لباس التقویٰ

فہرست مضامین

وقارعمل کی افادیت

اللہ تعالی قرآن میں متعدد بار محنت اور دیانتداری سے اَعمالِ صالحہ بجا لانے کی نصیحت فرماتا ہے۔ ایسے اعمال جو اپنے اور خلقِ خدا کی فلا ح کے لئے کیے جائیں ان کی اللہ تعالی کے ہاں بڑی جزا ء رکھی گئی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے۔

لَیْسَ لِلْاِنْسَانِِ اِلَّا مَا سَعَی

کہ انسان کے لئے وہی بدی اور نیکی لکھی جائے گی جو اس نے کی ہے یعنی نہ تو اس میں کوئی کمی کی جائے گی اور نہ زیادتی بلکہ عین محنت کے مطا بق پھل ملے گا۔

مکرم قارئین ! اللہ تعالی محنت کرنے والوں کو بہت پسند کرتا ہے۔ اسی لئے اُس نے جتنے بھی انبیاء ہماری ہدایت کے لئے بھیجے وہ سب نہ صرف اپنے کام خود کرتے تھے بلکہ دوسروں کی بھی خدمت میں کوئی عار نہیں سمجھتے تھے۔ اسی لئے جب ہم اسلا می تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو کثیر تعداد میں انبیاء کرام زراعت اور تجارت کے پیشہ سے منسلک ملتے ہیں اور بعض بکر یاں چراتے تھے۔ زندگی کے ہر شعبہ کی طرح وقار عمل کے میدان میں بھی ہمیں سب سے اعلی اور افضل نمونہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیﷺ کے حیاتِ مبارکہ سے ملتاہے۔ آپﷺ فرماتے ہیں۔ اَلْکَاسِبُ حَبِیْبُ اللّٰہ

یعنی محنت کرنے والا اللہ کا دوست ہے۔

آنحضرتﷺ پر لا کھوں درود اور سلا م ہو ں آپ چھپ چھپ کر غریبوں اور لاوارثوں کی مدد فرماتے اور اکثر اوقات اپنے حصہ کا کھانا سوالیوں او ر سفید پوشوں میں تقسیم فرمادیتے، اسی طرح خود بکریوں کا دودھ دوہتے اور اپنے جوتے مرمت کرتے تھے۔ کسی بھی چھوٹے سے چھوٹے کام کو اپنے ہاتھ سے کرنے میں کبھی جھجک محسو س نہ فرمائی اور اسی کا درس اپنے صحا بہ کو فرماتے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کو اپنے ہاتھ سے محنت اور صفائی قائم رکھنے کی کئی موقع پر نصیحت فرمائی ہے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الر ابع نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں حضرت مسیح موعودؑ کا ایک ارشاد محنت کی عظمت سے متعلق پیش فرمایا اور وہ یہ ہے کہ

’’کوئی انسان بغیر سعی کے کما ل حاصل نہیں کرسکتا یہ خدا کا مقر ر کردہ قانون ہے جو شخص بغیر محنت سے کچھ حاصل کرنا چا ہتا ہے وہ خدا کے قانون کو توڑتا ہے جو شخص ہا تھ پاؤں ہلاتا ہے تو اللہ برکت دیتا ہے۔ اللہ نہیں چاہتا کہ انسان بے دست و پا ہوکر بیٹھ رہے۔ مومن کو چاہیے کہ جدوجہد سے کام کرے لیکن دنیا کو مقصود بالذات نہ بنائے دنیا اس کے لئے سواری ہونی چاہیے، جو بلا آخر اُسے خدا تک پہنچا دے۔‘‘ (خطاب جلسہ سا لانہ بلجیئم ۴جون۲۰۰۰)

وقارِعمل سے مراد یہ ہے کہ کام کو عار سمجھنے کی بجائے فن سمجھنا چائے جس سے عمل کا جذبہ اُجاگر ہوتاہے اور قومی سطح پر ترقی ملتی ہے کسی بھی کام کو حقیر او ر باعثِ ذلت سمجھ لینے سے انسان دنیا و آخرت دونوں میں ناکا م ہو جاتا ہے اور سستی و کاہلی کا شکار ہو جاتا ہے۔

حضرت مصلح موعودکے وقار عمل کے متعلق دو منتخب ارشا د درج ذیل ہیں:

۱۔ وقار عمل کی تحریک سے دو ضروری فوائد حاصل ہوئے ہیں ایک تو نکما پن دور ہوگا دوسرے غلامی کو قا ئم رکھنی والی روح کبھی پیدا نہ ہوگی۔ جب دنیا میں یہ مادہ پیدا ہو جائے کہ کام کرنا اور نکما نہیں رہنا اور کسی کام کو ذلیل نہیں سمجھنا تو اس طرح کوئی طبقہ ایسانہیں رہے گا جو غلا می چاہتا ہو۔ (الفضل ۱۷مارچ ۱۹۳۹)

۲۔ پھرفرمایاکہ، پہلے لوگوں کو منع کرو اور سمجھاؤ کہ گلی میں گندگی نہ پھینکیں اور اگر وہ پھر بھی با ز نہ آئیں تو پھر خود جا کر اُٹھائیں۔ بیرونِ ما حول کا اثرانسان کے جسم اور اس کی روح پر بھی پڑتا ہے۔ اگر ہم اپنے ارد گرد صفائی کا معیا ر بہتر رکھتے ہیں تواس سے ہمارے اخلاق اور ہمار ی سوچ میں بھی مثبت تبدیلی پیدا ہوگی۔ جس کے ساتھ ساتھ جسمانی بڑھوتری میں بھی نمایا ں فرق پڑے گا کیونکہ ایک حدیث میں آنحضرتﷺ نے طاقتور مو من کو کمزور مومن پر ترجیح دی ہے۔

اللہ تعالی ہمیں اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عظمت اور برکت سمجھنے کی تو فیق عطا فرمائے اور ہم اپنے کاموں کے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی ہاتھ بٹانے والے بنیں۔ آمین