوں نے کہا: ہم جانتے ہیں کہ ہمارے پاس سامان نہیں ہے لیکن ہم اس لئے میدان سے نہیں ہٹتے کہ ہمارے ہٹنے سے نپولین پکڑا جائے گا۔ آخر اس کے گارڈ کے آدمی بھی کٹنے شروع ہوگئے بلکہ قریباً کٹ گئے تو بھی نپولین میدان سے ہٹ جانے پر آمادہ نہ ہوااور اس کی جان نہایت خطرہ میں پڑگئی تو دو جرنیل آئے اور انہوں نے اس کے گھوڑے کی باگیں پکڑ لیں اور کہا کہ اب ملک کی خیرخواہی ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس بارہ میں آپ کی اطاعت نہ کریں۔ یہ کہا اور نپولین کے گھوڑے کوایڑلگا کر دوڑاتے ہوئے میدان سے لے گئے۔ (خطبات محمود جلد 2 صفحہ 40، 41 بحوالہ الفضل 28 ستمبر 1918ء)