ایم ایم احمد ۔ شخصیت اور خدمات

فہرست مضامین

ایک خادم دین اور سادہ مزاج وجود

(مکر م فخر الحق شمس)

حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کو خداتعالیٰ نے دینی ودنیوی لحاظ سے بہت نوازا تھا۔ مسلسل محنت، خدا داد صلاحیتوں، توکل اور دعاؤں سے آپ دونوں طرف ہی عروج پر پہنچے۔ جس میدان میں قدم رکھا اس کو کامیابی سے سرکیا۔ اس مضمون کو ترتیب دینے کے لئے آپ کے قریب رہنے والے احباب سے تاثرات اور مشاہدات جمع کئے گئے ہیں۔ جس سے خاص طور پر آپ کی ذاتی زندگی اور جماعتی خدمات کے بعض پہلو تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں۔ جن احباب سے مختلف مواقع پر گفتگو کی گئی ان میں مکرم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ناظر امور خارجہ وصدر مجلس انصار اللہ پاکستان، مکرم سیدمیر محمود احمد صاحب ناصر پرنسپل جامعہ احمدیہ ربوہ، مکرم داؤد احمد حنیف صاحب مربی سلسلہ نیویارک، مکرم ملک مسعود احمد صاحب جنرل سیکرٹری جماعت احمدیہ امریکہ، مکرم ظفر اللہ ہنجرا صاحب مربی سلسلہ ڈیٹن امریکہ اور مکرم ظہیر احمد باجوہ صاحب واقف زندگی مقیم امریکہ شامل ہیں۔ ان احباب کے تاثرات کو موضوعاتی ترتیب سے اکٹھا کیا گیا ہے۔

خلافت سے وابستگی اور اطاعت کا اعلیٰ مقام

حضرت صاحبزادہ صاحب کی خلافت سے وابستگی، لگاؤ اور اطاعت امام عروج پر تھی۔ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے باوجود عمر میں بڑے ہونے کے بہت ادب اور احترام کرتے تھے، حضور انور کے ہر ارشاد پرمن وعن عمل پیرا ہوتے، خلافت کی ہر لحاظ سے تابعداری میں رہتے ہوئے کام کرتے۔ آپ براہ راست حضور انور کو بہت کم امور ارسال کرتے بلکہ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کے ذریعے حضور تک بات پہنچاتے۔ آپ کے دور امارت میں حضور انور نے امریکہ کے پانچ دورے فرمائے۔ ہر مرتبہ دورے کے دوران آپ حضور کی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت او ر آرام کا خیال رکھتے۔ امریکہ میں قیام کے دوران حضور انور کی مصروفیات کا ایک ایک منٹ کا پروگرام بنا کر قبل از وقت حضور انور سے اس کی منظوری لے لیتے، حضور کے استقبال کے لئے ائر پورٹ پر موجود افراد کی معین لسٹ پہلے سے ہی تیار کرتے۔ امریکہ کے دورے کے دوران حضور انور نے جس شہر جانا ہوتا وہاں کے امیر جماعت یا صدر جماعت، خاندان کے احباب کے نام اور ڈاکٹر حضرات کے نام اور پتہ جات کی لسٹ پہلے حضور انور کی خدمت اقدس میں پیش فرما دیتے۔ ایک مرتبہ حضور انور کے دورے کے وقت میاں صاحب کچھ بیمار تھے اور زیادہ چل پھر نہیں سکتے تھے، آپ نے ائر پورٹ پر ویل چیئر لانے کا حکم دیا تھا تا کہ بوقت ضرورت اس پر بیٹھ سکیں لیکن حضور انور کے احترام میں ویل چیئر کا سہارا نہ لیا اور تکلیف کے باوجود ساتھ ساتھ چلتے رہے، کافی دور چلنے کے بعد حضور انور کی اجازت سے ویل چیئر پر بیٹھے۔

