ایم ایم احمد ۔ شخصیت اور خدمات

فہرست مضامین

خلافت کا وفادار اور اتفاق واتحاد کا نقیب

(مکرم شمشاد احمدناصر صاحب۔ مربی سلسلہ امریکہ)

قومی، ملکی اور جماعتی سطح پر خوب جانی پہچانی شخصیت صاحبزادہ مرز امظفر احمد صاحب جوکہ ایم ایم احمد کے نام سے مشہور تھے 22جولائی 2002ء کو مولائے حقیقی سے جا ملے۔

بلانے والا ہے سب سے پیارا

اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر

آپ کافی عرصہ سے بیمار تھے۔ بیماریوں میں کمر کی تکلیف اور کمزوری غالب اور نمایاں رہی۔ آپ کی بیماری کے دوران مکرمہ صاحبزادی امتہ القیوم بیگم صاحبہ، مکرم صاحبزادی امتہ الجمیل بیگم صاحبہ، ظاہر مصطفی صاحب اور آپ کے خادم مکرم محمد صدیق بھٹی صاحب نے جس قدر آپ کی خدمت کی اسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر دے۔ آمین۔

امریکی وقت کے مطابق22جولائی کو رات ساڑھے گیارہ بجے (پاکستان میں 23جولائی) ہسپتال میں آپ کی وفات ہوئی۔ اسی وقت ظاہر احمد مصطفی صاحب نے خاکسار کو بذریعہ فون اطلا ع دی۔ اگلے دن آپ کو غسل دیا گیا۔ جن دوستوں کو غسل دینے کی سعادت حاصل ہوئی ان میں مکرم منیر احمد خان صاحب، مکرم سید محمد احمد صاحب ابن مکرم سید میر محمود احمد صاحب ناصر مکرم مرزا محمود احمد صاحب ابن مکرم صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب اور خاکسار سید شمشاد احمدناصر مربی سلسلہ واشنگٹن تھے۔

تمام جماعتوں کو اور احباب کو اطلاع کر دی گئی تھی۔ جمعۃ المبارک مورخہ 26جولائی بعدنماز مغرب وعشاء آپ کی نماز جنازہ مکرم ڈاکٹر احسان اللہ ظفر صاحب قائمقام امیر جماعت احمدیہ امریکہ نے پڑھائی۔ جس میں 2ہزار سے زائد احباب کو شمولیت کی توفیق ملی۔

نماز جنازہ سے 2گھنٹے قبل آپ کی میت بیت الرحمان کی بیس منٹ میں آ چکی تھی جہاں احباب نے آپ کا آخری دیدار کیا۔ اس موقعہ پر دوسرے غیر از جماعت اور اعلیٰ شخصیات بھی موجود تھیں۔ مکرم مولانا نسیم مہدی صاحب امیر جماعت احمدیہ کینیڈا قریباً 150 احباب کے ساتھ کینیڈا سے تشریف لائے اور نماز جنازہ میں شامل ہوئے۔ اگلے دن آپ کا جنازہ بذریعہ PIA پاکستان لے جایا گیا اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں آپ کی تدفین ہوئی۔ ؎

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں

خاک میں کیا صورتیں ہونگی کہ پنہاں ہو گئیں

خاکسار کو یہاں واشنگٹن میں ساڑھے چھ سال سے زائد عرصہ تک محترم صاحبزادہ صاحب کی راہنمائی میں کام کرنے کی توفیق ملی اور اس طرح اس غیر معمولی وجود کو قریب سے دیکھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس مضمون میں آپ سے متعلق چند یادیں اور یادداشتیں لکھ رہا ہوں۔

آپ سے پہلی ملاقات

10 ستمبر 1987ء کو خاکسار لندن ائر پورٹ پر واشنگٹن آنے کے لئے برٹش ائرویز کے انتظار میں تھا کہ اچانک میری نظر مکرم صاحبزادہ صاحب پر پڑی۔ آپ جلسہ سالانہ UK میں شمولیت کے بعد واپس امریکہ آ رہے تھے۔ خاکسار نے پاس جا کر سلام عرض کیا اور اپنا تعارف کرایا۔ آپ نے پوچھا کہ پہلی بار واشنگٹن جا رہے ہو۔ عرض کیا جی ہاں اس کے بعد ہم جہاز میں سوار ہو گئے۔ واشنگٹن پہنچنے میں ابھی نصف گھنٹہ باقی تھا کیا محترم میاں صاحب میرے پاس تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ کیا مشن میں آپ کی آمد کی اطلاع ہے عرض کی کہ اطلاع ہے۔ فرمانے لگے کہ میں تو جلدی باہر چلا جاؤں گا اور دیکھ لوں گا کہ آیا آپ کوکوئی لینے آیا ہے کہ نہیں؟ تو آپ کو بتا دوں گا۔

چنانچہ آپ کی امیگریشن سے کلیرنس جلدی ہو گئی۔ آپ باہر گئے اور تھوڑی دیر بعد واپس اندر تشریف لے آئے اور مجھے فرمایا کہ آپ کولینے کے لئے مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب تشریف لائے ہوئے ہیں۔ آپ ان کے ساتھ چلے جائیں گے اس لئے میں جاتا ہوں۔ یہ میری حضرت میاں صاحب کے ساتھ پہلی ملاقات تھی لیکن ایسی تھی کہ اس نے ایک حسین یاد تاحیات پیچھے چھوڑ ی ہے۔

