ایم ایم احمد ۔ شخصیت اور خدمات

فہرست مضامین

حصول علم کے لئے انگلستان جاتے وقت عظیم باپ کی ہدایات

(حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب)

اب جب کہ تم ولایت کے لمبے سفر پر جارہے ہو۔ (اللہ تعالیٰ تمہارا حافظ وناصر ہو اور تمہیں ہر قسم کی دینی ودنیوی خیریت کے ساتھ کامیاب اور بامراد واپس لائے) میں چاہتا ہوں۔ کہ اپنی سمجھ کے مطابق جو باتیں تمہارے لئے مفید سمجھتا ہوں وہ تمہیں اختصار کے ساتھ لکھ دوں۔ تا کہ اگرخدا کو منظور ہو۔ تو وہ تمہارے لئے کارآمد ثابت ہوں۔ ہر اچھی بات اختیار کرو

سب سے پہلی بات یہ ہے۔ کہ جس ملک میں تم جا رہے ہو۔ وہاں کا مذہب تہذیب اور تمدّن بالکل جدا ہے۔ یہ ملک تمہارے واسطے گویا ایک نئی دنیا کا حکم رکھتا ہے۔ اس میں خدا کو یاد رکھتے ہوئے اور خدا سے دعا مانگتے ہوئے داخل ہو اس ملک میں بہت سی باتیں تمہیں مفید اور اچھی ملیں گی۔ انہیں اس تسلی کے بعد کہ وہ واقعی اچھی ہیں بے شک اختیار کرو۔ اور ان سے فائدہ اٹھاؤ۔ کیونکہ مفید اور اچھی چیز جہاں بھی ملے۔ وہ مومن کا مال ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ (۔) یعنی ہر اچھی بات مومن کی اپنی کھوئی ہوئی چیز ہوتی ہے۔ وہ جہاں بھی ملے۔ اسے لے لینا چاہئے۔ مگر جہاں اس ملک میں اچھی باتیں ملیں گی۔ وہاں بہت سی خراب اور ضرررساں باتیں بھی ملیں گی۔ ان باتوں کے مقابلہ پر تمہیں اپنے آپ کو ایک مضبوط چٹان ثابت کر نا چاہئے۔ اور خواہ دنیا کچھ سمجھے مگر تمہیں یہ یقین رکھنا چاہئے کہ خراب اور ضرررساں چیز کے معلوم کرنے کایقینی معیار سوائے اس کے اور کوئی نہیں۔ کہ جو بات خدا اور اس کے رسول کے حکم اور موجودہ زمانے میں حضرت مسیح موعود کی تعلیم کے خلاف ہے۔ وہ یقینا نقصان دہ اور ضرر رساں ہے۔

دین اور اخلاق کی حفاظت

ولایت میں تمہیں اپنے دین اور اخلاق کی حفاظت کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔ کیونکہ یہ ملک اپنے اندر بعض ایسے عناصر رکھتا ہے۔ جو دین اور اخلاق کے لئے سخت ضرررساں ہیں پس اس ملک میں دعا اور استغفار کرتے ہوئے داخل ہو۔ اور جب تک اس میں رہو۔ یا اس قسم کے دوسرے ملک میں رہو۔ خاص طور پر دعا اور استغفار پر زور دو تا کہ تمہارا دل ان ممالک کے مخفی زہروں سے محفوظ رہے۔ اور زنگ آلودنہ ہو۔ نماز کی نہایت سختی کے ساتھ پابندی رکھو اور اسے اس کی پوری شرائط کے ساتھ اد اکرو۔ اسی طرح (دین) کی دوسری عبادات اور احکام کی پابندی اختیار کرو۔ ا ور یقین رکھو کہ اس میں ساری برکت اور کامیابی کا راز مخفی ہے۔