حضور انور سے گفتگو کے دوران جی حضور! ہی کہتے حضور انور کے قیام کے لئے اپنا کمرہ پیش کرتے۔ جب تک حضور انور آپ کے کمرہ میں قیام پذیر رہتے۔ حضرت میاں مظفر احمد صاحب حضور کی محبت اور اطاعت کے جذبات سے لبریز ہو کرکمرہ سے باہر تشریف رکھتے اور اپنے معمول کے کام سرانجام دیتے رہتے۔ سہولت کے لئے اپنے ٹیلیویژن کے ساتھ مختلف چینلز کی تفصیل لکھ کر رکھتے تا کہ حضور انور کو اس کے متعلق استفسار نہ کرنا پڑے اور تکلیف نہ ہو۔ حضور انور کی ہر خواہش کی تکمیل آپ کی زندگی کا طرہ ٔ امتیاز تھا۔

روزانہ کا معمول اور دفتری مصروفیات

آپ نے بہت معمور الاقات زندگی گزاری۔ پاکستان اور پاکستان سے باہر کلیدی عہدوں پرتاریخی کارنامے سرانجام دئیے اور پھر بطور امیر جماعت احمدیہ امریکہ جماعتی کاموں کے لئے گویا وقف ہو کر رہ گئے۔ نوجوانی سے ہی تہجد کے لئے بہت التزام فرماتے تھے۔ نماز فجر سے فارغ ہو کر ہر قسم کے اخبار کامطالعہ کرتے اور احباب جماعت سے بعض معاملات پر گفتگو بھی فرماتے۔ ناشتہ کرنے کے بعد کچھ دیر آرام فرماتے اور پھر دوپہر ایک بجے تک گھر میں ہی قائم اپنے دفتر میں بیٹھ کر کام کرتے۔ دفتر میں تشریف لانے سے پہلے روزانہ باقاعدہ تیار ہو کر پینٹ، شرٹ، ٹائی اور کوٹ زیب تن کر تے۔ دفتر میں باقاعدگی سے بیٹھتے۔ اپنے دفتر یا گھر کا فون خود سنتے جماعتی کاموں میں انہماک کی وجہ سے دفتر میں بلاوجہ کسی کا خلل برداشت نہ کرتے۔ ہر کام کی بروقت تکمیل اور اس کو سرانجام دینے میں احتیاط کی عادت آپ نے اپنے والد گرامی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے سے حاصل کی تھی۔ اپنی تقریر، میٹنگ یا کسی بھی تقریب میں کوئی نہ کوئی مزاح والی بات کرتے جس سے ماحول میں شگفتگی پیدا ہو جاتی۔ بہت سنجیدہ ماحول دیکھ کر ضرور مزاح فرماتے۔ جچی تلی اور مناسب بات کرتے۔ دوسرے کی بات خاموشی سے اور مکمل سنتے اور بعض اوقات اسی وقت تبصرہ نہ فرماتے بلکہ چند لفظوں میں جواب دے دیتے۔ کسی بھی معاملہ پر کوئی بحث نہ فرماتے اور نہ ہی تکرار کرتے۔

آپ کی ڈاک میں خواہ کسی قسم کابھی خط آتا اسے خود غور سے پڑھتے۔ جواب کے لئے اس پر اشارے تحریر فرما دیتے یا اس کا زبانی جواب لکھوا دیتے۔ خط کا جواب ہمیشہ انگریزی میں دیتے۔ خط پر دستخط کرنے سے پہلے ایک ایک لفظ پڑھتے اور پھر دستخط ثبت فرماتے۔ ڈاک پر وصولی کی مہر لگانے کے لئے ضرور کہتے۔ خط کا جواب اس فقرے سے شروع کرتے کہ آپ کا خط فلاں تاریخ کا لکھا ہوا فلاں تاریخ کوملا ہے۔ اگر ڈاک رات کو پہنچائی جاتی تو اسی وقت خطوط پڑھ کر ان کے جواب کے لئے بعض امور سو چ لیتے تا کہ اس چٹھی کا جواب لکھنے میں آسانی ہو آپ تحریر کے ماہر تھے، الفاظ کی نوک پلک سنوار کر لکھتے۔ مرکز سے جو بھی سرکلر جاتا اس کی بروقت تعمیل فرماتے۔ کم گو تھے لیکن بے تکلف دوستوں سے بات چیت خوب کرتے۔ حضرت مرز ابشیر احمد صاحب ایم اے کی طرح باریک بین تھے ہر معاملہ اور کام کو تفصیل میں جا کر دیکھتے۔

