لباس التقویٰ

فہرست مضامین

تلاوتِ قرآن کریم

قرآن کریم کی دیگر تمام کتب پر افضلیت سے متعلق اللہ تعالیٰ آنحضرتﷺ سے مخاطب ہوکر فرماتا ہے:۔ ھٰذَا ذِکْرٌمَّنْ مَّعِیَ وَذِکْرٌمَّنْ قَبْلِیْ (الانبیاء: ۳۵)

یہ ذکر (قرآن کریم) تو ان کے لئے بھی جو میرے ساتھ ہیں۔ شرف کا موجب ہے اور ان کے لئے بھی باعث ِفخر ہے جو مجھ سے پہلے گذرے۔ قرآن کریم چونکہ دیگر تمام کتب الہامیہ و غیر الہامیہ سے افضل اور مقدس ہے اس لئے اس کے ادب و احترام کا خصوصی خیال رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَاِذَاقُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْالَہٗ وَ اَنْصِتُوْالَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَo (الااعراف ۲۰۵)

اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔

جیسا کہ آپ نے قرآن کریم میں متعدد بار قرآن کریم کی اہمیت و افادیت سے متعلق پڑھا ہے۔ مثلاً یہ کہ جب قرآن پڑھنے لگو تو باوضو اور پاک صاف ہوکرپڑھو اور تلاوت سے پہلے اعوذ باللہ پڑھ لیا کرو۔ یہ تمام ایسے احکام ہیں جن کا ہمیں بہت خیال رکھنا چاہئے۔ اور ہمیشہ خوش الحانی سے تلاوت کرنی چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ ترجمہ پر بھی زور دینا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے ایسی واحد کتاب قرار دیا ہے جو سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔

قرآن کریم میں سب سے بڑھ کر فہم و فراست اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ترین بندے حضرت محمدِعربیﷺ کو عطا فرمائی اور زیادہ حقدار بھی وہی ہیں۔ کیونکہ قرآن کریم آپ پر نازل ہوا اور آپ ہی کو اسے لوگوں تک صحیح رنگ میں پہنچانے کی ذمے داری سونپی گئی۔ آپﷺ کثرت سے تلاوت فرماتے اور جو صحابہؓ خوش الحانی سے تلاوت کرتے تھے آپ ان سے بھی تلاوت سنتے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:

خَیْرُکُمْ مَّنْ تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَعَلَّمَہٗ (بخاری کتاب الفضائل القراٰن)

تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرآن کریم سیکھتا اور دوسروں کو سکھاتا ہے۔

پیارے قارئین ! یہ ہے وہ طریق جو آنحضرتﷺ نے ہمارے لئے قائم فرمایا کہ ہم خوبصورتی سے تلاوت کریں اور ترجمہ پر غور کرتے ہوئے خداتعالیٰ کی قدرتوں اور طاقتوں کو یاد رکھیں اور ان چیزوں پر عمل کریں۔ جن کا ہمیں قرآن کریم نے حکم دیا ہے۔ اور ان لوگوں کی پیروی نہ کریں جن پر خدا تعالیٰ کے عذاب کا ذکر ملتا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ قرآن سے بہت عشق اور محبت رکھتے تھے۔ آپؑ نے آج کے اس تاریک دور میں دین ِاسلام کی حقیقی تصویر لوگوں کے سامنے رکھی اور قرآن کریم کے حقیقی مطالب ومعارف کو بیان فرمایا۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں:

’’قرآن کریم کی تعلیم تقوٰی کے اعلیٰ درجہ تک پہنچانا چاہتی ہیں۔ ان کی طرف کے موافق اپنے تئیں بناؤ۔‘‘ (ازالہ اوھام)

حضرت مصلح موعود جماعت احمدیہ کو خدمتِ قرآن کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

’’ہماری جماعت کو کوشش کرنی چاہئیے کہ دنیا قرآن کریم کی خوبیوں سے واقف ہو اور قرآن کریم کی تعلیم لوگوں کے سامنے بار بار آتی رہے۔ تا کہ دنیا اس کے سایہ تلے آکر امن حاصل کرسکے۔‘‘ (روزنامہ الفضل ستمبر ۱۴؍ ۱۹۴۰ء)

حضرت خلیفتہ المسیح الرابعؒ نے قرآن کریم کی تلاوت اور اس کے مطالب پر غور کرنے کی بہت تحریک فرمائی، جس کے ضمن میں MTAپر آپ کی ترجمۃالقرآن کلاس اور ربوہ میں خصوصی کلاسز کا اجراء قابلِ ذکر ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

’’ہر گھر والے کا یہ فرض ہے کہ وہ قرآن کریم کی طرف توجہ دے۔ قرآن کے معنی سمجھنے کی طرف توجہ دے ایک بھی آپ کے گھر کا فرد ایسا نہ ہو جو روزانہ قرآن کریم پڑھنے کی عادت نہ رکھتا ہو اور قرآن کریم کے مضامین سمجھ کر پڑھے اور جو بھی ترجمہ میسر ہے اس کے ساتھ ملا کر پڑھے۔ پس قرآن کریم کوترجمے کے ساتھ پڑھنے کی طرف ساری جماعت کو متوجہ ہونا چاہئیے‘‘

’’میں چاہتا ہوں کہ نئی صدی سے پہلے پہلے ہر گھر نمازیوں سے بھر جائے اور ہر گھر میں تلاوتِ قرآن کریم ہو۔ کوئی بچہ نہ ہو جسے تلاوت کی عادت نہ ہو۔ اس کو کہیں کہ تم ناشتہ چھوڑ دیا کرو مگر سکول سے پہلے تلاوت ضرور کرنی ہے اور تلاوت کے وقت کچھ ترجمہ ضرور پڑھو، خالی تلاوت نہ کرو۔ ‘‘

اسی خطبہ میں مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ:

’’ہماری نسلوں کو اگر سنبھالنا ہے تو قرآن کریم نے سنبھالنا ہے۔ تلاوت قرآن کریم کی عادت ڈالنا اور اس کے معانی پر غور کرنا یہ ہماری تربیت کی بنیادی ضرورت ہے اور تربیت کی کنجی ہے، جس کے بغیر ہماری تربیت ہو نہیں سکتی اور یہ وہ پہلو ہے جس کی طرف سے اکثرمربیان، اکثر صدران، اکثر امراء بالکل غافل ہیں۔ ‘‘

’’قرآن کریم کو ترجمے کے ساتھ پڑھنے کی طرف ساری جماعت کو متوجہ ہونا چا ہیے۔ کوئی بھی ایسا نہ ہو جو روزانہ قرآن کریم کی تلاوت سے محروم رہے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۷ جولائی۔ ۱۹۹۷ء)

دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں

قرآں کے گرد گھوموں کعبہ میرا یہی ہے

(درثمین)

اللہ تعالی ہمیں قرآن کریم کی تلاوت و ترجمہ پر پوری توجہ کرنے اور اس کی مقدس تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین