ایم ایم احمد ۔ شخصیت اور خدمات

فہرست مضامین

دلنواز شخصیت

(سید سعید الحسن صاحب)

حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب اپنے نام کی طرح زندگی کے ہر میدان میں مظفر ومنصور رہے ملکی سطح ہو یا بین الاقوامی – دنیاوی ہو یا دینی‘ ہر میدان میں عزت و توقیر اور سر بلندی و کامیابی ان کے حصہ میں آئی-

محترم عبدالسمیع نون صاحب کا مضمون آپ کی سیرت کے متعلق پڑھ رہا تھا اور بلا شبہ اس عظیم شخصیت کی زندگی کا ایک پوشیدہ باب نمایاں ہو رہا تھا- وگرنہ تو صرف آپ اس حوالے سے پہچانے جاتے تھے کہ بہت بڑے اقتصادی ماہر ہیں – عالمی بینک کی وجہ سے شہرت ہے- دنیا میں عزت و توقیر کے حوالے سے دیکھے جاتے تھے- لیکن یہ مضمون پڑھ کر یوں لگا کہ آپ تو محبت کا ناپید سمندر تھے-

خاکسار کی زندگی میں حضرت صاحبزادہ صاحب کی زندگی کا ایک اور انداز بھی سامنے آیا اور یہ آپ کی سیرت پر روشنی ڈالتا ہے- جب خاکسار علی پور مظفر گڑھ میں متعین تھا اس وقت جتوئی کی جماعت میں گیا تو وہاں ایک غیر از جماعت معزز زمیندار قاضی محمداقبال صاحب نے بتایا کہ ان کا جماعت سے پرانا تعارف ہے وہ یوں کہ طویل عرصہ پہلے کی بات ہے کہ اپنی زمینوں کے بعض معاملات کے لئے ڈپٹی کمشنر صاحب سے ملنا تھااور ان سے ملے بغیر مسائل حل نہیں ہو سکتے تھے میں بڑا پریشان تھا ان سے ملاقات کس طرح ہو- میرے احمدی دوست حاجی محمد موسیٰ خان صاحب آف جتوئی نے کہا کہ یہ کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ ڈپٹی کمشنر صاحب ہماری جماعت کے خلیفہ کے خاندان کے ہیں – ان کے پاس چلتے ہیں – خیر ہم دونوں ملتان گئے ڈپٹی کمشنر صاحب سے ملنے کے لئے ملاقاتیوں کی ایک لمبی قطار تھی اور تمام لوگ معزز اور بڑی بڑی ہستیوں والے معلوم ہوتے تھے اور ہم جتوئی جیسی دور افتادہ جگہ سے آ رہے تھے اور کسی قسم کی واقفیت بھی نہیں تھی حاجی محمد موسیٰ خان صاحب نے ایک چٹ لکھی جس پر لکھا کہ ہم جتوئی سے آئے ہیں اور ایک ضروری کام سے ملنا ہے- مہربانی فرما کر وقت دیں – آخر پر لکھا حاجی محمد موسیٰ خان احمدی- اور یہ چٹ چپڑاسی کو دے دی- تھوڑی دیر بعدملازم نے آ کر کہا کہ آپ دوسری طرف والے دروازے کی طرف آئیں اس نے دروازہ کھولا اور اندر بلایا- اندر ایک نوجوان نے میز سیدھی کی سلام دعا کے بعد بٹھایا ناشتے کا پوچھا پھر اندر جا کر خود ہی چائے اور خورو نوش کا سامان لے آیا جب چائے سے فارغ ہوئے تو حاجی صاحب جو خود بھی حضرت صاحبزادہ صاحب سے ناواقف تھے پوچھا کہ ڈپٹی کمشنر صاحب کہاں ہیں ہم نے ان سے ملنا ہے-وہ نوجوان تھوڑا سا مسکرائے اور کہا کہ ڈپٹی کمشنر تو میں ہی ہوں آپ نے پتہ نہیں کس ڈپٹی کمشنر سے ملنا ہے- یہ بات سننا تھی کہ حاجی صاحب آبدیدہ ہو گئے اور مجھ پر بھی بہت اثر ہوا کہ یہ کس شان کا افسر ہے کہ جس کے ایک اشارے پر پتہ نہیں کیا کچھ ہو سکتا ہے لیکن سادگی کی اور عاجزی کی انتہا ہے-

یہ واقعہ قاضی اقبال صاحب نے سنایا اور پھر کہا مربی صاحب میری واقفیت تو احمدیت سے ایسی ہے- ایسی اعلیٰ شخصیات صرف احمدیت میں ہی ہو سکتی ہیں پھر بڑی محبت سے پوچھا کہ اب میاں صاحب کہاں ہوتے ہیں -میں نے بتایا کہ اب وہ امریکہ میں ہیں اور وہاں کی جماعت کے امیر ہیں بڑے خوش ہوئے اور کہا اگر کبھی خط لکھیں تو میرا سلام بھی کہیے گا-

میں حضرت صاحبزادہ صاحب کی اس سیرت پر غور کرتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ نہ جانے کتنے لوگ ہوں گے جن کے ساتھ حضرت صاحبزادہ صاحب نے شفقتیں فرمائی ہوں گی-

(الفضل 10جنوری 2003ء)