آپ کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ جس میں اخبارات ورسائل اور مختلف موضوعات پرکتب شامل ہیں۔ آپ کم وقت میں گہرائی سے مطالعہ کرنے میں ماہر تھے۔ کتاب یا رسالے کا نہ صرف مطالعہ کرتے بلکہ غلطیوں کی نشاندہی بھی فرماتے۔ جماعتی کاموں کے سلسلہ میں کوئی بات بتانی ہوتی تو پہلے اسے ضبط تحریر میں لاتے۔ آپ کا حافظہ بہت تیز اور کمال کا تھا۔ ایک ایک بات یاد رکھتے۔ آپ کی انگریزی بہت شستہ اور اعلیٰ پائے کی تھی۔ بعض اوقات مشکل لفظ کہہ جاتے جو بظاہر غیر ضروری معلوم ہوتا تھا لیکن کچھ ہی دیر میں سننے والے کو احساس ہوتا کہ اس سے زیادہ مناسب لفظ اس صورتحال میں بولا ہی نہیں جا سکتا۔

آپ بہت سوشل تھے، شام کے وقت آپ کے دسترخوان پر دوستوں یا عزیزوں میں سے کوئی نہ کوئی ضرور ہوتا۔ اکثر اپنے رفقائے کار کو اپنے ہاں دعوت پر مدعو کرتے۔ کھانے کے دوران ہلکی پھلکی گفتگو اور روزمرہ کے مسائل پر بات چیت ہوتی۔ دوپہر کا کھانا ایک بجے تناول فرماتے۔ آہستہ کھاتے، تھوڑا کھاتے اور کھانے کو انجوائے کر کے کھاتے۔ آپ کو اکیلے کھانا کھانا بالکل پسندنہ تھا۔ رات کے کھانے کا وقت عموماً 9بجے ہوتا تھا۔ انگریزی کے علاوہ اردو اور پنجابی میں بات چیت کرتے۔ آپ کی یہ خوبی قابل ذکر ہے کہ مشکل سے مشکل مسئلہ بھی تحقیق اور سٹڈی کے بعد حل کر لیتے۔ جماعتی کاموں میں بڑی عمر کے اثرات حائل نہ ہوئے تھے۔

جماعتی خدمت کا جذبہ

آپ نے دنیاوی لحاظ سے جو بھی کام کئے ان میں کمال کو پہنچے اس کے مقابل پر جب دینی کاموں کا آغاز فرمایا تو بھی سب سے آگے تھے جماعت احمدیہ امریکہ کی امارت سنبھالنے کے بعد آپ نے دن رات کی محنت کے بعد اسے مزید مستحکم کیا، آپ کے بے شمار اہم کاموں میں سے امریکہ کی مرکزی بیت الذکر بیت الرحمن کی تعمیر امریکہ کے مالی نظام کی مضبوطی اور مختلف ریاستوں میں بیوت الذکر کی تعمیرسر فہرست ہیں۔ وفات سے تقریباً ڈیڑھ ماہ پہلے ہسپتال میں بستر علالت پرڈاک ملاحظہ فرماتے، آپ نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ جلسہ سالانہ برطانیہ میں شرکت کریں۔ گزشتہ، 25,20 سال سے آپ پر بڑھاپے اور کمزوری کے آثار نہیں تھے۔ 31 جولائی 2001ء تک آپ اتنے ہی ٹھیک اور صحت مند تھے جتنا پہلے تھے۔ آخری ایک سال میں آپ کی صحت اچانک خراب ہونا شروع ہوئی۔ آپ نے بیت الرحمن میں آخری مرتبہ مکرم ناصر محمد سیال صاحب کے جنازہ میں شرکت فرمائی۔ 2000ء میں واشنگٹن سے باہر ڈوئی کانفرنس میں شرکت کے لئے زائن تشریف لے گئے۔ واشنگٹن سے باہر یہ آپ کا آخری دورہ تھا۔ آخر میں آپ کو کمر کی تکلیف زیادہ ہو گئی تو آپ مجلس عاملہ کے اجلاسات کی صدارت کرسی پربیٹھ کر ہی کرتے۔ مجلس عاملہ کی اکثر میٹنگز میں خو د شریک ہوتے ممبران عاملہ کو باقاعدہ پہلے ایجنڈا ارسال کیاجاتا اور دوران میٹنگ ان امور پر تفصیلی بحث ہوتی۔ آپ نے Human Rights Cell قائم فرمایا جو جماعت احمدیہ امریکہ کا خاص شعبہ ہے۔