حضور انور سے محبت اور احترام خلافت

آپ حضورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے عمر میں بڑے تھے۔ کزن تھے، بھائی تھے لیکن کبھی بھی رشتہ داری یا بڑا ہونے کی وجہ سے احترام خلافت میں فرق نہ آنے دیتے تھے۔ حضور انور جب بھی امریکہ تشریف لاتے اپنی بیماری و کمزوری صحت کے باوجود سب پروگراموں میں باقاعدہ ساتھ ساتھ شامل رہتے۔ تکلیف یا تھکن کا احساس تک نہ ہونے دیتے۔ حضور انور کی ہر ضرورت کا خیال رکھتے۔ جس کمرہ میں حضورنے ٹھہرنا ہوتا وہاں پر ٹی وی رکھا ہوتا تو ایک الگ کاغذ پر ٹائپ کروا کر رکھتے کہ TV کس طرح استعمال کرنا ہے۔ MTA یا دوسرے چینلز کس طرح لگانا ہے وغیرہ۔

حضور انور کو خط لکھتے تو یا سیدی کے الفاظ سے۔ پھر کوشش کرتے کہ خط مختصر اور بامعنی ہو۔ بڑے جچے تلے الفاظ استعمال کرتے۔ اگر کبھی کوئی مضمون کسی رسالے یا میگزین میں پڑھا اور آپ نے سمجھا کہ اس میں حضور کی بھی دلچسپی ہو گی تو وہ ضرور حضور کی بھجواتے۔ اسی طرح اخبار میں کوئی مضمون یا خبر۔ یا کوئی کتاب شائع ہوئی اور اس میں احمدیت کا ذکروغیرہ تو آپ اس کا خود مطالعہ کرتے اور سارے مضمون کا خلاصہ حضو ر ایدہ اللہ کی خدمت میں بھجواتے۔ خلاصہ اتنا جامع ہوتا تھا کہ پھر وہ کتاب یا میگزین کو دیکھنے کی بھی ضرورت نہ پڑتی ہو گی اور اس سے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے قیمتی وقت کو بھی بچانا مدنظر ہوتا تھا۔

خدمت دین کا جذبہ اور احباب جماعت سے محبت

بیماری کے ایام میں ہر ملنے والے سے یہی درخواست کرتے کہ میر ی صحت کے لئے دعا کریں تا کہ میں اچھی طرح خدمت دین کر سکوں۔ 2001ء کو شوریٰ کے موقع پر آخری اجلاس میں آپ نے جماعت کو قربانیوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایاکہ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم ہر قسم کی قربانی کریں اور پھر غلبہ دین حق کی ایک پیشگوئی جو حضرت مسیح موعودنے تذکرۃ الشہادتین میں لکھی ہے پڑھ کر سنائی اور یہ شعر بھی سنایا۔ اس دین کی شان و شوکت یارب مجھے دکھا دے

ساتھ ہی فرمایا کہ جماعت کے لوگوں کو عمدہ نمونہ اختیار کرنا چاہئے اور دین کو دنیا پر مقدم رکھنا چاہئے۔ حضرت مسیح موعودنے جو یہ فرمایا ہے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا اس میں لفظ رکھوں گا ہے، کروں گا نہیں، تا کہ یہ بات مدنظر رہے کہ میں یہ کام مستقل بنیادوں پر کرتا چلا جاؤں گا۔

آپ نے حضرت مسیح موعود کی مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ کی ساری زندگی کا مطالعہ کریں کہ کس طرح اور کن مشکل حالات میں آ پنے دن رات دین کا کام کیا اور ان حالات میں جب کہ نہ بجلی نہ ائر کنڈیشن، گرمی میں سردی میں کام میں مصروف رہ کر 80 سے زائد کتب بھی لکھیں۔ محترم میاں صاحب نے رفقاء حضرت مسیح موعود کی زندگی کے واقعات بھی بیان کئے جو کہ جماعت کیلئے مشعل راہ ہیں۔ اسی شوریٰ کے موقع پر آپ نے بچوں کی تربیت کی طرف بھی توجہ دلائی اور فرمایا کہ حضرت مصلح موعود کی نظم ’’نونہالان جماعت مجھے کچھ کہنا ہے‘‘ ترجمہ کے ساتھ شائع کی جائے اور خدام الاحمدیہ یہ کام کرے۔ ایک موقع پر جماعت کو یہ بھی نصیحت کی کہ ’’میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا اور What I have done today in the service of (-) Ahmadiyyat کے سٹکرز بنوا کر گھروں میں لٹکائیں تا کہ یہ نصیحت ہر وقت ہر احمدی کے مدنظر رہے۔

انصار اللہ کا اجتماع تھا۔ محترم امیر صاحب بیمار تھے۔ صدر صاحب انصار اللہ نے خاکسار کو اختتامی پروگرام میں تقریر کے لئے لکھا۔ میں محترم امیر صاحب سے رہنمائی لینے کے لئے ان کے گھر حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا کہ ایک تو میری طرف سے سب کوالسلام علیکم کہہ دیں اور دوسرے جماعت میں پیارومحبت (Tolrence) اور خصوصاً ازدواجی تعلقات کو بہتر بنانے کی تلقین کریں نیز فرمایا کہ اگرچہ ہماری جماعت میں خدا کے فضل سے قضائی جھگڑے زیادہ نہیں ہیں لیکن ہمارے لئے تو ایک جھگڑا بھی بہت ہے آپ اپنی تقاریر میں بھی پیار ومحبت اور اتحاد سے رہنے کی تلقین کرتے اور حضرت مسیح موعود کے واقعات وتحریرات جن میں اتحاد کی بات ہوتی پڑھ کر سناتے۔ بعض اوقات تو خود سناتے سناتے رقت طاری ہو جاتی اور ساتھ ہی سب سامعین کو بھی رلاتے۔ اکثر شوریٰ کے موقع پر آپ کا موضوع پیارو محبت ہی ہوتا تا کہ دور دراز سے آئے ہوئے نمائندگان جماعتوں میں پیارومحبت کا پیغام پہنچا دیں۔ 2001ء کے جلسہ سالانہ امریکہ کے موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں بھی پیار ومحبت کے ساتھ رہنے کی تلقین فرمائی اور غلبہ احمدیت کی حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیاں پڑھ کر سنائیں۔ آپ کمزور تھے لیکن پیشگوئی کے الفاظ نہایت پرشوکت آواز میں سناتے تھے۔ جلسہ کے فوراً بعدغانین احمدی اپنے مخصوص انداز میں صلّ علیٰ نبینا اور درود شریف پڑھنے لگے اور دعاکے بعد لوگ فوراً آپ کی طرف بڑھنے لگے سلام کرنے لگے۔ پیارو محبت کا یہ عجیب منظر تھا۔