تعلق باللہ کے لئے کوشش

باوجود (دین) کی مقرر کردہ عبادات اور اس کے احکام کی پابندی اختیار کرنے کے یہ یاد رکھو۔ کہ یہ باتیں (دین) میں بالذات مقصودنہیں ہیں۔ بلکہ یہ صرف اصل مقصد کے حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ اصل مقصد خداتعالیٰ کے ساتھ ذاتی تعلق پیدا کرنا ہے۔ پس اپنی عبادت میں ہمیشہ اس مقصد کو یاد رکھو۔ اور ان لوگوں کی طرح نہ بنو جن کے متعلق قرآن شریف فرما تا ہے ’’کہ وہ باوجودنماز کے پابند ہونے کے نماز سے غافل ہوتے ہیں‘‘۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہزار برس کی نمازیں جو اس مقصد سے لاپرواہی کی حالت میں ادا کی جاتی ہیں۔ ا س ایک سجدہ کے مقابلہ میں ہیچ ہیں جو اس مقصد کے حصول کے سچی تڑپ کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے پس اپنی ہر عبادت میں اور اپنے ہر عمل میں اس بات کی کوشش کرو۔ کہ خدا کے قرب اور خدا کی محبت میں ترقی ہو۔ اور اس کے ساتھ ذاتی تعلق پیدا ہو جائے۔ اپنے اعمال اور اپنے اخلاق کو بالکل خدا کے حکم اور اس کے رسول کے منشاء کے ماتحت چلاؤ۔ اور کوشش کرو۔ کہ تم میں خدا اور اس کے رسول کی صفات جلوہ فگن ہو جائیں۔ کیونکہ اس کے نتیجہ میں خدا کا قرب حاصل ہوتا ہے۔

دینی کتب کے مطالعہ کی عادت

میں تمہیں اپنی طرف سے ایک قرآن شریف اور ایک کتاب حدیث اور بعض کتب حضرت مسیح موعود اور ایک کتاب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی دے رہا ہوں۔ ان کا باقاعدہ مطالعہ رکھو۔ اور خصوصاً قرآن شریف اور اس زمانہ کے لحاظ سے کتب حضرت مسیح موعود کے مطالعہ میں ہرگز کوتاہی نہ کرو۔ کیونکہ ان میں زندگی کی روح ہے قرآن شریف کو سمجھکر پڑھنے کی کوشش کرو اور اس کے گہرے مطالعہ کی عادت ڈالو۔ قرآن شریف ایسی کتاب ہے۔ کہ اس کا ظاہر صحیفہ فطرت کی طرح بہت سادہ ہے۔ مگر اس کے اندر حقائق اور معانی کی بے شمار گہرائیاں مخفی ہیں۔ جن سے انسان اپنے غوراور فکر اور تدبر کے مطابق فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ مگر قرآن شریف کی گہرائیوں تک پہنچنے کا سب سے زیادہ یقینی رستہ تقویٰ اور طہارت ہے۔ ا س کے بغیر قرآن شریف کے حقائق انسان پرنہیں کھل سکتے۔ اور یہی وجہ ہے۔ کہ مخالفین کو قرآن شریف ہمیشہ ایک سطحی کتاب نظر آتا ہے۔ حالانکہ سمجھنے والے جانتے ہیں کہ گواس کا ظاہر سادہ ہے۔ مگر اس کے اندر بے شمار ذخیرے مخفی ہیں۔ جو تقویٰ اور طہارت کے ساتھ غور کرنے والوں پر کھلتے ہیں۔ حدیث کا جو حصہ یقینی ہے۔ وہ بھی اپنے اندر انتہائی اثر اور صداقت رکھتا ہے۔ اور اس کے مطالعہ سے انسان روحانی پیاس کی سیری محسوس کرتا ہے۔ اور اس زمانہ کے لئے خصوصیت سے حضرت مسیح موعود کی کتب میں خاص اثر رکھا گیا ہے۔ ان سب سے علی قدر مراتب فائدہ اٹھانے کی کوشش کرو۔

