سوچنے کی باتیں

فہرست مضامین

بے وقوف مشرک۔ فرانسیسی پادری

کیا تم نے کبھی دیکھا کہ کوئی آقا اپنے نوکر سے ڈر رہا ہو اور اس کے آگے ہاتھ جوڑتا پھرتا ہو یا کوئی افسر اپنے چپڑاسی کی منتیں کرتا رہتا ہو اور اگر تم کسی کو ایسا کرتے دیکھو تو کیا تم نہیں کہو گے کہ وہ پاگل ہو گیا ہے۔ پھر تمہیں کیوں اتنی موٹی بات بھی سمجھ نہیں آتی کہ وَسَخَّرَ لَکُمْ ہم نے تو ان تمام چیزوں کو تمہارا غلام بنا کر دنیا میں پیدا کیا ہے اور ان سب کا فرض ہے کہ وہ تمہاری خدمت کریں۔ بے شک یہ بڑی چیزیں ہیں مگر جس ہستی نے ان کو پیدا کیا ہے وہ ان سے بھی بڑی ہے۔ اس نے تو ان چیزوں کو تمہاری خدمت کے لیے پیدا کیا ہے مگر تمہاری عجیب حالت ہے کہ تم الٹا انہی کے آگے اپنے ہاتھ جوڑ رہے ہو۔ قرآن کریم نے جو شرک کی اس بے ہودگی کی طرف اس زور سے توجہ دلائی ہے، مجھے اس کے متعلق ایک قصہ یاد آ گیا وہ بھی بیان کرتا ہوں کہ اس سے مشرکوں کی بے وقوفی پر خوب روشنی پڑتی ہے وہ قصہ یہ ہے کہ فرانس میں دو پادری ایک دفعہ سفر کر رہے تھے کہ سفر کرتے کرتے رات آ گئی اور انہیں ضرورت محسوس ہوئی کہ کہیں رات آرام سے بسر کریں اور صبح پھر اپنی منزل مقصود کی طرف روانہ ہو جائیں۔ انہوں نے ایک مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اندر سے ایک عورت نکلی۔ انہوں نے کہا ہم مسافر ہیں صرف رات کاٹنا چاہتے ہیں اگر تکلیف نہ ہو تو تھوڑی سی جگہ کا ہمارے لئے انتظام کر دیا جائے ہم صبح چلے جائیں گے۔ اس نے کہا جگہ تو کوئی نہیں۔ ایک ہی کمرہ ہے جس میں ہم میاں بیوی رہتے ہیں مگر چونکہ تمہیں بھی ضرورت ہے اس لئے ہم اس کمرہ میں ایک پردہ لٹکا دیتے ہیں ایک طرف تم سوتے رہنا۔ دوسری طرف ہم رات گذار لیں گے۔ چنانچہ اس نے پردہ لٹکا دیا اور وہ دونوں اندر آ گئے۔ اتفاق یہ ہے کہ ان کے پاس کچھ روپے بھی تھے۔ اب جب وہ سونے کے لئے لیٹے تو انہیں خیال آیا کہ کہیں یہ گھر والے ہماری نقدی نہ چرا لیں۔ اس لئے انہوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ ذرا ہوشیار رہنا اور جاگتے رہنا۔ ایسا نہ ہو کہ ہم لوٹے جائیں۔ ادھر میاں جو پیشہ میں قصاب تھا اس خیال سے کہ ہمارے مہمانوں کی نیند خراب نہ ہو بیوی سے آہستہ آہستہ باتیں کرنے لگا۔ ان پادریوں کے پاس چونکہ روپیہ تھا انہوں نے سوچا کہ کہیں یہ لوگ ہمیں لوٹنے کی تجویز تو نہیں کر رہے اور کان لگا کر باتیں سننے لگے۔ ان دونوں میاں بیوی نے دو سور پال رکھے تھے جو سور خانے میں تھے اور وہ چاہتے تھے کہ ان میں سے ایک کو دوسرے دن ذبح کر دیں۔ اتفاق کی بات ہے کہ ایک سور موٹا تھا اور ایک دبلا تھا۔ اسی طرح ایک پادری بھی موٹا تھا اور ایک دبلا۔

جب پادریوں نے کان لگا کر سننا شروع کیا تو اس وقت میاں بیوی آپس میں یہ گفتگو کر رہے تھے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ایک کو ذبح کر دیا جائے۔ خاوند کہنے لگا میری بھی یہ صلاح ہے کہ ایک کو ذبح کر دیا جائے۔ پادریوں نے جب یہ بات سنی تو انہوں نے سمجھا کہ بس اب ہماری خیر نہیں۔ یہ ضرور چھرا لے کر ہم پر حملہ کر دیں گے اور ہمیں مار کر نقدی اپنے قبضہ میں کر لیں گے مگر انہوں نے کہا ابھی یہ فیصلہ کرنا ٹھیک نہیں ذرا اور باتیں بھی سن لیں۔ پھر انہوں نے کان لگائے تو انہوں نے سنا کہ بیوی کہہ رہی ہے پہلے کس کو ذبح کریں میاں نے کہا پہلے موٹے کو ذبح کرو پتلا جو ہے اسے چند دن کھلا پلا کر پھر ذبح کر دیں گے۔ یہ بات انہوں نے جونہی سنی وہ سخت گھبرائے اور انہیں یقین ہو گیا کہ اب ہمارے قتل کی تجویز پختہ ہو چکی ہے چنانچہ انہوں نے چاہا کہ کسی طرح اس مکان سے بھاگ نکلیں۔ دروازے چونکہ بند تھے اس لئے دروازوں سے نکلنے کا تو کوئی راستہ نہ تھا۔ وہ بالا خانہ پر لیٹے ہوئے تھے انہوں نے نظرجو ماری تو دیکھا کہ ایک کھڑی کھلی ہے۔ بس انہوں نے جلدی سے اٹھ کر کھڑی میں سے چھلانگ لگا دی جو موٹا پادری تھا وہ پہلے گرااور جو دبلا پادری تھا وہ اس موٹے پادری کے اوپر آ پڑا دبلے کو تو کوئی چوٹ نہ لگی۔ مگر موٹا جو پہلے گرا تھا اس کے پاؤں میں سخت موچ آ گئی اور وہ چلنے کے ناقابل ہو گیا۔ یہ دیکھ کر دبلا پادری فوراً بھاگ کھڑا ہوا اور ساتھی کو کہتا گیا کہ میں علاقہ کے رئیس سے کچھ سپاہی مدد کے لئے لاتا ہوں تم فکر نہ کرو اور ادھر ادھر چمٹ کر اپنے آپ کو بچاؤ۔ ادھر موٹے پادری کو یہ فکر ہوا کہ کہیں گھر والے چھری لے کر نہ پہنچ جائیں اور مجھے ذبح نہ کر دیں۔ چنانچہ اس نے آہستہ آہستہ گھسٹنا شروع کیا اور گھسٹتے گھسٹتے وہ اس سور خانہ کے پاس جا پہنچا جس میں میزبان کے سور بند تھے۔ مگر اسے کچھ پتہ نہ تھا کہ اندر سور ہیں یا کیا ہے اس نے خیال کیا کہ میں یہاں چھپ کر بیٹھ جاتا ہوں تا کہ گھر والے میرا تعاقب کرتے ہوئے مجھے دیکھ نہ لیں۔ جب اس نے سور خانہ کا دروازہ کھولا تو سور ڈر کے مارے نکل بھاگے اور یہ اندر چھپ کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر ہی گذری تھی کہ قصاب چھری لے کر موٹے سور کو ذبح کرنے کے لیے وہاں پہنچ گیا۔ پادری نے سمجھا کہ اب میری خیر نہیں یہ ضرور مجھے مار ڈالے گا۔

چنانچہ وہ اور زیادہ دبک کر کونے میں چھپ گیا۔ قصاب نے ڈنڈا ہلایا اور کہا نکل نکل۔ مگر وہ اور زیادہ سمٹ سمٹا کر ایک طرف ہو گیا وہ حیران ہوا کہ سور نکلتا کیوں نہیں مگر خیر اس نے اور زیادہ زور سے ڈنڈا پھیرا اور آواز دے کر سور کو باہر نکالنا چاہا اور آخر گھسیٹ کر باہر نکال لیا۔ پادری نے سمجھ لیا کہ اب کوئی چارہ نجات کا نہیں اب میرے ذبح ہونے کا وقت آ گیا ہے اور وہ آخری کوشش کے طور پر قصاب کے آگے ہاتھ جوڑ کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ میں پادری ہوں میں نے تمہارا کوئی قصور نہیں کیا۔ خدا کے لئے معاف کرو۔ ادھر قصاب نے جب دیکھا کہ سور کی بجائے اندر سے ایک آدمی نکل آیا ہے تو وہ سخت حیران ہوا اور اس نے سمجھا کہ یہ کوئی فرشتہ ہے جو میری جان نکالنے کے لیے یہاں آیا ہے چنانچہ وہ ڈر کر دو زانو ہو کر اس کے سامنے بیٹھ گیا اور ہاتھ جوڑ کر درخواست کرنے لگ گیا کہ خدا کے لئے مجھ پر رحم کرو ابھی میں مرنے کے قابل نہیں مجھے اپنے کام درست کر لینے دو اور اپنے گناہوں سے تائب ہو لینے دو۔

اب یہ عجیب نظارہ تھا کہ ایک طرف پادری ہاتھ جوڑے جا رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ خدا کے لئے مجھ پر رحم کرو اور دوسری طرف وہ قصاب ہاتھ جوڑ رہا تھا اور کہہ رہا تھا خدا کے لئے مجھ پر رحم کرو۔ تھوڑی دیر تو وہ اسی طرح ایک دوسرے کی منتیں سماجتیں کرتے رہے اور گھبراہٹ میں نہ وہ اس کی سنتا تھا اور نہ یہ اس کی۔ مگر آخر دونوں کے ہوش کچھ بجا ہونے لگے اور انہوں نے دیکھا کہ نہ وہ اس کو ذبح کرتا ہے اور نہ یہ اس کی جان نکال رہا ہے بلکہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر ان کی عقل کچھ ٹکانے لگی اور حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور قصاب نے جو غور کیا تو اپنے سامنے رات والا پادری بیٹھا دیکھا اور حیرت سے پوچھا کہ تم یہاں کہاں۔ اس نے کہا کہ رات کو ہم نے تم میاں بیوی کو یہ کہتے ہوئے سن پایا تھا کہ موٹے کو صبح ذبح کر دیں گے اور دبلے کو کچھ دن کھلا پلا کر۔ اس لئے ہم کھڑکی سے کود کر بھاگے اور میرا چونکہ پاؤں چوٹ کھا گیا تھا میں اس سور خانہ میں چھپ کر بیٹھ گیا اور میرا ساتھی فوج کی مدد لینے گیا ہے۔ اس پر قصاب نے بے اختیار ہنسنا شروع کیا اور بتایا کہ ان کے دو سور ہیں ایک موٹا اور ایک دبلا۔ وہ تو ان سؤروں میں سے موٹے کے ذبح کرنے کی تجویز کر رہے تھے اور آہستہ آہستہ اس لئے بول رہے تھے کہ مہمانوں کی نیند خراب نہ ہو۔ اتنے میں سرکاری سوار بھی آ گئے اور اس حقیقت کو معلوم کر کے سب ہنستے ہنستے لوٹ گئے۔ یہی حال ستارہ پرستوں کا ہے۔ اللہ میاں نے ان کو انسانوں کی خدمت کے لئے مقرر کیا ہے اور وہ انسان کی خدمت کر رہے ہیں مگر انسان ہے کہ ان کے آگے ہاتھ جوڑ رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ خدا کے لئے ہم پر رحم کرو۔ گویا ستارے اس کے غلام بن رہے ہیں اور یہ ان کا غلام بن رہا ہے۔ (سیر روحانی جلد اول صفحہ 76 ۔ 79)