آپ کی امارت کا ایک خاص وصف یہ تھا کہ جماعت کے اندر خداتعالیٰ کے فضل سے یک جہتی اور اتحاد پیدا ہوا۔ یہ آپ کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے اللہ تعالیٰ ہمیشہ جماعت کو اتحاد اور پیارو محبت سے رکھے اور خلافت سے وابستہ رکھے۔ آمین۔

آپ کو کمر کی تکلیف لمبے عرصہ سے چلی آ رہی تھی آپ کے لئے کھڑے ہونا مشکل ہوتا تھا نماز بھی کرسی پر بیٹھ کر ادا کرتے تھے۔ لیکن جماعت کی تمام میٹنگز میں شمولیت فرماتے۔ بعض اوقات میٹنگ لمبی ہو جاتی لیکن کبھی تکلیف کا اظہار نہ کرتے۔

آخری میٹنگ جس میں آپ نے شرکت کی وہ 16 ستمبر 2001 ء کو بیت الرحمن میں تھی۔ 11ستمبر کا سانحہ اس میٹنگ کا سبب بنا۔ محترم میاں صاحب نے خاکسار سے فرمایا بیت الرحمن میں ایک دعائیہ تقریب کا انتظام کیا جائے۔ چنانچہ جلدی جلدی ایک بڑا بینر مکرم کلیم اللہ خان صاحب سے بنوایا گیا۔ جو بیت الذکر کے باہر لگا دیا کہ 16ستمبر کو ہم دعائیہ تقریب کر رہے ہیں سب کو شمولیت کی دعوت ہے۔ آپ بیماری کے باوجود بنفس نفیس اس دعائیہ تقریب کے لئے تشریف لائے اور اجلاس کی صدارت کی۔ مختلف مذاہب کے 200 سے زائد لوگ اس میں شامل ہوئے۔ خاکسار باری باری لوگوں کو دعا کے لئے اور اپنے اپنے خیالات کے اظہار کے لئے بلا رہا تھا۔ کسی نے چھوٹی کسی نے لمبی تقریر کی اور اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے صبر اور استقامت کی تلقین کی۔ تقریباً 20 سے زائد مقررین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ سب کی سنی اور احترام انسانیت میں سب کے ساتھ کھڑے ہوئے آخر میں آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مذہبی رواداری کے تین واقعات سنائے اور دعا پر یہ تقریب اختتام پذیر ہوئی۔

ایک دفعہ ایک شادی کے موقعہ پر تشریف لے گئے۔ دولہا اور دیگر شخصیات کے لئے پلیٹ فارم بنایا ہوا تھا۔ آپ اس پر چڑھنے لگے تو پاؤں پھسل گیا اور شدید تکلیف ہوئی لیکن آپ ضبط کر کے پورا وقت بیٹھے رہے اور اس کا احساس تک نہ ہونے دیا تا کہ شادی والوں کو زحمت اور شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔

بیماری کے ایام میں آپ گھر پر بھی صاحب فراش رہے اور متعدد مرتبہ ہسپتال داخل رہے جب بھی خاکسار یا کوئی دوست ملنے گیا۔ آپ نے یہی کہا کہ میری صحت کے لئے دعا کریں تا کہ میں زیادہ سے زیادہ دین کی خدمت کر سکوں۔ بیماری میں ملاقات کے دوران خاص طور پر جماعت کا حال پوچھتے اور غیر مذاہب سے رابطے کے بارے میں پوچھتے تھے۔ کیونکہ سانحہ 11ستمبر کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کی راہنمائی میں مذہبی راہنماؤں سے کافی تعلقات بڑھائے گئے۔

کام کا طریق کار اور احتیاط

مجلس عاملہ یا شوریٰ کی کارروائی کے دوران آپ صدارت کرتے تھے اور لوگ اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے کوئی اعتراض اٹھایا ہو تو آپ نے فوری دفاع کرنا شروع کر دیا ہو بلکہ ہر ایک کی بات سن کر نوٹس لکھتے جاتے ہر ایک کی رائے غور سے سنتے۔ آخر میں سب باتوں کا نچوڑ اور خلاصہ نکال کر فیصلہ صادر فرماتے۔ بعض اوقات جس شعبہ کے بار ے میں بات ہو رہی ہوتی اسے فرماتے کہ وضاحت کریں اگر کسی کی طرف سے خط آیا کہ میں نے اپنے سابقہ خط میں آپ کو یہ لکھا تھا تو دفتر کو ہدایت تھی کہ اس کا وہ خط بھی ساتھ لگائے۔ بعض معاملات میں تو پوری ایک فائل بن جاتی۔ آپ ہر ایک صفحہ کو غور سے پڑھتے اور ا صل نتیجہ اخذ کرنے کے بعد متعلقہ شعبہ کو اس کے بار ے میں ہدایت کرتے۔ کسی کا دعائیہ خط بھی بڑا سنبھال کر رکھنا پڑتا کہ کہیں وہ دوبارہ کسی وقت اس خط کا حوالہ ہی نہ دے۔