آپ کا دور امارت

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 1989ء میں اپنے دورہ امریکہ کے دوران آپ کو امیر جماعت احمدیہ امریکہ مقرر فرمایا۔ اس طرح آپ کی امارت کا دور 13 سال پر محیط ہے۔ آپ نے امریکہ کی امارت کا سٹرکچر مضبوط کرنے کے لئے بہت کام کیا۔ خداتعالیٰ کے فضل سے امریکہ میں 50 جماعتیں قائم ہیں آپ کے دور امارت میں ہر سال ایک یا دو جماعتوں کا اضافہ ہوتا رہا۔ اس دوران آپ نے اپنی جملہ ذمہ داریوں کا خوب حق ادا کیا اور ہمیشہ سوچ سمجھ کر اور صحیح فیصلہ کیا۔ ہر شعبہ کو خود گہرائی سے سٹڈی کرتے، جماعتوں کی طرف سے آنے والی رپورٹوں پر تبصرہ اور ہدایات فرماتے کہ کام مکمل اور صحیح ہونا چاہئے بیشک آرام سے ہو۔ آپ کویہ بات پسند تھی کہ جس کے سپرد کام کیا جائے وہی اس کو سرانجام دے۔ بغیر اجازت کوئی کسی اور کاکام نہیں کر سکتا تھا۔

شعبہ تربیت کی طرف خاص توجہ

شعبہ تربیت کو فعال کرنے اور دینی نصائح گھر گھر پہنچانے کے لئے آپ نے خاص توجہ فرمائی۔ صدران جماعت سے اس سلسلہ میں باقاعدہ رپورٹ لیتے اور تربیت کے امور پر تفصیلی استفسار فرماتے۔ نمازوں کے اعدادوشمار پر تفصیلی گفتگو فرماتے۔ امارت کے آغاز میں انگریزی اور اردو میں مختلف فقرات پرمشتمل چارٹس اور بینرز بنوائے، ان کو جماعتوں میں تقسیم کیا اور کہا کہ ان کو التزام کے ساتھ ہر گھر میں تقسیم کیا جائے تا کہ یہ قیمتی نصائح ہر وقت احباب جماعت کی نظروں کے سامنے رہیں۔ یہ جماعت کی تربیت کا شاندار انداز تھا۔

دعوت الی اللہ میں خصوصی دلچسپی

آپ کے دورمیں دعوت الی اللہ کے کاموں میں پہلے کی نسبت کافی ترقیات ہوئیں۔ آپ کو ہر وقت یہی فکر دامنگیر رہتی کہ اس شعبہ میں بھی حضور انور کی خواہشات کے مطابق عمل پیرا ہوا جائے۔ نواحمدیوں میں زیادہ تر افریقی امریکن افراد تھے۔ ان سے آپ کو بہت پیار تھا۔ بلکہ ان سے ذاتی تعلق تھا۔ آپ ان کی اکثر امداد فرمایا کرتے تھے یتیموں، بیواؤں او رغریبوں کی امداد میں کوئی کسر نہ چھوڑتے، آخری وقت تک دعوت الی اللہ کے بارے میں سوچتے رہتے۔ ایک مربی صاحب وفات سے کچھ دیر پہلے آپ کو ہسپتال ملنے کے لئے گئے تو آپ نے ان سے دریافت فرمایا کہ کتنی بیعتیں کرائی ہیں۔ مربیان کی میٹنگ میں بعض اوقات تفصیل سے دعوت الی اللہ کی طرف توجہ دلاتے۔

