لباس التقویٰ

فہرست مضامین

تو ہم پرستی اور فال

خدا تعالی نے جب شیطان کو نا فرما نی پر جنت سے نکال دیا اور اسے مہلت دے دی کہ تو قیامت تک جسے گمراہ کرسکتاہے کرلے لیکن جو میرے حقیقی نیک بندے ہیں وہ کبھی بھی تیرے قبضے میں نہیں آسکیں گے۔ کیونکہ اُ ن کا مجھ سے زندہ تعلق ہو گا اس پرشیطان نے کہا۔ وَلَاُضِلَّنَّھُمْ وَلَاُمَنِّیَنَّھُمْ وَلَٰامُرَنَّھُمْ کہ میں ضرور ان کو گمراہ کرو نگا اور جھوٹی امیدیں دلاؤنگا یعنی ایسے کام کرنے پر آمادہ کرونگا جوتجھے ماننے اور تیری عبادت کرنے سے دور کردیں گے اور وہ انسانوں اور مادی چیزوں کی عبادت شروع کرد یں گے۔ اللہ تعالی قرآن کریم میں ایک اور مقام پر اپنی مخلوق کو شیطانی کاموں سے بچنے کی تاکید کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ:۔ یٰٰٓاَیُّھَاالَّذِ یْنَ اٰمَنُوْا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوْ ہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o (المائدہ: ۹۱)

اے ایمان والو یقینا شراب اور جواء اور بت اور قسمت آزمائی کے لئے تیر استعمال کرنا نا پاک شیطانی کامو ں میں سے ہیں۔ پس تم ان سے بچو تا کہ تم کا میاب ہو جاؤ۔ دینِ اسلام کے احکا مات و روایات میں آج تک جتنی بھی تبدیلیاں اور بدعات داخل ہوئی ہیں دراصل ان کی بنیادی وجہ ہی توہم پرستی اور دیگر مذ اہبِ باطلہ کی اندھا دھند پیروی ہے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایابنیادی طور پر کسی دوسرے سے بیماری کے لگ جانے اور بد فا لی لینے کا خیال وہم کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یعنی اس با رہ میں خواہ مخواہ کے وہم سے بچنا چاہئے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ مجھے نیک فال پسند ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ نیک فال کیا ہے؟آپﷺ نے فرمایا پاکیزہ کلمہ یعنی اچھی بات کہنا اور اچھی بات سے اچھا نتیجہ نکالنا۔ (بخاری کتاب الطب باب الفال)

اللہ تعالی ایک اور مو قعہ پر نیک خدار سیدہ مو منین کی عادات و خصائل کا ذکر ان الفاظ میں فرماتا ہے کہ۔ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِ ضُوْنَo (سورۃُ المومنون: ۴)

وہ (مو من لوگ) لغو اور بے ہودہ کاموں سے اعراض کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کا بنیادی مقصد دینِ اسلام کو بے کار تعویذ گنڈوں اور بد عات سے نجات دلا نا تھا۔ اور حقیقتا یہی وہ لغو کا م تھے کہ جن کی وجہ سے مسلمان خدا تعالی پر توکل کرنے اور صرف اُسی پر سہارا کرنے سے کنارہ کشی اختیار کر گئے۔ اسی لئے آپ نے دعا پر بہت زور دیا اور اپنی تمام تر عبادات اور خواہشات کو محض رضائے الہی کے تابع رکھنے کی تلقین فرمائی۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ:

’’وظیفوں کے ہم قا ئل نہیں یہ سب جنتر منتر ہیں جو ہمارے ملک کے جو گی ہندو سنیا سی کرتے ہیں، جو شیطان کی غلامی میں پڑے ہوئے ہیں۔ البتہ دعاکرنی چاہئے‘‘۔ (ملفوظات جلد۵ ص ۴۴۹)

حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں ان بد رسومات اور تو ہمات کے خلا ف مسلسل جہاد جاری رکھا۔ لہذ اہمیں بھی چا ہئے کہ ہم اُن کے اس مقدس مشن کو جا ری رکھنے والے ہوں اور یہی حقیقی اطا عت ہے۔ حضرت مصلح موعودفرماتے ہیں کہ:

’’اخبارات میں عموما اشتہارات چھپتے رہتے ہیں کہ ایسے تعویزہیں کہ جن کو پا س رکھنے سے تم جس عورت کو چا ہو بلا سکتے ہو اس تعویز کے اثر سے وہ عورت خود بخود تمارے پاس آجائے گی اور پھر کہتے ہیں کہ فلاں بزرگ ہیں اُسے خدا تعالی کا کلام آتا ہے اس نے یہ تعویز تیار کئے ہیں یہ دین کے ساتھ تمسخر ہے۔ خدا تعالی بد کاریوں میں کبھی شریک نہیں ہوتا۔ کہنے والے بے شک ایسا کہتے ہیں مگر یہ غلط ہے اللہ تعالی فرماتا ہے کہ:۔ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَالْیُؤْمِنُوْابِیْ۔

اگر میں نے کہا ہے کہ میں پکار نے والی کی پکار کو سنتا ہوں۔ تو اس سے یہ نہ سمجھ لیناکہ میں ہر ایک پکار کو سن لیتا ہوں۔ جس پکار کو میں سنتا ہوں اس کے لئے دو شرطیں ہیں۔ اول میں اُس پکار کو سنتاہوں جو میری بھی سنے۔ دوئم میں اُسکی پکارسنتا ہوں جسے مجھ پر یقین ہو۔ مجھ پر بد ظنی نہ ہو۔ اگر دعا کرنے والے کو میری طاقتوں اور قوتوں پر یقین ہی نہیں تو میں اس کی پکار کو کیوں سنوں۔ ـ‘‘ (تفسیر کبیر جلد ۲ص۴۰۵)

اس ارشاد کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ دینِ اسلام اور بدعات و توہمات، بالکل دو الگ الگ راستے ہیں جن میں سے ایک کو اختیار کرناہوگا۔ اللہ تعالی ہمیں محض اپنی حفاظت میں رکھ کر ان خطرناک بلاؤں سے، جو ہمیں شرک میں مبتلاء کر دیتی ہیں، دور رہنے کی تو فیق عطا فرمائے۔ آمین

شرک اور بدعت سے ہم بیزار ہیں

خاکِ راہِ اَحمدِ مختار ہیں

(درثمین)