لباس التقویٰ

فہرست مضامین

پیش لفظ

خداتعالیٰ کے محض فضل و احسان سے خاکسار کو اس تصنیف کی تکمیل کی توفیق مل رہی ہے۔ جس کا اولین مقصد بچوں اور نوجوانانِ احمدیت کو حقیقی اسلام کے آداب سے متعارف کروانا ہے۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں:

’’وہی قوم زندہ سمجھی جاسکتی ہے جس کی آنیوالی پود زیادہ عزم والی ہوتی ہے۔ جس کی آنے والی پود زیادہ قربانی کرنیوالی ہوتی ہے۔ جس کی پودنظم پر قائم ہوتی ہے۔ اور روحانیت کو حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔‘‘ (الفضل ۳۰اکتوبر۱۹۵۰ء)

اس مندرجہ بالا ارشاد کے پیشِ نظر احکام قرآن اور اقوال رسولﷺ کو مختلف عناوین کے تحت اکٹھا کیا گیا ہے۔ مزید برآں حضرت امام الزمان مسیح موعود علیہ السلام اور اُن کے خلفاء کے ارشادات بھی ہر عنوان کے مطابق تلاش کرکے یکجا کردئیے گئے ہیں تاکہ نئی نسل خصوصاً واقفین نو کے لئے قرآن و حدیث کو آسان فہم بنایا جاسکے۔ پس یہ تمام ارشادات ِمبارکہ ہمارے اخلاق کی درستی اور زبان کی شائستگی میں بہت معاون ثابت ہوسکتے ہیں اگر ہم اُن کاصحیح وقت پر استعمال کریں۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ:

’’انسان کے قویٰ اور اخلاق کی مثال ایسی ہے جیسے ایک درخت ہو اور اس کی بہت سی شاخیں ہوں اور سب اسے لئے ہوتی ہیں کہ پھل دیویں۔ ایسے ہی انسان کو جو اخلاق دیئے گئے ہیں ان کے استعمال کے مختلف مو قع ہوتے ہیں کبھی حلم (نرمی) کی قوت ہوتی ہے مگر وقت ان کے استعمال کا نہیں ہوتا مصلحت اس سے کام لینے کا تقا ضا نہیں کرتی۔ ایسے ہی غضب کا حال ہے جس قدر قوی انسان لے کر آیا ہے حکمت ِالہی کا یہی تقا ضا ہے کہ وہ اپنے اپنے محل پراستعمال ہوں۔‘‘ (ملفو ظات جلد ۳ ص۲۵۵)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد کی روشنی میں کوشش کی گئی ہے کہ آدابِ حیات کے تمام پہلوؤ ں کو اُن کے صحیح اور بر محل استعمال کے ساتھ پیش کیا جائے تاہم والدین اور دیگر بزرگان کو بھی چاہئے کہ وہ بچوں اور نوجوانوں کے لیے اُن کی ذہنی صلا حیتوں کے مطا بق اِن زرّیں اقوال و امثال کی وضاحت کرتے رہیں کیونکہ صحبتِ صالحین ایک انسان کی زندگی میں بہت نمایا ں کر دار ادا کرتی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس امر کی طرف توجہ دلا تے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

’’اولا د کی خواہش تو لوگ بڑی کرتے ہیں اور اولاد ہوتی بھی ہے مگر یہ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ وہ اولاد کی تربیت اور ان کو عمدہ اور نیک چلن بنانے اور خدا تعالی کے فرمانبردار بنانے کی سعی اور فکر کریں، نہ کبھی ان کے لئے دعا کرتے ہیں اور نہ مراتب ِتربیت کو مدنظر رکھتے ہیں۔ میر ی اپنی تو یہ حا لت ہے کہ میر ی کوئی نماز ایسی نہیں ہے جس میں میں اپنے دوستوں اور اولاد اور بیوی کے لئے دعا نہیں کرتا۔ بہت سے والدین ایسے ہیں جو اپنی اولاد کو بری عادتیں سکھا دیتے ہیں ابتداء میں جب وہ بدی کرنا سیکھنے لگتے ہیں۔ تو ان کو تنبہیہ نہیں کرتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دِ ن بدن دلیر اور بے باک ہوتے جاتے ہیں۔‘‘ (ملفو ظات جلد ۱ص نمبر۵۶۲)

اولاد کے ان تربیتی امور کی عملی طور پر پیر وی کے لئے گھریلو ما حول کی اصلاح اور تندرستی بہت ضروری ہے کیو نکہ ایسی نصیحت کا دوسرے پر کچھ اثر نہیں ہو سکتا جس پر انسان خود عمل پیر انہ ہو واقفین نو کی تربیت کے ضمن میں حضرت خلفیہ المسیح الر ابعؒ والدین کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’والدین خود اپنے کر دار میں پاکیزگی پید اکریں اور واقفین بچوں پر والدین کی گہر ی نظر ہو ان کی تر بیت محبت سے کریں تا کہ آئندہ صدی کے عظیم لیڈ ر بن سکیں۔ والدین گھر وں کا ما حول سچائی کے لحا ظ سے صاف اور پا کیزہ رکھیں۔ نماز کی پابند ی اور نما ز کے لو ازمات کی ان کو تعلیم دیں اور یاد رکھیں کہ واقفین نو کی صحیح تر بیت سے غفلت خداکا مجر م بننا ہے۔ والدین دعائیں کریں کہ اے خد اہمارے بچو ں کو اپنے لئے چن لے۔ اس لیے کہ (بلوغت)کی عمر تک پہچنے پر وقف کے بارے میں ان بچوں سے پو چھا جائے گا۔ یہ دعا کریں کہ خد اان کو اپنے لئے خاص کرے اور یہ حضرت محمد مصطفیﷺ کے غلام ہوں۔‘‘ (خطاب ۱۰؍ فروری ۱۹۸۹ء)

خدا تعالی سے عا جزانہ التماس ہے کہ وہ خا کسار کی اس حقیر سی کا وش کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے۔ اور بنی نوع انسان کو حقیقی اسلام اور اسکی احسن تعلیمات کے زیرِ سا یہ اپنی زندگیاں گزارنے کی تو فیق دے۔ آمین

والسلام

طالب ِدعا

منشاداحمدنیر