عام طریق ڈاک دیکھنے کا یہ تھا کہ مکرم ملک سعید صاحب ریٹائرڈ کرنل جو کہ شارٹ ہینڈ بہت مہارت سے جانتے ہیں صبح دس گیارہ بجے ان کے پاس ڈاک لے کر چلے جاتے جو آپ عموماً ڈرائینگ روم میں بیٹھ کر ملاحظہ کرتے۔ سب سے پہلے گزشتہ دن کی ڈاک کی جو ڈکٹیشن دی ہوتی وہ دیکھتے۔ ایک ایک لفظ پڑھتے اور پھر دستخط کرتے دوران کام خلل اندازی بالکل پسندنہ کرتے تھے۔ اگر کسی نے ڈسٹرب کرنے کی کوشش کی تو فوراً سختی سے منع کر دیتے تھے۔

ہمہ وقت میسر تھے

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتی تنظیمیں یہاں فعال ہیں۔ او راپنے اپنے سالانہ اجتماعات کرتی ہیں۔ خدام، انصار اور لجنہ کے صدر صاحبان اپنے اپنے اجتماعوں کے پروگرام منظوری کے لئے بھجواتے آپ مجھے Mark کرتے کہ دیکھو ٹھیک ہیں، خاکسار اپنا تبصرہ دیتا تو پھر اپنی طرف سے اس تنظیم کے صدر کو خط لکھ دیتے کہ یہ یہ درستگی کر لیں۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ جو بات میں نے لکھی اس کو اسی طرح اگلے شعبہ میں پہنچا دیا ہو تا کہ مربی اور دوسرے افسران کے درمیان کہیں اس سے کشیدگی نہ پیدا ہو جائے۔

اکثر معاملات میں خاکسار کو ساتھ رکھتے اور مشورہ فرماتے۔ فون پر بھی مشورہ کرلیتے۔ گھر پر فون کرتے تو ہمیشہ یہ ضرور کہتے کہ میں مظفر احمد بول رہا ہوں۔ تا کہ اگر کسی اور نے فون اٹھایا ہو تو اسے پتہ چل جائے کہ کس نے فون کیا ہے۔

جماعتی کاموں میں ایک خصوصیت آپ میں یہ دیکھی کہ آپ ہر وقت لوگوں کو میسر تھے۔ جب کوئی چاہتا فون کر لیتا۔ ملنے کے لئے وقت لے کر آ جاتا۔ اپنا قصہ سنا لیتا۔ آپ تحمل اور صبر سے سب کی بات سنتے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ جس سے ناراض ہوتے اس کی شکایت مرکز کو نہ لگاتے تھے۔ قضائی معاملات میں بھی کبھی ایسی بات سامنے آ جاتی یا کسی کی شکایت ضرور کرنی ہوتی پھر بھی یہی کوشش کرتے کہ کسی طرح معاملہ حل ہو جائے۔ سلجھ جائے اور یہ نوبت ہی نہ آئے کہ شکایت کرنی پڑے۔

ہر کام میں احتیاط

آپ ہر کام میں بہت احتیاط کرتے۔ خواہ کسی قسم کا بھی کیوں نہ ہو اپنی بیماری سے متعلق چھوٹی سی بات بھی تحریر میں لا کر اپنے ڈاکٹر کو بتاتے۔ ایک دفعہ میاں صاحب کا گلا خراب ہو گیا۔ آپ دفتر تشریف لائے اور کسی کو بھیجا کہ شمشاد کو بلالاؤ۔ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا فرمانے لگے کہ گلاخراب ہے یہ ہومیوپیتھی کی دوائی مجھے بنوا دو۔ میں دوائی بنوا کر لے گیا۔ آپ نے دوائی دیکھی اور ایک توقف کے بعد کہنے لگے کہ بی بی کو دکھا دو کہ آیا یہی دوائی ہے۔ میں دوائی لے کر صاحبزادی امتہ القیوم بیگم صاحبہ کے پاس گیا اور پوچھا کہ آیا یہی دوائی ہے۔ بی بی نے کہا کہ ہاں۔ چنانچہ پھر آپ نے دوائی لی۔

احتیاط میں ایک اور نمایاں بات یہ ہے کہ آپ کسی تحریر کو بغیر پڑھے دستخط نہ کرتے تھے۔ مکرم ملک سعید صاحب آپ کے پاس ڈاک لے جاتے اور ڈکٹیشن لیتے اگلے دن وہ تمام خطوط ٹائپ کر کے لے جاتے تا کہ آپ دستخط کر سکیں۔ آپ ہر خط کو پڑھتے، ہر لفظ چیک کرتے، ان کے سپیلنگ چیک کرتے اور تصحیح کرتے۔ بعض اوقات تو فرماتے کہ یہ لفظ میں نے نہیں لکھوایا تھا۔ اتنی زبردست یادداشت تھی۔ پھر کہیں جا کر دستخط کرتے اور خط روانہ ہوتا تھا۔

نکاح کے فارموں پر بھی بڑی احتیاط فرماتے، دستخط اس وقت تک نہ کرتے جب تک میں اسے اچھی طرح چیک نہ کرلوں۔ خاکسار سے اگر کہیں کوتاہی ہو جاتی تو فوراً پکڑ لیتے اور فرماتے کہ یہ معاملہ ابھی واضح نہیں ہے اس کو واضح کرائیں پھر دستخط ہوں گے کئی بار ایسا ہوا کہ شادی کرنے والے کا دوسرا یا تیسرا نکاح ہے۔ اس پر تو خوب پکڑ ہوتی فرماتے کہ آیا اس نے لڑکی والوں کو اطلاع دی ہے کہ یہ اس کا دوسرا یا تیسرا نکاح ہے۔ ان کو اچھی طرح حالات بتائے ہیں۔ بعض اوقات نہیں بلکہ ہمیشہ ایسے معاملات میں مجھ سے متعلقہ فیملی یاوہاں کے امیر صاحب، صدر صاحب کے نام خط لکھوایا کہ لڑکی والوں کو اس بات کی اطلاع کر دو کہ وہ پوری طرح چھان بین اور تسلی کرلیں تا کہ کل کو کوئی پیچیدگی کھڑ ی نہ ہو۔