لباس کے متعلق ہدایت

جس ملک میں تم جا رہے ہو وہاں کا لباس یہاں کے لباس سے بہت مختلف ہے۔ اس کے متعلق صرف یہ اصولی بات یاد رکھو۔ کہ (دین) کو اصولاً لباسوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ لباس گردوپیش کے حالات اور ملک کی آب وہوا پر منحصر ہے پس اگر تم وہاں کے آب وہوا کے ماتحت وہاں کے لباس کا کوئی حصہ اختیار کرنا ضروری سمجھو۔ تو اس میں کوئی اعتراض نہیں ہے مگر انگریزی لباس میں ایک چیز ایسی ہے۔ جسے حدیثوں میں دجال کی نشانی قرار دیا گیا ہے۔ اور اسی لئے حضرت مسیح موعود اسے ناپسند فرماتے تھے۔ اور وہ انگریزی ٹوپی ہے پس گو ظاہری اور جسمانی لحاظ سے انگریزی ٹوپی مفید ہو مگر اس کی ان Associations کی وجہ سے اس کا روحانی اثر ضرررساں ہے۔ لہٰذا اس کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہئے۔ اس کے سوا میں لباس کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ تمہیں آزادی ہے مگر یہ ضرور کہوں گا کہ کسی چیز کو محض غلامانہ تقلید کے طور پر اختیار نہ کرنا۔ بلکہ اگر کسی چیز کے استعمال میں وہاں کے حالات کے ماتحت کوئی فائدہ یا خوبی پاؤ تو اسے بے شک اختیار کر سکتے ہو۔ ہاں یہ ضرور مدنظر رکھنا کہ لباس کے معاملہ میں حتیٰ الوسع سادگی اختیار کی جائے۔ نمائش یا بھڑکیلا پن یا فضول خرچی مومن کی شان سے بعید ہے۔ اور ریشم کے کپڑوں کا استعمال تو تم جانتے ہو کہ مردوں کے لئے منع ہی ہے۔

خوراک کے متعلق ہدایت

ولائت کے سفر میں خوراک کا معاملہ بھی خاص توجہ چاہتا ہے۔ ان ممالک میں شراب اور سؤر کے گوشت کی اس قدر کثرت ہے۔ کہ جب تک انسان خاص توجہ سے کام نہ لے غلطی یا غفلت سے ان میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ رہتا ہے۔ شراب کا معاملہ تو خیر نسبتاً سہل ہے۔ کیونکہ اس میں غلط فہمی کا امکان بہت کم ہے۔ مگر سؤر کے گوشت کے معاملہ میں بسا اوقات غلط فہمی ہو جاتی ہے۔ اس لئے پوری احتیاط کے ساتھ اس بات کی نگرانی رکھنی چاہئے کہ کھانے میں غلطی سے ممنوع گوشت سامنے نہ آجائے۔ مگر شائد اس سے بھی زیادہ نگرانی کی ضرورت اس بات میں ہے کہ کہیں غلطی سے ممنوع طریق پرذبح کیا ہوا گوشت استعمال نہ ہو جائے یورپ میں اور جہاز پر بھی اکثر ممنوع طریق پر ذبح کیا ہوا گوشت ملتا ہے۔ جو (احمدی) کے لئے جائز نہیں ہے یعنی خود جانور تو جائز ہوتا ہے مگر ذبح کا طریق غلط ہوتا ہے۔ اس کاعلاج یہ ہے کہ ایسی دوکانوں سے گوشت منگوایا جائے جو(دینی) طریق پر جانور ذبح کرتے ہیں۔ مثلاً یہودی لوگ اس معاملہ میں بہت محتاط ہیں۔ اور خالص (دینی) رنگ میں ذبح کرتے ہیں۔ ان کی دوکانوں سے گوشت منگوایا جا سکتا ہے۔ اور جہاز وغیرہ پر جہاں انتظام اپنے ہاتھ میں نہ ہو۔ وہاں مچھلی اور انڈے کی غذا استعمال کی جا سکتی ہے۔ اس بات کی عادت ڈال لینی چاہئے کہ Stewardیا Waiter کو پہلے سے تاکید کر دی جائے۔ کہ شراب یا سؤر کاگوشت یا غیر (دینی) طریق پر ذبح کیا ہوا گوشت سامنے نہ آئے۔ اور کھانا سامنے آنے پر بھی پوچھ لینا چاہئے۔ جہا ز پر غالباً جاتے ہوئے بمبئی سے ذبح کیا ہوا گوشت ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ مگر پھر بھی تسلی کر لینی چاہئے۔ اگر گوشت مشکوک ہو تو سبزی او رمچھلی اور انڈے اور پھل کی صورت میں دوسری غذا بکثرت مل سکتی ہے۔ خوراک کا معاملہ مخفی طور پر انسان کے اخلاق پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ اس لئے اس معاملہ کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے اور پھر (دینی) احکام کی تعمیل مزید برآں ہے۔