بیوت الذکر اور مشن ہاؤسز کی تعمیر

بیوت الذکر او رمشن ہاؤسز کی تعمیر اور ان کو فعال کرنے کی طرف آپ نے اپنے دور امارت میں خاص توجہ کی۔ شمالی امریکہ کی سب سے بڑی بیت الذکر ’بیت الرحمن‘ کی تعمیر آپ کے دور میں مکمل ہوئی اور جس کا افتتاح حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ نے 14؍ اکتوبر 1994ء کو فرمایا۔ آپ نے مشن ہاؤسز کے بنانے اور ان کی دیکھ بھال کے لئے الگ الگ سکیمیں بنوائیں اور ان پر عمل کروایا۔

حضرت مفتی محمدصادق صاحب کے دور سے شکاگو میں ایک مکان بطور بیت الذکر استعمال ہو رہا تھا۔ حضور انور کے حکم کے مطابق اس جگہ باقاعدہ بیت الذکر بنائی گئی اور برکت کی خاطر اس میں پرانے مکان کا سامان لگایا گیا اور اس کا نام بیت صادق رکھا گیا۔ اب وہ علاقہ خداتعالیٰ کے فضل سے بہت ترقی کر گیا ہے۔

شکاگو، واشنگٹن، نیویارک، لاس اینجلس، ورجینیا، ڈیٹرائٹ، ہیوسٹن اور ڈیلس (ٹیکساس) میں بیوت الذکر کی تعمیر کی سکیمیں بنائیں، کام کا آغاز کیا، بعض تو آپ کے دور میں ہی مکمل ہو گئی تھیں، بعض پرکام جاری ہے۔

ایم ٹی اے کی نشریات کا آغاز

امریکہ میں ایم ٹی اے کی ترویج وترقی میں آپ کا بہت عمل دخل رہا ہے۔ یہاں پہلے صرف آڈیو سسٹم قائم تھا۔ آپ کی کوششوں سے ایک پرائیویٹ کمپنی سے معاہدہ کے تحت براعظم امریکہ اور بعض دوسرے علاقوں تک ایم ٹی اے کی وسیع نشریات پہنچانے کے لئے ارتھ سٹیشن کا قیام بیت الرحمن کے ملحقہ احاطہ میں عمل میں آیا۔ یہ ارتھ اسٹیشن جماعت کینیڈا کی طرف سے جماعت امریکہ کے تعاون سے شروع ہوا۔ جو خدا کے فضل سے بڑی کامیابی کے ساتھ نشریات دور دراز علاقوں تک پہنچا رہا ہے۔

شعبہ مال میں غیر معمولی خدمت

جماعت احمدیہ امریکہ کا شعبہ مال آپ نے خاص طور پر فعال بنایا۔ آپ کے دور میں ہونے والی پہلی مجلس شوریٰ میں آپ نے امریکہ کی جماعتوں کو پہلی مالی تحریک یہ کی کہ امریکہ کا بجٹ 3سال میں دو گنا ہونا چاہئے۔ آپ کی بہت خواہش تھی کہ جماعتہائے احمدیہ امریکہ تمام چندوں کی ادائیگی میں دنیا میں پہلے نمبر پر آئے۔ آپ کی نگرانی اور مسلسل یاددہانی سے خداتعالیٰ کے فضل سے 3سال میں امریکہ نے اپنا ٹارگٹ پورا کر لیا۔ آپ شعبہ مال کی ایک ایک رپورٹ کا خود جائزہ لیتے۔ اگر خوشکن رپورٹ ہوتی تو خوشنودی کا اظہار فرماتے۔ ہر ماہ باقاعدگی سے تمام جماعتوں کو شعبہ مال میں ان کی کارکردگی کا جائزہ ارسال کیا جاتا، جو جماعت اس شعبہ میں پیچھے ہوتی اسے لکھتے کہ جلد مکمل کرنے کی کوشش کی جائے۔ ہر شعبہ میں جماعت کو آگاہ رکھنا ضروری سمجھتے تھے۔

طوعی چندوں میں امریکہ صف اول کا ملک بن گیا اور آپ کے دورا مارت میں تحریک جدید اور وقف جدید میں امریکہ اولین ممالک میں شامل ہو گیا۔