جماعتی رقوم کے خرچ میں احتیاط

آپ ہر میٹنگ میں اور ہر مجلس میں یہ بات بڑی وضاحت سے فرماتے کہ جماعتی چندہ جات اور رقوم امانت ہیں ان کو اپنی ذاتی رقم کی نسبت زیادہ احتیاط سے خرچ کرنا چاہئے اور پھر مثالیں بھی دیتے۔ مجلس عاملہ میں نمائندگان کو مشن ہاؤسز اور بیوت الذکر میں پانی، بجلی اور گیس وغیرہ کے خرچ میں بھی کفایت شعاری کی بہت تلقین فرماتے۔

آپ جب دفتر تشریف لاتے اور نماز کا وقت ہوجاتا تو وضو کے بعد ہاتھ منہ خشک کرنے کے لئے ٹاول پیپر استعمال کرتے۔ بعض اوقات میں بھی ساتھ ہوتا اور 2 ٹاول پیپر آپ کو دیتا جو چھوٹے چھوٹے ہوتے تھے۔ جب کہ عام آدمی تو 4-3 استعمال کرتا ہے لیکن آپ نے کبھی بھی دو ٹاول پیپر استعمال نہیں کئے صرف ایک سے ہی تھوڑا بہت خشک کر لیتے اور قمیص کی آستین اتار کر اپنا کوٹ پہن لیتے۔

کارکنان سلسلہ کی عزت وحوصلہ افزائی

آپ جب بھی تقریر کرتے آخر میں کارکنان سلسلہ کے لئے ضرور دعا کی تحریک کرتے آپ کے گھر کوئی کارکن ملنے جاتا تو اس کی عزت وتکریم کے علاوہ تواضح بھی کرتے پاکستان سے آئے ہوئے مجھے ابھی بہت تھوڑا عرصہ ہوا تھا۔ 1988ء کی مجلس شوریٰ نیوجرسی میں ہو رہی تھی۔ اس وقت مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب امیر تھے۔ شام کو پہلے اجلاس میں سب کمیٹیوں کا تقرر ہوا۔ آپ فنانس کمیٹی کے چیئرمین تھے۔ کسی نے میرا نام فنانس سب کمیٹی کے لئے لکھوایا۔ حالانکہ مجھے تو کوئی تجربہ بھی نہ تھا جب فنانس سب کمیٹی کا اجلاس شرو ع ہوا تو محترم میاں صاحب صدارت کر رہے تھے اور آپ کے ساتھ سیکرٹری فنانس بیٹھے تھے۔ میں دیگر ممبران کے ساتھ سامنے بیٹھا تھا۔ آپ نے مجھے اسی وقت بلا کر اپنے ساتھ دوسری طرف بٹھا لیا۔ یہ آپ کی عین نوازش اور مہربانی تھی۔

واشنگٹن آنے سے قبل خاکسار ڈیٹن اور ہیوسٹن میں تھا۔ عید کے موقع پر خاکسار آپ کی خدمت میں عیدمبارک کا خط لکھتا تو آپ جواب دیتے، نہ صرف یہ کہ اپنے ہاتھ سے خط لکھتے بلکہ اپنے خط میں حوصلہ افزائی بھی کرتے کہ آپ کا کام ٹھیک ہے۔ اور دعا بھی کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ مزید کی توفیق دے۔ آمین۔

نماز جمعہ کے لئے تشریف لاتے تو بڑی خاموشی کے ساتھ آ کر کرسی پر بیٹھ جاتے دوران خطبہ آپ نے کبھی اوپر نگاہ کر کے نہیں دیکھا۔ آپ نے کبھی بھی یہ نہیں کہا کہ تم نے یہ کیا خطبہ دیا۔ یا تمہاری انگریزی ٹھیک نہیں تھی۔ یا تم نے آج یہ یہ غلطیاں کی ہیں وغیرہ کبھی بھی آج تک ایک لفظ بھی محترم میاں صاحب نے نہیں کہا اگر کبھی کہا بھی تو صرف یہ کہا آج تمہاری تقریر بہت اچھی تھی یا آج تمہارا خطبہ بہت اچھا تھا۔ تقریر کی پسندیدگی کا اظہار دوستوں کے پاس کرتے۔ الحمد للہ سال 2000ء میں رمضان المبارک کے ابتداء میں نماز عشاء کے وقت خاکسار کا گلا بیٹھ گیا اور آواز نکلنی مشکل ہو گئی اور ہوتے ہوئے آواز بالکل ختم ہوکر رہ گئی اس دن نماز تراویح بھی نہ پڑھا سکا اور یہ کیفیت 3ماہ تک جاری رہی۔ آپ نے ایک مرتبہ بھی قولاً یا فعلاً یا اشارۃً بھی احساس نہ ہونے دیا بلکہ ہمیشہ یہی فرماتے کہ انشاء اللہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ٹھیک ہو گا علاج جاری رکھیں او رمیری خیریت دریافت کرتے رہتے۔

میرے والد صاحب کا بھی آنکھوں کا آپریشن ہوا تو گھر بار بار فون کرتے اور خیریت دریافت کرتے۔

ایک دفعہ میری طبیعت خراب تھی۔ میں دفتر نہ گیا۔ آپ نے دفتر کسی کام کے لئے فون کیا تو میاں صاحب کو پتہ لگا کہ میری طبیعت خراب ہے۔ اسی وقت گھر فون کیا اور میری خیریت دریافت کرنے کے بعد فرمایا کہ مجھے دفتر سے پتہ چلا ہے کہ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ پورا آرام کرو۔ طبیعت ٹھیک ہونے پر دفتر جانا۔ صرف تمہاری طبیعت پتہ کرنے کے لئے فون کیا ہے۔