دینی شعار کی پابندی

ایک بات(دینی) شعار کی پابندی ہے۔ ظاہری ہیئت کے متعلق جو(دینی) طریق ہے۔ خواہ وہ شریعت کے احکام سے ثابت ہو یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود کے تعامل سے۔ اس کی پابندی اختیا ر کرنی ضروری ہے۔ شعار کا معاملہ نہایت اہم ہے۔ اس لحاظ سے بھی کہ انسان کے اندر ونہ پر اس کا گہرا اثر پڑتا ہے۔ اور اس لحاظ سے بھی کہ دوسروں کے لئے ظاہر میں دیکھنے والی چیز صرف شعار ہی ہے۔ ا نسان کے اخلاقی زیوروں میں سے اعلیٰ ترین زیور یہ ہے۔ کہ وہ اپنے قومی اور ملی شعار کو نہ صرف اختیار کرے۔ بلکہ اسے عزت کی نظر سے دیکھے جو قومیں اس کا خیال نہیں کرتیں۔ وہ آہستہ آہستہ ذلیل ہو جاتی ہیں۔ داڑھی بھی (دینی) شعار کا حصہ ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اس پر عمل کیا ہے۔ بلکہ زبانی طور پر بھی اس کی ہدایت فرمائی ہے۔

پس اس شعار کا تمہیں احترام کرنا چاہئے (دین) کا یہ منشاء نہیں۔ کہ داڑھی اتنی ہو یا اتنی نہ ہو۔ ان تفصیلات میں (دین) نہیں جاتا۔ کیونکہ یہ باتیں انسان کی اپنی وضع اور مرضی پر موقوف ہیں۔ مگر (دین) یہ ضرور چاہتا ہے کہ داڑھی رکھی جائے خواہ وہ کتنی ہی ہو۔ داڑھی مر دکافطرتی زیور اور حسن ہے اور اس کے رکھنے میں بہت سے طبی اور اخلاقی فوائد مخفی ہیں۔ انگلستان میں بھی اب تک بادشاہ داڑھی رکھتا ہے اور اور بھی کئی بڑے بڑے لوگ رکھتے ہیں۔ خدمت دین

تمہیں اپنے ولایت کے قیام میں اپنے حالات کے مطابق دین اور سلسلہ کی اشاعت میں بھی حصہ لینا چاہئے۔ اور اس کا سب سے زیادہ سہل طریق یہ ہے کہ وہاں کے مشن کے کام میں جہاں تک ممکن ہو۔ امداد دو۔ اور جو کام تمہارے سپرد کیا جائے۔ اسے سرانجام دینے کی کوپوری پوری کوشش کرو۔ یہ بھی یاد رکھو کہ سب سے بہتر دعوت انسان کے اپنے نمونہ سے ہوتی ہے۔ اپنے نمونہ سے ثابت کرو کہ(دین) بہتر مذہب ہے۔

تعلیم کے متعلق ہدایت

تمہارے تعلیم کے تعلق میں مجھے زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم اب سمجھدار ہو۔ اور اس لائن میں کافی تجربہ حاصل کر چکے ہو۔ اپنے وقت کی قدر و قیمت کو پہچانتے ہوئے وقت کا بہترین استعمال کرو اور یاد رکھو کہ دنیا میں جو مرتبہ محنت کو حاصل ہے وہ عام حالات میں ذہن کوبھی حاصل نہیں ہے۔ محنت سے اگر وہ ٹھیک طرح پر کی جائے ذہن کی کمی بڑی حد تک پوری کی جا سکتی ہے۔ مگر ذہن محنت کی کمی کو پور انہیں کر سکتا۔ پس محنت کی عادت ڈالو اور محنت بھی ایسی جسے گویا کام میں غرق ہوجانا کہتے ہیں۔ ایسی محنت اگر صحیح طریق پر کی جائے۔ اور خدا کا فضل شامل رہے۔ تو ضرور اعلیٰ نتیجہ پیدا کرتی ہے جس لائن کے واسطے تم جا رہے ہو اس کے لئے عموماً بہترین لڑکے لئے جاتے ہیں پس جب تک شروع سے ہی محنت اختیار نہیں کرو گے کامیابی مشکل ہو گی اگر تم محنت کرو تو پھر تمہیں خدا کے فضل سے کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے اگر گزشتہ نتائج میں دوسر ے طلبا تم سے آگے بھی رہے ہوں تو تم محنت سے ان سے آگے نکل سکتے ہو انسان کی ساری ترقی کا راز محنت میں ہے۔ مگر محنت صحیح طریق پر ہونی چاہئے اور ہر کام کے لئے صحیح طریق جدا جدا ہے۔

پس سب سے پہلے تمہیں واقف کار اور معتبر ذرائع سے یہ معلوم کرنا چاہئے کہ اس لائن کے لئے تیاری کا صحیح طریق کونسا ہے۔ اور اس کے بعد پوری محنت کے ساتھ اس میں لگ جانا چاہئے۔ یہ تم جانتے ہی ہو۔ کہ مقابلہ کے امتحان کے لئے مخصوص طور پر کوئی یونیورسٹی کی تعلیم نہیں ہوتی بلکہ سارا دارومدار طالب علم کی اپنی کوشش پر ہوتا ہے۔ البتہ ولایت میں بعض پرائیویٹ درسگاہیں ایسی ہیں جو طالب علموں کو اس کے لئے تیار ی کراتی ہیں۔ ان سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے۔ علاوہ ازیں تمہیں چاہئے کہ جاتے ہی برٹش میوزیم کے ممبر بن جاؤ جس میں دنیا بھر کی بہترین کتب کاذخیرہ موجود رہتا ہے۔ ا س لائبریری سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہئے اور گزشتہ سالوں کے پرچے دیکھ کر امتحان کے معیار اور طریق کا بھی پتہ لگانا چاہئے۔

اس کے علاوہ تمہیں بیرسٹری کی تعلیم کے لئے بھی کسی کالج میں داخل ہوجانا چاہئے۔ کیونکہ ایک تو یہ تعلیم مقابلہ کے امتحان میں مدد دے گی اور دوسرے اگر خدانخواستہ مقابلہ کے امتحان میں کامیابی کی صورت نہ ہو سکی۔ تو یہ تعلیم ویسے بھی مفید ہوگی بلکہ میں تو چاہتا ہوں۔ کہ اگر ممکن ہو۔ تو بیرسٹری کے علاوہ بھی کوئی اور کورس لے لو۔ بشرطیکہ وہ امتحان مقابلہ کی تیاری میں رو ک نہ ہو۔ مثلاً جی۔ اے کا کورس یا اور اس قسم کا کوئی کورس لے سکتے ہو غرض اپنے ولایت کے قیام سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرو۔

تعلیم کا ایک ضروری حصہ اخبار بینی ہے جس کی تمہیں عادت ڈالنی چاہئے۔ زمانہ حال کے معلومات کے لئے اخبار سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے۔ اور ان سے پور اپورا فائدہ اٹھانا چاہئے۔ اسی طرح جو نئی نئی کتب شائع ہوں۔ ان کا بھی مطالعہ رکھنا چاہئے۔ رسائل کا مطالعہ بھی مفید ہوتا ہے۔

تقریر کی مشق کے لئے تم نے ہندوستان میں میری نصیحت کی طرف توجہ نہیں کی۔ اب اگر خدا توفیق دے تو اس کمی کا بھی پورا کرنے کا خیال رکھنا۔

اخراجات میں میانہ روی

خرچ کے متعلق میں نے درد صاحب کو لکھا ہے۔ وہ وہاں کے حالات کے ماتحت اندازہ لکھ کر بھجوا دینگے۔ جس کے مطابق انشاء اللہ تمہیں خرچ بھجوایا جاتا رہے گا۔ میں نے انہیں لکھا ہے کہ اندازہ لگاتے ہوئے درمیانہ درجہ کے شریفانہ معیار کو مدنظر رکھیں یعنی نہ ہی تو کوئی ناواجب تنگی ہو۔ جو تکلیف کا موجب بنے اور نہ ہی ایسی ہی فراخی ہو جو بے جا آرام وآسائش کاباعث ہو اور فضول خرچی میں شمار ہو۔ ا ور میں امید کرتا ہوں کہ تم بھی اپنے اخراجات میں اسی اصول کو مدنظر رکھو گے۔

شریف طبقہ سے میل جول

وہاں اپنی سوسائٹی کے انتخاب کے لئے تم کو یہ اصول مدنظر رکھنا چاہئے کہ ایسے لوگوں میں ملا جاوے۔ جو اپنی زبان اور عادات واطوار کے لحاظ سے شریف طبقہ کے لوگ سمجھے جاتے ہوں اور رذیل اور بداخلاق اور گندے اور عامیانہ زبان والے لوگوں سے قطعی پرہیز کرنا چاہئے۔