وقف جدید میں پہلی پوزیشن

اپنی امارت کے آغاز میں آپ نے مجلس عاملہ کو ٹارگٹ دیا کہ ہم کسی ایک شعبہ کو منتخب کرتے ہیں، کوشش اور محنت کر کے دنیا کی جماعتوں میں پہلے نمبر پر آنے کی کوشش کرتے ہیں اس سلسلہ میں آپ نے وقف جدید کو منتخب فرمایا۔ اور پھر دعاؤں اور محنت سے چند سال میں ہی وقف جدید میں آول آنے میں جماعت احمدیہ امریکہ کا میاب ہو گئی۔ اس اعزاز کو قائم رکھنے کے لئے آپ نے بہت دلجمعی سے خود بھی کام کیا اور جماعتوں کو بھی کام کرنے کی تلقین فرمائی۔

تقاریر اور خطابات

کسی بھی اجلاس میں تقریر کرنا ہوتی یا جلسہ سالانہ امریکہ میں خطاب کرنا ہوتا تو ہمیشہ پہلے بھرپور تیار ی کرتے۔ سیدنا حضرت مسیح موعود کی سیرت یا حضرت مصلح موعود کے ساتھ ذاتی واقعات آپ کی اکثر تقاریر کا موضوع ہوتا تھا۔ تقریر تیار کرتے وقت نوٹس لیتے اور ان کی مدد سے سنوار کر اور بھرپور تقریر فرماتے۔

امریکہ میں لنگرخانہ حضرت مسیح موعود کا اجراء

آپ کے دور امارت میں جلسہ سالانہ امریکہ کے موقع پر پہلی مرتبہ لنگرخانہ حضرت مسیح موعود کا آغاز ہوا۔ لنگرخانہ جاری ہونے سے جلسہ سالانہ کے اخراجات میں نمایاں کمی واقع ہو گئی۔ پہلے فی کس یومیہ خرچ 15 سے 20 ڈالر تک اٹھتا تھا، لنگرخانہ کے بابرکت اجراء سے فی کس یومیہ خرچ 3ڈالر سے بھی کم ہو گیا۔ اور کھانے کا معیار بھی بلند ہو گیا۔ حضرت مسیح موعود کی خواہش کی تکمیل آپ کا تاریخی کارنامہ ہے۔ لنگرخانہ کے اجرا میں مکر م ڈاکٹر صلاح الدین صاحب اور ان کی ٹیم کو خصوصی خدمت کی توفیق ملی۔

سادگی وانکساری

آپ کی زندگی بہت سادہ تھی۔ اعلیٰ عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود آپ میں تکلف اور دکھاوا نام کی چیز نہ تھی۔ گھر میں سادگی جھلکتی نظر آتی۔ ہمیشہ دوسروں کے گھر ملاقات کے لئے خود تشریف لے جاتے اور ان کی ہر لحاظ سے دلداری فرماتے۔ آپ کی ذات میں وقار اور رعب بھی تھا اور عاجزی بھی تھی۔

محبت و شفقت اور حسن سلوک

غیروں سے بھی محبت وشفقت کا سلوک فرماتے۔ جس شخص نے بھی آپ کو امداد کے لئے لکھا آپ نے اس کی مدد فرمائی۔ اپنے رفقاء او رکارکنان کے ساتھ بہت حسن سلوک فرماتے تا ہم نظام کے تحت اگر کسی سے غلطی سرزد ہوتی تو مناسب رنگ میں اصلاح فرماتے۔ خادمان احمدیت اور مربیان سلسلہ سے بہت شفقت فرماتے تھے۔ اگر کسی کی شکایت آپ تک پہنچتی تو اس پر عمل درآمد بڑی حکمت اور عقل وفراست سے کرتے۔ آپ کے دور میں متعددتعلیمی وظائف مقرر تھے۔

مصروفیات اور عمر میں اضافہ کے باوجود کوشش کر کے ہر فنکشن پر جاتے۔ جماعت کے ہر شخص کی کوشش ہوتی کہ آپ ان کے فنکشن میں شرکت فرمائیں۔ آپ وہاں حتی الامکان پہنچنے کی کوشش کرتے۔ ایک مرتبہ کسی نے آپ کو شادی کی دعوت دی۔ دعوت نامہ لانے والے نے ساتھ حوالہ دیا کہ جب آپ سرگودھا میں ڈپٹی کمشنر تھے اس وقت ان کے والدنے آپ کو سفر کے لئے گھوڑی بھجوائی تھی آپ کو ان کے والد کا وہ احسان یا د تھا اس لئے آپ نے شادی میں شرکت کی دعوت قبول فرمالی۔