شرو ع شروع کی بات ہے مکرم ظفر احمد صاحب سرور بیت فضل واشنگٹن میں مربی تھے اور آپ کے ساتھ کام کرتے تھے۔ انہیں پاکستان چھٹی پر جانا تھا۔ محترم امیر صاحب نے ظفر صاحب کی غیر حاضری میں مجھے اپنے ساتھ کام کرنے کے لئے بلالیا۔ ان دنوں اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کی صحت بہت اچھی تھی۔ باقاعدگی سے دفتر تشریف لاتے۔ ایک دفعہ دفتر آئے کام کیا۔ قریباً ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد مجھے آواز دی کہ مجھے گھرچھوڑ آؤ۔ میری اس وقت فیملی ساتھ نہ تھی۔ دوپہر کا وقت تھا میں آٹا گوندھ رہا تھا تا کہ کھانا تیار کر سکوں۔ میں نے بتایا کہ کھانا تیار کر رہاں ہوں۔ تھوڑی دیر میں چلتے ہیں کہنے لگے کہ ٹھیک ہے۔ ابھی 2منٹ بھی نہ گزرے تھے کہ پھر آواز دی کہ ابھی چھوڑ آؤ۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ آپ کو گھر لے آیا۔ واپسی کی اجازت چاہی تو فرمانے لگے کہ نہیں اندر آؤ ہمارے آنے سے پہلے کھانا لگ چکا تھا۔ میں نے کھانا کھایا۔ آپ نے بھی ساتھ ہی کھانا کھایا دوبارہ واپسی کی اجازت چاہی تو روک لیا۔ اتنے میں بی بی امتہ الجمیل صاحبہ کم وبیش ایک ہفتہ کا کھانا ڈبوں میں بند کر کے لے آئیں اور آپ نے کمال محبت اور شفقت سے فرمایا کہ یہ ساتھ لے جاؤ۔ راستہ میں آپ نے مجھے یہ بالکل نہیں بتایا کہ میں نے گھر کھانے کا انتظام کرا دیا ہے۔

ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقع پر افسر جلسہ سالانہ نے اپنے نائبین کا تقرر کیا۔ ایک نائب کے نیچے خاکسار کو بطور ناظم رکھ دیا۔ آپ نے فوراً افسر صاحب جلسہ کو توجہ دلائی کہ ان کو تو نائب افسران میں رکھنا چاہئے تھا نہ کہ ان کے ماتحت۔

احباب کی خوشیوں میں شرکت

آپ کی رہائش پوٹامک (Potomac) واشنگٹن کے علاقہ میں تھی۔ آپ کے گھر سے بیت الرحمن قریباً 45منٹ کی Drive پر ہے۔ فاصلے بھی بہت زیادہ ہیں۔ تاہم دوستوں کی خواہش ہوتی تھی کہ آپ ان کے بچوں کی شادیوں میں شامل ہوں۔ باوجود بیماری کے کوشش کر کے جاتے اور بیگم صاحبہ بھی ساتھ ہوتیں۔ تحفہ تحائف بھی دیتے۔ اگر آپ بیماری کی وجہ سے نہ جاسکتے تو پھر مبارک باد کا خط ضرور لکھواتے۔

چند دن ہوئے مجھے ظاہر مصطفی صاحب نے بتایا کہ ہمارے فنانس کے دفتر میں مکرم رشید احمد صابر صاحب کام کرتے ہیں بڑے مخلص کارکن ہیں ان کے بیٹے کی شادی تھی لیکن میاں صاحب بیماری کی وجہ سے شرکت نہ کر سکے۔ لیکن ساتھ ہی بتایا کہ میاں صاحب نے کہا تھا کہ ان کو گھر دعوت پر بلانا ہے کیونکہ میں شادی میں شرکت نہیں کر سکا۔ چنانچہ ان کی دعوت میاں صاحب کی وفات کے بعد برادرم ظاہر احمد صاحب نے کی۔

خاکسار کے بلانے پر بھی کئی مرتبہ مع اہل خانہ دلداری کے لئے تشریف لاتے اور دوستوں کے ساتھ بے تکلفی سے باتیں کرتے۔

ایک شادی کا موقع تھا۔ میں آپ کے ساتھ بیٹھا تھا۔ مجھ سے آپ نے کسی کے بارے میں پوچھا۔ میں نے عرض کی کہ اس بات کا جواب ایک شعر میں دیتا ہوں۔ کہنے لگے سنائیں۔ میں نے سنایا ؎

کچھ ان کو بھی تو پاس ہو ارباب عشق کا

یہ کیا کہ ہم ہی آتش غم میں جلا کریں

آپ نے سنا مسکرائے اور بات کی تہہ تک پہنچ گئے۔ بات کی تہہ تک پہنچنے کا خاص ملکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا ہوا تھا۔ آپ کی وفات پر چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلیٰ کو فون کیا۔ مکرم چوہدری صاحب نے انا للہ کے فوراً بعد کہا کہ آپ کے ساتھ مجھے بھی کام کرنے کا موقع ملا جب حضور ایدہ اللہ نے صد سالہ جوبلی کے لئے کمیٹی بنائی تھی۔ آپ اس کے چیئرمین تھے۔ آپ بات کی تہہ تک فوراً پہنچ جاتے تھے یہ آپ کا بہت کمال تھا۔

آپ کی وفات پر ہر شخص کو آپ کی تعریف میں رطب اللسان پایا۔ آپ کے خادم محمد صدیق جو گھر میں کام کرتے تھے نے آپ کی بہت خدمت کی وہ روتے جاتے اور کہتے جاتے تھے کہ میاں صاحب بہت عظیم شخصیت تھے، بہت صاف دل تھے۔

مکرم نسیم رحمت اللہ صاحب کو ایک بار کسی نے پوچھا کہ آپ اب یہاں واشنگٹن اتنا نہیں آتے۔ جتنا پہلے آتے تھے کہنے لگے کہ اب وہ پیاری ہستی نہیں رہی جو ہم سے پیار کرتی تھی اور ہم سے بے تکلف تھی۔ ایک دوست کہنے لگے کہ حضرت میاں صاحب بہت نافع الناس وجود تھے۔ آپ نے لوگوں کو فائدہ ہی پہنچایا ہے تکلیف نہیں پہنچائی۔