خط وکتابت کے ذریعہ باقاعدہ رابطہ

ولایت کی ہندوستان کے ساتھ خط وکتابت ہفت روزہ ہے جس میں ایک عام ڈاک ہے اور ایک ہوائی ڈاک ہے تمہیں چاہئے کہ التزام کے ساتھ ہر ہفتہ اپنے حالات سے اطلاع دیتے رہو۔ اگر ہوائی ڈاک کے ذریعہ خط لکھ سکو تو بہتر ہے ورنہ عام ڈاک میں خط بھجوادیا کرو۔ حضرت صاحب کو باقاعدہ اپنے حالات سے اطلاع دیتے رہو۔ اور دعا کی تحریک کرتے رہو۔ اسی طرح حضرت والدہ صاحبہ اماں جان کو بھی دعا کے واسطے لکھتے رہو۔ گا ہے گاہے سلسلہ کے دوسرے بزرگوں کو بھی دعا کے لئے لکھتے رہو۔ ڈاک کے خرچ کی کفایت اسی رنگ میں ہوسکتی ہے کہ ایک ہی لفافہ میں کئی لفافے بند کر کے بھجوادیے جائیں۔ اب میں موٹی موٹی باتیں جو تمہیں کہنا چاہتا تھا وہ کہہ چکا ہوں۔ میرے دل میں بہت کچھ ہے مگر میں اس سے زیادہ نہیں کہنا چاہتا اور بس اسی قدر نصیحت کے ساتھ تمہیں خدا کے سپرد کرتا ہوں۔ خدا تمہیں خیریت سے لے جائے اور خیریت سے رکھے اور ہر قسم کی مکروہات سے بچاتے ہوئے کامیاب اور مظفر ومنصور واپس لائے۔ آمین للھم آمین۔

غض بصر کی عادت

نوٹ: ایک بات جو میں لکھنا چاہتا تھا۔ مگر وہ لکھنے سے رہ گئی ہے وہ وہاں کی عورتوں کے متعلق ہے۔ ولایت میں علاوہ اس کے کہ عورت بالکل بے پرد اور نہایت آزاد ہے آبادی کے لحاظ سے اس کی کثرت بھی ہے جس کی وجہ سے مردوں کو باوجود کوشش کے ان کے ساتھ ملنا پڑتا ہے۔ اور اسی اختلاط کے بعض اوقات خراب نتائج نکلتے ہیں۔ میں عورت ذات کا مخالف نہیں ہوں عورت اللہ تعالیٰ کی ایک نہایت مفید اور بابرکت مخلوق ہے اور مرد کے واسطے رفاقت حیات اور اولاد کی تربیت کے نقطہ نگاہ سے عورت کا وجود ایک نہایت قابل قدر وجود ہے مگر غیر مرد وعورت کا بے حجابانہ اختلاط اپنے اندر سخت فتنے کے احتمالات رکھتا ہے اور اسی لئے جہاں شریعت نے عورت کے وجود کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے وہاں یہ بھی سختی کے ساتھ حکم دیا ہے کہ غیر مردوعورت ایک دوسرے کے ساتھ ملنے میں پردہ کی ان ان شرائط کو ملحوظ رکھیں۔ ان شرائط میں سے خاص طور پر قابل ذکر یہ ہیں۔ کہ(الف) غیر مرد وعورت ایک دوسرے کی طرف آنکھیں اٹھا کر نہ دیکھیں۔ (ب) وہ ایک دوسرے کے ساتھ خلوت میں دوسروں سے علیحدہ ہو کر نہ ملیں اور (ج) ان کا جسم ایک دوسرے کے ساتھ نہ چھوئے۔ ان شرائط کے علاوہ شریعت نے اور کوئی خاص شرط پردہ کے متعلق نہیں لگائی۔ پس میں امید کرتا ہوں کہ تم ولایت میں پردے کی ان شرطوں کی پابندی اختیار کرو گے اور دل میں خدا سے دعا بھی کرتے رہو گے کہ وہ تمہیں ہر قسم کے شر اور فتنہ سے محفوظ رکھے۔ ا للہ تمہارا حافظ وناصر ہو۔

(والسلام۔ خاکسار (دستخط) مرزا بشیر احمد)

(الفضل 31 ؍اکتوبر 1933ء)