سوچنے کی باتیں

فہرست مضامین

مخلص کی پہچان

لطیفہ مشہور ہے کہ ایک عورت کی بیٹی جس کا نام مہتی تھا، دق اور سل ہوگئی۔ وہ ہمیشہ یہ دعا کیا کرتی تھی کہ اے خدا! میں مرجاؤں لیکن میری بیٹی بچ جائے۔ جب عزرائیل اس کی جان نکالنے آئے تو اس کی بجائے میری جان نکال لے۔ اس عورت نے ایک گائے رکھی ہوئی تھی۔ ایک رات کو اس کا رسہ ٹوٹ گیا تو وہ صحن میں گھس آئی۔ وہاں ایک گھڑا پڑا تھا گائے نے بھُوسا کھانے کے لئے اس میں اپنا منہ ڈال لیا۔ گھڑے کا منہ تنگ تھا لیکن بوجہ دباؤ اس کا سر گھڑے میں پڑ گیا۔ مگر جب اس سے سر نکالنا چاہا تو وہ نہ نکلا۔ گائے گھبرائی اور صحن میں اس نے ناچنا شروع کردیا۔ وہ عورت یہ خیال کرتی تھی کہ عزرائیل کی شکل نرالی ہوگی۔ جب اس گائے کو گھڑا اٹھائے ناچتے دیکھا تو اس نے خیال کیا کہ یہ عزرائیل ہے جو مہتی کی جان نکالنے آیا ہے۔ وہ پہلے تو یہ دعا کیا کرتی تھی کہ یا اللہ! میں مرجاؤں، مہتی نہ مرے اور جب عزرائیل آئے تو میرے جان نکال لے۔ مہتی کی جان نہ نکالے لیکن جب اس کے خیال میں عزرائیل جان نکالنے آیا تو وہ سب دعائیں بھول گئی اور کہنے لگی۔

ملک الموت من نہ مہتی ام۔ من یکے پیر زال محنتی ام

یعنی جو عورت پہلے یہ دعا کرر ہی تھی کہ عزرائیل میری لڑکی کی بجائے میری جان نکال لے۔ وہی جب وقت آیا تو کہنے لگی میں مہتی یعنی لڑکی کی والدہ نہیں ایک اور مزدور عورت ہوں۔ یہی مثال اس شخص کی ہے، جو درود پڑھتا ہے اور کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ رسول کریمصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بیٹے قربان کرنے کے مواقع بار بار دے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تو ایک دفعہ بیٹا قربان کرنے کا موقعہ ملا تھا لیکن محمدرسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کو بار بار بیٹا قربان کرنے کا موقعہ ملے۔ پھر اسمٰعیل علیہ السلام کو تو ایک دفعہ قربان ہونے کا موقعہ ملا تھا لیکن تم دعا کرتے ہو کہ اے خدا ہمیں بار بار قربان ہونے کا موقعہ دے۔ لیکن جب قربان ہونے کا وقت آتا ہے تو کہتے ہیں ملک الموت من نہ مہتی ام۔ من یکے پیرزال محنتی ام۔ یہ چیز ہے جو عید الاضحیہ یاد کرانے کے لئے آتی ہے۔ گویادرُود کی تشریح عیدالاضحیہ ہے اور تم یہ کہتے ہو کہ ہم خدا تعالیٰ کی خاطر اپنی جانیں قربان کردیں گے اور جب تم ہمیشہ یہ اقرار کرتے ہو تو اب اپنی جانیں قربان کرو۔ کبھی تمہاری بھی عیدالاضحیہ آئے گی کہ نہیں؟ (خطبات محمود جلد 2 صفحہ 348 بحوالہ الفضل 7 اکتوبر 1951ء)

چل کے خود آئے مسیحا کسی بیمار کے پاس

ایک بزرگ کا واقعہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ ان کی طرف سرکاری سمن آیا جس میں یہ لکھا تھا کہ آپ پر بعض لوگوں کی طرف سے ایک الزام لگایا گیا ہے، اس کی جواب دہی کے لئے آپ فوراً حکومت کے سامنے حاضر ہوں، وہ یہ سن کر حیران رہ گئے کیونکہ وہ ہمیشہ ذکر الٰہی میں مشغول رہتے تھے مگر چونکہ سرکاری سمن تھا وہ چل پڑے۔ دس بیس میل گئے ہوں گے کہ آندھی آئی، اندھیرا چھا گیا، آسمان پر بادل امڈ آئے اور بارش شروع ہوگئی، وہ اس وقت ایک جنگل میں سے گزر رہے تھے، جس میں دُور دُور تک آبادی کا کوئی نشان تک نہ تھا صرف چند جھونپڑیاں اس جنگل میں نظر آئیں وہ ایک جھونپڑی کے قریب پہنچے اور آواز دی کہ اگر اجازت ہو تو اندر آجاؤں۔ اندر سے آواز آئی کہ آجائیے۔ انہوں نے گھوڑا باہر باندھا اور اندر چلے گئے۔ دیکھا تو ایک اپاہج شخص چارپائی پر پڑا ہے۔ اس نے محبت اور پیار کے ساتھ انہیں اپنے پاس بٹھالیا اور پوچھا کہ آپ کا کیا نام ہے اور آپ کس جگہ سے تشریف لا رہے ہیں؟ انہوں نے اپنا نام بتایا اور ساتھ ہی کہا کہ بادشاہ کی طرف سے مجھے ایک سمن پہنچا ہے جس کی تعمیل کے لئے میں جارہا ہوں اور میں حیران ہوں کہ مجھے یہ سمن کیوں آیا کیونکہ میں نے کبھی دنیوی جھگڑوں میں دخل نہیں دیا۔ وہ یہ واقعہ سن کر کہنے لگا کہ آپ گھبرائیں نہیں۔ یہ سامان اللہ تعالیٰ نے آپ کو میرے پاس پہنچانے کے لئے کیا ہے۔ میں اپاہج ہوں۔ رات دن چارپائی پر پڑا رہتا ہوں، مجھ میں چلنے کی طاقت نہیں، لیکن میں نے اپنے دوستوں سے آپ کا کئی بار ذکر سنااور آپ کی بزرگی کی شہرت میرے کانوں تک پہنچی، میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعائیں کیا کرتا تھا کہ یا اللہ قسمت والے تو وہاں چلے جاتے ہیں، میں غریب مسکین اور عاجز انسان اس بزرگ کے قدموں تک کس طرح پہنچ سکتا ہوں۔ تو اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا فرما کہ میری ان سے ملاقات ہوجائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس سمن کے بہانے اللہ تعالیٰ آپ کو محض میرے لئے یہاں لایا ہے۔ ابھی وہ یہ باتیں ہی کر رہے تھے کہ باہر سے آواز آئی بارش ہورہی ہے اگر اجازت ہو تو اندر آجاؤں۔ انہوں نے دروازہ کھولا اور ایک شخص اندر آیا۔ یہ سرکاری پیادہ تھا۔ انہوں نے اس سے پوچھا کہ آپ اس وقت کہاں جارہے ہیں، وہ کہنے لگا بادشاہ کی طرف سے مجھے حکم ملا ہے میں فلاں بزرگ کے پاس جاؤں اور ان سے کہوں کہ آپ کو بلانے میں غلطی ہوگئی ہے دراصل وہ کسی اور کے نام سمن جاری ہونا چاہئے تھا مگر نام کی مشابہت کی وجہ سے وہ آپ کے نام جاری ہوگیا۔ اس لئے آپ کے آنے کی ضرورت نہیں۔ یہ بات سن کر وہ اپاہج مسکرایا اور اس نے کہا:دیکھا میں نے نہیں کہا تھا کہ آپ کواللہ تعالیٰ محض میرے لئے یہاں لایا ہے۔ سمن محض ایک ذریعہ تھا جس کی وجہ سے آپ میرے پاس پہنچے۔ یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمائی ہے۔ والّذِیْنَ جَاھَدُ وا فِیْنَا لَنَھْدِ یَنَّھُمْ سَبُلَنَا جو لوگ ہم میں ہو کر اورہم سے مد دمانگتے ہوئے اپنے مقاصد کے لئے جدوجہد کرتے ہیں ہم اس مقصد کے حصول کے لئے ان پر دروازے کھول دیتے ہیں۔ (سیر روحانی جلد دوم صفحہ 129)