ملک مبارک احمد صاحب (فنانس سیکرٹری) نے مجلس عاملہ کی میٹنگ میں فنانس کی رپورٹ پیش کرنے سے قبل کہا کہ میں یہ اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ رپورٹ پیش کرنے سے قبل محترم میاں صاحب کے بارے میں کچھ کہوں۔ مجھے آپ کے ساتھ کام کرنے کا بہت لمبا موقع ملا ہے آپ میں بہت سی صفات وخصوصیات تھیں جن میں سے سر فہرست خلافت کے ساتھ آپ کی محبت اور اطاعت تھی۔ اگر کسی نے خلافت کی اطاعت سیکھنی ہے تو حضرت میاں صاحب سے سیکھے۔ جماعت احمدیہ امریکہ کے کسی معاملہ میں کوئی قدم نہ اٹھاتے تھے جب تک حضور ایدہ اللہ سے مشورہ اور اجازت نہ لے لیتے۔ مکرم ملک صاحب نے مزید بتایا کہ جماعتی فنڈ خرچ کرنے میں بھی میاں صاحب بہت محتاط تھے آپ ہمیشہ اس بات کی نصیحت کرتے کہ ہمیں جماعت کی رقم اپنی رقم سے بھی زیادہ احتیاط کے ساتھ خرچ کرنی چاہئے۔ لیکن غریب اور نادار لوگوں کی مدد کرنے کے لئے بھی آپ تیار رہتے تھے۔ دو موقعوں پر آپ کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھتا تھا۔ ایک وہ جب سالانہ بجٹ تیار ہو کر آپ کے پاس آتا اور دوسرے جب سال کے اختتام پر بجٹ دیکھتے۔ جماعت کی مالی وسعت سے آپ کو ہمیشہ خوشی ہوتی تھی۔

مکرم ملک سعید صاحب جو جماعت میری لینڈ کے سیکرٹری مال ہیں ان کے دو بچوں کی شادی میں محترم میاں صاحب نے شرکت کی جس پر وہ بہت خوش تھے۔ شادی کے موقع پر انہوں نے اعلان کیا کہ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے بچوں کی شادی میں محترم میاں صاحب نے مع بیگم صاحبہ شرکت کی۔

ایک دوست مکرم برادر پیراحمد آف میری لینڈ نے محترم امیر صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے مجھے لکھا کہ محترم امیرصاحب نہایت سادہ اور حلیم شخصیت کے مالک تھے۔ جب بھی ان سے بات کرنے کا موقع ملا انہیں جماعتی امور کے بارے میں حیران کن حد تک باخبر پایا۔ وہ علم کا ایک سمندر تھے اور اپنے دل کی بات دوسروں تک پہنچانے میں انہیں کمال حاصل تھا۔

ایفرو امریکن دوستوں سے پیار اور محبت او ر ان کی دلداری اور مالی معاونت میں خاص خیال رکھتے تھے۔ آپ ہمیشہ فرماتے کہ ایفرو امریکن دوستوں کو جماعتی کاموں میں آگے آنا چاہئے۔ مجلس عاملہ میں بھی ایفروامریکن دوستوں کو خودنامزد کر کے حضور سے ان کی اجازت لیتے تھے تا کہ وہ جماعتی کاموں میں شامل رہ کر تجربہ حاصل کریں۔ محبت کے ساتھ عاملہ میں ان کی باتیں اور تجاویز سنتے اور ہر ممکن ان کی حوصلہ افزائی فرماتے برادرم احمد حلیم صاحب جو 30سال پہلے احمدی ہوئے واشنگٹن میں ہوتے ہیں اور واشنگٹن جماعت کے صدر ہیں نے بتایا کہ محترم امیر صاحب ہمیشہ جماعت کی مالی، روحانی اور خلاقی ترقی کے لئے سوچتے رہتے تھے اور اس کے مطابق پلان بناتے تھے۔

آپ بہت سادہ زندگی گزارتے تھے گھر سے دفتر تشریف لاتے تو کھانا ساتھ لاتے کھانے میں عموماً سینڈوچ ہوتا تھا۔ دفتر میں جو بھی ساتھ ہوتا اسے کھانے میں شامل کرتے کیلا بھی پسند تھا وہ بھی کھانے میں ساتھ لے کر آتے۔

میں نے بھی اور بھی کئی دوستوں نے عندالملاقات عرض کی کہ آپ اپنی زندگی کے اہم واقعات تحریر میں لائیں۔ کیونکہ آپ کو قومی، ملکی اور جماعتی سطح پر بہت اہم کام کرنے کے مواقع ملے ہیں۔ بس ہاں کہہ کر چپ ہو جاتے۔ اگر کوئی انٹرویو لینے آ ہی گیا تو اسے کچھ واقعات سنا دیتے تھے۔

ایک دفعہ رمضان المبارک کے آخری دن جب اختتامی دعا ہونی تھی۔ ہم نے پہلے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز کا درس قرآن لگایا۔ پھر خاکسار نے محترم میاں صاحب سے درخواست کرنی تھی کہ وہ دعا کرادیں۔ خاکسار نے محراب کے پاس کرسی رکھ دی تا کہ آپ اس پر بیٹھ کر دعا کرا دیں۔ آپ جس وقت بیت الذکر میں تشریف لائے اس وقت درس قرآن جاری تھا۔ آپ احتراماً نیچے ہی بیٹھ گئے۔ درس کے اختتام پر خاکسار نے عرض کی کہ آگے چلیں اور کرسی پر بیٹھ کر دعا کرادیں کہنے لگے کہ نہیں اور وہیں پیچھے بیٹھے بیٹھے ہی دعا کرا دی۔

