سوچنے کی باتیں

فہرست مضامین

حضرت امام حسنؓ کا غلام کو آزاد کرنا

مومنوں کو چاہیے وہ عفو کریں، درگذر کی عادت ڈالیں اور اس کا فائدہ یہ بتایا کہ کیا تم نہیں چاہتے کہ خدا تعالیٰ تمہارے گناہ بخشے۔ جب تم چاہتے ہو کہ خدا تمہارے گناہوں کو بخشے تو اے مومنو تم بھی اپنے بھائیوں کے گناہوں کو بخشو! اگر تم اپنے بھائیوں کے گناہوں کو بخشو گے تو خدا تمہارے قصوروں کو معاف کرے گا۔

امن کو قائم کرنے کا ایک ذریعہ احسان ہے اس کے متعلق بھی قرآن کریم میں حکم موجود ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ (اٰل عمران:۵۳۱) کہ مومن وہ ہیں جو غصے کو دباتے ہیں جو لوگوں کو معاف کرتے ہیں اور پھر ان پر احسان بھی کرتے ہیں۔ اسی طرح فرماتا ہے۔

اِنَّ اللّٰہ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَ اِیْتَائِ ذِیْ الْقُرْبٰی (النحل:۱۹) کہ اللہ تعالیٰ عدل، احسان، ایتاء ذی القربی کا حکم دیتا ہے۔ ان تینوں کی مثال میں مَیں ایک واقعہ بیان کر دیتا ہوں جو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان سے سنا اور جسے بعد میں مَیں نے اور کتابوں میں بھی پڑھا ہے۔ وہ واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ حضرت امام حسنؓ نے اپنے ایک غلام کو کوئی برتن لانے کے لئے کہا۔ اتفاقاً وہ برتن اس نے بے احتیاطی سے اٹھایا اور وہ ٹوٹ گیا۔ وہ برتن کوئی اعلیٰ قسم کا تھا حضرت امام حسنؓ کو غصہ آیا۔ اس پر اس غلام نے یہی آیت پڑھ دی اور کہنے لگا وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ کہ مومنوں کو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ وہ اپنے غصہ کو دبا لیں۔ حضرت امام حسنؓ نے فرمایا کَظِمْتُ الْغَیْظَ کہ میں نے اپنے غصے کو دبا لیا۔ اس پر اس نے آیت کا اگلا حصہ پڑھ دیا اور کہنے لگا وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ کہ مومنوں کو صرف یہی حکم نہیں کہ وہ اپنے غصہ کو دبائیں بلکہ یہ بھی حکم ہے کہ وہ دوسروں کو معاف کیا کریں۔ حضرت امام حسن فرمانے لگے۔ عَفَوْتُ عَنْکَ جاؤ میں نے تمہیں معاف کر دیا۔ اس پر وہ کہنے لگا وَاللہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ اس سے آگے یہ بھی حکم ہے کہ مومن احسان کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی محبت محسنوں کو حاصل ہوتی ہے۔ اس پر حضرت امام حسنؓ نے فرمایا جاؤ میں نے تمہیں آزاد کر دیا۔ گویا پہلے انہوں نے اپنے غصے کو دبایا پھر اپنے دل سے اسے معاف کر دیا اور پھر احسان یہ کیا کہ اسے آزاد کر دیا۔ (سیر روحانی جلد اول صفحہ 157 ۔ 158)