اپنے رفقاء اور خادموں سے آپ کی محبت و شفقت کے بے شمار واقعات ہیں، مکرم ملک مسعود احمد صاحب جنرل سیکرٹری جماعت احمدیہ امریکہ نے بتایا کہ چند سال پہلے ان کے بیٹے کا ولیمہ تھا۔ صحت خراب ہونے کے باوجود آپ نے اس تقریب میں شرکت فرمائی۔ آپ کی نشست سٹیج پر موجو دتھی، سٹیج پر چڑھتے وقت آپ کا پاؤں پھسل گیا۔ ہمیں اس وقت آپ کی چوٹ کا علم نہ ہو سکا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ آپ کو بہت چوٹ آئی تھی، گھر پہنچ کر ڈاکٹر کو بلانا پڑا۔ جب آپ سے پوچھا گیا کہ آپ کوتو زیادہ چوٹ آئی ہے اسی وقت ہی کیوں نہ بتایا تو آپ نے فرمایا میرا دل نہ کیا کہ میں خوشی کے اس موقع پر کوئی پریشانی والی بات کروں۔ اس طرح آپ وہاں اپنی تکلیف کو برداشت کر کے تشریف فرما رہے اور کسی سے اظہار نہ کیا۔ اپنے ساتھیوں سے یہ آپ کی انوکھی محبت کا انداز ہے۔

پاکستان کے لئے خدمات

پاکستان کے لئے آپ نے بہت سی خدمات سرانجام دیں۔ پاکستان میں رہتے ہوئے اور بیرون پاکستان ان کا دائرہ پھیلا ہوا ہے۔ امریکہ میں قائم پاکستان ایمبیسی سے آپ کے بہت اچھے تعلقات تھے اور وہاں کا سفارتی عملہ بھی آپ کی بہت عزت کرتا تھا۔ وہ آپ کو اکثر کھانے پر مدعو کرتے۔ واپسی پر پاکستانی سفیر آپ کو خود کارتک چھوڑنے آتے اور گاڑی کا دروازہ کھول کر عزت سے بٹھاتے۔ پاکستان کے استحکام اور سا لمیت کے آپ ہر ممکن امداد فرماتے رہتے تھے۔ پریسلر ترمیم کے سلسلے میں بھی آپ نے بہت معاونت فراہم کی۔ پاکستان کی بعض سرکردہ اور مقتدر شخصیات دورہ امریکہ کے دوران آپ کے ہاں قیام بھی کیا کرتی تھیں۔ آپ ان کی مقدور بھر خدمت اور مہمان نوازی فرمایا کرتے تھے۔

زائن کانفرنس کا انعقاد

آپ کی کوششوں او ر خواہش کے مطابق امریکہ کے شہر زائن میں ’’زائن کانفرنس‘‘ کا انعقاد ہوا۔ آپ چاہتے تھے کہ زائن سٹی امریکہ میں پہلا احمدی شہر بن جائے۔ زائن شہر نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ سیدناحضرت مسیح موعود کی مبشر اولاد کی اولاد اس شہر میں پہنچی اور جماعت کا پرچم بلند کیا۔

کسی وقت میں الیگزنڈر ڈوئی کی طرف سے منسوب ہونے والے اس شہر میں خدا کے فضل سے جماعت قائم ہے۔ احمدیہ مشن قائم ہے اور یہ شہر خدا تعالیٰ کی تائید ونصرت اور اعجازی نشانات کا حامل شہر ہے۔

اللہ تعالیٰ حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کی خدمات دینیہ کو قبول فرمائے۔ آپ کے فیض کو امریکہ میں جاری رکھے اور جس نہج پر آپ نے جماعت امریکہ کو چلایا یا چلانے کی خواہش تھی جماعت امریکہ ان خطوط پر چل کر دنیا کی صف اوّل کی جماعت بن جائے۔