رمضان المبارک میں یہاں بیت الرحمن میں دوستوں کی تجویز تھی کہ افطاری کا بندوبست ہونا چاہئے۔ مگر نہ مانے۔ آپ کی دلیل یہ تھی کہ رمضان کا مہینہ تو عبادت کا مہینہ ہے۔ اکٹھا کھانا کھانے اور افطاریوں سے سوشل تعلقات کا اندیشہ ہے اور یہ مہینہ سوشل تعلقات کا نہیں بلکہ عبادت کا ہے۔ مجھے بھی معلوم ہوا کہ آپ نے یہ فرمایا ہے۔ خاکسار نے عرض کی کہ آپ کی یہ بات درست ہے کہ رمضان سوشل تعلقات کا مہینہ نہیں ہے لیکن دوسری طرف ایک اور بات بھی ہے کہ ہم اگر یہ نہ کریں تو بیت الذکر آبادنہیں رہ سکتی۔ کیونکہ لوگوں کے گھر اتنی دور ہیں کہ ان کے لئے گھروں میں افطاری کر کے پھر بیت الذکر آنا مشکل ہے۔ درس قرآن کے بعد وہ کیسے گھر چلے جائیں اور پھر واپس آکر نما ز مغرب وعشاء اور تراویح میں شامل ہوں۔ چنانچہ محترم امیر صاحب مان گئے اور اس طرح آپ نے بیت الذکر کی آبادی کے لئے یہ تجویز مان لی بیت الذکر آباد ہونے پر بہت خوش ہوتے تھے۔ اظہار بھی کرتے تھے اور پوچھتے بھی تھے کہ کتنے نمازی بیت الذکر میں نماز پڑھنے آ جاتے ہیں اور کیا کیا کوشش ہو رہی ہے۔

بیت الرحمن میں اعتکاف

بیت الرحمن خداتعالیٰ کے فضل سے اللہ کی عظیم الشان نعمتوں میں سے ایک ہے رمضان المبارک میں جہاں افطاری کا ذکر کر چکا ہوں وہاں اعتکاف کے بارے میں بھی بتاتا چلوں۔ خاکسار کوخیال آیا کہ بیت الذکر میں اعتکاف بھی ہونا چاہئے۔ غالباً 1997ء کا سال تھا۔ میں نے محترم میا ں صاحب سے اعتکاف کی اجازت چاہی۔ آپ نے ازارہ شفقت اجازت دے دی۔ اس سال میں نے اکیلے ہی اعتکاف کیا۔ اگلے سال میں نے جماعت کے چند لوگوں کو انفرادی طور پر تحریک کی۔ 4/5 دوست اعتکاف کے لئے تیار ہو گئے۔ بہت خوش ہوئے۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر سال 18/20 کے درمیان مردوخواتین بیت الرحمن میں اعتکاف کرتے ہیں۔ الحمد للہ۔ بلکہ نوجوان، بچے اور بچیاں بھی جن کو سکولوں اور کالجوں میں پڑھنے کے لئے جانا ہوتا ہے وہ بھی شوق کے ساتھ اعتکاف کرتے ہیں۔ اس طرح نئی نسل کے اندر مذہب سے دلچسپی کا دیکھ کر آپ کو بہت خوشی ہوتی۔ نئی نسل کی بات ہوئی ہے توآپ ہمیشہ مجھے بلا کر نصیحت کرتے کہ نئی نسل کی تعلیم وتربیت کا خاص خیال ہونا چاہئے۔

میں ہیوسٹن (Houston) میں تھا۔ خدام واطفال کو اجتماع کے لئے ساتھ لے کر آیا۔ میاں صاحب بیماری کی وجہ سے شامل نہ ہو سکے۔ میں نے بذریعہ فون اجازت چاہی کہ ہم 1500میل دور سے آئے ہیں۔ خدام واطفال ساتھ ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ آپ سے ملاقات ہو جائے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا کہ گھر آ جائیں۔ میں سب کو لے کر آپ کے گھر چلا گیا قریباً ہم 15 لوگ تھے۔ سب کے لئے مہمان نوازی کی ہوئی تھی۔ ڈائننگ ٹیبل پر ہم سب کو بٹھا لیا۔ بڑے بے تکلف ماحول میں باتیں کیں۔ ہر ایک کا حال پوچھا۔ خاندانی تعارف پوچھا اور پھر اجازت لے کر ہم واپس آئے۔ سب بچے خوش تھے کہ ہمیں میاں صاحب سے ملاقات کا موقع ملا۔

جو دوست آپ کو فون کرتے کہ ہم نے ملنا ہے۔ آپ انہیں وقت دیتے اور گھر بلا لیتے۔ پھر وقت سے پہلے تیار ہو کر بیٹھ جاتے اور انتظار کرتے۔ اگر کبھی اپنی بیماری کی وجہ سے پروگرام کینسل کرنا پڑتا تو وقت سے بہت پہلے دفتر فون کر کے کہتے کہ مجھے فلاں نے ملنے آنا تھا۔ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے معذرت کر دیں اور پھر دوبارہ آ جائیں اور پھر دوبارہ فون کر کے پوچھتے کہ ان صاحب کو اطلاع کر دی گئی تھی یا نہیں۔ جلسے اور اجتماعات وغیرہ وقت پر شروع کراتے لیکن اگر کسی نے کوئی جائز بات بتا دی جس کی وجہ سے لوگ وقت پر نہیں پہنچ پا رہے تو فرماتے کہ چلو 10/15منٹ اور انتظار کر لیں۔ عیدین کے موقع پر اکثر ایسا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند کرے۔ آپ کے فیض کو جاری رکھے اور ان کی تمناؤں اور امریکہ کے بارہ میں خواہشات کو پورا کرنے کی توفیق دے۔ آمین