لباس التقویٰ

فہرست مضامین

کھیل کے فوائد

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بنی اسرائیل کے لوگوں سے متعلق ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جب اس قوم نے اس وقت کے نبی سے ایک ایسا بادشاہ مانگا، جو ان کی سرپرستی کرکے ظلم کو ختم کرسکے تو اس نبی نے انہیں ایک شخص طالوت (یعنی جدعون) کے بادشاہ ہونے کی الہٰی خوشخبری سنائی مگر ان کے سرداروں نے یہ کہہ کر اس کا انکار کردیا کہ اسکی مالی حیثیت ہم سے کمزور ہے۔ جس پر اس نبی نے یہ جواب دیاکہ

اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰٮہُ عَلَیۡکُمۡ وَ زَادَہٗ بَسۡطَۃً فِی الۡعِلۡمِ وَ الۡجِسۡمِ ؕ وَ اللّٰہُ یُؤۡتِیۡ مُلۡکَہٗ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ o (البقرۃ: ۲۴۸)

کہ یقینا اللہ نے اس شخص کو تم پر فضیلت دی ہے اور (جس کی وجہ یہ ہے کہ) اُسے علم میں بھی بڑھایا ہے نیزوہ جسمانی لحاظ سے بھی سب سے بہترہے اور اللہ جسے چاہے اپنی بادشاہت عطا کردیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ بہت دینے والا اور بہت جاننے والا ہے۔

حضرت نبی کریمﷺ کی سوانحِ حیات کے مطالعہ سے آپ کے زہدو تقویٰ اور علم و ادب کے اعلی مدارج کے حصول کے ساتھ ساتھ ہمیں بعض واقعات میں آپﷺ کی خوش مزاجی اور کھیل و تفریح میں شمولیت کا بھی ذکر ملتا ہے۔ مثلاً ایک مرتبہ ایک بوڑھی عورت سے فرمایا کہ بوڑھی عورتیں جنت میں نہیں جائینگی وہ عورت گھبرا کر بولی کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ نے فرمایا کہ کیا تم نے قرآن کریم میں نہیں پڑھا کہ بوڑھی عورتیں بھی کنواری اور جوان ہوکر جنت میں داخل ہونگی۔ آپﷺ کی طبیعت میں زندہ دلی اور شگفتگی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ۔

’’آنحضرتﷺ ہنستے بھی تھے اور ایمان ان کے دلوں میں پہاڑ سے بھی زیادہ عظیم تر تھا اور بلالؓ بن سعد بیان کرتے ہیں کہ میں نے انہیں تیر اندازی کی مشق کروائی اور اس کے دوران ایک دوسرے پر ہنستے بھی دیکھا یعنی وہ بڑے زندہ دل اور خوش مزاج تھے۔ لیکن جب رات ہوتی تو وہ خدا تعالیٰ کے ذکر میں اس طر ح محو ہوجاتے گویا وہ تارک الدنیا (یعنی دنیا سے لاتعلق) ہیں‘‘۔ (مشکوٰۃ باب الضحک صفحہ ۴۰۶)

آنحضرتﷺ کا ایک ارشاد ہے کہ

اَلْمُؤمِنُ الْقَوِیُّ خَیْرٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِیْفِ

یعنی صحت مند اور توانا مومن کمزور مومن سے بہتر ہے۔ یہ حدیث ہمیں بتلاتی ہے کہ صحت مند انسان ہر وہ کام بہتر انداز میں کرسکتا ہے۔ جو کمزور آدمی کرنے سے گھبراتا ہے۔

مثلاً صحت مند مومن نماز، روزہ اور دیگر عبادات سنوار کر ادا کرسکتا ہے۔ کمزور کئی قسم کے مرض میں مبتلاہوتاہے اور بہتر رنگ میں ان کی ادائیگی سے قاصر رہتا ہے۔ اس لیے ہر ایک احمد ی کو اپنی صحت کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہئیے، تاکہ وہ دینی معاملات اور دنیوی تقاضوں کو مناسب طور پر ادا کرنے کے قابل ہوسکے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے جسم کوورزش کا عادی بنائیں۔ لہذا اس سلسلہ میں چند ایک حوالے پیش خدمت ہیں۔

ورزش کیسے کرنی چاہیے

و رزش کے بارے میں اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ کیسے کرنی چاہئے۔ اس بارے میں ہمارے سامنے نبی اکرمﷺ کا اسوہ حسنہ موجود ہے۔ جب میں نے اپنے بزرگوں اور دوستوں سے پوچھا کہ آنحضورﷺ کا ورزش کے بارے میں کیا دستور تھا؟آپ ورزش کیسے کرتے تھے؟کیا وہ ورزش دل کے مریضوں کے لئے قابل قبول تھی؟ یہ دیکھ کر میں حیران رہ گیا کہ ورزش کے جو طریقے ماہرین ہمیں بتاتے ہیں وہ آج سے چودہ سو سال پہلے ہمیں آنحضورﷺ اپنے عمل سے بتا چکے ہیں۔ یعنی آپ کی سیر کا وقت صبح سویرے فجر کی نماز کے بعد تھا۔ ناشتہ سے پہلے خالی پیٹ سیر کیا کرتے تھے۔ عموما صحابہ کرامؓ آپ کے ساتھ ہوتے، سیر کے وقت تیز چلا کرتے تھے ۴۰۔ ۳۵منٹ تک سیر کیا کرتے تھے۔ وغیرہ۔

حضرت مسیح موعود اور جسمانی کھیل

’’حضرت مسیح موعود بچپن سے ہی خلوت پسند طبیعت رکھتے تھے اور دوسرے بچوں کیساتھ مل کر زیادہ کھیلنے کودنے کی عادت نہیں تھی۔ تاہم اعتدال کے ساتھ اور مناسب حد تک آپ ورزش اور تفریح میں حصہ لیتے تھے۔ چنانچہ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے بچپن میں تیرنا سیکھا اور کبھی قادیان کے کچے تالابوں میں تیراکی کیا کرتے تھے۔ اسی طرح آپ نے اوائل عمر میں گھوڑے کی سواری بھی سیکھی تھی۔ اور اس فن میں اچھے ماہر تھے۔

کبھی کبھی غلیل سے شکار بھی کھیلا کرتے تھے۔ مگر آپ کی زیادہ ورزش پیدل چلنا تھا۔ جو آخری عمر تک قائم رہی۔ آپ کئی کئی میل تک سیر کے لئے جایا کرتے تھے اور خوب تیز چلا کرتے تھے۔ صحت کے خیال سے کبھی کبھی موگریوں کی ورزش بھی کیا کرتے تھے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی روایت ہے کہ میں نے ایک دفعہ آپ کو آخری عمر میں بھی موگریاں پھیرتے دیکھا ہے۔ مگر یہ ساری باتیں صرف صحت اور تندرستی کی غرض سے تھیں۔‘‘ (سلسلہ احمدیہ ص ۱۰)

صحت کی درستی اور ورزش کا خیال

حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں:

’’انسانی روح اور جسم کا ایسا جوڑ ہے کہ ایک کی خرابی دوسرے پر اثر ڈالے بغیر نہیں رہ سکتی۔ رسول کریمﷺ نے اس امر میں بھی ہمارے لئے ایک عمدہ مثال قائم کی ہے اور نیکی اور تقویٰ کو صحت کی درستی اور ورزش کا خیال رکھنے کے خلاف قرار نہیں دیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ آپ اکثر شہر سے باہر باغات میں جابیٹھتے تھے۔ گھوڑے کی سواری کرتے تھے اپنے صحابہؓ کو کھیلوں میں مشغول دیکھ کر بجائے ان سے ناراضگی کا اظہار کرنے کے ان کی ہمت بڑھاتے تھے۔ مرد تو مرد رہے آپ عورتوں کو بھی ورزش کی ترغیب دیتے۔ چنانچہ کئی دفعہ آپؐ اپنی بیویوں کے ساتھ مقابلہ پر دوڑتے اور اس طرح عملاً عورتوں اور مردوں کو ورزشِ جسمانی کی تحریک کی۔ ہاں آپؐ اس امر کا خیال ضرور رکھتے تھے کہ انسان کھیل ہی کی طرف راغب نہ ہوجائے اور اس امر کی تعلیم دیتے تھے کہ ورزش، مقصد کے حصول کا ایک ذریعہ ہوناچاہئیے۔ نہ کہ خود مقصد۔‘‘ (انوار العلوم جلد ۱۰ص۵۴۸)

ایک اور موقع پر آپ احمد ی بچوں کو نصیحت فرماتے ہیں کہ:

’’پس ورزش انسان کے کاموں کا حصہ ہے۔ ہاں گلیوں میں بیکار پھرنا۔ بیکار بیٹھے باتیں کرنا۔ اور بحثیں کرنا۔ آوارگی ہے او ران کا اِنسداد خدام الاحمدیہ کا فرض ہے۔ اگر تم لوگ دنیا کو وعظ کرتے پھرو۔ لیکن احمدی بچے آوارہ پھرتے رہیں تو تمہاری کوششیں رائیگاں جائیں گی۔ پس تمہارا فرض ہے کہ ان باتوں کو روکو۔ دوکانوں پر بیٹھ کر وقت ضائع کرنے والوں کو منع کرواور اگر کوئی نہ منع ہو تو ان کے والدین، استادوں اور محلہ کے افسروں کو رپورٹ کرو۔ کہ فلاں شخص آوارہ پھرتا اور وقت ضائع کرتا ہے۔‘‘ (الفضل۱۱مارچ۱۹۳۹ء)

اگر مذکورہ بالاہدایات کو پیش نظر رکھا جائے تو ہماری زندگی علمی و جسمانی لحاظ سے بہت بہترطریق پر مرتب ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ احبابِ جماعت کو علمی میدان میں کامیابیوں کے ساتھ ساتھ ورزشی مقابلہ جات میں بھی نمایاں ترقی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین